• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہادِ اصغر و جہادِ اکبر کی حقیقت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جہادِ اصغر و جہادِ اکبر کی حقیقت

بعض نے یہ جو حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہِ تبوک میں فرمایا:
رَجَعْنَا مِنَالْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ۔
(قال العراقی رواہالبیہقی بسند ضعیف عن جابر وقال الحافظ ابن حجر ھومن کلام ابراہیم بن عیلۃ۔راجع کشفالخفاء (۱۳۶۲) (ازھر))
’’ہم چھوٹے جہاد سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آگئے ہیں۔‘‘
اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق علم رکھنے والے لوگوں میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔
کفار سے جہاد کرنا سب سے بہتر کاموں میں سے ہے بلکہ وہ ان تمام اعمال سے جنہیں انسان ثواب کے لیے کرتا ہے افضل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُأُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْوَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْعَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَاللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا﴿٩٥﴾النساء
’’جن مسلمانوں کو کسی طرح کی معذوری نہیں اور وہ جہاد سے بیٹھ رہے ۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے ، جو اپنے مال و جان سے جہاد کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ کے اعتبار سے بڑی فضیلت دی ہے اور یوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ نیک تو سب ہی مسلمانوں سے ہے اور اللہ نے ثوابِ عظیم کے اعتبار سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بڑی برتری دی ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَالْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِالْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ ۗوَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ الَّذِينَ آمَنُواوَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْأَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴿٢٠﴾يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْفِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ ﴿٢١﴾ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُأَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٢٢﴾التوبہ
’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کی خدمتوں جیسا سمجھ لیا جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، اللہ کے نزدیک تو یہ لوگ ایک دوسرے کے برابر نہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا جو لوگ ایمان لائے اور دین کے لیے انہوں نے ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کیے، یہ لوگ اللہ کے ہاں درجے میں کہیں بڑھ کر ہیں اور یہی ہیں جو منزلِ مقصود کو پہنچنے والے ہیں۔ ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضا مندی اور ایسے باغوں میں رہنے کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کو دائمی آسائش ملے گی اور یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، بے شک اللہ کے ہاں ثواب کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔‘‘
صحیح مسلم وغیرہ میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ
آپ نے فرمایا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک شخص نے یہ کہا کہ اسلام لانے کے بعد اگر میں صرف حاجیوں کو پانی پلاتا رہوں تو اور کسی عمل کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ دوسرے شخص نے کہا کہ اگر اسلام لانے کے بعد میں مسجد الحرام کو آباد کیے رکھوں تو اور کسی عمل کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ان دونوں سے افضل ہے جو کہ تم نے ذکر کیے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس زور سے باتیں نہ کرو۔ جب نماز ادا ہوچکے گی تو میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھوں گا۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا اور اللہ تعالیٰ نے متذکرہ بالا آیت نازل فرمائی۔
(مسلم کتاب الامارۃ ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ، رقم : ۱۸۷۹۔)
صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
انہوں نے فرمایا کہ میں نے عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل ہے؟ فرمایا وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے عرض کیا پھر کون سا عمل افضل ہے؟ تو فرمایا:والدین سے نیکی کرنا، میں نے عرض کیا ،پھر کون سا؟ فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی باتیں پوچھیں اگر میں اور پوچھتا تو اور بھی بتاتے۔
(بخاری کتاب المواقیت باب فضل الصلوٰۃ لوقتھا، رقم : ۵۲۷، مسلم کتاب الایمان باب بیان کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال رقم: ۸۵۔)
صحیحین ہی میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اعمال میں سے افضل کون سا عمل ہے؟ فرمایا ’’اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ عرض کیا گیا ’’پھر کون سا؟ تو فرمایا کہ ’’حج مقبول‘‘۔
(بخاری کتاب الایمان باب من قال ان الایمان ھوالعمل۔ رقم: ۲۶ مسلم کتاب الایمان باب بیان کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال۸۳۔)
صحیحین میں ہے کہ
ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایساعمل بتائیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے برابرہو؟فرمایاکہ’’ تو طاقت نہیں رکھتا۔‘‘یا فرمایا کہ’’ تو اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘‘اس نے عرض کیا کہ آپ بتا ہی دیجئے، فرمایا:
ھَلْ تَسْتَطِیْعُ اِذَا خَرَج المُجَاھِدا اَنْ تَصُوْمَوَلَا تُفْطِرَ وَتَقُوْمَ وَلَاَتَفْتُرَ۔
(بخاری کتاب الجہاد باب فضل الجہادوالسیر۔ ۲۷۸۵ مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ تعالیٰ،۱۸۷۸۔)
’’کیا تم یہ کر سکتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم مسلسل روزہ رکھو اور ناغہ نہ کرو اور نماز پر کھڑے ہو اور بے تکان پڑھتے جائو‘‘۔
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ پر انوارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارانِ رحمت
سنن میں معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کی طرف بھیجتے وقت وصیت فرمائی کہ:
یَا مُعَاذُ اتَّقِ اللہَحَیْثُ مَا کُنْتَ وَاَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا وَخَالِقِالنَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
(مسنداحمدج۲؍ص۲۲۸۔ترمذی،کت��ب البر و الصلۃ، بابماجاء فی معاشرۃ الناس، رقم:۱۹۸۷)
’’اے معاذ! جہاں کہیں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے بعد جلد نیکی کرو کہ گناہ کو مٹا دے۔ لوگوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آئو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اے معاذ! میں تم سے محبت کرتا ہوں، سو ہر نماز کے پیچھے یہ ضرور کہہ دیا کرو کہ:
اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِعِبَادَتِکَ۔
(السنن النسائی۔ کتاب السہو، باب نوع اخرمن الدعاء رقم: ۱۳۰۴۔ سننابی داؤد حدیث۱۵۲۲)
’’اے اللہ مجھے توفیق دے کہ تیری یاد اور تیرا شکر ادا کرتا رہوں اور اچھی طرح تیری بندگی انجام دوں۔‘‘
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنامعاذ رضی اللہ عنہ سے جب کہ وہ آپ کے ردیف تھے فرمایا
معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اپنے بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے (معاذ فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا، اللہ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
ان پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘ (پھرفرمایا) ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ حق ادا کر دیں تو اللہ پر ان کا کیا حق ہوجاتا ہے۔‘‘
معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا
’’اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ جناب محمد رسول اللہ نے فرمایا ’’بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہوجاتا ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے۔‘‘
(متفق علیہ)
یہ بھی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنامعاذ سے فرمایا۔
سب کاموں کا سرا اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی کوہان کی بلندی اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ پھر فرمایا ’’میں تمہیں نیکی کے دروازے ہی کیوں نہ بتادوں۔ روزہ ڈھال ہے۔ صدقہ گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو اور اسی طرح رات کے درمیان کے حصہ میں قیام کرنا۔‘‘
پھر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیہ کریمہ پڑھی:
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَرَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوايَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾سورة السجدة
’’رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، عذاب کے خوف اور رحمت کی امید سے اپنے پروردگار سے دعائیں مانگتے ہیں اور جو کچھ بھی ہم نے ان کو دے رکھا ہے، اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، کوئی متنفس بھی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پردہ غیب میں موجود ہے۔ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔"
پھر فرمایا
’’اے معاذ! میں تجھے وہی چیز کیوں نہ بتا دوں جس پر ان تمام باتوں کا مدار ہے‘‘ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ضرور فرمائیے۔ تو آپ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا ’’اس کو قابو میں رکھ۔‘‘ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی ’’یارسول اللہ! ہم جو باتیں کرتے ہیں ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا۔‘‘ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تجھے تیری ماں گم پائے! معاذ رضی اللہ عنہ تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ آگ میں جو لوگ نتھنوں کے بل اوندھے گرائے جائیں گے وہ ان کی (درانتی کی سی) زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلیں ہی تو ہوں گی۔‘‘
(ترمذی کتاب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلوٰۃ: رقم: ۲۶۱۶۔ مسند احمد ج ۵، ص ۲۳۱۔)
اس کی تفسیر صحیحین میں ثابت وہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِالْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْ لِیَصْمُتْ۔
(بخاری کتاب الادب باب من کانیومن باللہ والیوم الاخر رقم: ۶۰۱۸، مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجاررقم: ۴۷۔)
’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘
اچھی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے اور بری بات سے خاموش رہنا بری بات کہہ دینے سے بہتر ہے۔

’’الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان‘‘
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
جہادِ اصغر و جہادِ اکبر کی حقیقت

بعض نے یہ جو حدیث روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہِ تبوک میں فرمایا:
رَجَعْنَا مِنَالْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ۔
(قال العراقی رواہالبیہقی بسند ضعیف عن جابر وقال الحافظ ابن حجر ھومن کلام ابراہیم بن عیلۃ۔راجع کشفالخفاء (۱۳۶۲) (ازھر))

اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے متعلق علم رکھنے والے لوگوں میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔
السلام علیکم نعیم یونس بھائی!
یقینا منکرین جہاد نے اس روایت کے تحت جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف زہریلا پرپیگندہ کیا ہے اور لوگوں کو دھوکہ اور گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن مجھے اس روایت سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت و رفعت اور طاقت مزید نمایاں نظر آتی ہے۔


یعین نبی کریم کا یہ ارشاد صحابہ کرام کو متنبہ کرنا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب دنیا کی محبت آپ پر غالب آجائے اور جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت آپ کے دل سے نکل جائے، اور جب دوبارہ جہاد کی طرف بلایا جائے تو تمہاری حالت ایسی ہو کہ تم زمین سے چمٹے ہوئے ہوں۔ دنیا کی محبت اور مال و اولاد کے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہوں۔
یقینا اب واپسی پر جہاد کی حرارت کو قائم رکھنا اور مال و اولاد اور دنیا کے فتنوں سے خود کو بچا کر جہاد فی سبل اللہ کے لئے ہمہ وقت تیاری رکھنا اب سب سے بڑا جہاد ہے۔


مجھے تو اس روایت میں جہاد ہی کی عظمت نظر آرہی ہے۔
ہاں اگر اس حدیث کی سند وغیرہ کی کوئی بحث ہے تو میرا علم کمزور ہے۔
شکریہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم نعیم یونس بھائی!
یقینا منکرین جہاد نے اس روایت کے تحت جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف زہریلا پرپیگندہ کیا ہے اور لوگوں کو دھوکہ اور گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن مجھے اس روایت سے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت و رفعت اور طاقت مزید نمایاں نظر آتی ہے۔


یعین نبی کریم کا یہ ارشاد صحابہ کرام کو متنبہ کرنا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب دنیا کی محبت آپ پر غالب آجائے اور جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت آپ کے دل سے نکل جائے، اور جب دوبارہ جہاد کی طرف بلایا جائے تو تمہاری حالت ایسی ہو کہ تم زمین سے چمٹے ہوئے ہوں۔ دنیا کی محبت اور مال و اولاد کے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہوں۔
یقینا اب واپسی پر جہاد کی حرارت کو قائم رکھنا اور مال و اولاد اور دنیا کے فتنوں سے خود کو بچا کر جہاد فی سبل اللہ کے لئے ہمہ وقت تیاری رکھنا اب سب سے بڑا جہاد ہے۔


مجھے تو اس روایت میں جہاد ہی کی عظمت نظر آرہی ہے۔
ہاں اگر اس حدیث کی سند وغیرہ کی کوئی بحث ہے تو میرا علم کمزور ہے۔
شکریہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جزاک اللہ خیرا۔ آپ کا استدلال پسند آیا۔
 
Top