• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ اپنی بیوی کو حمام میں داخل نہ کرے :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10355794_828963757171895_2980268921200713679_n.jpg


جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ اپنی بیوی کو حمام میں داخل نہ کرے
(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

(حمام = اجتماعی غسل خانہ ،،،،،،، سوئمنگ پول ، ساحل سمندر پر نہانےکا بھی یہی حکم ہوگا)

---------------------------------------------
(صحيح الترغيب : 172،167، 164 ، ، الترغيب والترهيب : 1/120 ، ،
مجمع الزوائد : 1/283 ، ، سنن الترمذي : 2801 ، ،
المعجم الأوسط للطبراني : 3/69 ، ، صحيح الجامع : 6506 ، ،
صحيح الترغيب : 166 ، ، صحيح ابن حبان : 5597)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@اسحاق سلفی بھائی فیس بک پر کسی نے اس حدیث کے حوالے سے سوال پوچھا ہے




Muhammad Yasir Mumtaz
7 جولائی 4:15 ﺷﺎﻡ
Asslamoalikum Kal apny 1 hadith share ki thi bevi ko hmam mein dakhil kerny wali to kya ager kisi ka apna zati swiming pool ho ghar mein ya kisi or jgha or prady ka bhi masla na ho to kya whan ja sakti hy ya woh bhi mamno hy
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بھائی فیس بک پر کسی نے اس حدیث کے حوالے سے سوال پوچھا ہے
اس حدیث میں ممانعت گھر کے حمام کی نہیں ،بلکہ گھر سے باہر بنے کمرشل ،پبلک حمام کی ہے ،یہ خصوصی طرز کے حمام ہوتے تھے ،بلکہ اب بھی عربوں میں ان کا رواج موجود ہے ؛
(محترم شیخ خضر حیات حفظہ اللہ موجودہ دور میں اہل عرب کے حماموں کے متعلق معلومات دے سکتے ہیں )
اس کے لئے آپ درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت كا گرم حمام ( عام حمام ) ميں جانے كا حكم
سوال :: كيا ميرى بيوى كے ليے رمضان المبارك ميں عام حمام ( گھر سے باہر گرم حمام ) ميں جانا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ گھر ميں حمام بہت چھوٹا ہے، اور ميرى بيوى حاملہ بھى ہے اسے سردى لگنے كا ڈر رہتا ہے ؟

جواب ::
الحمد للہ:
اگر تو اس كے ليے گھر ميں موجود حمام ميں جانا اور پانى گرم كرنا ممكن ہے تو پھر اس كے ليے باہر عام گرم حمام ميں جانا جائز نہيں.

سنن ترمذى ميں حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
’’ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُدْخِلْ حَلِيلَتَهُ الْحَمَّامَ ) وحسنه الألباني في صحيح الترمذي .
وحليلته أي زوجته .( روى الترمذي (2801)
ترجمہ ؛
" جو كوئى بھى اللہ تعالى اور يوم آخرت پرايمان ركھتا ہے اس كى بيوى حمام ميں داخل نہ ہو "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.

حليلتہ يعنى اس كى بيوى.

ديكھيں: سنن ترمذى حديث نمبر ( 2801 ).

ترمذى رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ:
: أَنَّ نِسَاءً مِنْ أَهْلِ حِمْصَ أَوْ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ دَخَلْنَ عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : أَنْتُنَّ اللَّاتِي يَدْخُلْنَ نِسَاؤُكُنَّ الْحَمَّامَاتِ ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( مَا مِنْ امْرَأَةٍ تَضَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا هَتَكَتْ السِّتْرَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ رَبِّهَا ) روى الترمذي (2803)وصححه الألباني في صحيح الترمذي .

اہل حمص يا اہل شام كى عورتيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آئيں تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" كيا تم ہى وہ ہو جن كى عورتيں حمامات ميں جاتى ہيں ؟
ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا ہے كہ:
" جو عورت بھى اپنا لباس اپنے خاوند كے گھر كے علاوہ كہيں اتارتى ہے تو اس نے اپنے اور اپنے پروردگار كے مابين ستر اور پردہ كو پھاڑ ديا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2803 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں ا سے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر اسے گھر ميں غسل كرنا ممكن نہ ہو تو اس كے ليے عام حمام ميں ضرورت كے ليے جانا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اپنے پردہ كا مكمل دھيان ركھے.

شيخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قال شيخ الإسلام : " قَالَ الْعُلَمَاءُ : يُرَخَّصُ لِلنِّسَاءِ فِي الْحَمَّامِ عِنْدَ الْحَاجَةِ كَمَا يُرَخَّصُ لِلرِّجَالِ مَعَ غَضِّ الْبَصَرِ وَحِفْظِ الْفَرْجِ وَذَلِكَ مِثْلُ أَنْ تَكُونَ مَرِيضَةً أَوْ نُفَسَاءَ أَوْ عَلَيْهَا غُسْلٌ لَا يُمْكِنُهَا إلَّا فِي الْحَمَّامِ " انتهى من "مجموع الفتاوى" (15/380) .

وقال أيضا : " وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَتَدْخُلُهَا – يعني الحمام- لِلضَّرُورَةِ مَسْتُورَةَ الْعَوْرَةِ " انتهى من "مجموع الفتاوى" (21/342) .
" علماء كا كہنا ہے: جس طرح مردوں كے ليے اجازت ہے اسى طرح عورتوں كے ليے ضرورت كے وقت حمام ميں داخل ہونے كى رخصت ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ نظريں نيچى ہوں، اور شرمگاہ اور عفت و عصمت كى حفاظت كى جائے، مثال كى طور پر عورت مريض ہو يا نفاس يا اس پر غسل جنابت ہو اور حمام كے بغير كہيں اور غسل كرنا ممكن نہ ہو " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 15 / 380 ).

اور ايك دوسرے مقام پر كہتے ہيں:
" اور رہى عورت تو وہ وہاں ـ يعنى حمام ميں ـ ضرورت كے ليے مكمل باپرد ہو كر داخل ہو سكتى ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 342 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
http://islamqa.info/ar/93935
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بہت اہم اور ضروری نصیحت نبوی

’’ عن جابر ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام بغير إزار ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل حليلته الحمام ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجلس على مائدة يدار عليها بالخمر "
قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن غريب لا نعرفه من حديث طاوس عن جابر إلا من هذا الوجه قال محمد بن إسماعيل ليث بن ابي سليم صدوق وربما يهم في الشيء قال محمد بن إسماعيل وقال احمد بن حنبل ليث لا يفرح بحديثه كان ليث يرفع اشياء لا يرفعها غيره فلذلك ضعفوه.
سنن الترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔۔( باب ما جاء في دخول الحمام ۔۔باب: غسل خانہ میں جانے کا بیان
حدیث نمبر: 2801

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ تہہ بند باندھے بغیر غسل خانہ (حمام) میں داخل نہ ہو، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی بیوی کو غسل خانہ (حمام) میں نہ بھیجے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اس سند سے جانتے ہیں، ۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: لیث بن ابی سلیم صدوق ہیں، لیکن بسا اوقات وہ وہم کر جاتے ہیں، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کہتے ہیں: لیث کی حدیث سے دل خوش نہیں ہوتا۔ لیث بعض ایسی حدیثوں کو مرفوع بیان کر دیتے تھے جسے دوسرے لوگ مرفوع نہیں کرتے تھے۔ انہیں وجوہات سے لوگوں نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (1 / 88 - 89) ، الإرواء (1949) ، غاية المرام (190)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2801
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الغسل ۲ (۴۰۱) (بعضہ) (تحفة الأشراف : ۲۲۸۴)، و مسند احمد (۳/۳۳۹) (حسن) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، الإروائ: ۱۹۴۹، غایة المرام ۱۹۰)

وضاحت: ۱؎ : یہ حمامات عمومی غسل خانے ہوا کرتے تھے، جس میں مرد اور عورتیں سب کے سب ننگے نہاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو تہہ بند باندھ کر نہانے کی اجازت دی، جب کہ عورتوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ مجلس جہاں نشہ آور اور حرام چیزوں کا دور چل رہا ہو اس میں شریک ہونا درست نہیں۔
نوٹ :: اس حدیث سےیہ واضح حکم مل رہا ہے کہ : عوامی مقامات پر مرد حضرات بھی ازار باندھے بغیر عریاں ہو کر غسل نہیں کر سکتے ،
 
Top