• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حائضہ کی طلاق اور راجح موقف بمطاق قرآن و سنت

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
جماعت اہل حدیث کی شائع شدہ تیسر الباری از علامہ وحید الزماں پارہ ۲۲ صفحہ ١٦۴ پر ہے ، ائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء تو اس طرف گئے ہیں کہ شمار ہو گا اور ظاہریہ اور اہل حدیث اور امامیہ اور ہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ اور امام ابن حزم رحمہ اور محمد باقر اور جعفر صادق اور ناصر علیہم السلام اہل بیت کا یہ قول ہے کہ اس طلاق کا شمار نہ ہو گا اس لیے کہ یہ بدعی اور حرام تھا ، شوکانی اور محققین اہل حدیث نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اسی سے دلیل لی ہے اور یہ کہا ہے کہ جب ان عمر خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار کیا گیا تو اب اس کے وقوع میں کیاشک رہی ہم کہتے ہیں کہ ابن عمر کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا، کیونکہ انہوں نے نہیں بیان کیا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شمار کیے جانے کا حکم دیا۔

جماعت اہل حدیث کی شائع شدہ صحیح بخاری از داؤد راز طبع 2004 دیکھیےصفحہ 29 پر ہےائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء تو اس طرح گئے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہو گی اور ظاہریہ اور اہل حدیث اور امامیہ اور ہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ، امام ابن حزم اور علامہ ابن القیم اور جناب محمد باقر اور حضرت جعفر صادق اور امام ناصر اور اہل بیت کا یہ قول ہے کہ اس طلاق کا شمار نہ ہو گا۔ اس لیے کہ یہ بدعی اور حرام تھی، شوکانی اور محققین اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اسی سے دلیل لی ہے اور یہ کہا ہےکہ جب ابن عمر خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار کی گئی تو اب اس کےوقوع میں کیا شک رہا، ہم کہتےہیں کہ ابن عمر کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ حضرت نے اس کے شمار کیے جانے کا حکم دیا۔

جماعت اہل حدیث ہی کے رئیس ندوی اپنی کتاب ضمیر کا بحران صفحہ 349 پر لکھتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ نصوص کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے کہ بحالت حیض عورت کو دی ہوئی طلاق نہیں پڑتی اسی کو عام اہل حدیث اہل علم کی طرح روضہ ندیہ کے مصنف نے بھی اختیار کیا ہے ۔

نتائج تحقیق علمائے اہل حدیث
١۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کی دلیل قرآن و سنت کے قریب نہیں، اور نصوص کتاب و سنت کے خلاف ہے۔
۲۔ ابن حزم و شوکانی و محققین اہل حدیث کا مذہب قرآن و سنت کے قریب تر ہے۔
۳۔ صحابی کا قول حجت نہیں۔

حیران ہوں کہ روؤں جگر کو کہ پیٹوں دل کو میں

جماعت اہل حدیث ہی کی شائع شدہ کتاب احکام و مسائل صفحہ 491 پر طلاق کے احکام میں لکھا ہے ۔ برحق مسلک یہی ہے کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، جمہور ائمہ محدثین کا یہی قول ہے۔ دلائل درج ذیل ہیں۔
۲۔ عبداللہ بن عمر جنہوں نے طلاق دی تھی انہوں نے خود اس کی تصریح کی ہے کہ یہ طلاق شمار کی گئی۔

جماعت اہل حدیث ہی کی شائع شدہ جدید سنن ابو داؤد از حافظ زبیر علی زئی دیکھیے ، حیض کے ایام میں طلاق خلاف سنت ہے مگر شمار کی جائے گی، لغو اور باطل نہیں۔

جماعت اہل حدیث ہی کی شائع شدہ موطا امام مالک از حافظ زبیر علی زئی صفحہ 320 دیکھیے۔
حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہےاگر چہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔

نتائج تحقیق محققین اہل حدیثۛ
١۔ ائمہ اربعہ و جمہور فقہاء کی دلیل کتاب و سنت کے قریب تر ہے۔
۲۔ ابن حزم و شوکانی و محققین اہل حدیث کا مذہب قرآن و سنت کے قریب نہیں ہے۔
۳۔ قول صحابی حجت ہے۔
٤۔ بدعی یعنی خلاف سنت طلاق واقع ہو جاتی ہے۔


کیا آپ حضرات بتا سکتےہیں، کہ یہ سب کیا ہے ، جن حضرات کی تحقیق پر آپ اعتماد کرتے ہیں اور ہر موضوع پر ان کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں، کیا انہوں نے اتنے عرصہ تک جو موقف رکھا وہ غلط تھا ؟
اور اگر نہیں تو کیا اب کے اہل حدیث محقق حضرات نے جو نیا موقف اپنایا اور ابن حزم ، ابن تیمیہ ، شوکانی صاحبان کی تحقیق کو رد کر دیا یہ موقف صحیح ہے ؟
آخر کیا وجہ ہے نصوص کتاب و سنت تو صدیوں سے وہی ہیں مگر جماعت اہل حدیث کے موقف میں اتنی بڑی قلابازی آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
اور جن لوگوں نے جماعت اہل حدیث کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے پہلے فتوے پر عمل کیا اور اب بھی کر رہے ہوں کہ کہ جن کے پاس صرف صحیح بخاری ہو گی؟ ان کا یہ عمل کس کھاتے میں جائے گا؟
اور کیا لوگوں کو اب نئی تحقیق پر عمل کرنا چاہیے یا کہ پرانی پر اور اس کی کیا گارنٹی ہےکہ چند سال بعد پھر محققین پرانے موقف کی طرف نہ رجوع کر جائیں؟؟؟؟؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مگر جماعت اہل حدیث کے موقف میں اتنی بڑی قلابازی آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
ہم اپنے بھائی کو اس طرف توجہ دلائیں گے کہ ان کی اکثر پوسٹس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مقصود کوئی علمی مکالمہ یا مباحثہ نہیں ہے بلکہ ایک خاص مکتبہ فکر اور کبار اہل علم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کے فتاوی اور علمی آراء کو ہدف تنقید بنانا اور انہیں رگیدنا ہے۔ آپ اپنے اس طرز عمل سے اپنے مخالفین کو ان کے موقف پر مزید پختہ تو کر سکتے ہیں لیکن انہیں قائل نہیں کر سکتے ہیں۔
بعض اوقات نظر انداز کرنا جواب دینے سے زیادہ مفید ہوتا ہے۔ طلاق کے جمیع مسائل میں ان شاء اللہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے متبعین کا موقف تفصیل سے دلائل کے ساتھ وقتا فوقتا مستقل مضامین کی صورت میں علیحدہ پوسٹس میں بیان کر دیا جائے گا تا کہ کسی قسم کی کج بحثی کی فضا سے علیحدہ ہوتے ہوئے کتاب وسنت کی روشنی میں کبار اہل علم کا موقف تفصیل سے سامنے آ جائے۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
جزاک اللہ گو یہ پوسٹ کا جواب تو نہیں، ہم ظاہر بین لوگ ہیں اور ظاہر ہی پر فیصلہ کیا جاتا ہے، کسی کے اندر کیا ہے یہ تو رب العالمین ہی جانتے ہیں۔

جہاں تک آپ کے مشاہدے کی بات ہےکہ میں امام ابن تیمیہ و ابن القیم کو رگیدنا چاہتا ہوں، تو میرا نہیں ایسا خیال، آپ نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہو گا کہ اس موضوع سے متعلقہ جتنے بھی دھاگے ہیں سب میں ان حضرات کے ہی حوالے ہیں، تو پھر جب تحقیق ان کی پیش کی جائے گی تو لازما ان کی تحقیق کے اچھے برے پہلو بھی ان ہی کے حوالے سے بیان ہوں گے۔

دوسری بات کہ الحمد للہ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر بات ہر پوسٹ مکمل حوالہ جات کے ساتھ دوں، جیسے اوپر والی پوسٹ ہی لے لیں، پہلے آپ ہی کے محققین نے ان حضرات کی تحقیق کی تقلید کی، اور حوالہ بھی دیا، پھر بعد والے محققین نے ان حضرات کی تقلید سے رجوع کر لیا اور مبنی بر قرآن و سنت راستہ اختیار کیا جو کہ ائمہ اربعہ و جمہور فقہا صدیوں سے اختیار کیے ہوے تھے۔

تقلید کا لفظ اس لیے اختیار کیا کہ قرآن و سنت تو صدیوں سے ایک ہی ہیں، اگر آپ حضرات کا پہلا موقف مبنی بر قرآن و سنت تھا تو اسے قیامت تک برقرار رہنا چاہیے تھا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہین کہ وقت و زمانہ کے ساتھ جدید اجہتاد کی ضرورت پڑے، یہ تو بنیادی مسئلہ ہے اور قرآن و سنت سے طے شدہ ہے، مگر پہلے کے محققین نے بجائے خود قرآن و سنت سے تحقیق کرنے کے ابن تیمیہ و ابن حزم و ابن القیم و شوکانی کی تحقیق پر بھروسہ کیا اور آج یہ وقت دیکھنا پڑا کہ اس موقف سے رجوع کرنا پڑا،
 
Top