• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جھوٹی زانیہ عورت پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جھوٹی زانیہ عورت پر اللہ کا غضب

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ اِِلَّا اَنفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنْ الصَّادِقِیْنَ o وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ o وَیَدْرَاُ عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ o وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَا اِِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِیْنَ o} [نور:۶تا ۹]
’’ اور جو لوگ اپنی بیویوں پرتہمت لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہوں مگر وہ خود ہی تو ان میں سے ہر ایک کی شہادت اللہ کی قسم کے ساتھ چار شہادتیں ہیں کہ بلاشبہ یقینا وہ سچوں سے ہے۔ اور پانچویں یہ کہ بے شک اس پر اللہ کی لعنت ہو، اگر وہ جھوٹوں سے ہو۔اور اس (عورت) سے سزا کو یہ بات ہٹائے گی کہ وہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار شہادتیں دے کہ بلاشبہ یقینا وہ (مرد) جھوٹوں سے ہے۔ اور پانچویں یہ کہ بے شک اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو، اگر وہ (مرد) سچوں سے ہو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں ایسے میاں بیوی کے لیے نکلنے کا ایک راستہ ہے کہ جو ایک دوسرے پر زنا کی تہمت لگائیں، مگر ان پر ثبوت پیش کرنا مشکل ہوجائے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق لعان کرے گا۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ: خاوند اپنی بیوی کو حاکم وقت یا قاضی (جسٹس) کے پاس لے جاکر اس پر دعویٰ کرے جو اُس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہوگی۔ اور پھر حاکم یا قاضی مرد سے چار گواہوں کے بدلے کہ جو اس کے پاس اگر نہیں ہوں گے تو اللہ کی چار قسمیں لے گا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ یعنی اُس نے اپنی بیوی پر زنا کی جو تہمت لگائی ہے اس تہمت میں وہ سچا ہے، جھوٹ نہیں بول رہا۔ {وَالْخَامِسَۃُ أَنْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَo} اور پانچویں بار یوں کہے: ’’ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار، لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو تو۔ ‘‘ جب خاوند ایسا کہہ دے گا تو اس کی بیوی اس سے بائنہ طلاق کے حکم میں آزاد ہوجائے گی اور اُس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔ اور اگر بیوی اپنے خاوند کی ان قسموں کے مقابلے میں قسم نہ اُٹھائے تو اُس پر زنا کی حد قائم ہوگی۔ (واللہ أعلم بالصواب۔)
اور اُس وقت تک بیوی سے حد رجم والی سزا ٹلے گی نہیں جب تک وہ خود بھی خاوند کی طرح لعان نہ کرلے۔ یعنی اسی طرح وہ بھی پہلے چار قسمیں اللہ کی اُٹھائے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے کہ اُس نے اُس پر زنا کی تہمت خواہ مخواہ لگائی ہے۔ (یا کسی غیر مرد کے ساتھ خلوت تو کی ہے مگر مکمل زنا نہیں کیا۔) {وَالْخَامِسَۃُ أَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَا إِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ} … اور پانچویں بار کہے کہ: ’’ اگر اُس کا خاوند سچا ہے تو اُس پر (یعنی عورت پر) اللہ کا غضب نازل ہو۔ ‘‘
یہاں اللہ عزوجل نے عورت کو اپنے غضب کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔ اکثر طور پر اغلب معاملہ یہی ہے کہ آدمی (مرد) اپنی بیوی کو رسوا کرنے اور اس پر زنا کی تہمت لگانے میں مشقت برداشت نہیں کرتا مگر اس صورت میں کہ جب وہ قابل عذر سچا ہو اور عورت اپنے خاوند کی اس ضمن میں سچائی کو جانتی بھی ہو کہ جو اُس نے اس پر تہمت لگائی ہو۔ اس لیے پانچویں قسم اُس کے اپنے حق میں ہوگی کہ اُس پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ جھوٹی ہے تو۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ مغضوب علیہ … وہ شخص کہ جس پر اللہ کا غضب نازل ہوا… ایسا شخص ہوتا ہے جو حق بات کو جان بوجھ کر اس کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی لطف و شفقت کا ذکر فرمایا ہے کہ جو اُس نے اپنی مخلوق (انسانوں اور جنوں) کے ساتھ لازم کر رکھی ہے کہ جس کے زریعے انھیں تنگیوں کی شدت سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔ اور اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کا اُن پر فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو انھیں بہت زیادہ تنگی کا سامنا کرتے ہوئے بہت سارے معاملات اُن پر سخت و ناگوار ہوجاتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تو اپنے بندوں پر رجوع فرمانے والے ہیں۔ اگرچہ ایسا حلف و قسم مغلظہ کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ وہ خود حکمتوں کو جاننے والا ہے کہ جو اُس نے قانون بنا رکھا ہے اور جس کام کا بھی وہ حکم دیتا ہے اور جس جس کام سے بھی وہ منع فرماتا ہے۔ چنانچہ اللہ رب کریم کا فرمان ہے:
{وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌ o} [النور:۱۰]
’’ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، کمال حکمت والا ہے ( تو جھوٹوں کو دنیا ہی میں سزا مل جاتی)۔‘‘

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

نعیم بھائی قرآن کی آیت "اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں" اور آپ نے عنوان "جھوٹی زانیہ عورت پر اللہ کا غضب" بنا دیا ھے۔

والسلام
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم

نعیم بھائی قرآن کی آیت "اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں" اور آپ نے عنوان "جھوٹی زانیہ عورت پر اللہ کا غضب" بنا دیا ھے۔

والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
کنعان بھائی ، سچی بات ہے کہ پہلے میں بھی یہ عنوان ،کتاب میں دیکھ کر متذبذب ہوا تھا۔ لیکن ارسال کرنے سے پہلے بغور پڑھنے پر پتا چلا کہ عنوان بالکل درست ہے۔ اصل میں معاملہ یوں ہے کہ ایک عورت نے واقعی زنا کیا ہوتا ہے اور اس بات کا گواہ صرف اس کا شوہر ہےاور وہ عورت بھی جانتی ہے کہ میرے شوہر کو اس زنا کا علم ہے مگر اس کے باوجود وہ جھوٹ بولتی ہے کہ اس نے زنا نہیں کیا۔ اس لحاظ سے وہ زانی تو ہے ہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ جھوٹی بھی ہے۔
پھر میں نے تفسیر احسن البیان سے کنسلٹ کیا تو وہاں پر ان آیات کی یہ تفسیر پائی۔
"اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہوں بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔"
حوالہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مزید
"یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔"
تفسیر احسن البیان
 
Top