• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جھوٹی غیرت کا ناسور

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جھوٹی غیرت کا ناسور


بشریٰ امیر

حنا شاہ نواز کوہاٹ کے علاقے اسٹارزئی میں رہتی تھی۔ حنا کا والد کوئلے کا کاروبار کرتا تھا۔ وہ ایک کامیاب تاجر تھا، گھر میں آسودگی اور خوشحالی تھی۔ حنا امیرانہ ماحول میں ناز و نعم سے پلی۔ اچھے دن گزر رہے تھے کہ حالات نے رخ بدلا، حنا کا والد کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہو گیا۔ علاج معالجہ کے باوجود وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ حنا یتیم ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد والدہ کی وفات نے تو حنا سے والدین جیسے شفقت و محبت والے رشتے چھین کر اسے مزید دکھی کر دیا۔ اب ایک اور ستم کہ حنا کا بھائی گاؤں میں کسی جھگڑے میں مارا گیا۔ یوں مردوں کی اس دنیا میں حنا تنہا رہ گئی۔ مگر حنا نے ہمت نہ ہاری۔ وہ ایک بہادر لڑکی تھی۔ اس نے ایم فل کر رکھا تھا۔ گھر کے حالات غربت کی انتہا تک پہنچ چکے تھے۔ فاقے چل رہے تھے۔ مقتول بھائی کے بچے اور بیوی بھی اسی گھر میں رہ رہے تھے۔ حنا کی چھوٹی بہن بھی بیوہ ہو کر اسی گھر میں آپڑی تھی اس کے ساتھ بھی ایک یتیم بچہ تھا۔ حنا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی ہونے کی وجہ سے ان سب کی کفالت کا بوجھ اٹھانا چاہتی تھی۔ یتیموں کی پرورش کرنا چاہتی تھی۔ حنا نے کئی جگہ جاب کے لئے درخواست دی لیکن کہیں بھی جاب نہ ملی۔ سرکاری اداروں میں بھی دھکے کھائے، ہر طرف سے مایوسی ہوئی کہ اس کے پاس نہ تو کوئی سفارش تھی اور نہ کوئی رشوت کے لئے بڑی رقم۔ بالآخر حنا نے ایک این جی او میں نوکری شروع کر دی۔ اسے معقول تنخواہ ملنا شروع ہو گئی، گھر میں موجود مقتول بھائی کے یتیم بچے اور بیوہ بہن کے بچے کی زندگیوں میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ انہیں کھانے کو ملنے لگا۔ حنا ان کے لئے کھلونے بھی خرید کر لاتی۔ گھر میں آسودگی آ گئی تھی۔ حنا اب اپنا گھر بسانا چاہتی تھی۔ اپنے ہاتھوں پر مہندی سجا کر پیا گھر سدھارنا چاہتی تھی وہ پڑھی لکھی اور ذہین لڑکی تھی اور شکل کی بھی اچھی تھی۔ اسے اچھا رشتہ بھی مل سکتا تھا۔ اچانک حنا کے چچا کو بھتیجی پر پیار آ گیا۔ پیار میں لالچ تھا۔ اس نے اپنے ان پڑھ اور نالائق بیٹے محبوب عالم کو آگے کیا اور اسے کہا کہ اس سے شادی کرو۔ حالانکہ اس سے پہلے حنا اپنے چچا سے اپنا حق جائیداد مانگتی رہی تھی لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ اب وہ حنا سے اپنے بیٹے کے ساتھ شادی کروا کر زن و زمین پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ ادھر حنا نے اپنے ان پڑھ کزن محبوب عالم سے شادی سے انکار کر دیا۔ ادھر خاندان کی غیرت نے جوش مارا کہ اچھا یہ لڑکی ہماری روایات اور اقدار کو مٹی میں ملائے گی۔ گھر سے باہر جا کر نوکری کرے گی۔ بس اس بات کا بہانہ بنا کر ناجائز غیرت کے نام پر بدبخت نے چار گولیاں فائر کیں۔ معصوم حنا ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ حنا کی بیوہ بہن، بیوہ بھابھی اور ان کے یتیم بچے تڑپتے رہ گئے۔ ان یتیموں کی کفالت کرنے والی، ایک بے غیرت کی نام نہاد ”غیرت“ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ مقتولہ کی بہن نے پولیس تھانہ اسٹارزئی میں مقدمہ درج کراتے ہوئے کہا کہ ان کی بہن ان کی کفالت کر رہی تھی۔ مقتولہ کے اہل خانہ کی طرف سے ایف آئی آر تو درج کرا دی گئی لیکن تاحال قاتل کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

ہائے افسوس! غیرت کے نام پر قتل کا یہ ایک واقعہ نہیں اسی طرح کے سالانہ سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ سو خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔

اکثر مرد اپنے دیرینہ جھگڑے مٹانے کے لئے عورت کو کاروکاری یعنی قتل کر دیتے ہیں۔ زمین و زر کے حصول کے لئے صنف نازک ہی سولی پر لٹکا دی جاتی ہے۔ قرض سے گلو خلاصی کے لئے بھی عورت کو موت جیسی سزا سے دوچار کیا جاتا ہے۔ دوسری شادی کے لئے بھی پہلی عورت کا کانٹا نکالا جاتا ہے۔ کسی ناپسندیدہ عورت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے ہی جان سے مار دیا جاتا ہے۔ عورت کے کسی غیرمرد سے مراسم کے الزامات لگا کر بھی اسے کاروکاری قرار دیتے ہوئے قتل کر دینے کا رواج جنوبی پنجاب میں عام ہے۔

اب غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے میں غیرت کے نام پر بے غیرتی کیوں؟ اس طرح غیرت کے نام پر قتل کی اجازت کس نے دی؟ غیرت کے نام پر قتل کا رجحان روز بروز شدت کیوں اختیار کر رہا ہے؟

اس کا ذمہ دار ہمارا معاشرہ ہے جو سب کچھ دیکھتا ہے اور ہضم کر جاتا ہے۔ اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو پھانسی کے پھندوں پر نہیں لٹکاتے۔ اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا کردار ہے جو تفریح کے نام پر سستے ڈرامے بنا کر لوگوں کو دکھاتے ہیں۔ ان ڈراموں میں عورت محبت، شادی اور طلاق کا کھیل رچایا جاتا ہے اور یہ ڈرامے لوگوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وڈیرا نظام دکھا دکھا کر مردوں کو اونچا کیا جاتا ہے۔ عورت کو کم تر، ذلیل اور گھر کی باندی کے تصور سے پیش کرنا، یہ ہے ان میڈیا کے ڈراموں کا کردار۔ اب خود ہی اندازہ لگائیں کہ 90 فیصد عوام ڈرامے دیکھتے ہیں، جب مذموم اور ایسے ہی ظالمانہ پدر شاہی رویوں کو بار بار دکھایا جائے گا تو معاشرے میں سدھار کیسے آئے گا؟

اب میڈیا کا دور ہے۔ ہر گھر میں ٹی وی، نیٹ، موبائل اور ان پر چلنے والی ایپس ہیں۔ اسی میڈیا کے ذریعے معاشرے میں پڑی لتھڑی کثافتوں کو دھویا بھی جا سکتا ہے۔

میڈیا علماءحضرات کے ذریعے سے ”غیرت کے نام پر قتل“ جیسے موضوع کے حوالے سے پروگرام کروائے، لوگوں کو شعور دلوائے کہ یہ غیرت نہیں، غیرت کے نام پر دھبہ اور ناسور ہے، جو ہمارے معاشرے کو تباہی کے دہانے کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

یہ ایک بہت بڑا اور عظیم جرم ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

”اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے“۔ (النساء: 93)

خدارا! میڈیا اس بڑھتے ناسور کے خاتمے کے لئے خصوصی توجہ دے۔ اس کے لئے پروگرام کرے۔ لوگوں کو خوف خدا دلائے۔ اگر آج ایک حنا کی کہانی نے تڑپا کر رکھ دیا ہے تو مزید کوئی اور حنا غیرت کی بھینٹ نہ چڑھے۔ اس معاشرے کو یہ دکھ نہ دیکھنا پڑے۔

 
Top