• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حالات زندگی الشیخ حافظ مولانا عبد السلام فتح پوری ﷫((تحریر: ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حالات زندگی الشیخ حافظ مولانا عبد السلام فتح پوری ﷫
تحریر: ظفر اقبال ظفر
نام:
حافظ عبدالسلام بن میاں حبیب احمد
ولادت:
الشیخ حافظ عبد السلام بن میاں حبیب احمد ﷫ قیام پاکستان سے چار سال قبل 1944کو ہندوستان کے شہر ضلع حصار کی تحصیل سرسہ کے ایک گاؤں(دہلی ) میں پیدا ہوئے ۔چار سال کی عمر میں پیادہ اپنے خاندان کے ہمرا ہ ہجرت کر کے ہندوستان سےپاکستان آئے اور ضلع ملتان جو کہ بعد میں ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی کے جنوب میں ایک تاریخی گاؤں فتح پور میں آباد ہوئے۔گاؤں میں حضرت مولانا عبد السلام ﷫ کا کچھ موروثی زرعی رقبہ بھی موجود تھا ۔لیکن عاجزی ا ور انکساری کا یہ عالم تھا کہ کبھی مذکورہ زمین پرنہ اترائے اور نہ کبھی فخریہ انداز میں ۃکہا کہ میں انتے رقبہ زرعی زمین کا مالک ہوں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہیں اللہ چیز کا حقیقی مالک خیال کرتے تھے ۔
خاندان:
آپ کے خاندان میں والدین کے علاوہ دوبھائی(عبدالرحمن.........دوسرا.............)مولانا کے حقیقی بھائی مولانا عبد الرحمن ان کے ہم جماعت بھی تھے اور انہوں نے بھی علم و فضل میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔
ابتدائی تعلیم:
دستور زمانہ کے مطابق مولانا صاحب کو گاؤں(فتح پور ) کے گورنمنٹ پرائمری سکولمیں داخل کروا دیا گیا جہاں سے مولانا موصوف نے پنجم کلاس کا امتحان نمایا کامیابی سے پاس کیا ۔آپ کے اساتذہ کرام میں سے منشی محمد عارف صاحب نابغہ روزگار استاذہ کی فہرست میں شامل تھے جن کی خصوصی شفقت و محبت مولانا کے شامل حال رہی اور ان کی خصوصی توجہ سے مولانا تعلیمی سقم کودور کرنے میں اور امتحانات میں نمایا کار کردگی سے کامیاب ہوئے۔چونکہ آپ کا تعلق ایک دینی گھرانے سے تھا جس کی وجہ سے آپ کی طبعیت دینی تعلیم کے حصول کی طرف مائل ہو گئی ۔آپنے والد گرامی کی خواہش کے مطابق دونوں بھائی گاؤں (فتح پور) کی جامعہ مسجد (..........امام.........ناظرہ قرآن کی ابتدا ء کی ) والد گرامی کی خواہش تھی کہ میرے دونوں بیٹے دینی تعلیم سے بہرہ ور ہو جس کی وجہ سے مولانا مو صوف اور ان کے حقیقی بھائی عبد الرحمن ﷫ کو ایک دینی مدرسہ (...............) میں داخل کروا دیا گیا۔دینی تعلیم کا شوق انہیں اپنے آبائی گاؤں(فتح پور) سےپندرہ گلو میٹر دور خیر پور(میانوالی) ضلع بہاولپور لے آیا جہاں مولانا اپنے بھائی عبد الرحمن کے ساتھ مفتی محمد قادر جو مسلکی اعتبار سے دیو بندی تھے اور اپنے مدرسہ (...............) کے مہتمم تھے ان کے پاس ان کے مدرسہ میں داخل کروا دیا گیا۔مولانا نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز دس برس کی عمر میں کیا اس تعلیم سفر میں مولانا کے حقیقی بھائی مولانا عبد الرحمن اور ان کے ماموں زاد بھائی مولانا خوشی محمد اور مولانا عبد الغنی بھی ان کے شریک سفر تھے ۔ مولانا اور ان کے تینوں رفقا نے بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ علم حاصل کر کے اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔خیر پور میں تعلیم کا سلسلہ تیں سال تک جاری رہا ں بعد ازاں والد محترم نے مزیدتعلیم کے لیےاوڈاں والا ضلع فیصل آبادنزد ماموں کانجن تحصیل سمندری میں داخل کروا دیا جہاں پر مولانا موصوف اپنے رفقا کے ساتھ مولانا پیر محمد صادق اور مولانا محمد یعقوب خلیل ﷫ اور مولانا عبد الصمد ﷫ سےچار سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ماموں کانجن مدرسہ سے مذکورہ اساتذہ سے مشکوٰۃ شریف‘نسائی شریف اور ترمذی شریف کی تعلیک حاصل کی ۔
اعلیٰ تعلیم کی طرف پیش قدمی:
موموں کانجن سے چار سالہ تعلیمی دورانیہ مکمل کرنے کے بعد فاضل عربی کے لیے جہانیاں منڈی میں مولانا منظور احمد دیوبندی س ے زانوے تلمذ حاصل کیا ۔ دوران کورس ہی بہاولپور اسلامی یونیورسٹی جس کا مکمل نام (جامعہ حقانیہ )تھاوہاں پر ایم اے اسلامیات کی غرض سے داخل ہوئے ۔ اس دوران مولانا عبد الرشید نعمانی ﷫ ‘مولانا شمس الحق افغانی اور حامد سعید کاظمی کے والد گرامی احمد سعید کاظمی سے بخاری شریف کی تعلیم حاصل کی ان کے ہمرا ہ مولانا عبد الرحمن اشرفی‘مولانا فضل رحیم اشرفی ‘الشیخ عبد العزیز علوی حافظہ اللہ تعالیٰ جیسے ہونہار طلباء کا مولانا موصوف کو ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ادھر مولانا صاحب نے ایم اے اسلامیات کا امتحان بھی نمایا پوزیشن میں حاصل کر لیا ۔1960ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخل ہوئے اور محدث العصر حافظ محمد گوندلوی ﷫ سے بخاری شریف کی تعلیم مکمل کی اوراس کے ساتھ ساتھ مولانا نے مسلم شریف‘سنن ابی داودکی تعلیم بھی کی اس کے ساتھ اساتذہ کرام سے حجۃ اللہ البالغہ بھی عبور حاصل کیا ۔اس تعلیمی دورانیہ میں مولانا موصوف کے ساتھ الشیخ عبد السلام بن محمد (بھٹوی) صاحب‘الشیخ حافظ بنیامین اور جامعہ تعلیم الاسلام کے شیخ الحدیث مولانا علی محمد صاحب کی رفاقت نصیب ہوئی اور ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل رہا۔
بعد ازاں1962ء میں جامعہ قدس چوک دال گرا نزد ریلے اسٹیشن لاہور میں داخل ہوئے یہاں بہت سے نئے رفقا سے متعارف ہوئے حافظ عبد الرحمن مدنی (بانی :جامعہ رحمانیہ لاہور )مولانا ثناء اللہ خان مدنی حافظہ اللہ تعالیٰ ‘عبد القادر روپڑی قابل ذکر ہیں ۔چوک دال گرا میں مولانا نے محدث العصر استاذ العلماء مولانا عبد اللہ محدث روپڑی ﷫ سے بخاری شریف تعلیم حاصل کی ۔اسی دوران مولانا موصوف نے اپنے طور پر قرآن پاک مکمل حفظ بھی کرلیا ۔اور ہر رمضان نماز تراویج میں اپنے ہی گاؤں فتح پور میں قرآن پاک سنانے کا شرف حاصل کیا ۔

درس و تدریس:
آ پ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریس کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں تین سال تک ترمذیشریف‘تفسیر جلالین وغیرہ کی تعلیم دیتے رہےان کے شاگردوں میں ارشاد الحق اشرفی صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اور اس کے ساتھ کئی سال جامعہ سلیمانیہ جس کے بانی (حکیم محمد عبد اللہ روڑی)تھے ان کی خصوصی شفقت سے ان کے مدرسہ میں جو دین پورہ میں تھا درس و تد ریس کا کام بھی سر انجام دیتے رہے۔بعد ازاں حکیم محمد عبد اللہ صاحب جب دینی مدرسے(.............) جہانیاں منڈی منتقل ہوئے تو مولانا صاحب کو بھی اپنے ساتھ جہانیاں منڈی لے گئے کیونکہ مولانا کو حکیم صاب اپنا بیٹا ہی خیال کرتے تھے اور ان کا پیار اور شفقت ہر وقت مولانا موصوف کے شامل حال رہی ۔14 سال تک مولانا موصوف جہانیاں منڈی میں مسلسل درس تدریس میں مشغول رہے ۔اس کے بعد 1980ء کو کوٹ ادو ضلع مظفرگڑھ میں ایک سال تک تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔اس کے بعد استاد محترم مدرسہ معھد الشریعہ میں بطور مہتمم اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
مطالعہ کا شغف اور علم سےمحبت
علم سے وابستگی اور دوستی کی عکاسی ان کی ذاتی لائبریری سے ہوتی ہے جو کتابوں کی تعداد ان گنت ہے بس ایسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک کمرہ ہے جس کا طول و عر ض 12ضرب 22 فٹ ہے اس میں شلفیں بنی ہوئی ہیں اور تمام شلفیں کتب سے بھر پور ہیں واضع رہے کہ تمام کتب مولانا موصوف نے ذاتی طور پر خرید رکھیں تھیں ۔رمضان کے مہینے میں بلا تفریق مسلک فتح پور کی تمام مساجد میں جا کر قرآن پاک سناتے اور دروس دیتے رہے ۔
شرعی قاضی (شرعی جج) کاکورس
صدر پاکستان و جنرل ضیاء الحق کے منصوبہ ’’پانچ سو علوم اسلامیہ سے وابسطہ علماء بورڈ تشکیل دینا اور دو سو علماء کا بطور شرعی ججز تقرر کرنا تھا ۔ اس پروگرام کے تحت 99 جے بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور میں مولانا عبد الرحمن مدنی ﷾(مہتمم:جامعہ لاہور الاسلامیہ’’رحمانیہ‘‘ کہ ہاں دارالقضاء ماڈل ٹاؤن سےشرعی ججز کا کورس مکمل کیااور دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ دارالقضاء میں بیس لوگ منتخب ہوئے جن میں مولانا موصوف کا نام قابل ذکرہے۔مگر ضیاء الحق کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل سے ہمکنار نہ ہو سکا لیکن اسی دوران مولانا عبد السلام فتح پوری صاحب کا تقرر بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج منڈی بہاؤ الدین ہو گیا ۔ ابھی چار ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ کا السعودیہ یونیورسٹی ریاض( سعودی عرب)داخلہ ہوگیا جس پر والدہ کی مشاورت سے لیکچرار کے عہدے سے دستبدار ی اور مستعفی ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے سعودی عرب روانہ ہو گے ۔

سعودی عرب روانگی:
جملہ عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا کے مصداق مولانا مرحوم کا داخلہ جب السعودیہ یونیورسٹی سعودی عرب ہوا تو والدہ کے مشورے اور ان والدکی اجازت سے لکچرار کے عہدے سے مستعفی ہو کر دنیاوی شہرت کو خیرآباد کہہ کر 1981ء سے 1986ء تک ریاض میں پڑھتے رہے۔ اسی دوران ان کے ساتھ پاکستانی طلبہ میں سے امیر المجاہدین جماعت الدعوۃ کے سر براہ پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب ‘ جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنما پروفیسر ظفر اقبال صاحب ‘ مولانا شریف صاحب فیصل آبادی‘نجیب الرحمن کیلانی قابل ذکر ہیں ۔ مذکورہ اپنے ہم عصروں کی رفاقت میں شب و روز گزارنے اور خدا تعالیٰ کی خاص مہربانی سے اپنے تعلیم دورانیہ کو بڑی محنت اور جفا کشی کے ساتھ گزار کر 1986ء کو وطن واپس پہنچے ۔
وطن واپسی اور جامعہ لاہور الاسلامیہ میں قیام
1986ء میں سعودی عرب سے فراغت کے بعد مدیر الجامعہ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ کے مشورے سے91 بابر بلاک نیو گارڈن ٹاؤن لاہورمیں واقع جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں تدریس کی غرض سے تشریف لائے اور2012ء تک اپنی تدریسی خدمات تقربیاَ27 سال پر محیط سلسلہ جاری رکھتے ہوئے شدید علالت کی صورت میں اپنے گھر فتح پور میلسی میں واپس تشریف لے گئے جیسے اپنی زندگی کے آخری ایام کا یقین محکم کے اب شاید لاہور واپسی ممکن نہ ہو سکے اس لیے جب کی کوئی لاہور آتا تو سلام ضرور بھیجتے اور دعاؤں کی درخواست کرتے ۔اس دوران سوموار اور جمعرات کو مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ ملتان چونگی لاہور میں بچیوں کو بخاری شریف کی تعلیم بھی دینے جاتے اور فرماتے کہ حدیث رسول ﷺٰ کے مطابق ان دو دنوں میں اللہ کے پاس بندوں کے اعمال پیس کیے جاتے ہیں میری خواہش ہے کہ جب میرے اعمال پیش ہو تب میں حدیث نبوی کی خدمت میں مصروف ہو اور یو اللہ تعالیٰ کی رحمت و سعادت میرا نصیبہ ٹھہرے۔
حج و عمرہ کی سعادت
مولانا مرحوم نےسعودی عر ب جانے سے قبل 1973ء میں اپنی فیملی کے ہمراہ 32 افراد پرمشتمل گروہ کے ساتھ مل کر بحری جہاز کے ذریعے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ۔بعد ازاں جب سعودی عرب داخلہ ہو گیا تب دوسرے اور تیسرے حج کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ماہ تقریباً 3 سے 4 عمرے کرتے یوں مولانا مرحوم کی ایک ڈائری پر لکھے عمروں کی تعداد 117 اور اپنی والدہ اور رفیقہ حیات کے ساتھ 1992ء میں کیے جانے والے حج بیت اللہ کو شامل کرنے سے 4 حج کیے ۔
شادی خانہ آبادی
مولانا مرحوم کی 2 شادیاں ہوئی تھیں۔ پہلی شادی اپنے چچا ولی محمد کے گھر ہوئی پہلی بیوی کے بطن سے مولانا کے ہاں ایک بیٹا حافظ محمد عباس اورایک صاحبزادی پیدا ہوئے۔حافظ محمد عباس نے درس نظامی کی تعلیم جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن سے حاصل کی اور شہادت العالمیہ کی سند (وفاق المدارس سلفیہ ) فیصل آباد سے حاصل کیاور فیصل آباد بورڈ سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا ۔فراغت کے بعد حافظ محمد عباس صاحب فاضل عربی معلم مقرر ہوئے اور آج کل گورنمنٹ بوائز ہائی سکول فتح پور تحصیل میلسی ضلع وہاڑی میں او ۔ ٹی ٹیچرز کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔کچھ عرصہ بعد پہلی رفیقہ حیا ت مالک حقیقی سے جا ملیں تو ان کے بعد مو لانا مرحوم کی دوسری شادی ماموں کے گھر ہوئے جس کے بطن سے قاری احمد وقاس صاحب پیدا ہوئے ۔جو کہ مولانا مرحوم کے پاس جامعہ رحمانیہ لاہور میں ہی داخل ہوئے جہاں سے قاری وقاص صاحب نے حفظ القرآن ‘تجوید ‘ قراءات اور درس نظامی کی تعلیم مکمل کی۔اس ساتھ ہی مولانا وقاس صاحب نے وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد سے شہادت العالمیہ میں نمایا کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 600 نمبروں میں 574 نمبر حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل اور اس وقت کے سینیٹر میاں محمد سومروں کےبدست اعزازی سند بھی وصول کی ۔
شاگرد ان رشید
مولانا مرحوم سے قرآن و سنت کی تعلیم کا فیض حاصل کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد دنیا کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔جوکہ درس و تدریس سے لے کر خط و کتابت اور خطابت و تبلیغ دین میں ہما تن مشغول ہیں ۔
مولانا کی طبیعت اور مزاج مباک
مولانا مرحوم انتہائی خوش مزاج اور نرم دل تھے ۔ دم و درود اور جادو وغیرہ کا شکار لوگ یکے بعد دیگرے استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض حاصل کرتے اور مولانا دم فرما نے کے بعد کہتے کہ ہمارا کام ہوگیا اب شفا اور تدرستی کا مالک اللہ ہے اللہ اپنے فضل سے آپ کو شفاء عطا فرمائے ۔ استاد محترم جب بھی اصبوعی پروگرام میں تشریف لاتے تو مختلف اشعار سے اپنی کلام کلام کا آغاز کرتے اور پھر دعظ و نصیحت کی ایسی مالا پروتے جاتے کہ برم ادب کی نحوست اور اکتاہٹ منہ چھپائے جائے وقوعہ سے رخصت ہو جاتی ۔مولانا مرحوم کا طلبہ کے ساتھ لگاؤں اور شفقت اس قدر تھی کہ طلبہ استاد محترم کے پرسنل کمرے میں تشریف لے جاتے اور خوب ہنسی مذاق ہوتا اس کے علاوہ جب بھی کسی طالب علم کو رات مطالعہ میں کو مسئلہ فقہی ہو یا نحوی وہ مسئلہ صرف سے تعلق رکھتا ہو یا اصول فقہ سے ‘ تفسیر و اصول تفسیر کے متعلقہ ہوتا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کمرے میں جا مسئلہ سمجھتے اور مولانا مرحوم جب تک طالب علم کی تسلی نہ ہو جاتی وضاحت کرتے جاتے ۔

طلبہ کے ساتھ وابستگی
مولانا اپنے لیے کھانا اپنے کمرے میں الگ منگوا لیتے اور خدمت والے طالب علم کے ساتھ بیٹھ کر اپنے ہاتھو ں سے خود کھانا ڈال کر دیتے ۔رات اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی طالب علم لیٹ آتا اور بھول کی وجہ سے روٹی کی تلاش کے لیے نکلتا تو سب سے پہلے استاد جی کے کمرے کا رخ کرتا اور جو میسر ہوتا مرحوم حاضر کر دیتے ۔
اس کے علاوہ مولانا مرحوم کا طلبہ سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی کسی طالب علم کو مالی ضرورت ہوتی تو وہ مولانا مرحوم کا رخ کرتا (داخلہ فیس‘کرایہ ‘ دوائی وغیرہ اور اس کے علاوہ کسی بھی ایمر جنسی کی صورت میں کوئی ضرورت پیش آتی تو مولانا خصوصی شفقت سے مالی تعاون میں کوئی کمی نہ چھوڑتے ۔چھٹیوں کے موقع پہ کثیر تعداد میں طلبہ استاد محترم سے قرض حسنہ کے طور پر کرایہ وصول کرتے جس کا راقم الحروف آئینی شاہد ہیں جو برائے ر است اس شفقت سے مستفید ہوئے ۔

خشیت الہی اور عبادت گزاری
اللہ تعالیٰ کا خوف اور عبادت میں خشوع و خضوع ان کی فطرت ثانیہ تھی۔شب بیداری کا عالم یہ تھا کہ ذوق عبادت کو نیند پر تر جیح دیتے تھے دیتے تھے۔حافظ محمد گوندلوی ﷫ کی وفات پر ان کی حالات زندگی پر ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا(حافظ قرآن بہت دیکھے ہونگے مگر حافظ نماز بہت کم ہونگے )مولانا مرحوم نماز کی حفاظت کے میں اپنے اس مضمون کی عملی تصویر تھے ۔حالت یہ تھی کہ رات ایک بجے ہی اٹھ کر نماز تہجد ادار کرنے کے بعد ذکرو اذکار میں مشغول ہو جاتے اور کہتے کہ سو جانے سے نماز فجر کے فوت ہونے کا ڈر ہوتا ہے اس لیے میں ذکرو اذکار میں مشغول ہوجاتا ہوں۔
وقت اور نظم و نسق کی پابندی
جامعہ میں جب بھی کوئی چھٹی ہوئی تو اکثر اساتذہ اور طلبہ لیٹ آنے اور غیر حاضری کی وجہ سے جرمانے اور کٹوتی کے مرتکب ہوتے مگر مولانا مرحوم کئی دفعہ حاضری رپورٹ میں سال میں ایک بھی غیر حاضری نہ ہونے کی وجہ سے جامعہ کی طرف سے انعام پانے والوں میں سر فہرست تھے ۔آپ جہاں بھی ہوتے عید الفطر اور عید الاضحیٰ اپنے گاؤں فتح پور ضلع میری میں پڑھاتے ۔
تقویٰ اور پرہیزگاری
مولانا موصوف نماز کی پابندی‘نفل ونوافلکا خصوصی اہتما ماور موت کا فکر ‘وقت کی پابندی‘اسباق کی تیاری کا یہ عالم تھا کہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے مطالعہ کیا جاتا زندگی کے آخری ایام تک یہی ذوق جاری رہا ۔مولانا فرمایا کرتے تھے کہ جوانی میں نیک اعمال کرلو پڑھاپے میں پچھتاوا نہ ہو کے میں کوئی نیکی نہیں سکا ۔یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ زندگی ایسے گزاروں جس میں رضائے الہی شامل ہو ۔سامان زیست اور عیش و عشرت ایسی ہو جو حصول رضائے خداوندی کا ذریعہ ہو اور جب اس دنیا سےرخصت ہوں تو اللہ مجھ پر راضی ہو اور جب دار فانی سے کوچ کروں تو لوگ تمہارے فراق پر اشکبار ہوں اور نیکیوں ہمیشہ یاد رکھا کریں اور ان میں اضافہ کی پلانگ کیا کریں ۔آپ کی جوانی فارسی کے اس شعر کی مصداق ہو ۔
شعرو شعری
شعر
: نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں
شعر: خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلم نہیں تو کچھ بھی نہیں
شعر: در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار
عاجزی و انکساری
استاد محترم کی عاجزی کا عالم یہ تھا کہ غالباً2011ء کی بات ہے مغرب کی نماز سےلیٹ ہونے والے طلبہ کو قاری محمد شفیق زاہد صاحب سزا دیا کرتے تھے اور ایک دین راقم الحروف استاد محترم کے ساتھ نما ز میں لیٹ ہو گئے تو نماز کے فوری بعد سابقہ روٹین کے مطابق قاری صاحب نے نماز سے لیٹ ہونے والوں کو کہا کہ باہر سہن میں لائن بنا لیں راقم الحروف بھی لائن میں کھڑے ہونے کے لیے آگے بڑھے تو استاد محترم عبد السلام فتح پوری صاحب بھی راقم الحروف کے ساتھ لائن میں کھڑے ہو گے ۔قاری شفیق صاحب جب ہر کسی سے پوچھتے آگے بڑے تو دیکھا کہ مولانا مرحوم بھی میں کھڑے ہیں مولانا قاری صاحب کو دیکھ کر آگےبڑےھے تو فرمانے لگے کے میں بھی نماز میں لیٹ ہو گیا تھا مجھے بھی سزا دیں ۔استاد جی کا یہ کہنا تھا تو قاری صاحب نے سب کو بغیر سزا دیے چھوڑ دیا یوں اس دن راقم الحروف سزا سے بچ گئے ۔
دولت و ثروت
مولانا مرحوم کے نام چودہ ایکڑ زرعی زمین تھی جو ان کے بیٹوں نے جب بھی زمین کے متعلق پوچھا تو مولانا مرحوم بہت ہی خوبصورت جواب دیتے کہ نہ میں نے کوئی زمین بیچی ہے نہ میں نے کوئی خریدی ہے جو بھی کاغذوں میں ہے وہ ہی ہے مجھے اس سے زیادہ کوئی علم نہیں ہے ۔میں نے زمین کی طرف کبھی توجہ اس لیے نہیں دی کہ یہ حدیث رسول ہمیشہ میرے سامنے رہتی تھی ۔
حدیث مبارکہ :
’’تم زمینوں سے محبت نہ کرو ورنہ اس میں راغب ہو جاؤ گے ۔‘‘

مختلف تحریکوں میں شمولیت

مو1976ء/1977ء میں سے آپ نے مختلف تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن میں (تحریک نظام مصطفیٰ ‘مرکزی جمعیت کی کابینہ کے رکن بھی رہے ‘افغان جہا ن میں بھی کافی دلچسپی تھی اور افغانستان سے جہادی ٹرینیگ بھی کررکھی تھی ۔دور حیات میں ہر وہ کام جو انسانی ہمدردی اور انسانی مفادات و خیر خواہی پر مبنی ہوتا بھر پور شرکت کرتے اور تعاون بھی کرتے ۔علم دوست اور انسان دوسیت ہونے کے ناطے تمام عمر خدمت انسانی میں صرف کر دی ۔
آخری ایام:
حافظ محمد عباس جوکہ مولانا صاحب کے بڑے بیٹے ہیں جن کا ذکر اس سے قبل ہوچکا ہے مولانا مرحوم موصوف کی خدمت کا موقع ملا ۔حافظ عباس صاحب نے تقریباً اڑھائی سے تین سال تک مولانا مرحوم کی خدمت میں مصروف رہے اور ان کی دعاؤں اور نصیحتوں اور علوم سے فیض یاب ہوئے ۔مولانا موصوف شوگر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے اور آخری ایام میں ان کا جسم بہت ہی لاغر اور کمزور ہوگیا تھا ۔بڑھاپا بذات خود ایک مرض ہے اس میں کئی طرح کی بیماریا جنم لیتی ہیں کمزوری اور لاغری کے باوجود آپ نے پابندی سے نماز یں پڑھیں اور حافظ عباس صاحب والدہ محترم کو مسجد تک لانے میں ان کے مدد گار ہوتے ۔جوران علالت زیادہ تر وقت مطالعہ میں گزرتا تھا ۔
وفات :
مولانا موصوف جملہ صفات کے حامل انسان اور اسم با مسما شخصیت کے حامل 21 نومبر 2015ء بروز ہفتہ کو مالک حقیقی سے جا ملے ۔ ان للہ وانا الیہ راجعون
مولانا موصوف نے دار فانی سے رخصتی سےدو دن قبل یعنی بروز جمعرات مورخہ 19 نومبر 2015ء کو حجامت بنوائی ‘نہائے اور کہا میں نے جمعہ کی تیاری کر لی ہے دوسرے روز نماز جمعہ ادا کی اور بالترتیب ۔عصر ‘مغرب ‘ عشاء کی نمازبھی ادا کی ۔ اگلے روز یعنی ہفتے کے دن نماز فجر با جماعت ادا کی اور وطائف اور ذکرو اذکار میں مشغول ہو گئے ۔اس کے بعد ایک روٹی ‘ایک گلاس پانی اور ایک کپ چائے سے ناشتہ کیا ۔ ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے آرام فرمایا اور قضائے حاجت کے لیے گئے ۔ قضائے حاجت کے بعد تین دفعہ تصلی کے ساتھ ہاتھ دھوئے ۔ہاتھ دھونے کے بعد اچانک طبعیت خراب ہو گئی جلدی سے صوفے پرآکر بیٹھ گئے اور کہا میری سانس رک رہی ہے افراد خانہ جمع ہو گئے اور ڈاکٹر کو بلانے کا مشورہ ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب آئے اور ڈرائیور بھی کار لے کر دروازے پر پہنچ گئے ۔افراد خانہ کو جمع دیکھ کر کچھ مولانا موصوف کچھ پڑھنے میں مصروف ہو گے ۔بس پھر دو سے تین سانس لیے اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔وفات سے ایک ہفتہ قبل اپنے چھوٹے بیٹے وقاص احمد کولاہور روانہ کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسولے آئے اور فرمانے لگے جاؤبیٹا اللہ آپ کی حفاظت فر مائے شاید آپ کی اور میری یہ آخری ملاقات ہو کیونکہ پانی آخری کیاری تک پہنچ گیا ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ بیٹا جب بیر پک جائے تب اسے ٹہنی سے جدا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
مزید فرمانے لگے کہ بیٹا رقاض لاہور جا کر جامعہ رحمانیہ جاکر تمام اساتذہ کرام اور طلبہ کرام کو میرا سلام کہنا کیوں کہ میں بذات خود اب لاہور نہیں جا سکتا ۔وقاص بھائی کو ابھی ایک ہفتہ لاہور پہنچے نہیں ہوا تھا کہ فون کی بل بجھی اور کہنے والے نے کہا کہ والد محترم انتقال کر گئے ہیں یہ جملہ سننا ہی تھا کہ آنکھیں نم ہو گئیں اور والد کی جدائی گویا میری دنیا ہی لٹ گئی ۔آخر جلدی سے دوبارہ واپسی کی تیاری کی اور گھر پہنچے تو آہوو اور سسکیوں سے فتح پر کی فضا گونج رہی تھی اور اس وقت فتح پور تھا کہ دنیا دوڑتی ہوئی اس کی طرف یوں بڑھ رہی تھی گویا جیسے گوئی گمشدہ میراث کسی کو اچانگ مل گئی ہو ۔

مولانا مرحوم کے متعلق اہل علم کے تاثرات
حافظ غلام اللہ محمدی میلسی(امیر مرکز جمعیت اہلحدیث ضلع وہاڑی)

محترم الشیخ حافظ عبد السلا م فتح پوری کا شمار ان علماء کرام میں ہوتا تھا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
’’انما یخش اللہ من عبادہ العلماء‘‘
آپ ایک عظیم علمی شخصیت کے ساتھ ساتھ ہل تقویٰ کی صفات حمیدہ سے بھی متصف تھے ۔فرض نمازوں کے ساتھ نوافل اور ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن کیا بھی خاص خیال رکھتے تھے ۔ایک مرتبہ مسجد التوحید میلسی میں بروز جمعہ نماز عصر ادا کی تو مجھے ملے اور فرمانے لگے آپ سے محفل بعد یں سجائیں گے مجھے سورہ کہف کی تلاوت کے لیے کچھ وقت دیں دیں ۔پھر مسجد میں ایک کونے میں بیٹھ کر سورہ کہف کی تلاوت میں مشغول ہو گے ۔
طبعاً خوش مزاج تھے گفتگوں میں اکثر تبسم مولانا کا خاصہ تھا ۔انتہائی ملن سار تھے جس کسی سے ملاقات کرتے تو مسکراہٹ چہرے پہ ضرور ہوتی گو یا چہرہ اور مسکراہٹ میں کبھی جدائی تصور ہی نہیں کی جا سکتی ۔نجی محفل میں خوش طبعی مولانا مرحوم کی طبیعت میں کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔مگر خوش طبعی اور مزاح میں بھی کبھی جھوٹ ‘غیر اخلاقی بات ‘غیر شرعی بات نہ کرتے ۔
مولانا سے بہت زیادہ محبت تھی اور میں نے ان کی شخصیت میں بھی اپنے لیے کافی چاہت محسوس کی اکثر فتح پور سے لاہور جاتے ہوئے یا لاہور سے فتح پور آتے ہوئے میرے پاس میلسی ضرور ملاقات کے لیے تشریف لاتے ۔ اس کی وجہ بھی ان کی علم دوستی اور مطالعہ کا ذوق تھا میں اکثر مولانا موصوف سے علمی استفادہ کرتا تھا چونکہ میں ایک کاروباری آدمی تھا اس لیے عصر حاضر کے معاشی معاملات کی شرعی حیثیت پر ان سے سیر حاصل گفتگو ہوتی اور مولانا مرحوم بھی دلائل کتابو سنت اور فقیہانہ بصیرت کے ساتھ میری تشفی فرماتے تھے ۔کتاب و سنت پر مبنی مسلک اہل حدیث سے والہانہ محبت کرتے تھے ۔میرا دیوبندی سے اہل حدیث ہونے میں وہ بھی مولانا بہاولپوری سے وابستگی کی قربت اور تربیت کی وجہ سے بھی میری ساتھ ان کی دلی وابستگی زیادہ تھی ۔کیونکہ خود مولانا عبد اللہ بہاولپوری سے مولانا کی بڑی محبت تھی ۔
میلسی میں مسلک اہلحدیث کی تحریک کی مرکزی مسجد التوحید اہلحدیث کی بنیاد 1990ء کے قریب حافظ عبد اللہ بہاولپوری ﷫ نے رکھی لیکن اس کی تعمیر و تکیل مولانا عبد السلام فتح پوری صاحب نے کی ۔ مجھے یاد ہے کہ جب انہوں نے اپنی ذاتی علمی شہرت کو نظر انداز کرتے ہوئے فتح پور میں اور جہانیاں منڈی میں جماعتی احباب کے دروازے پر مجھے ساتھ لیکر دستک دی اور مسجد التوحید کے لیے فنڈ اکٹھا کیا ۔پلاٹ کی خریداری میں بھی خاصہ تعاون کیا اور مجھے ساتھ لے کر الشیخ محمد شریف چنگوانی صاحب کے ادارہ ملتان پہنچے اور ان سے کہ کر مسجد التوحید کی تعمیر کروائی ۔ اس کے بعد اکثروبیشتر میلسی میں مسجد التو حید میں تشریف آوری بھی ہوتی اور نئے اہل حدیث ہونے والے حضرات کی کتاب و سنت کی روشنی میں تربیت کرتے اور مخالفین کا رد کرتے ہوئے مسلک اہل حدیث کی حقانیت واضح کرتے ۔محترم مرحوم مرکزی جمعیت اہل حدیث سے وابستگی بھی رکھتے تھے دسمبر 2014ء ضلع وہاڑی میں جماعتی انتخاب کے لیے اجتماع ہوا تو مولانا فرماتے لگے مولوی حضرات پر بہت زیادہ اعتماد نہ کرنا کیوں کہ یہ لوگ حلف کی حد تم عہدوپیمان کرتے ہیں اور معمولی مفاد کی خاطر یہ کہ کر عہد رد کر دیتے ہیں کہ کوئی گل نئی عہد کا کفارہ ادا کر دیں گئے ۔
مرحوم اپنی ذات میں ایک تحریک ‘ ایک انجمن تھے ۔پاکستان بھر میں جماعتی حلقوں میں میلسی کے چھوٹے سے گاؤں فتح پور کا تعارف مولانا مرحوم کی وجہ سے ہی تھا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ مولانا کی مغفرت فرمائے ‘ورثا کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریا بنائے۔آمین
دعا گو:حافظ غلام اللہ محمدی میلسی ضلع وہاڑی ۔
رائے عثمان عباس (فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ’’رحمانیہ‘‘)
شیخ التفسیر، استاد گرامی قدر، مولانا عبدالسلام فتح پوری رحمہ اللہ، ایک عھد، ایک شخصیت
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا ہے، اسے واپس لوٹنا ہے اور دار فانی سے دار الخلد کی طرف کوچ کرنا ہے لیکن کچھ لوگ ایک بندہ یا ایک شخص ہی نہیں بلکہ ایک شخصیت اور ایک انجمن کے مالک ہوتے ہیں، وہ خزاں میں بہار ہوتے ہیں، یہی استاد گرامی کی چند صفات تھیں
بہت عمدہ مزاج کے مالک، بہت اچھے اور منجھے عالم دین، منکسر المزاج، خوب صورت اور خوب سیرت، طلباء سے انتہا درجہ کے مشفق، بہت عمدہ مدرس، تفسیر القرآن سے انتہا کا شغف رکھنے والے استاد گرامی قدر تھے
جب راقم الحروف 2008 میں جامعہ رحمانیہ میں داخل ہوا تو اس وقت استاد محترم سے ملاقات ہوئی، پھرجب ڈیڑھ سال بعد پہلی چار کلاسز مرکز البیت العتیق شفٹ کردی گئیں تو استاد گرامی قدر بھی وہاں تشریف لے گئے
راقم الحروف کو رابعہ ثانوی (درس نظامی کا چوتھا سال)میں ترجمہ قرآن پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، یہ استاد گرامی کا باقاعدہ تدریس کا آخری سال تھا، کیا لطف اور کیا حسن تھا اس پریڈ میں کہ ناظرہ بھی سنتے، ترجمہ بھی سنتے، صیغے بھی باقاعدہ لکھ کر چیک کروانے کے لیے دیتے، تفسیر بھی بیان کرتے اور برکت اتنی کہ پریڈ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا،،، اللہ اکبر۔
اسی طرح راقم الحروف ان چند طلباء میں شمولیت کا شرف حاصل ہے جو استاد گرامی کی خدمت کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے، دوران خدمت بہت عمدہ اور وقیع علمی لطائف اور قواعد سے ذہن تروتازہ رکھتے اور کبھی تھکان کا نام بھی نہیں ہوتا تھا۔
انتہائی طبع ناسازی اور طبیعت کی خرابی کے باوجود کبھی نماز سے تاخیر یا تہجد میں کوتاہی نہیں دیکھی تھی
طلبہ علم کو بھی ہمیشہ نماز، تہجد، اشراق اور تقوی کا درس دیتے رہتے تھے۔
راقم الحروف نے استاد گرامی قدر سے قبل بھی کئی اساتذہ سے ترجمہ قرآن پڑھا اور بعد میں بھی ایک استاد سے ترجمہ قرآن پڑھا لیکن جو لطف اور جو انداز اللہ نے استاد گرامی قدر کو عطا کیا تھا وہ کسی اور میں نظر نہیں آیا
آہ! آخر کار یہ علم کا حسین مینار، استاد گرامی قدر 21 نومبر 2015 کو اس دار فانی سے دار الخلد کوچ فرما گئے۔
اللہ استاد گرامی قدر کو جنت الفردوس میں عمدہ جگہ عطا فرمائے
یہ حقیقت ہے ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا علم وتعلم کے میدان میں وہ آج تک پُر نہیں ہوسکا
اسی لیے تو عربی کا مشہور مقولہ استاد گرامی پہ مکمل صادق آتا ہے
موتُ العالِم موتُ العالَم
راقم الحروف: رائے عثمان عباس ،لاہور
 
Top