• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
1
مقتدی سنے اور خاموش رہے
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
روایت جریر عن قتادۃ
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ الفاظ منقول ہیں ، امام مسلم نے اس روایت کوبھی صحیح کہا ھے
2
مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے
عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء
صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
3
امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ھے
کان یقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، من صلی وراء الامام کفاہ قراۃ الامام ۔
صحیح البیہقی، سنن بیہقی، من قال لایقراء
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جوشخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھے اس کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔
(امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ھے)
4
تنہا نمازی فاتحہ پڑھے مقتدی نہیں
کان ابن عمر رضی اللہ عنہ اذا سئل ھل یقرء خلف الامام ؟ قال اذا صلی احد کم خلف الامام فحسبہ قراءۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرء وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لا یقرء خلف الامام ۔
مؤطا امام مالک، ترک القراءۃ
جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قراءت کافی ھے ۔ البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قراءت کرے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے ۔
(آثار السنن میں ھے کہ یہ حدیث صحیح ھے )
5
عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔
حسن صحیح
ترمزی شریف، ترک القراءۃ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ھوئی ، علاوہ اسکے کہ وہ امام کے پیچھے ھو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔
یہ حدیث حسن صحیح ھے

اسی حدیث کی بناء پر امام ترمزی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاد امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ھے کہ " لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب " والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں۔
ترمزی شریف
6
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صلاۃ یقرا فیھما بام الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف الامام
کتاب القراءۃ للبیہقی ص170۔171
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔


مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ھے ، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
یہ آیت عام ہے اور فاتحہ خلف الامام خاص ہے ۔ جس طرح ایک آیت دوسری کی تفسیرکرتی ہے ، اس طرح بعض احادیث ، قرآن کی تفسیر ہوا کرتی ہیں ۔ یہ آیت مکی ہے اور نماز کا حکم مدینہ میں نازل ہوا ۔
اگر اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ فاتحہ خلف الامام لازم نہیں ہے ۔ تو ذیل میں اس حدیث کا پھر کیا مطلب ہے ؟
عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔ ( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ جب قرآن پڑھاجاتا ہے تو ضروری بات کی جاسکتی ہے ۔
وإذا يتلى عليهم قالوا آمنا به إنه الحق من ربنا إنا كنا من قبله مسلمين ۔القصص 53
اور جب ان پر(قرآن) پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے یقینا یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے ۔

دوسری بات یہ کہ اس آیت پر بھی آپ کا عمل نہیں ہے ۔ فجر کی نماز کے دوران ہی آپ لوگ دو رکعت سنت پڑھتے ہو ۔ جبکہ نماز میں جہراً تلاوت ہوتی ہے ۔ اور مدارس میں تعلیم وتعلم کے دوران ہر طالب علم ایک ہی وقت میں قرآن جہراً پڑھتاہے ۔مثلاً واذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ودون الجهر من القول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعراف 205 ۔
اگرہر دعااور ذکر کو خفیہ پڑھنا لازم ہے تو اہدنا صراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم۔ غیر المغضوب علیہم ولا الضٰلین۔ کیوں فجر مغرب اور عشاء میں خفیہ نہیں پڑھتے ۔ یہ بھی تو دعا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
یہاں پر خاموش رہنے کا حکم ہے ۔ جبکہ مقتدی فاتحہ پڑھنے میں شور نہیں کرتا ۔ ہاں اگر کوئی مقتدی جہراً پڑھتا ہے تو یہ اعتراض اس پر وارد ہوسکتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ یہاں بھی عمومی حکم ہے کہ جب قراءت کیا جائے تو خاموش ہوجاؤ ۔ جبکہ فاتحہ ، قراءت میں سے خاص ہے ۔ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا ہے ۔ ہم کون ہیں اس کو خاص کرنے والے ؟
وہ پڑھ کر بقایہ قراءت خاموشی سے سنو ۔
مثلاً إنما حرم عليكم الميتة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔البقرۃ ۱۷۳ ۔ہر مردار(میتہ) حرام ہے ۔ اگر اس عمومی حکم کو دیکھا جائے تو آپ کیسے مچھلی کو حلال سمجھیں گے ؟ مچھلی کو تو کوئی ذبح نہیں کرتا ۔
کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
اقراء خلف الامام بفاتحہ الکتاب۔ مصنف بن ابی شیبہ جلد 1 صفحہ 375
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

الحدیث
لا صلاۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب ،


وھی ام القرآن
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہی مسلک جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام وتبع تابعین وائمہ دین کا ہے،

1 - پہلی دلیل: عن عبادۃ بن الصامت أن رسول اللہ ﷺ قال: لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔ (صحیح بخاری: 1 / 104، صحیح مسلم: 1 / 169، سنن ترمذی مع تعلیق احمد محمد شاکر: 2 / 25، السنن الکبری للبیہقی: 2 / 38)
یعنی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔

یہ حدیث عام ہے نماز چاہے فرض ہو یا نفل اور وہ شخص امام ہو یا مقتدی یا اکیلا ، یعنی کسی شخص کی کوئی نماز سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوگی ۔

امیر المومنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں بایں الفاظ باب باندھ کر اس کی توضیح کردی ہے: ''باب وجوب القرأۃ للامام والمأموم في الصلوات کلھا في الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت'' (صحیح بخاری: 1 / 104) یعنی امام ومقتدی کے لیے سب نمازوں میں قرأت (سورہ فاتحہ ) واجب ہے، نماز حضری ہو یا سفری، جہری یا سری ، یعنی ہر قسم کی نماز میں امام ومقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔

علامہ کرمانی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''وفي الحدیث (أي حدیث عبادۃ) دلیل علی أن قرأۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الإمام والمنفرد والمأموم في الصلوات کلھا''۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: 3 / 63) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کی

یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ سورہ فاتحہ کا پڑھنا امام، اکیلے اور مقتدی کے لیے تمام نمازوں میں فرض ہے۔



علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری (3 / 64) میں فرماتے ہیں:
''استدل بھذا الحدیث عبد اللہ بن المبارک والأوزاعي ومالک والشافعي وأحمد واسحاق وأبوثور وداود علی وجوب قراء ۃ الفاتحۃ خلف الإمام في جمیع الصلوات'' یعنی اس (حضرت عبادہ ) سے عبد اللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق، امام ابوثور ، امام ابوداود نے (مقتدی کے لیے) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔
علامہ سندھی حنفی حاشیہ بخاری (1 / 95) پر لکھتے ہیں:

''والحق أن الحدیث یفید بطلان الصلاۃ إذا لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب'' یعنی حق بات یہ ہے کہ جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس حدیث عبادہ سے اس نماز کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔
امام نووی المجموع شرح مہذب (3 / 326) مصری میں فرماتے ہیں:
یعنی جو شخص سورہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے ، اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اور نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیر عربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی دیگر آیت، اور اس تعیین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں، فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یا سری، مرد ہو یا عورت ، یا مسافر لڑکا (نابالغ ) اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والا اور بیٹھـ کر نماز پڑھنے والا اور حالت خوف اور امن میں نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس سورہ فاتحہ امام ومقتدی اور اکیلا نماز پڑھنے والا بھی برابر ہے۔

2 - دوسری دلیل: عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ ﷺ في صلاۃ الفجر فقرأ رسول اللہ ﷺ فثقلت علیہ القراء ۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤون خلف امامکم، قلنا نعم ھذاً یا رسول اللہ! قال: لا تفعلوا إلا بفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا'' (سنن ابی داود: 1 / 120، سنن ترمذی: 1 / 41، وقال حسن 1/ 72) یعنی حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ فجر کی نماز ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھ رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے پڑھا (قرأت کی ) تو آپ پر پڑھنا دشوار ہوگیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو، ہم نے کہا ہاں، یا رسول اللہ ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، آپ نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابی داود (1/ 390) میں فرماتے ہیں:
''ھذا الحدیث نص بأن قرأۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الإمام سواء جھر الإمام بالقرأۃ أو خافت بھا واسنادہ جید لا طعن فیہ أیضا''۔ (مرعاۃ المفاتیح: 1 / 162)

یعنی یہ حدیث نص ہے کہ مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے، خواہ امام قرأت بلند آواز سے کرے یا آہستہ ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے خاص سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی نماز نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند جید ہے اس پر کسی طرح رد وقدح نہیں۔

مولانا عبد الحي حنفی سعایہ ص 303 میں لکھتے ہیں:
وقد ثبت بحدیث عبادۃ وھو حدیث صحیح قوي السند أمرہ ﷺ بقراءۃ الفاتحۃ للمقتدي۔ یعنی حضرت عبادہ کی حدیث سے جو صحیح اور قوی السند ہے رسول اللہ ﷺ کا حکم مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے۔

3 - تیسری دلیل: عن عبادۃ أن النبي ﷺ قال: لا تجزيء صلاۃ لا یقرأ الرجل فیھا بفاتحۃ الکتاب۔ (رواہ الدارقطنی وقال ھذا اسناد صحیح ص 122، شرح المہذب: 3 / 329، کتاب القراء ۃ دہلی ص 9، الدرایۃ: 76، وقال رجالہ ثقات) یعنی حضرت عبادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نماز میں آدمی سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا ہے وہ نماز کفایت نہیں کرتی یعنی باطل ہے۔

4 - چوتھی دلیل: عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال: من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بالقرأۃ فھي خداج ثلاثا غیر تمام، فقیل لأبي ھریرۃ إنا نکون وراء الامام، فقال اقرأ بھا في نفسک فاني سمعت رسول اللہ ﷺ یقول قال اللہ تعالی: قسمت الصلاۃ بیني وبین عبدہ نصفین ۔ الحدیث۔ (صحیح مسلم: 1 / 169) یعنی حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو وہ نماز بالکل ناقص ہے (مردہ ہے) ناقص ہے (مردہ ہے ) ناقص ہے (مردہ ہے ) کامل نہیں ہے، حضرت ابوہریرہ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (تب بھی پڑھیں)؟ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہاں! اس کو آہستہ پڑھا کرو، کیونکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے فرمایا میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
امام نووی شرح مسلم (1 / 170) میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس جگہ ''الصلاۃ '' سے مراد سورہ فاتحہ ہے، سورہ فاتحہ کو نماز سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز صحیح نہیں ہے، جیسے نبی ﷺ نے فرمایا: حج عرفہ ہے، کیونکہ عرفہ جائے بغیر حج نہیں ہوتا۔ اس لیے معلوم ہوا کہ نماز میں سورہ فاتحہ فرض ہے، کذا فی نیل الاوطار: 2 / 214، والتعلیق الممجد ص 49، وتنویر الحوالک: 1 / 176، شرح الزرقانی: 1 / 176.

اقرأ بھا في نفسک کا معنی: اس کا معنی دل میں تفکر وتدبر وغور کرنا نہیں بلکہ اس اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھا کر، کما قال الإمام البیھقي في کتاب القراء ۃ ص 17، والإمام النووی في شرح صحیح مسلم: 1 / 170، والزرقاني في شرح الموطأ: 1 / 176، والعلامۃ الشوکاني في النیل: 2 / 214، والشیخ عبد الحق الدھلوي في أشعۃ اللمعات: 1 / 372، والشاہ ولي اللہ الدھلوي في المصفی: 1 / 106، وملا علي قاری الحنفی في المرقاۃ: 1 / 530، ومولانا أنور شاہ الکشمیري الحنفي في العرف الشذی ص 157.
5 - پانچویں دلیل: عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ: من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھي خداج غیر تمام۔ (کتاب القراء ۃ ص 38، جزء القراء ۃ ص 8) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے کسی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی وہ نماز ناقص ہے (بے کار ہے) پوری نہیں ہے۔ جزء القراء ۃ ص 82 طبع گوجرانوالہ میں ہے: وقال أبوعبیدۃ یقال اخدجت الناقۃ اذا اسقطت والسقط میت لا ینتفع بہ۔ یعنی ابو عبیدہ نے فرمایا: اخدجت الناقۃ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی اپنے بچے کو (قبل از وقت ) گرادے اور گرا ہوا بچہ مردہ ہوتا ہے، جس سے نفع نہیں اٹھایا جاسکتا ۔ (یعنی نماز باطل وفاسد ہوتی ہے).

6 - چھٹی دلیل: عن أنس بن مالک أن رسول اللہ ﷺ صلی بأصحابہ فلما قضی صلاتہ أقبل علیہ بوجھہ فقال أتقرؤون في صلاتکم خلف الإمام والإمام یقرأ فسکتوا فقالھا ثلاث مرات فقال قائل أو قال قائلون: انا نفعل، قال: فلا تفعلوا، ولیقرأ أحدکم فاتحۃ الکتاب في نفسہ۔ (کتاب القراء ۃ ص 49، جزء القراء ۃ ص 28، سنن الدار قطني: 1 / 49) یعنی حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز پڑھائی ، نماز پوری کرنے کے بعد صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے تو تم بھی اپنی نماز امام کے پیچھے پڑھتے ہو، صحابہ کرام خاموش رہے، تین بار آپ نے حکم یہی فرمایا پھر ایک یا زیادہ لوگوں نے کہا: ہم ایسا کرتے ہیں ۔ (یعنی آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں ) آپ نے فرمایا: ایاس نہ کیا کرو تم میں سے ہر ایک صرف سورہ فاتحہ اپنے نفس میں آہستہ سے پڑھا کرو۔
یہ چند احادیث مرفوعہ ہیں ورنہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں اتنی زیادہ حدیثیں ہیں جو حد تواتر تک پہونچتی ہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ جزء القراء ۃ ص 14 میں فرماتے ہیں:
وتواتر الخبر عن رسول اللہ ﷺ لا صلاۃ الا بقراء ۃ القرآن۔ یعنی اس بارے میں کہ بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی ، رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔

احمد محمد شاکر تعلیق ترمذی (2 / 125) میں فرماتے ہیں:
وجاء ت أحادیث صحاح متواترۃ انہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب وکل رکعۃ صلاۃ وکل مصلی داخل تحت ھذا العموم الصریح إماما کان أو ماموما أو منفردا۔ یعنی اس بارے میں صحیح اور متواتر احادیث موجود ہیں کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں اور ہر رکعت نماز ہے اور ہر نمازی اس واضح عموم میں شامل ہے ، امام ہو یا مقتدی یا اکیلا کوئی فرد خارج نہیں ہے۔
امام عبد الوہاب شعرانی میراث کبری (1 / 1166) طبع دہلی میں فرماتے ہیں:

''من قال بتعیین فاتحۃ وانہ لا یجزيء قرأۃ غیرھا قد دار مع ظاھر الأحادیث التي کادت تبلغ حد التواتر مع تأیید ذلک بعمل السلف والخلف''۔ یعنی جن علماء نے سورہ فاتحہ کو نماز میں متعین کیا ہے اور کہا ہے کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ اور پڑھنا کفایت نہیں کر سکتا، اولا تو ان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہونچی ہوئی ہیں، ثانیا سلف وخلف صحابہ کرام ؓ وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام کا عمل بھی تعین سورہ فاتحہ در نماز کی تائید کرتا ہے۔

تمام صحابہ کرام امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ: وکنا نتحدث انہ لا یجزئ صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔ (جزء القراء ۃ ص 31 دہلی ) یعنی صحابہ کرام بیان کیا کرتے تھے کہ کوئی نماز بغیر سورہ فاتحہ کے کفایت نہیں کرتی۔ اس حدیث میں کسی صحابی کو مستثنی نہیں کیا گیا ، بلکہ عام بیان کیا گیا ہے کہ تمام صحابۂ کرام کا یہی اعتقاد تھا کہ بغیر سورہ فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی ہے، گویا صحابہ کرام کا اس مسئلہ پر اجماع ہے۔

علامہ علی بن عبد الکافی السبکی فتاوی السبکی ص 148 میں فرماتے ہیں:
وقد رویت آثار کثیرۃ في القراء ۃ خلف الامام في السریۃ والجھریۃ معا عن الصحابۃ والتابعین۔ یعنی صحابہ کرام وتابعین سے سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ) پڑھنے کے متعلق بہت آثار مروی ہیں۔

امام شعبی فرماتے ہیں :
انما ھلکتم حین ترکتم الآثار وأخذتم بالمقاییس۔ (الاعتصام للشاطبی: 1 / 125) یعنی جب تم نے آثار (احادیث نبویہ واقوال صحابہ ) کو چھوڑ دیا اور قیاسات کو اپنالیا تو ہلاک ہوگئے۔
وکان یقول (أي أبوحنیفۃ) علیکم بآثار من سلف وایاکم ورأي الرجال وان زخرفوہ بالقول۔ (میزان کبری للامام الشعرانی ) یعنی امام ابو حنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ سلف صالحین صحابہ کرام کے آثار کو لازم پکڑو اور آدمیوں کی رائے سے بچتے رہو ، اگرچہ وہ بات کو کتنا ہی مزین وخوبصورت کرکے پیش کریں۔
جو موقف اس مسئلہ میں تمام صحابہ کرام کا تھا وہی موقف تابعین عظام ، تبع تابعین اور ائمہ دین کا بھی تھا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جزء القراء ۃ ص 5 میں لکھتے ہیں:
وما لا أحصی من التابعین وأھل العلم انہ یقرأ خلف الامام وان جھر وکذا في کتاب القراء ۃ للبیھقي ص 41. یعنی بے شمار تابعین اور اہل علم جن کی تعداد گنی نہیں جاسکتی ہے وہ سب یہ فرماتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ ضرور ) پڑھا کرے، اگرچہ امام بلند آواز سے قراء ت کررہا ہو۔
الغرض امت کی اکثریت صحابہ وتابعین اسی چیز کے قائل ہیں کہ بغیر سورۂ فاتحہ کے کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی ۔

اور امام ابن حبان کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا تمام صحابہ کرام اور جملہ اہل اسلام کا مسلک ہے اور اس میں کسی عالم کو اختلاف نہیں تھا، حتی کہ جو اہل کوفہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے وہ بھی اسے پڑھنے کو جائز قرار دیتے تھے اور اسے منع نہیں کرتے، چنانچہ وہ حضرت علی کے ایک اثر کی تضعیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' وذلک أن أھل الصلاۃ لم یختلفوا من لدن الصحابۃ الی یومنا ھذا ممن ینسب إلی العلم منھم ان من قرأ خلف الإمام تجزیہ صلاتہ وانما اختار أھل الکوفۃ ترک القراء ۃ خلف الإمام لا انھم لم یجیزوہ''۔ (کتاب المجروحین 2 / 5)

اور یہ اس لیے کہ صحابہ کرام سے لیکر آج تک تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھی اس کی نماز ہوجائے گی اس میں کسی عالم کا اختلاف نہیں ہے اور اہل کوفہ نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے کو بھی اختیار کیا ہے، نہ یہ کہ وہ پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں۔

امام ابو حنیفہ کا مسلک
یہ بات تو روز روشن کی طرح روشن ہوگئی کہ جملہ اہل اسلام کا موقف اس مسئلہ میں یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوگی اور یہ حکم امام ومنفرد ومقتدی سب کو شامل ہے، اور یہی جملہ اہل اسلام کا مذہب ومسلک ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟
تو عرض یہ ہے کہ اس بارے میں ان کی دو رائے ہیں:
غیث الغمام حاشیہ امام الکلام ص 156 میں فرماتے ہیں:

لأبي حنیفۃ ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبھا علی المأموم بل ولا تسن وھذا قولھما القدیم أدخلہ محمد في تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخافۃ للحدیث المرفوع لا تفعلوا إلا بأم القرآن وفي روایۃ لا تقرؤوا بشي إذا جھرت إلا بأم القرآن وقال عطائ: کانوا یرون علی الماموم القراءۃ فیما یسر فرجعا من قولھما الأول إلی الثاني احتیاطا۔ یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے اس مسئلہ (قرأت فاتحہ خلف الامام) میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ مقتدی کے لیے الحمد شریف نہ واجب ہے نہ سنت اور یہ ان کا پہلا قول ہے، امام محمد ؓ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قدیم قول کو داخل کیا اور ان کے نسخے اطراف میں پھیل گئے (اس لیے یہ قول زیادہ مشہور ہوگیا) دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو احتیاطا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن وبہتر ہے اور آہستہ نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے (یہ قول اس لیے اختیار کیا کہ ) صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام مقتدیوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب میں بلند آواز سے پڑھ رہا ہوں تو سوائے سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

اور امام صاحب کے استاد حضرت عطاء جلیل القدر تابعی نے فرمایا کہ صحابہ کرام وتابعین نماز جہری وسری میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے (پس ان دلائل صحیحہ کی بنا پر ) امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے احتیاطا اپنے پہلے قول سے رجوع کیا اور دوسرے قول کے قائل ہوگئے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ہی بہتر ہے، ائمہ دین کا یہی شیوہ تھا، جب اپنے قول کے خلاف حدیث کو دیکھتے تو اپنے قول کو چھوڑ دیتے اور صحیح حدیث کے مطابق فتوی صادر فرماتے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: ''إذا صح الحدیث فھو مذھبي ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ ...''۔ (در مختار: 1 / 5 معہ رد المختار) یعنی حدیث صحیح میرا مذہب ہے، اگر تم کو کوئی دلیل قرآن وحدیث سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور اسی کے مطابق فتوی دیا کرو۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نماز، توحید باری کے بعد اسلام کا سب سے اہم ترین ستون وبنیاد ہے، دین ودنیا کی کامرانی وکامیابی اس میں مضمر ہے، اس کی صحت سورہ فاتحہ پر موقوف ہے، صحت نماز کے لیے اسے ہر نماز میں پڑھنا واجب وفرض ہے ورنہ نماز فاسد وباطل ہوگی، اور یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے۔ امام نووی شرح المہذب (3 / 296) میں لکھتے ہیں:
''والذي علیہ جمھور أھل الاسلام القراء ۃ خلف الإمام في السریۃ والجھریۃ''۔
سری وجہری دونوں نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا جمہور اہل اسلام کا مسلک ہے۔

اور اہل کوفہ اگرچہ وجوب قرأت کے قائل نہیں ہیں لیکن جواز کے قائل ضرور ہیں، جواز کے منکر نہیں کما سبق في قول ابن حبان اور بالآخر امام ابوحنیفہ ومحمد نے بھی اسی طرف رجوع فرمایا، اس لیے یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ پوری امت ثبوت قرأت فاتحہ خلف الامام پرمتفق ومتحد ہوگئی، اس لیے احوط یہ ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ امام کے پیچھے ضرور پڑھی جائے۔ اس موقف کو بہت سے علماء احناف نے اختیار فرمایا ہے، چونکہ اختصار مطلوب ہے، اس لیے تفصیل سے گریز کیا گیا ہے۔

اخیر میں اللہ تعالی سے دست بدعا ہوں کہ ہم تمام مسلمانوں کوکارخیر کی توفیق عطا کرے اور باہمی اختلاف وانتشار سے محفوظ رکھے، آمین ثم آمین۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم سہج صاحب -

آپ نے ابھی تک مون لائٹ صاحب کے سوال کا جواب نہیں دیا کہ اگر:



وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281



تو پھر آپ احناف فجر کی نماز میں جب آپ کا امام فرض نماز شروع کرچکا ہوتا ہے - اور قرآن کی قراءت کررہا ہوتا ہے - تو احناف کی اکثریت اس وقت فجر کی سننتیں پڑھ رہی ہوتی ہے - کیا آپ لوگوں کو نہیں چاہیے کہ اپنی سنّتوں کی نیت توڑ کر اپنے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر قرآن سنیں - کیا اس طرح آپ احناف قرآن کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوتے ؟؟؟

جواب کا انتظار رہے گا (ابتسامہ) -
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام و علیکم سہج صاحب -

آپ نے ابھی تک مون لائٹ صاحب کے سوال کا جواب نہیں دیا کہ اگر:



وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف آیت 204
ارشاد ربانی ھے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ یہ آیت نماز اور خطبہ کے بارے میں نازل ھوئی۔
تفسیر ابن کثیر ج1،ص281



تو پھر آپ احناف فجر کی نماز میں جب آپ کا امام فرض نماز شروع کرچکا ہوتا ہے - اور قرآن کی قراءت کررہا ہوتا ہے - تو احناف کی اکثریت اس وقت فجر کی سننتیں پڑھ رہی ہوتی ہے - کیا آپ لوگوں کو نہیں چاہیے کہ اپنی سنّتوں کی نیت توڑ کر اپنے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر قرآن سنیں - کیا اس طرح آپ احناف قرآن کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوتے ؟؟؟

جواب کا انتظار رہے گا (ابتسامہ) -
عن ابی اسحٰق قال حدثنی عبداللہ بن ابی موسٰی عن ابیہ حین دعاھم سعید بن العاص دعا ابا موسٰی و حذیفۃ وعبد اللہ بن مسعود قبل ان یصلی الغداۃ ثم خرجوا من عندہ وقداقیمت الصلوٰۃ فجلس عبداللہ الٰی اسطوانۃ من المسجد فصلی الرکعتین ثم دخل فی الصلوٰۃ۔

طحاوی جلد1ص257
حضرت ابواسحٰق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے والد کے واسطے سے یہ حدیث بیان کی، جبکہ ان کو حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے بلایا کہ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ ،حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز سے پہلے بلایا ۔پھر جب یہ حضرات ان کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد کے اک ستون کے پاس بیٹھ کر دورکعتیں پڑھیں پھر نماز میں شریک ہوگئے۔

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ میں حکم مقتدی کو ہے اور مقتدی بندہ تب کہلاتا ہے جب وہ نماز میں داخل ہوچکا ہو۔
امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ ؟
شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
عن ابی اسحٰق قال حدثنی عبداللہ بن ابی موسٰی عن ابیہ حین دعاھم سعید بن العاص دعا ابا موسٰی و حذیفۃ وعبد اللہ بن مسعود قبل ان یصلی الغداۃ ثم خرجوا من عندہ وقداقیمت الصلوٰۃ فجلس عبداللہ الٰی اسطوانۃ من المسجد فصلی الرکعتین ثم دخل فی الصلوٰۃ۔

طحاوی جلد1ص257
حضرت ابواسحٰق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے والد کے واسطے سے یہ حدیث بیان کی، جبکہ ان کو حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے بلایا کہ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ ،حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز سے پہلے بلایا ۔پھر جب یہ حضرات ان کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد کے اک ستون کے پاس بیٹھ کر دورکعتیں پڑھیں پھر نماز میں شریک ہوگئے۔

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ میں حکم مقتدی کو ہے اور مقتدی بندہ تب کہلاتا ہے جب وہ نماز میں داخل ہوچکا ہو۔
امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ ؟
شکریہ

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
1




عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صلاۃ یقرا فیھما بام الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف الامام
کتاب القراءۃ للبیہقی ص170۔171
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔

مندرجہ بالا احادیث میں بڑی صراحت کے ساتھ باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ھے ، لیکن کوئی صحیح مرفوع حدیث ایسی نہیں جس میں صراحتاً باجماعت نماز میں مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھو۔


فاتحہ کا حکم.jpg
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
عن ابی اسحٰق قال حدثنی عبداللہ بن ابی موسٰی عن ابیہ حین دعاھم سعید بن العاص دعا ابا موسٰی و حذیفۃ وعبد اللہ بن مسعود قبل ان یصلی الغداۃ ثم خرجوا من عندہ وقداقیمت الصلوٰۃ فجلس عبداللہ الٰی اسطوانۃ من المسجد فصلی الرکعتین ثم دخل فی الصلوٰۃ۔

طحاوی جلد1ص257
حضرت ابواسحٰق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے والد کے واسطے سے یہ حدیث بیان کی، جبکہ ان کو حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے بلایا کہ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ ،حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز سے پہلے بلایا ۔پھر جب یہ حضرات ان کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد کے اک ستون کے پاس بیٹھ کر دورکعتیں پڑھیں پھر نماز میں شریک ہوگئے۔

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ میں حکم مقتدی کو ہے اور مقتدی بندہ تب کہلاتا ہے جب وہ نماز میں داخل ہوچکا ہو۔
امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ ؟
شکریہ
السلام علیکم-

محترم-

قرآن کی آیت- وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ- مقتدی کے لئے خاص نہیں ہے- بلکہ عام ہے - ہرشخص کے لئے -سوره الفاتحہ کی قرأت اس سے مستثنیٰ ہے جیسا کہ یہاں پیش کی گئیں احادیث سے ثابت ہے -

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کا یہ عمل حجت نہیں -کیوں کہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان واضح ہے کہ جب فرض نماز کھڑی ہو جائے تو کوئی نماز نہیں: حضرت عبدللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا عمل ممکن ہے نبی کریم کی فرض نماز کے وقت سنتیں پڑھنے کی ممانعت والی حدیث سے پہلے کا ہو -جس میں آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا کہ :

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب فرض نماز کی تکبیر ہو تو کوئی نماز نہیں ہوتی، سوائے فرض نماز کے۔ (صحیح مسلم حدیث ٢٦٣ )-

حدیث شریف کا صاف مطلب یہ ہوا کہ جس وقت کسی نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو بحز نماز مکتوبہ مقام لہا کے اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے نہ فرض اور نہ غیر فرض بلکہ جماعت میں شریک ہو جانا چاہیے۔ یہ تمام حدیثیں عام ہیں جیسے اور نمازوں کو شامل ہیں، ویسے ہی نماز فجر کو شامل ہے۔ بلکہ ایک روایت ابن عدی میں تو خاص طور سے نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے۔
إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوة إلا المکتوبة قیل یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم ولا رکعتی الفجر قال ولا رکحتی الفجر أخرجه ابن عدی وسندہ حسنً
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں مگر وہی فرض نماز (جس کے لیے تکبیر کہی گئی) صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نہ پڑھیں دو رکعت سنت فجر کی بھی، آپ نے فرمایا نہ پڑھو دو رکعت سنت فجر کی بھی-

ویسے بھی سوره الاعراف کی اس آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - تا کہ تم پر رحم کیا جائے - اگر یہ آیت صرف مقتدیوں کے لئے خاص ہے تو سوال ہے کہ وہ مقتدی جو اپنے امام کے پیچھے سوره الفاتحہ پڑھتے ہیں فرض نمازوں میں کیا وہ الله کی رحمت کے حقدار نہیں ہو سکتے اس آیت کی رو سے - اور جو غیر مقتدی جو فرض نماز میں امام کے پیچھے قرآن سننے کے بجاے فجر کی سنتیں پڑھیں یا دھمال ڈالیں یا زور زور سے ایک دوسرے سے گپیں ہانکیں - کیا ان پر قرآن سننے کا کوئی حکم لاگو نہیں ہوتا ؟؟؟

یعنی آپ کے نزدیک الله کی رحمت سے دور صرف وہ مقتدی ہیں جو امام کے پیچھے سوره الفاتحہ پڑھتے ہیں (نبی کے فرمان کے مطابق )- باقی ہر بدعتی شخص الله کی رحمت کا امیدوار ہے اس آیت کی رو سے (فنعوزباللہ میں ذالک ) -
 
Last edited:

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
قرآن کی آیت- وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ- مقتدی کے لئے خاص نہیں ہے- بلکہ عام ہے - ہرشخص کے لئے -سوره الفاتحہ کی قرأت اس سے مستثنیٰ ہے جیسا کہ یہاں پیش کی گئیں احادیث سے ثابت ہے -
-
ہر شخص کے لئے خاموشی کا حکم کہا آپ نے، تو پھر ثابت ہوچکا محمد علی جواد صاحب خود آپ کی زبانی کہ کسی بھی نماز میں مقتدی امام کی قراءت صرف سن سکتا ہے خود قرآن بلکل پڑھ نہیں سکتا ۔ اس بات کی تائد اس حدیث سے بھی ہوتی ہے
2
مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے
عن عطاء ابن یسار سال زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراۃء مع الامام فی شئی ء
صحیح مسلم ، سجود والتلاوۃ
حضرت عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ پڑھنے کی بابت پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی بھی نماز میں امام کے ساتھ ساتھ قرآن نہ پڑھے۔
1
عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعود رضی اللہ عنہ فسمع ناسایقرؤن مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفقہوا اما آن لکم ان تعقلوا واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امرکم اللہ۔

تفسیر طبری جلد9
حضرت یسیر بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔جب آپ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو،جب قرآن کریم کی قراءۃ ہوتی ہو تو تم اس کی طرف توجہ کرو اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے۔
2
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالٰی واذا قری القران فاستمعوا لہ و انصتوا یعنی فی الصلوٰۃ المفروضۃ

کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالٰی کے ارشاد واذا قری القرآن۔الآیۃ کے متعلق مروی ہے کہ یہ فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
3
عن ابن عمر قال کانت بنو اسرائیل اذا قراءت اسمتھم جاوبوھم فکرہ اللہ ذٰلک لہذہ الامۃ قال واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔

الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور جلد3
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے امام جب قراءت کرتے تھے تو بنی اسرائیل ان کی مجاوبت کرتے تھے ،اللہ تعالٰی نے یہ کام اس امت کے لئے ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو۔
4
عن عبداللہ بن المغفل فی ھذہ الآیۃ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا قال فی الصلوٰۃ۔

کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ آیت کریمہ واذا قری القرآن کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
5
قال ابن تیمیۃ الحرانی وذکراحمد بن حنبل الاجماع علی انھا نزلت فی ذالک فی الصلوٰۃ وذکرالاجماع علی انہ لا تجب القراءۃ علی الماموم حال الجہر۔

فتاوٰی کبری جلد2صفحہ168
نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے نیز اس پر بھی اجماع نقل کیا ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قراءت کررہا ہو تو مقتدی پر قراءت واجب نہیں ۔
6
عن ابو موسٰی قال علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا قمتم الی الصلوٰۃ فلیؤمکم احد کم و اذا قراء الامام فانصتوا۔
مسند احمد جلد4 صفحہ415
حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھائی، فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو تم میں سے ایک نمہارا امام بنے اور جب وہ امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔


اور فاتحہ قرآن ہے ویسے ہی جیسے باقی ایک سو تیرہ سورتیں ہیں ۔ تو اسے پڑھنا بھی امام کا ہی حق ہے مقتدی کا نہیں ۔

شکریہ
 
Top