• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد فی سبیل اللہ کا شرعی و اصطلاحی معانی

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
جہاد فی سبیل اللہ کا شرعی و اصطلاحی معانی

تحریر : مولانا زبیر احمد صدیقی حفظہ اللہ

جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے قرآن و حدیث کی بنیادی نصوص اور سلف وصالحین کی بیان کردہ ’’شرعی و اصطلاحی ‘‘ معانی کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ امت مسلمہ میں جب بھی کوئی جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بات کرے تو اس کے شرعی معانی ہماری نظرمیں رہیں ۔ اب چند تعریفات آپ کے سامنے پیش خدمت ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ کی زبانی ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘سے مراد

سب سے پہلے میں حضور ﷺ کی زبانِ مبارک سے کی گئی جہاد کی تعریف سن لیجئے:

((قال فای الھجرة افضل؟ قال الجھاد، قال وما الجھاد؟ قال ان تقاتل الکفار اذا لقیتھم ولاتغل ولا ﺗﺠﺒﻦ))

’’(ایک) صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بہترین ہجرت جہاد کی ہجرت ہے۔صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ جہاد کیا چیز ہے؟حضور ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جہاد یہ ہے کہ تم بوقت مقابلہ کفار سے لڑو اور اس راستے میں خیانت نہ کرو اور نہ بزدلی دکھاؤ‘‘۔

[کنزالعمال ،ج:۱،ص:۷۲۔ مجمع الزوائد،ج:۱،ص:۵۹، ورجالہ ثقات۔]

((قیل وما الجھاد ؟ قال ان تقاتل الکفار اذا لقیتھم ۔ قیل فای الجھاد افضل؟ قال من عقر جوادہ واھریق دمہ))
’’پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! جہاد کیا چیز ہے؟حضور ﷺ نے فرمایا کہ جہاد یہ ہے کہ تم مقابلے کے وقت کفار سے لڑو، کہا گیا افضل ترین جہاد کون سا ہے ؟حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کا جہاد جس کا گھوڑا کٹ مرے اور خود اس کا بھی خون گر جائے (یعنی وہ شہید ہوجائے)‘‘۔
[مسند احمد،ج:۳۴،ص:۳۹۷، رقم الحدیث:۱۶۴۱۳۔ کنز العمال ج:۱،ص:۲۷، ورجالہ ثقات۔]

((من قاتل لتکون کلمة اللّٰہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللّٰہ))
’’جس نے جنگ کی اس لئے کہ اللہ ہی کا کلمہ بلند ہوجائے تو وہ ہی ہے اللہ کی راہ میں‘‘۔

[صحیح البخاری، ج:۱،ص:۲۰۹، رقم الحدیث:۱۲۰۔ صحیح مسلم، ج:۱۰، ص:۶، رقم الحدیث:۳۵۲۵۔]


’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے شرعی معانی فقہاء کرام کی نظر میں

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’الجھاد بکسرالجیم اصلہ لغة ھو المشقة وشرعاً بذل الجھد فی قتال الکفار‘‘۔
’’جہاد کسرۂ جیم کے ساتھ لغت میں بمعنی محنت و مشقت ہے اور اصطلاحِ شریعت میں کفار سے لڑنے میں اپنی پوری طاقت کو استعمال کرنے کا نام جہاد ہے‘‘۔
[الفتح الباری لابن حجر، ج۶، ص۴۔]


الجھاد ھو القھر الاعداء أی المحاربة مع الکفار‘‘۔
’’دین کے دشمنوں کو مغلوب کرنے کے لئے کفار سے لڑنے کا نام جہاد ہے‘‘۔
[شرح شرعة الاسلام ص۵۱۷۔]

’’الجھاد أی قتال فی سبیل اللّٰہ ‘‘
’’جہاد کے معنی قتال کرنا اللہ کی راہ میں‘‘۔
[امام الباجوری، ابن القاسم ج۲ص۶۲۱۔]

قتال الکفار‘‘
’’جہاد کفار سے قتال کا نام ہے‘‘۔
[مطالب أولی النھیٰ ج: ۲ ص ۴۹۷۔]

علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’الجھاد: دعوة الکفار الی الدین الحق وقتالھم ان لم یقبلوا‘‘۔
’’دین حق کی طرف دعوت دینا اور اگر وہ قبول نہ کریں تو ان سے جنگ کرنا ‘‘۔
[فتح القدیر،ج:۵، ص:۱۸۷۔]

علمائے اصول فرماتے ہیں:
’’الجھاد دعوة قھریة فتجب اقامة بقدر الامکان حتی لایبقی الامسلم او مسالم‘‘

’’جہاد قوت وغلبہ کے ذریعے دعوت پھیلانے کا نام ہے ۔پس جہاد کو استطاعت بھر قائم کرنا فرض ہے یہاں تک کہ کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو مسلمان نہ ہویا پھر مسلمانوں سے مصالحت (یعنی جزیہ دینے پر) آمادہ نہ ہوچکاہو۔‘‘

[حاشیة الشروانی وابن القاسم علی تحفة المحتاج علی المنھاج : ۹/۲۱۳۔]

صاحبِ ’’مجمع الانھر‘‘ فرماتے ہیں:

’’والمراد الاجتھاد فی تقوة الدین بنحو قتال الحربین، والزمین، والمرتدین الذین ھم أخبث الکفار لانکار بعد الایمان، والباغین‘‘

’’گویا جہاد سے مراد یہ ہے کہ دین کی تقویت کی خاطر جہاد کرتے ہوئے حربی کافروں سے قتال کرنا، (معاہدہ شکن) ذمیوں سے قتال کرنا، ’’مرتدین ‘‘ سے قتال کرنا جو درحقیقت کفار کی خبیث ترین قسم ہیں کیونکہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد اس کا انکار کیا اور اسی طرح باغیوں سے‘‘۔
[مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر :کتاب السیر۔]
 
Last edited:
Top