• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حالات حاضرہ:حلب ‘کشمیر اور پاکستانی معاشرے میں معصوموں کا قتل آخر کب تک((ظفراقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
حلب ‘کشمیر اور پاکستانی معاشرے میں معصوموں کا قتل آخر کب تک؟؟
قارئین کرام :دلفریب وادیاں، مست فضائیں، بہتے جھرنے اور دلکشن نظارے بلاشبہ قدرت کا بے بہا عطیہ اور حسن ہے لیکن یہ حسن بچوں کی معصوم کلکاریوں کے بنا ادھورا ادھورا سا محسوس ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس آج کھلونوں سے کھیلنے والے یہ بچے وقت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ مسائل یا ہمارا نظام دونوں میں کوئی تو بات ہے جس نے قدرت کی اس خوبصورتی کو تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی یہ بچے کندھوں پر معاشی بوجھ اٹھائے معاشرے کی ناانصافیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے ہاتھوں میں ہم نے قلم کے بجائے اوزار پکڑا رکھے ہیں جب یہ معصوم جن کی ماتحتی میں کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی گالیاں اور ڈانٹ ڈپٹ سنتے ہیں تو دل میں نفرت ‘آنکھوں میں آنسوں لیے تخیلات کی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور کسی کونے میں منہ چھپائے اپنے غربت اور مجبوری کا ماتم کرتے اور معاشرے کی تلخیوں سے دلبرداشتہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کے کچھ بچے وقت اور معاشرے میں لوگوں کے رویوں سے تنگ آپنے زندگی مجرموں اور معاشرے کے برے افراد کے ہاتھوں فرخت کرنے کا فیصلہ کر دیتے ہیں جو ان معصوم کلیوں کی آبیاری ‘بدکاری ‘بدفعلی ‘ منشیات کی عادت ‘ چوری ‘ مکاری اور غنڈہ گردی کی صورت میں کرتے ہیں جب یہ پروان چڑھتے ہیں توقتل و غارت ‘ فساد ‘ ریپ اور ڈاکہ زنی ‘ اغواں کاری ‘ کی صو رت میں جو طوفان بتمیزی بھرپا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اخبارات ایسے واقعات کےعینی شاہد ہیں ۔پھر وہ معصوم قانون نافذ کرنے والے اداروں ‘ والدین‘ معاشرے اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کی علامت بن جاتے ہیں۔ 20نومبر بچوں کا عالمی دن تھا سیمینار منعقد ہوئے بلند و بانگ دعوے کئے گئے۔ بچوں کے حقوق کی باتیں ہوئیں کیونکہ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوا تھا، مگر میں نے اس سال بہت غور کیا کہ شاید میرے اردگرد بچوں کی یہ دنیا تبدیل ہو گئی ہے حقیقت کچھ نہیں بدلا ہوٹلوں، ورکشاپوں میں یہ معصوم بچے ”چھوٹے پپو“ کالو کے نام سے اپنے اصل نام بھلائے دن رات کی گردش کا ستم سہہ رہے ہیں ۔ ریڑھیاں سجائے اخبارات بیچتے پھولوں کے گلدستے ہاتھوں میں لئے حسرت سے سکولوں کو جاتے بچوں کو تکتے غربت اور وقت کے ہاتھوں مجبور زندگی گزار رہے ہیں۔ گھروں کی چاکری کرتی معصوم لڑکیاں اپنے معصوم اور ننھے منے ہاتھوں سے نیپی بدلتی یہ معصوم بچیاں خوابوں کی راکھ پر زندگی گزار رہی ہیں۔ پھر ہم کن بچوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ؟ ارباب اختیار سے صرف اتنی گزارش ہے ہمیں ہماری مسکراہٹیں لٹا دو ماؤں کو ان کے لخت جگر اور بہنوں کو ان کا پیار ‘باپ کو ان کا سہارا اور بھائیوں کو ان کے ویر واپس لا دد جو ملکی اور غیر ملکی خانہ جنگی کی نظر ہو گئے ہیں۔ جو کشمیر و برما اور شام کی نسل کشی میں فسادات میں مارے گئے جو پبلک مقامات ‘ ٹریفک اشاروں پر ہاتھوں میں کشکول لیے دو وقت کی روٹی کاسوال کرتے نظر آتے ہیں ۔میں جب حلب ‘مصر ‘ فلسطین اور کشمیری معصوموں کو خون میں لت پت زندگی کی بھیک مانگتے دیکھتا ہو تو شرم سے آنکھیں نم اور دل خون کے آنسوں رونے لگتا ہے ۔ جب میں غریب کے بچے کو صبح کا کھانا کھائے بغیر کارخانوں ‘فیکٹریوں‘ بٹھوں ‘ ورکشاپوں‘ اور سڑکوں پہ روزی کی تلاش میں نکلے معصوم بچوں کو دیکھتا ہو تو جیسے مرجائی ہوئی کلی کسی شاخ پر آپنے اختتام اور گرنے کے لمحات کی منتظر ہو چہرے پر آداسی ‘ آنکھوں میں آنسوں ‘ماتھے پر لاچاری کے اثرات نمایا ان معصوم بچوں کی غربت اور افلاس کی شکایت کر رہے ہوتے ہیں ۔شام کو ماں آپنے ان پھولوں کی واپسی کی منتظر گھر کی چوکھٹ پر دل میں بہت سارے ارمان لیے کھڑی ہوتی ہے کہ اسی انتظار میں رات کافی بیت جاتی ہے ‘ اس ماں کا لال ابھی کسی طرف سے بھی دیکھائی نہیں دیتا یہ ماں رب تعالیٰ سےخیر کی دعائیں کرتی ہے کچھ ہی دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ آپ کے معصوم کو کسی نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا ہے یہ ماں بیہوش ہو کر گر پڑتی ہے اور محلے کی عورتیں اس ماں کو دلاسا دیتی ہیں مگر اس ماں کے دل کو قرار نہیں آتا کچھ دیر ہی بعد جب اس کے پھول کی مسلی ہوئی لاش جب ماں کی آنکھوں کے سامنے لائی جاتی ہے تو جو قیامت بھر پا ہوتی ہے وہ ہر ماں جانتی ہے ۔دوسری طرف قاتل سرے عام گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں قانون کی نظر میں وہ بے گناہ تصور کیے جاتے ہیں اگر مقتول کے ورثا کے دباؤں سے ان کو گرفتار کر بھی لیا جاتا ہے توبرسوں بعد ان کو بے گناہ ثابت کر کے رہا کر دیا جاتا ہے کئی قاتل تو اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے چند ہی دنوں بعد رہائی پا جاتے ہیں مگر وہ ماں اپنے معصوم کے غم میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے اور انصاف شرمندہ خواب بن کر رہ جاتا ہے ۔
 
Last edited:
Top