• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ یوسف سراج کا کالم

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ایک سبق پیغمبرؐ نے دیاتھا،مکے کی گھاٹی میں، اور ایک سبق دیاتھا پھر مدینے جاکر، سبق اپنے عمل سے دیاتھا۔کوئی تین برس میں دیاگیا،یہ سبق اگر آ پ بھلادیتے ہیں تو باقی سب سبق بے کار ہیں۔پھر آپ کی زندگی شرفِ انسانی کے لئے کوئی افتخار نہیں ، بس ایک آزاراور ایک غبار رہ جاتی ہے اور بس!یہ سبق اگرنیت سے نہیں چھلکتا اور عمل سے نہیں جھلکتا توآپ انسانوں کی زندگی جی ہی نہیں سکتے ،ہاں جی بھی سکتے ہیں ،مگر اس شیر کے جیسی ،چڑیاگھرکے پنجرے میں جو آزاد پھرتے کووں کا تماشاہوتاہے اور کھونٹے سے گلے ملتی لمبی رسی سے بندھے اس گھوڑے جیسی زندگی ،جوآزادانہ 'ہارس پاور' کے زعم میں بھاگتاہے پھر مگرایک جھٹکااسے پاؤ ں میں پڑی زنجیرکااحساس دلاکراس کی آزادی کی اوقات بتادیتاہے ۔یہی دو سبق اگرنہیں تو آپ بھی نہیں ،پھرہوگی آپ کی زندگی مگرطے کوئی اور کرے گا۔ اسی کے ضابطے ہوں گے اور آپ 'سی 'نہ کرسکیں گے، ہاںآپ اتنے ضرورآزاد ہوں گے کہ کسی چودہ اگست اورتئیس مارچ کو چیخ کرایک نعرہ لگاسکیں۔''ہم آزادہیں !''اور اگر آپ کسی فرصت میں ڈاکٹر یونس بٹ کے'' ہم سب امیدسے ہیں'' کو کچھ وقت دے چکے ہیں تو پھر آپ یوں سمجھئے کہ آپ بھارتی صدر منموہن جتنے آزاد ہوسکتے ہیں ۔ہر لمحے جن کو مزاح نگار سونیاکو فون کرتے دکھاتا ہے ۔سونیاجی سونیاجی ہاں کروں کہ ناں ؟سونیا جی سونیا جی کھانے کی میز پرہوں ،روٹی کھاناشروع کروں یاچاول ؟ وہ صدر ہیں اور بااختیار بھی !شرم الشیخ میں پاکستان سے ایک بات کرکے گئے اور جب بھارت پہنچ کر میڈیا کاسامناہواتو مکر گئے ۔ منموہن کہ صوتی مشابہت کے باعث ٹی وی پر جن کانام شیخ رشید ہے، نے اپنے پاکستانی صدرکی جگہ لے دیا ۔ شیخ رشیدکو معاف کردیجئے کہ ایک سے ہی تو نام ہیں۔ منموہن اور ممنون !وہ سونیا گاندھی کے من کے موہن ہیں اوریہ نوازشریف کے ممنون !نام ہی نہیں کام میں بھی ایک سے ۔ پوچھ پوچھ کرچلنے والے اور چاروں طرف دیکھ کر چپکے سے بولنے والے ۔ یاآپ کو آفتاب اقبال کے خبرناک کے' مان سنگھ'کاکرداردیکھناچاہیے جو ہوتابادشا ہ ہے مگر طے شدہ رول اداکرنے کاپابند ۔یہی زندگی ہوتی ہے اور ہوسکتی ہے ان کی جو وہ دوسبق یاد نہیں رکھ سکتے ،جو پیغمبر نے دئیے تھے ۔پہلاشعبِ ابی طالب میں محصور ہوکر کہ جب توحیدکاپیغام قریشیوں کوپسندنہ آیاتھا تو انھوں نے بے شمار اذیتیں دینے کے بعدبالآخررسول اللہ ﷺ کے ساتھ تین قبائل:بنو عبدِمناف ،بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کوقریبی گھاٹی میں محصورکر دیااورایک معاہدہ لکھ کر ظلم کایہ صحیفہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردیا۔جس کی رو سے ان تین قبائل سے ہر طرح کابائیکاٹ کیاجانا تھا۔بد ترین معاشی بائیکاٹ۔ اب مقامی یا بیرونی کوئی بھی تاجر انھیں کچھ بیچ نہ سکتاتھا اور نہ کوئی انھیں ایک لقمۂ تک پہنچاسکتاتھا۔ طے ہواتھاکہ مظلوم مریں یاجئیں ، بائیکاٹ بھر پور ہوناچاہئے ۔بہت بعد میں پھرجب اس صحیفے کو دیمک نے چاٹ کھایاتوظلم کی توساری تحریر مٹ گئی تھی ،ہاں ایک لفظ بچاتھا :'اللہ !'سبحان اللہ !!ایک سردارنے دیمک زدہ تحریر اتار پھینکی اور یوں ایمان کے پنچھی اس قید سے آزاد ہوئے ۔آپ سوچ سکتے ہیں یہ کیسی زندگی تھی ؟ہم ایک دن ناشتہ نہ کر سکیں اور ظہرانہ بھی قضاہوجائے تو محسوس ہوتاہے ،مارے بھوک کے قضا ہی آگئی ۔ایک دو د ن نہیں کم وبیش تین سال ان تین قبائل کے بھوک سے بلکتے اور تکلیف سے بلبلاتے ہوئے گزرے۔درختوں کے پتے تک کھائے گئے اور کھجورکی گٹھلیاں اورجوتو ں کے چمڑے تک جلاکے راکھ چاٹی گئی ۔قضائے حاجت کے لیے کتنے ہی دنوں بعد کوئی بیٹھتاتو بکری کی سی چندخشک مینگنیاں برآمد ہوتیں۔مکررعرض ہے۔ کوئی ایک آدھ دن کی نہیں ،کامل تین سال کے روح نوچ لینے والے ظلم کی یہ کہانی تھی ۔مگرکیارسول اوران کے حلیفوں نے گندم کے چند دانوں ،ستو کی چند مٹھیوں اورکھجورکی چندگٹھلیوں پراپنانظریہ بیچ ڈالا؟وہ کسی سمجھوتے پرتیار ہوئے ؟نہیں بلکہ سبق دیاکہ جنھوں نے اپنے فیصلے خودکرنے ہوں،جنھوں نے کل قیادت سنبھالناہو، وہ پیٹ سے نہیں دل اور دماغ سے سوچتے ہیں۔جو ان کی آزادی چھین لے ،ان کے لئے اس رزق سے موت اچھی۔ توگویا آزادی پسند ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گھاٹیوں میں مفلوج بیٹھ رہتے ہیں ؟جی نہیں ،قطعاًغلط !پیغمبرسے اگلاسبق سیکھئے !سب کچھ لٹاکے جب ہجرت کے ہنگام آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب مدینہ پہنچے تو میزبانوں کی آفروہ تھی کہ اس سے بڑی کوئی پیشکش تاریخ کے سینے پر نہیں ملتی۔ دومیں سے ایک باغ ،دوبیویوں میں جو پسند ہووہ بیوی ۔دو گھر وں میں سے ایک گھر لے لیجئے۔مگر مہمانوں نے اس سے زیادہ حیرت انگیز کردارپیش کیا۔کہامنڈی اور مارکیٹ کارستہ دکھادو اور بس ۔یہ منڈی پہنچے مگر مدینہ کی تنگ گلیوں سے گزرکرآتی ،وسطِ مدینہ میں واقع منڈی پر یہودی قابض تھے ۔نو واردوں کے لئے جن کے پاس کوئی جگہ نہ تھی۔یہاں رسول رحمتؐ نے مدینہ کی معاشیات کاپانسہ پلٹ دینے والافیصلہ فرمایا۔ کہا ہم مدینہ سے باہر اک نئی منڈی سجائیں گے ۔لوگ ہنسے مگر چند ہی دن گزرے تھے کہ ساری ہنسیاں ہواہوگئیں۔باہراونٹ ٹھہراکرکندھوں پہ مال لاد کر اندرکی منڈی تک لے جانے کے بجائے اب قافلے یہیں باہرباسہولت اترنے لگے ۔یوں یہ آباد ہوئی اور وہ منڈی برباد۔کل جگہ نہ دینے والوں کو آج نوواردوں کی دکانوں کے سامنے پھٹے اور کھانچے لگاکے بیٹھناپڑا۔دونوں واقعات کو جمع کرلیجئے ،سبق یہ ہوا:''مانگیں گے نہیں مگرہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھیں گے بھی نہیں!''آپ کویاد ہوگا اس سبق نے پھر روم وایران کی معاشیات اور تہذیبات کو غارت کرکے اپناعلم بلند کیاتھا۔
اب حال میں لوٹ آئیے!شام پرہونے والے ظلم پر سعودی عرب کواپنے حلیف امریکہ سے امید تھی ۔پوری نہ ہوئی تو ردِعمل وہ نہ تھاجو پاکستان جیسے کمزورمعیشت والے ملکوں کاہوتاہے۔اس وقت سعودی حکام پاکستان کی چھوڑی ہوئی سلامتی کونسل کی غیرمستقل نشست کے حصول کے لئے سر توڑکوشش کررہے تھے ۔مقابل بھارت تھااور پاکستان کی ہمدردیاں برادراسلامی ملک کے ساتھ تھیں۔
پھر عین اس دن جب یہ نشست سعود ی عرب جیت گیا اور خوشی سے سرشاراہلکار نے اپنے وطن فون کیا ۔حیرت کااس پر پہاڑٹوٹ پڑا۔اسے کہاگیاہم یہ نشست شام پرہونے والے ظلم کے خلاف احتجاجاًچھوڑ رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کی تاریخ کا یہ واحد واقعہ تھا۔سعودی اہلکار کے پیچھے ڈک چینی فرانس پہنچے کہ معاملہ سعودی عرب کا تھا،امریکہ کی معاشی رگوں میں جس کے تیل اور ریال کالہوبہتاہے ۔ تجزیہ نگار متفق تھے کہ نوگیارہ کے ہنگام اگر عرب اپناروپیہ نکال لیتے اور تیل سستا فراہم نہ کرتے، جیساکہ انھوں نے کیاتو امریکہ کے ڈیفالٹ کرجانے کاوہ بعدمیں آنے والامرحلہ ،جسے چین سے مزید قرض لے کر ٹالاگیا ،اسی وقت آجاتااور تب یہ ٹالے سے بھی نہ ٹلتا۔حج کے خطبہ میں امام صاحب نے ایسے ہی نہ کہہ دیاتھاکہ مسلمان غیرمسلم ممالک کے بینکوں سے اپناروپیہ نکال لیں۔ خیر سعودیوں کی بے رخی کے بعد امریکہ نے ایران سے پابندیاں اور دوریاں دونوں دورکردیں۔ایسے ہی ایران نے پاکستان کونہیں دھمکایاتھاکہ وہ اندر تک آکے اس کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔یہ ہے عالمی صورتحال جس سے آپ بچ نہیں سکتے ۔آ پ کو بہرحال کسی صف میں جانا ہوگا۔مگر بدترین بات یہ ہوگی کہ آپ اسے ڈالر نیچے لانے کانسخہ سمجھ کر اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرنے لگیں۔دو راستے پیغمبرکی سیرت نے ہمیں دکھائے تھے مگریہ تیسری راہ ہے۔ ڈرون کھاکے امریکہ سے ڈالر کمانے اور کبھی برادر ملک کی ڈارلنگ بن کے ڈالر اینٹھنے کی راہ ۔شام میں ضرورت ہے،ڈالر آچکے اور بھی آئیں گے۔مدد ہم کوکرناہی ہوگی ،فوج اگرچہ نہ جائے گی ،مگرطریقہ ہمیں آتا ہے ۔فوج بھیجے بغیر برادر ملک کی روس کے خلاف مدد کرنے کا تجربہ ہم کرچکے ہیں،اب یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔نئی بات یہ ہوتی کہ ہم ضمیر کی بناپر مظلوم کاساتھ دیتے ،وہ مگر نہ ہوا۔ایک کالم میں لکھاتھاکہ ڈالروں پہ جتنا شوراٹھا ہے ،معلوم ہوتاہے نیشنل ازم جاگ اٹھا ہے ۔نیشنل ازم نہیں ،نیشنل بینک سرکار !سالار سیاست دان اور تاجر سیاست دان کایہ فرق بھی خاصے کا ہے کہ اس نے غیرمسلم ملک کی مدد کی اور پیسوں کے لئے روتارہا،یہ برادر ملک کی مدد کریں گے مگر پیسے پہلے جیب میں پہنچ چکے ہیں۔
 
Top