• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاضر و ناظر کو سمجھیے

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
حاضر و ناظر
ہمارے یہاں جن مسائل پر عموما بحث کی جاتی ہے ان میں سے ایک رسول اللہ ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ تحریر پیش خدمت ہے۔ اس کا بنیادی مواد معروف بریلوی عالم مولانا سید سعید کاظمیؒ کی اسی مسئلے پر لکھی ہوئی جامع کتاب ’’تسکین الخواطر فی مسئلۃ حاضر و ناظر‘‘ سے لیاگیا ہے۔ امید ہے کہ اس مسئلے کی علمی حیثیت واضح ہو جائے گی۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے چند باتیں سمجھ لینا ضروری ہے
:
1) انسان کی حقیقت روح ہے، جسم اس روح کے لیے واسطہ ہے۔
2) موت سے انسان کا مادی جسم فنا ہوجاتا ہے، (انبیائے کرام اس اصول سے متثنی ہیں)۔ روح کو فنا نہیں وہ باقی رہتی ہے۔
3) موت کے بعد روح کا مقام عالم برزخ ہے جہاں اس کو ثواب یا عذاب ہوتا ہے۔
عالم برزخ کی کیفیت سے ہم ناواقف ہیں اسی لیے روح کو پہنچنے والے ثواب یا عذاب کی کیفیت ہم کو نہیں معلوم۔ اہل علم کے نزدیک روح کو ایک دوسرا جسم عطاکیا جاتا ہے اس کو جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ یہی جسم مثالی روح کے لیے اثرات کے وصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ جسم مثالی کی توضیح ایک اور اشکال (سوال) کو حل کردیتی ہے۔ وہ اشکال یہ ہے کہ کئی واقعات ملتے ہیں جن میں حالت بیداری میں لوگوں نے کسی بزرگ، شہید وغیرہ کی زیارت کی۔ روح تو اس عالم میں آ نہیں سکتی کہ اس کا مقام عالم برزخ ہے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ پھر زیارت کرنے والے نے کس کو دیکھا؟ اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ زیارت جسم مثالی کی ہوتی ہے نہ کہ جسم حقیقی کی اور نہ ہی روح کی۔ جسم مثالی میں تعدد (ایک سے زیادہ ہونا) ہونے کا امکان بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ٹیلی ویژن کی ہے جس میں ایک شخص اسٹودیو میں بیٹھا ہوتا ہے اور کی شبیہ پورے عالم میں نظر آرہی ہوتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
ان نکات کو سمجھ لینے کے بعد اب تسکین الخواطر کا یہ اقتباس پڑھیے اس طویل اقتباس کو محض سہولت حوالہ کی خاطر نمبر وار لکھا گیا ہے۔

1) حضور ﷺ کیلئے جو لفظ حاضر و ناضر بولا جاتا ہے اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح روح اپنے بدن کے ہر جز میں موجود ہوتی ہے اسی طرح روح دو عالم ﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے
2) جس کی بنا پر حضور ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر بھی تشریف فرما ہوتے ہیں
3) اور اہل اللہ اکثر و بیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور حضور ﷺ بھی انھیں اپنی نظر رحمت سے مسرور و محفوظ فرماتے ہیں۔
4) گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انھیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔‘‘ (ص: 17)
یہ عبارت اس مسئلے میں بہت اہم بلکہ حتمی ہے اور اس مسئلے کو بالکل بے غبار کردیتی ہے۔ مندرجہ ذیل باتیں اس عبارت سے واضح ہوتی ہیں
:
· حاضر و ناظر بزرگان دین کا حالت بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت فرمانے کا عنوان ہے۔نکتہ 3 اور 4۔
· رسول اللہ ﷺ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود نہیں ہیں۔ (نکتہ 1)
· یہ حاضر و ناظرہ ہونا بھی ہروقت اور ہر لحظہ نہیں ہے۔
نکتہ
2 کے الفاظ دوبارہ پیش خدمت ہیں، ان کو غور سے پڑھیں:
’’حضور ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر بھی تشریف فرما ہوتے ہیں۔‘‘
اب صفحہ
90 کی یہ عبارت پڑھیں:
5) ’’مقامات کثیرہ اور امکنہ متعددہ میں حضور ﷺ کا تشریف فرما ہونا نہ صرف ممکن بلکہ امر واقع ہے۔‘‘
· ان عبارات (2 اور 5) کا واضح مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم مثالی کی زیارت متعدد مقامات (نہ کہ ہر مقام) پر ایک ہی وقت میں ہو سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ ہر وقت ہر مقام پر آپ ﷺ جسم مثالی سے موجود ہیں۔ اس زیارت کا ہونا کبھی کبھار ہے اور مشیت الٰہی پر موقوف ہے۔
آپ ﷺ کا اہل عرفان اور اہل بصیرت کو اپنی زیارت سے مشرف فرمانا زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا خواب میں کسی کو نظر آجانا یہ معروف بات ہے لیکن حاضر و ناظر حالت بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت کا عنوان ہے۔ حالت بیداری میں آپ ﷺ کا دیدار کرنا عین ممکن ہے، اس بات کی تائید میں حضرت کاظمیؒ دیگر حوالوں کے علاوہ صفحہ
125 پر مشہور دیوبندی عالم انور شاہ کشمیریؒ کی تحریر نقل فرماتے ہیں:
6) ’’میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا جاگتے ہوئے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھنا ممکن ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے۔‘‘
آپ ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا بشری یعنی جسم اقدس کے ساتھ نہیں بلکہ روحانی اعتبار سے
ہے جس کی توضیح جسم مثالی سے کی جاتی ہے۔ دیکھیے عبارت 2۔
اس بات کو صفحہ
160 پر حضرت مولانا یوں فرماتے ہیں:
7) ’’ہم حضور ﷺ کو بشریت مقدسہ کے ساتھ ہرگز حاضر وناظر تسلیم نہیں کرتے بلکہ حضور کی نورانیت و روحانیت اور حقیقت مبارکہ کے ساتھ حضور کو حاضر وناظر مانتے ہیں۔‘‘ (ص:160)
اسی بات کو صفحہ
172پر مزید وضاحت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:
8) ’’قبر شریف میں حضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ کے ساتھ رونق افروز ہیں اور ظاہر ہے کہ بشریت ایک محدود چیز ہے۔ اگرچہ حضور ﷺ کی روحانیت اور نورانیت تمام عالم میں موجود ہے لیکن جب تک اس کی صحیح معرفت کے بعد قرب روحانی حاصل نہ ہو اس وقت تک کوئی شخص اس روحانیت مقدسہ کے حاضر وناظر ہونے کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا جسم مبارک قبر شریف میں موجود ہے۔ لہذا جن کو حالت بیداری میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوتی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے جسد اقدس کو نہیں دیکھتے بلکہ یہ زیارت جسم مثالی کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ تعدد (کثرت) کا امکان جسم مثالی کے ساتھ تو ہوسکتا ہے جسم عنصری (مادی) کے ساتھ ممکن نہیں اس لیے کہ جسم عنصری محدود ہے جس کی طرف مولانا کاظمیؒ نے ان الفاظ سے کیا ہے:
’’قبر شریف میں حضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ کے ساتھ رونق افروز ہیں اور ظاہر ہے کہ بشریت ایک محدود چیز ہے۔‘‘
جب بشریت محدود چیز ہے تو وہ ذات ایک مقام پر ہوگی نہ کہ ہر مقام پر۔ اگر کوئی جسم عنصری (مادی بدن) میں کثرت مانے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص آپ ﷺ جیسی کئی شخصیات کا قائل ہے اور یہ بلاشک کفر ہے۔
یہ مقام (یعنی رسول اللہ ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا) ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ یہ خاص اہل اللہ کا مقام ہے۔ نکتہ
8کی عبارت پیش خدمت ہے:
’’ جب تک اس کی صحیح معرفت کے بعد قرب روحانی حاصل نہ ہو اس وقت تک کوئی شخص اس روحانیت مقدسہ کے حاضر وناظر ہونے کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
علامہ کاظمیؒ نے تسکین الخواطر میں ان حضرات کے لیے جن کو یہ مقام حاصل ہے، اہل عرفان، اصحاب نظر و برہان، اہل بصیرت، کاملین جیسے لفظ استعمال کیے ہیں۔
مولانا کاظمیؒ صفحہ
154 پر تفسیر روح المعانی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
9) ’’میری (صاحب روح المعانی )غایت (آخری) گفتگو یہ ہے کہ یہ رویت (دیکھنا) جو صوفیہ کے لئے واقع ہوئی یہ معجزات انبیاء اور کرامات اولیاء کی طرح خوارق عادت سے ہے۔‘‘
بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت اہل اللہ کی کرامت ہے۔
اسی کتاب کے صفحہ
20 کی عبارت ہے:
10) ’’بندے کو کسی امر میں اللہ تعالیٰ کی مشیت جزئیہ کے ما تحت نہ سمجھنا یا اس کو کسی حال میں کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے مستغنی اور بے نیاز قرار دینا شرک جلی اور کفر خالص ہے۔‘‘
صفحہ 17 پر تحریر فرماتے ہیں:
11) ’’یاد رکھئے اللہ تعالیٰ جو کسی مخلوق کو کوئی کمال عطا کرتا ہے تو اس کے متعلق صرف یہ اعتقاد مومن ہونے کے لئے کافی نہیں کہ یہ کمال اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اتنی بات تو مشرکین بھی اپنے معبودوں کے حق میں تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عطائے خداوندی کا عقیدہ رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکم خداوندی ارادہ اور مشیت ایزدی کے ماتحت ہے۔ ہر آن خداوند تعالیٰ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق ہے، اور اس بندے کا ایک آن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعا محال اور ممتنع بالذات ہے۔‘‘
دسویں اور گیارہویں عبارت کا مطلب یہ ہے کہ انبیائے کرام کے معجزے اور اولیائے کرام کی کرامتیں سب کا معاملہ محض اللہ کی مرضی اور مشیت پر مبنی ہے۔ اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا بقول حضرت کاظمیؒ کھلا شرک اور خالص کفر ہے۔
تسکین الخواطر کی جو عبارت شروع میں پیش کی گئی ہے اس میں نکتہ نمبر
1میں حضرت کاظمیؒ نے تحریر فرمایا ہے:
’’روح دو عالم ﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام عالم میں آپ ﷺ کا فیض جاری و ساری ہے، جیسا کہ صفحہ
173 حضرتؒ لکھتے ہیں:
’’جس طرح میری حیات ظاہری میں میرے بارگاہ میں حاضر ہونے والا کبھی محروم نہیں ہوا بالکل اسی طرح بعد الوصال بھی میرا فیض جاری ہے۔‘‘
اس کی وضاحت ایک اور جگہ یوں کی ہے:
’’مسلمانوں کیلئے اس طور پر کہ دنیاوی زندگی میں وہ ہمارے ہادی و رہبر اور آخرت میں ہمارے شفیع ہیں۔‘‘
کافروں کیلئے آپﷺ رحمت یوں ہے کہ آپ ﷺکے لائے ہوئے دین کو قبول کر کے وہ بھی اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتے ہے۔
امید ہے کہ حضرت علامہ کی تحریروں روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت ہوگئی ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ناواقفیت کی وجہ اس مسئلے میں غلو کیا جاتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث سے بھی اس مسئلے کی وضاحت کردی جائے۔
اس سلسلے میں قرآنی آیات پیش خدمت ہیں
:
آیت 1
وھو معکم اینما کنتم (الحدید: 4)
ترجمہ: کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو
یعنی اللہ تعالیٰ ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے، یہ اللہ کے حاضر ہونے دلیل ہے۔

آیت 2
لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ فی السمٰوات ولا فی الارض (سبا: 3)
ترجمہ: زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں
یہ اللہ کے ناظر ہونے کی دلیل ہے۔
سورۃ القصص میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
:
آیت 3
و ما کنت بجانب الغربی اذ قضینا الٰی موسٰی الامر وما کنت من الشاہدین (القصص: 44)
ترجمہ: اور جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور کے) مغرب کی طرف نہیں تھے اور نہ اس واقعے کے دیکھنے والوں میں تھے۔
اس آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ ﷺ جبل طور کے مغرب کی طرف نہیں تھے اس کے باوجود آپ اس واقعے کی اطلاع دے رہے ہیں تو یہ یقینا وحی ہی کے ذریعے سے آپ ﷺ کو معلوم ہوا ہے۔
اس آیت میں آپ ﷺ کا شاہد نہ ہونا مذکور ہے۔ البتہ سورۃ احزاب آیت
45میں آتا ہے:
آیت 4
یا ایہا النبی انا ارسلنک شاہدا ومبشرا ونذیرا
اے نبی! ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
آیت 5
فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علٰی ھٰٓولائ شھیدا (النساء: 45)
ترجمہ: اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے حاضر کریں گے۔
آیت 6
و کذٰلک جعلنٰکم امۃ وسطا لتکونوا شھدآئ علٰی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا (البقرۃ: 143)
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں۔
ان آیات میں آپ ﷺ کو منصب شہادت (گواہی) پر نافذ فرمایا گیا ہے۔ ان آیات کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ ﷺ پچھلی امتوں کے حال پر گواہ ہیں تو لازم ہے کہ آپ ﷺ حاضر و ناظر ہوں اس لیے کہ گواہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ موقع پر حاضر ہو۔ لیکن اس طرح لازم ہوا کہ پوری امت محمدیہ بھی حاضر و ناظر ہو اس لیے کہ سورۃ بقرۃ کی آیت
143(‏آیت 6) کی رو سے وہ بھی گواہی کے منصب پر فائز ہے۔ بات یہ کہ گواہی کے لیے موقع پر حاضر ہونا شرط نہیں۔ گواہی علم کی بنیاد پر بھی دی جاسکتی ہے۔ مثلا آج کسی سے پوچھا جائے کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے متعلق تم کیا کہتے ہو تو وہ یہی کہے گا وہ اللہ کے بہت بڑے ولی تھے۔ اس کا یہ کہنا گواہی ہے جب کہ ظاہر ہے کہ اس نے ان کی زیارت نہیں کی۔ اس کی گواہی کی بنیاد وہ علم ہے جو نسل در نسل قابل اعتبار ذریعوں منتقل ہوا ہے۔ کسی مسلمان نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے علاوہ کسی کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اس کے باوجود ایک مسلمان کا یہ کہنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں نہ صرف معتبر ہے بلکہ اس کی نجات کے لیے کافی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
اتنا واضح رہے کہ حاضر و ناظر کا لفظ قرآن و حدیث میں نہ آپ ﷺ کے لئے بطور صفت و لقب بولا گیا ہے اور نہ ہی یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں شامل ہے۔ البتہ اوپر جو آیتیں پیش کی گئی ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ہر وقت ہر جگہ موجود ہے اور اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں یعنی اللہ رب العزت ’’حاضر و ناظر‘‘ ہیں۔
اس سلسلے میں دو حدیثیں بھی پیش خدمت ہیں۔

حدیث 1
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جب قریش نے (واقع معراج میں)میرا انکار کیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میری نظروں کے سامنے کر دیا اور میں دیکھ دیکھ کر بیت المقدس کی علامات قریش کو بتلانے لگا۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ حیات مبارکہ میں بھی آپ ﷺ ہر جگہ اور ہر مقام پر ہر وقت موجود نہ ہوتے تھے اور نہ ہی ہر مقام ہر وقت آپ ﷺکے سامنے ہوتا تھا۔ اگر سامنے ہوتا یا آپ ﷺ ہر وقت ہر مقام پر موجود ہوتے تو قریش کے سوالات پر آپ ﷺ کو پریشانی نہ ہوتی۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ نے پردہ ہٹا دیا تو آپ ﷺ نے قریش کے سوالات کا جواب دے دیا۔

حدیث 2
آپ ﷺ فرماتے ہیں آخرت میں حوض کوثر پر میرے پاس کچھ جماعتیں آئیں گی میں ان کو پہچان لو ں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے، پھر ان کے اور میرے درمیان پردہ حائل ہو جائے گا میں کہوں گا یہ تو میری امت کے لوگ ہیں مجھ سے کہا جائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں نئی نئی باتیں پیدا کیں پس میں کہوں گا دور ہو جائے دور ہو جائے وہ شخص جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔ (بخاری)
پہلی حدیث آپ صلی اللہ علیہ کی دنیاوی حیات کے ایک واقعے سے متعلق ہے۔ یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آپ ﷺ کو عالم برزخ میں رہتے ہوئے اس دنیا کے تمام واقعات کا علم نہیں ہوتا اسی عدم علم کی وجہ سے آپ ﷺ ان لوگوں کو حوض کوثر سے پانی پلانے لگے لیکن جب ان کے احوال سے آگہی ہوئی تو انہیں دھتکار دیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حاضر و ناظر کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت ہر جگہ ، ہرمجلس، ہر محفل میں بنفس نفیس موجود ہوتے ہیں۔ یہ دراصل اہل اللہ کا حالت بیداری میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا نام ہے۔ یہ زیارت بھی جسم اقدس کی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے جسم مثالی کی ہوتی ہے۔ یہ زیارت بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ خاص الخاص اہل اللہ کا مقام ہے۔ نہ ہی یہ زیارت ان اہل اللہ کا کوئی اختیار فعل ہے بلکہ یہ محض اللہ رب العزت کا ان کے ساتھ خصوصی معاملہ ہے۔ ہر جگہ ہر وقت موجود ہونا تو اللہ رب العزت کے ساتھ خاص ہے۔ کسی مخلوق کو ہرجگہ ہر وقت موجود سمجھنا شرک ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اپنی ذات میں بھی وحدہ لاشریک ہے بلکہ اس کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں توحید کا یہی پہلو ہے جس میں انسان خطا کرجاتا ہے۔ اللہ کو اپنی ذات میں یکتا تو پکے مشرک بھی مانتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم دیوان صاحب
بعض وضاحتیں اگر آپ کرتے چلیں تو اور آسانی ہو جائے آپکی پیش کردہ معلومات کو سمجہنے میں :
"ہمارے یہاں" سے آپکی مراد کیا هے ، اساتذہ علماء ، طلباء اسلام یا عام سے مسلمانوں کی مجلسیں ۔
جب بهی کوئی دینی بحث و مباحثہ ہوتا هے تو موافقین کے علاوہ مخالفین بهی ہوتے ہونگے ۔ اگر ایسا هے تو دو طرفہ اقوال پیش کریں مثلا "موت سے انسانی جسم فنا ہو جاتا ہے (انبیاء الکرام اس اصول سے مستثنی ہیں)۔
المختصر ،، ایسے امور کو اہل حدیث کے فورم پر لانے کا مقصد واضح کردیں ۔ اصل موضوع کے ہمراہ عبدالقادر رحمہ اللہ کا ذکر جسطرح پیش کیا آپ نے اس سے لگتا هے پس تحریر بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں ۔
آپ کے یہاں نماز کے احکامات بہی بتائے گئے ہونگے ، تو کیا آپ ان (الف پر پیش) ان احکامات کو آپ کے یہاں روزوں کے احکامات میں بهی سمجہا جاتا ہے ؟
آیات قرآنی کے علاوہ ہر امر کا حوالہ بهی پیش کریں ۔ تاکہ آپکی پیش کردہ باتوں کو سند میسر ہو ۔
کسی عالمانہ بحث کے بهی چند اصول طے کر لیئے جاتے ہیں ، کوئی پیمانہ مقرر کیا جاتا ہے پیمائش کا ، پیمانہ ایک ہی قابل قبول و عمل ہے اور وہ ہے الکتاب والسنہ ۔ یعنی کتاب اللہ جو بفضل اللہ ہمارے درمیان ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الثابتہ ۔ آپ کے وہاں سے منظوری لے لیں ۔
والسلام
 
Top