• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حالت نماز میں قرآن ہاتھ میں پکڑ کر قراءت کا حکم

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حالت نماز میں قرآن ہاتھ میں پکڑ کر قراءت کا حکم

أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر​
نماز کے دوران حالت قیام میں مصحف کو ہاتھ میں اٹھا کر نماز پڑھنے کا مسئلہ آجکل بہت معرکۃ الآراء ہے ۔ بہت سے اہل علم بعض موقوف روایات سے استدلال کرکے اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں , جن میں سے محترم غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب(اللہ انہیں مصطفى کی غلامی میں ظہیر حق بنائے اور جنت کے امن پور میں ہمیں انکے ساتھ جمع فرمائے ۔آمین ) نے ماہ اگست کے مجلہ السنہ میں ایک طویل مضمون اسکے جواز میں لکھا ہے جس میں انہوں نے موقوفات و مقطوعات کا سہارا لیا ہے اور موصوف کا خیال ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ الخالق تک اسکے جواز پر اجماع ہے , جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ مصحف کودوران نماز ہاتھ میں تھامنا کسی موقوف روایت سے بھی ثابت نہیں ہے ہاں اسقدر ضرور ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں کسی تابعی نے دوران نماز مصحف سے دیکھا ہے , لیکن حالت نمازمیں مصحف اٹھانا وہاں بھی ثابت نہیں ہوتا ہے , اور عین ممکن ہے کہ انہوں نے مصحف اپنے پہلو کے پاس قریب ہی رکھا ہو اور بوقت ضرورت اس سے دیکھ لیا ہو اور اجماع کا دعوى بھی باطل ہے کیونکہ اس دور میں بھی اس امر کی مخالفت کرنیوالوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔
یعنی یہ دو مختلف موضوعات ہیں
  1. حالت نماز میں مصحف اٹھانا
  2. حالت نماز میں مصحف سے دیکھنا
اور دنوں ہی عمل صحیح نہیں ہیں , اس مضمون میں پہلے ہم عدم جواز کے دلائل ذکر کریں گے اور اسکے بعد موصوف نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان پر تبصر و رد کیا جائے گا اور پھر اسکے علاوہ چند معروف دلائل کا رد کرکے آخر میں بحث کا خلاصہ و نتیجہ پیش کیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ تعالى۔
حالت نماز میں مصحف اٹھاکر قراءت کرنا رسول اللہ ﷺکی حکم عدولی ہے
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (صلوا کما رایتمونی اصلی) نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
(صحیح بخاری کتاب الأدب باب رحمۃ الناس والبہائم ( 6008)
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا عمل و حکم دوران نماز ہاتھ کو باندھنے کا ہے جبکہ مصحف کو اٹھانے والا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کی بجائے ہاتھ میں مصحف تھامے رکھتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے عمل کوسیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنى على الیسرى بعد تکبیرۃ ( 401)
پھر آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔
اور حکم کو نقل کرتے ہوئے سیدنا سہل بن سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ"
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔(صحیح بخاری کتاب الأذان باب وضع الیمنى على الیسری فی الصلاۃ (740)
ویسے تو دین کے معاملہ میں وحی الہی کے سوا کسی بھی شخصیت کی اتباع اللہ تعالى رب العالمین کے منع کر دینے کی بناء پر حرام ہے(سورۃ الأعراف :3)
لیکن جب کسی کا قول وعمل وتقریر وحی کے مخالف ہو تو وہ رد ہونے کے زیادہ لائق ہوجاتاہے ۔ لہذا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے حکم کے آجانے کے بعد اب کوئی بھی شخصیت اسکے خلاف عمل کرے یا فتوى دے وہ ناقابل التفات ہے ۔ اوریہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مصحف کو تھامنے والا اپنی دائیں ہتھیلی کو بائیں ذراع پر نہیں رکھ سکتا ہے .... فاعتبروا یا أولی الابصار ..!!!
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور : 63)
جولوگ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انکو ڈرنا چاہیے کہ کہیں انکو فتنہ یا درد ناک عذا ب نہ آن پہنچے ۔
اسی طرح نماز کی تمام تر رکعتوں میں سارے قیام کے دوران مصحف کو تھامے رکھنا بالاتفاق عمل کثیر بنتا ہے جوکہ نماز میں ممنوع ہے ۔
درج بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ :مصحف کو دوران نماز ہاتھ میں پکڑ کر قراءت کرنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم اور عمل کے مخالف ہونے کی بناء پر نا جائز ہے ۔
حالت نماز میں مصحف سے دیکھ کر قراءت کرنا بھی ممنوع ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ (751)
میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے نماز کے دوران جھانکنے کے بارہ میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ اچکنا ہے شیطان بندے کی نماز سے اسے اچکتا ہے۔
حدیث مذکور ہ میں نمازی کو وقتا فوقتا ادھر ادھر جھانکنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ مصحف سے دیکھ کر قراءت کرنیوالا تو مسلسل مصحف کی جانب دیکھ رہا ہوتا ہے ۔
قائلین کے دلائل اور انکا جائزہ

پہلی دلیل
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں روایت ہے کہ
کانت عائشۃ یؤمہا عندہا ذکوان من المصحف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان رحمہ اللہ انکی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/338 , کتاب المصاحف : ح 797 , سنن الکبرى للبیہقی : 2/253)
تبصرہ
١۔اس روایت میں مصحف کو ہاتھ میں تھامنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
٢۔نہ ہی اس دور میں مصحف اتنا چھوٹا تھا کہ اسے ہاتھ میں تھاما جاسکے ۔ کیونکہ وہ چھ مصاحف جنکو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے لکھوا کر لوگوں کو ایک ہی قراءت پر جمع کیا تھا جن میں سے چار مصاحف مختلف علاقوں میں بھیج دیے گئے اور اور دو مصاحف مدینہ میں باقی رہے اور ايك مصحف قاضی أبو النصر قنصوہ (ملوکی حکومت کا آخری بادشاہ) کے مدرسہ میں اس قبہ کے پاس محفوظ تھا جسے اس نے مدرسہ کےسامنے زویلہ نامی دروازے کے پاس بنوایا تھا اور وہیں اس نے آثار نبویہ کو جمع کیا تھا اور اس مصحف کی اس نے جلد بندی بھی کی اور اس پر لکھ دیا کہ یہ جلد مصحف عثمانی کی کتابت کے 874 سال بعد کی گئی ہے یعنی یہ 909ھ میں جلد ہوا ہے اور پھر یہ وہیں پر تین صدیاں محفوظ رہا اور پھر اسکو 1305ھ میں وہاں سے نکالا گیا اور اسکے بعد 1427ھ المکتبۃ المرکزیہ للمخطوطات الإسلامیہ (مصر) نے اسکو سافٹ ویر کی شکل دے دی یہ مصحف 1087 اوراق پر مشتمل ہے سائز 75*67 سم ہے ہر صفحہ میں 12سطریں ہیں بلندی 40سم اور وزن 80کلو گرام ہے۔ اور اتنے وزنی اور اتنے بڑے حجم کے مصحف کو ہاتھ میں تھام کر قیام کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ ( سافٹ ویر کی صورت میں یہ مصحف دین خالص ویب سائٹ پر موجود ہے )
٣۔اس دور میں مصحف سے دوران نماز قراءت کرنکا طریقہ یہ تھا کہ مصحف کو سامنے یا پہلو میں رکھ لیا جاتا اور بوقت ضرورت اس سے دیکھ لیا جاتا جیساکہ آگے آئے گا۔
٤۔دنوں صورتوں یعنی مصحف سے دیکھ کر یا مصحف کو ہاتھ میں تھام کر دوران نماز قراءت کرنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم عدم التفات اور وضع الیدین کے خلاف ہونے کی بناء پر ناقابل اعتبار ہے۔
٥۔یہ موقوف روایت ہے جو کہ وحی نہیں ہے ۔ جبکہ اللہ تعالى نے ہمیں صرف اور صرف وحی کی اتباع کرنے اور غیر وحی کی اتباع نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ( سورۃ الاعراف: 3 ) لہذا یہ دین میں حجت نہیں ہے۔
دوسری دلیل
امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کان محمد لا یرى بأسا أن یؤم الرجل القوم یقرأ فی المصحف امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اورقراءت قرآن مجید سے دیکھ کر کرے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/337)
تبصرہ
اسکا جواب پہلی دلیل کے جواب میں ہی ہو چکا ہے۔
تیسری دلیل
امام شعبہ رحمہ اللہ , امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ سے اس بارہ میں روایت کرتے ہیں جو رمضان المبارک میں قرآن مجید کو ہاتھ میں پکڑ کر قراءت کرتا ہے آپ رحمہ اللہ اس میں رخصت دیتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/338)
تبصرہ
١۔اس روایت کو پیش کرتے ہوئے " ادراج " سے کام لیا گیا ہے کیونکہ اس میں مصحف کو ہاتھ میں پکڑنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اسکے الفاظ یوں ہیں
٢۔عَنْ شُعْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ فِي الرَّجُلِ يَؤُمُّ فِي رَمَضَانَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ رَخَّصَ فِيهِ. (مصنف ابن ابی شیبہ 2/338 ح 7296 )
یعنی امام شعبہ رحمہ اللہ , امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ سے اس بارہ میں روایت کرتے ہیں جو رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرتا ہے آپ رحمہ اللہ اس میں رخصت دیتے تھے۔
٣۔باقی باتوں کا جواب پہلی دلیل کے جواب میں گزر چکا ہے۔
چوتھی دلیل
امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قراءت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:2/338)
تبصرہ
١۔ حسب سابق اس میں بھی " ادراج" کیا گیاہے اصل روایت کے الفاظ یوں ہیں :
عَنِ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ قَالا لاَ بَأْسَ بِهِ. ( مصنف ابن ابی شیبہ : 2/ 338 ح 7297)
حسن بصري اور محمدبن سيرين فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں
٢۔یہ حرج کی نفی کس بات سے کی جارہی ہے اسکا اس روایت میں ذکر نہیں اور اسکا اندازہ سابقہ روایت سے لگایا جاسکتا ہے جس میں مصحف سے دیکھ کر قراءت کا بیان ہے یا اس سے اگلی روایت سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ مصحف سے دیکھنا بھی وہ کب حرج نہیں سمجھتے ۔ ملاحظہ ہو:
٣۔عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ إذَا لَمْ يَجِدْ يَعْنِي مَنْ يَقْرَأُ ظَاهِرًا.( مصنف ابن ابی شیبہ : 2/338 ح 7299)
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی زبانی قرآن پڑھنے والا نہ ملے تو مصحف سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
یعنی جب تک ایسا شخص موجود ہو جسکو قرآن یا قرآن کا کچھ حصہ زبانی یاد ہے اسوقت تک مصحف سے دیکھ کر امامت کروانے کی رخصت یہ صاحب بھی نہیں دیتے ۔ خوب سمجھ لیں۔
٤۔امام حسن بصری اور سعید بن المسیب سے اکیلے میں مصحف سے دیکھ کر قراء ت کرنے کے بارہ میں مروی ہے :
عن سعيد والحسن « أنهما قالا : في الصلاة في رمضان : تردد ما معك من القرآن ولا تقرأ في المصحف إذا كان معك ما تقرأ به في ليلته » المصاحف 775 , 776 , ابن أبي شيبة 2/339 اسکی سند صحیح ہے۔
سعید بن المسیب اور حسن بصری رحمہما اللہ دنوں قیام رمضان کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ جو قرآن آپکو یا د ہے اسے بار بار دھراتے رہو, اور مصحف سے دیکھ کر نہ پڑھوجبتک تمہیں اسقدر یاد ہو کہ تم ایک رات کا قیام کرسکو۔
٥۔باقی تمام تر باتوں کا جواب پہلی دلیل کے جواب میں ہو چکا ہے ۔
پانچویں دلیل
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ 2/338 )
تبصرہ
١۔کیا کمال ہے کہ الفاظ سابقہ روایت اور اس روایت کے ایک ہی ہیں ملاحظہ فرمائیں : عَنْ عَطَاءٍ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِهِ. لیکن سابقہ روایت کا ترجمہ ذکر کرتے ہوئے " ہاتھ میں تھامنے " کا تذکرہ شاید معہود ذہنی تھا ۔
٢۔ان باتوں کا جواب بھی پہلی دلیل کے جواب میں گزر چکا ہے۔
چھٹی دلیل
امام یحیى بن سعید الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أرى بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا
میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرنے میں کوئی حرج نہیں خیال کرتا (کتاب المصاحف ح 805)
تبصرہ
اس کا جواب بھی پہلی دلیل کے جواب میں گزر چکا ہے۔
ساتویں دلیل
محمد بن عبد اللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے قرآن مجید سے قراءت کرکے ا مامت کرانے کے بارہ میں پوچھا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا : لم یزل الناس منذ کان الإسلام یفعلون ذلک ( کتاب المصاحف ح 806)
اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں ۔
تبصرہ
١۔یہ امام زہری علیہ الرحمہ کا زعم ہے جو کہ باطل ہے کیونکہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
٢۔باقی جواب وہی ہے جو پہلی دلیل میں گزر چکا ہے۔
آٹھویں دلیل
امام مالک رحمہ اللہ سے ایسے انسان کے بارہ میں پو چھا گیا جو رمضان میں قرآن مجید ہاتھ میں تھام کر امامت کراتا ہے تو آپ نے فرمایا لا بأس بذلک وإذا اضطروا إلى ذلک (کتاب المصاحف ح 808)
مجبوری ہوتو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں
تبصرہ
١۔اس روایت میں بھی حسب سابق " قرآن مجید ہاتھ میں تھام کر" کے الفاظ اپنی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں کیونکہ اس روایت کی اصل عبارت یوں ہے : ابن وهب قال : سمعت مالكا وسئل عمن يؤم الناس في رمضان في المصحف ؟ فقال : لا بأس بذلك إذا اضطروا إلى ذلك(المصاحف ح 808 دوسرانسخہ 688)
ابن وہب فرماتے ہیں کہ امام مالک سے اس شخص کے بارہ میں سوال کیا گیا جو رمضان میں مصحف سے دیکھ کر امامت کرواتا تو میں نے سنا وہ فرماتے تھے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب وہ اس کام پر مجبور ہوجائیں تو (بطریق اولی حرج نہیں )
٢۔باقی بات وہی ہے جو پہلی دلیل کے رد میں کہی گئی
نویں دلیل
امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کان ابن سیرین یصلی والمصحف إلى جنبہ فإذا تردد نظر فیہ ( المصاحف ح 813 مصنف عبد الرزاق ح 3931 )
امام ابن سیرین رحمہ اللہ جب نماز پڑھتے تو قرآن مجید انکے پہلو میں پڑا ہوتا , جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیے۔
تبصرہ
١۔اس میں تو واضح ہوا کہ مصحف انکے ہاتھ میں نہ ہوتا تھا
٢۔مصحف سے مسلسل دیکھنے کی دلیل اس میں بھی موجود نہیں ہے
٣۔مزید وضاحت ہو جاتی اگر کتاب المصاحف سے اسے قبل والی دو چار روایات نقل کر دی جاتیں تاکہ انکی نماز کی کیفیت مزید واضح ہو جاتی وہ روایات درج ذیل ہیں :
رأيت ابن سيرين يصلي متربعا والمصحف إلى جنبه فإذا تعايا في شيء أخذه فنظر فيه( المصاحف : ح 809 , دوسرانسخہ 689 )
میں نے ابن سیرن کو آلتی پالتی(چوکڑی )مار کر نماز پڑھتے دیکھا اور مصحف انکے پہلو میں تھا تو جب وہ بھولتے تو اس میں سے دیکھ لیتے۔
كان محمد ينشر المصحف فيضعه إلى جانبه فإذا شك نظر فيه وهو في صلاة التطوع(المصاحف ح 811 , دوسرا نسخہ 691 ) واسناد صحیح ۔
محمد بن سیرین رحمہ اللہ مصحف کو کھول کر اپنے پہلو میں رکھ لیتے تو جب انکو شک ہوتا تو اس میں سے دیکھ لیتے اور یہ نفلی نماز کی بات ہے۔
یونس بن عبید بن دینار العبدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دخلت على ابن سيرين وهو يصلي قاعدا يقرأ في مصحف وفي يده مروحة يتروح بها ( المصاحف ح 812 دوسرانسخہ ح 692 )
میں ابن سیرین کے پاس گیا اور وہ بیٹھ کر مصحف سے دیکھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور انکے ہاتھ میں پنکھا تھا جس سے وہ ہوا لے رہے تھے۔
یعنی ابن سیرین بیٹھ کر نفلی نماز ادا فرماتے اور جس مقام سے تلاوت کرنا مقصود ہوتی مصحف کو اسی مقام سے کھول کر أپنے پہلو میں رکھ لیتے اور زبانی قراءت فرماتے اور جب کسی آیت کے بارہ میں شک پڑتا تو پھر مصحف سے دیکھ لیتے ۔
دسویں دلیل
امام ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان أنس یصلی وغلامہ یمسک المصحف خلفہ فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ(مصنف ابن ابی شیبہ 2/338 , السنن الکبرى للبیھقی 3/212 )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تھے ۔ انکا غلام انکے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو تو ہ لقمہ دے دیتا تھا۔
تبصرہ
١۔اس روایت کے ترجمہ میں بھی " کھڑا ہوجاتا تھا " کے الفاظ مدرج ہیں کیونکہ اسکی عبارت میں ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں جن سے غلام کا پیچھے کھڑأ ہونا ثابت ہو۔
٢۔اسی طرح اس روایت میں غلام کا مصروف صلاۃ ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ غلام مصحف کو تھام کر پیچھے بیٹھا ہو اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو بوقت ضرورت لقمہ دے ۔اورایسا تو آج کل بھی بعض مساجد میں ہوتا ہے ۔ لہذا اس روایت سے استدلال باطل ہے کیونکہ اصول ہے کہ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔
٣۔اگر یہ سب کچھ ثابت ہو بھی جائے تو بھی مردود ہے ان وجوہات کی بناء پر جو پہلی دلیل کے رد میں ذکر کی گئی ہیں ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین رحمہم اللہ کا موقف
گوکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام رحمہم اللہ کے اقوال وافعال دین بامر الہی وباتفاق امت حجت نہیں ہیں لیکن صرف دعوى اجماع کی قلعی کھولنے کے لیے چند ایک پیش خدمت ہیں کیونکہ موصوف کا یہ زعم باطل ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے تک مصحف ہاتھ میں تھامنے یا مصحف سے دیکھ کر دوران نماز قراءت کرنے پر اجماع رہاہے اور اختلاف بعد میں شروع ہوا ۔
جس طرح کچھ صحابہ وتابعین سے دوران نماز مصحف سے دیکھ کر قراءت کرنے کی رخصت منقول ہے اسی طرح اسی ہی طبقہ سے اس کی کراہت وممانعت بھی مأثور ہے ۔
مثلا
١۔عن سويد بن حنظلة رضي الله عنه « أنه مر بقوم يؤمهم رجل في المصحف فكره ذلك في رمضان ونحا المصحف »
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (7301 - ط. عوّامة = 7224 ط. الرشد)، وابن أبي داود في المصاحف (786، 787 ط. البشائر الإسلامية( وسنده صحيح
سيدنا سويد بن حنظلہ رضی اللہ الله عنہ ایک قوم کے پاس سے گزرے جنکو ایک شخص مصحف سے دیکھ کر امامت کروا رہا تھا تو آپ نے اسے نا پسند فرمایا اور مصحف کو دور کردیا , یہ رمضان کا واقعہ ہے ۔
٢۔عن مجاهد « أنه كان يكره أن يتشبهوا بأهل الكتاب يعني أن يؤمهم في المصحف » المصاحف 778 , ابن أبي شيبه 2/124 , مصنف عبد الرزاق 2/419)
مجاہد رحمہ اللہ مصحف سے امامت کروانے کو اہل کتاب سے مشابہت کی بناء پر ناپسند فرماتےتھے ۔
یہ حدیث حسن ہے اسکی ابن ابی شیبہ اور المصاحف والی سند میں لیث بن ابی سلیم متکلم فیہ ہے لیکن مصنف والی سند میں منصور بن المعتمر نے ا سکی متابعت کررکھی ہے جوکہ ثقہ ہے ۔
اسی طرح کے اقوال حسن بصری , ابراہیم نخعی , حماد بن سلمہ , قتادہ بن دعامہ اور سعیدبن المسیب رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی منقول ہیں۔
دیکھیے : المصاحف 789 , ابن أبي شيبة 2/124 , دوسرا نسخه 2/338 , وسنده حسن , مصنف ابن ابي شيبه 3/339 المصاحف 781, وسندہ صحیح , المصاحف 782 وسندہ صحیح
عمل كثير وقليل كی بحث
فقهاء میں سے کچھ ایسے ہیں جو عمل کثیر کی بناء پر نماز کو فاسد یا باطل قرار دیتے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جوکہ عمل کثیر کی بناء پر نماز میں نقص کے قائل ہیں ۔
اور پھر عمل کثیر وقلیل کی حد بندی کے لیے فقہاء نے مختلف اراء کا اظہار کیا ہے ۔
بہر حال مسئلہ مذکورہ میں یہ دنوں عمل یعنی مصحف کو تھام کر قراءت کرنا اور مصحف سے مسلسل دیکھ کر قراءت کرنا تمام ترفقہاء کی بیان کردہ حدود کے مطابق عمل کثیر ہی بنتے ہیں۔
مجوزین کی طرف سے ان دنوں کاموں کو عمل قلیل قرار دینے کے لیے جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ذیل میں ہم انکا جائزہ لیں گے۔ان شاء اللہ تعالى ۔
پہلی دلیل
١۔رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو کندھے پر بٹھا کر نماز پڑھانا ۔( صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب إذا حمل جاریۃ صغیرۃ على عنقہ فی الصلاۃ ح 516 , صحیح مسلم ح 543 , سنن نسائی ح 827 )
تبصرہ
اس روایت میں مذکور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا عمل دوران نماز مصحف کو اٹھانے والے کی بنسبت بہت کم ہے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سیدہ امام رضی اللہ عنہا کو قیام کے آغاز میں پکڑتے اور اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیتے اسکے بعد " وضع الیدین فی الصلاۃ " والی کیفیت کا آغاز ہو جاتا اور پھر جب رکوع کے جھکتے تو امامہ رضی اللہ عنہا کو کندھے سے اتار دیتے
جبکہ دوران نماز مصحف کو تھامنے والا سارے قیام میں مصحف کو تھامے رکھتا ہے اور"وضع الیدین"والے حکم نبوی ﷺ پر عمل کرنے سے کوتاہ و قاصر رہتا ہے۔
لہذا یہ عمل سارے یا اکثر قیام کو محیط ہونے کی بناء پر عمل نبوی ﷺ سے کہیں زیادہ ہے , نیز حکم نبوی ﷺ وضع الیدین کی مخالفت بھی ہے ۔
چند دیگر دلائل
١۔رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا دوران نماز دروازہ کھولنا ۔
٢۔دوران نماز سانپ اور بچھو کو قتل کرنے حکم۔
٣۔رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا دوران نماز جوتا اتارنا ۔
تبصرہ
یہ تمام تر باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں لیکن یہ بھی دوران نماز مصحف کو ہاتھ میں تھامنے اور مصحف سے مسلسل دیکھ کر قراءت کرنے کی بنسبت کہیں کم عمل ہیں ۔
سبب وہی ہے جو پہلے بیان کیا گیا ہے کہ یہ تمام تر کام حالت قیام یا دیگر حالات میں صرف چند ثانیوں پر محیط ہیں جبکہ وہ دنوں عمل تو سارے قیام یا قیام کے اکثر حصے پر محیط ہیں اور قراءت لمبی ہونے کی صورت میں کئی منٹوں پر محیط ہیں اور ساتھ ہی حکم نبوی یعنی وضع الیدین على الصدر اور عدم التفات فی الصلاۃ کے منافی بھی۔
خلاصة البحث
١۔نماز میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا حکم دیا ہے جبکہ مصحف کو دوران نمازتھامنے والا سارے قیام میں اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
٢۔دوران نماز التفات منع ہے جبکہ مصحف سے مسلسل دیکھ کر سماع یا قراءت کرنیوالا سارے یا اکثر قیام میں اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
٣۔اللہ تعالى نے صرف اور صرف وحی ہی کی اتباع کا حکم دیا ہے اور دیگر اولیاء کی اتباع سے منع فرمایا ہے ۔ جبکہ مجوزین کے پاس وحی الہی سے کوئی دلیل موجود نہیں ہے , اور غیر وحی عدم حجت ہونے کی بناء پر ناقابل استدلال ہے ۔
٤۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین وتابعین عظام رحمہم اللہ کے درمیان بھی اس مسئلہ پر دو آراء ہیں لہذا حکم الہی فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً (النساء : 59) کی رو سے اس مسئلہ کو عدالت نبوی میں ہی پیش کیا جائے گا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ دنوں عمل عصر نبوی ﷺ میں موجود نہ تھے بلکہ محدث ہونے کی بناء پر اور حکم نبوی وضع الیدین اور عدم التفات کے خلاف ہونے کی بناء پر مردود ہیں ۔
ہذا ماعندی واللہ تعالى أعلم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم​
 
شمولیت
مئی 10، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18

The search is supported by Google, advertisements may appear in the search results that is not related to our website.
- الفقه وأصوله » فقہ » عبادات » نماز » نفلی نماز » قیام الیل.
enar
69670: نماز تراویح میں مصحف پکڑ کے تلاوت کرنا

سوال: نماز تراویح کے دوران قرآن مجید کھول کر تلاوت کرنے کا حکم
Published Date: 2015-06-07
الحمد للہ:
نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا، امام بخاری (1/245) نے اس واقعہ کو معلق ذکر کیا ہے۔
ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن شہاب رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: ہمارے بہترین ساتھی رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے""المدونۃ" (1/224)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے" انتہی مختصراً
"المجموع" (4/27)
سحنون [امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد] کہتے ہیں:
"امام مالک کہتے تھے: رمضان اور نفلی عبادات میں لوگوں کی قرآن مجید سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے"
اور امام امالک کے شاگرد ابن قاسم مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"امام مالک فرائض میں ایسے کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے" "المدونۃ" (1/224)
تاہم کسی اعتراض کرنے والے کا یہ کہنا کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا، اور صفحات تبدیل کرنا فضول حرکت ہے، تو یہ اعتراض ہی غلط ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی امامت کرواتے ہوئے اپنی نواسی امامہ کو اٹھایا ہوا تھا، اس واقعہ کو بخاری: (494) اور مسلم: (543) نے نقل کیا ہے، اور یہ بات عیاں ہے کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا بچی کو نماز میں اٹھانے سے گراں نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی اس عمل کے جواز میں پہلے بیان ہو چکا ہے، جو کہ سوال نمبر: (1255) کے جواب میں موجود ہے۔
واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نماز تراویح میں مصحف پکڑ کے تلاوت کرنا


القراءة من المصحف في صلاة التراويح
ما حكم القراءة من المصحف في صلاة التراويح ؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب
الحمد لله

لا بأس بالقراءة من المصحف في الصلاة ، فقد كان لعائشة رضي الله عنها غلام يؤمها من المصحف في رمضان . رواه البخاري معلقاً (1/245) .

وقال ابن وهب: قال ابن شهاب : كان خيارنا يقرءون في المصاحف في رمضان . "المدونة" (1/224) .

وقال النووي: "لو قرأ القرآن من المصحف لم تبطل صلاته سواء كان يحفظه أم لا ، بل يجب عليه ذلك إذا لم يحفظ الفاتحة, ولو قلَّب أوراقه أحيانا في صلاته لم تبطل ...... هذا مذهبنا ومذهب مالك وأبي يوسف ومحمد وأحمد " انتهى من "المجموع" (4/27) بتصرف.

وقال سحنون: وقال مالك : لا بأس بأن يؤم الإمام بالناس في المصحف في رمضان وفي النافلة . قال ابن القاسم : وكره ذلك في الفريضة . "المدونة" (1/224) .

وأما اعتراض من اعترض على ذلك بأن حمل المصحف وتقليب أوراقه في الصلاة حركة كثيرة فهو اعتراض غير صحيح ، لأنه قد ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بالناس وهو حامل أمامة بنت ابنته . رواه البخاري (494) ومسلم (543) ، فحمل المصحف في الصلاة ليس أعظم من حمل طفلة في الصلاة .

وقد سبق ذكر فتوى الشيخ ابن باز بجواز ذلك في جواب السؤال (1255) .

والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب

_________________________
نماز تراویح میں مصحف پکڑ کے تلاوت کرنا
سوال: نماز تراویح کے دوران قرآن مجید کھول کر تلاوت کرنے کا حکم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:

نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا، امام بخاری (1/245) نے اس واقعہ کو معلق ذکر کیا ہے۔

ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن شہاب رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: ہمارے بہترین ساتھی رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے""المدونۃ" (1/224)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے" انتہی مختصراً
"المجموع" (4/27)

سحنون [امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد] کہتے ہیں:
"امام مالک کہتے تھے: رمضان اور نفلی عبادات میں لوگوں کی قرآن مجید سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے"
اور امام امالک کے شاگرد ابن قاسم مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"امام مالک فرائض میں ایسے کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے" "المدونۃ" (1/224)

تاہم کسی اعتراض کرنے والے کا یہ کہنا کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا، اور صفحات تبدیل کرنا فضول حرکت ہے، تو یہ اعتراض ہی غلط ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی امامت کرواتے ہوئے اپنی نواسی امامہ کو اٹھایا ہوا تھا، اس واقعہ کو بخاری: (494) اور مسلم: (543) نے نقل کیا ہے، اور یہ بات عیاں ہے کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا بچی کو نماز میں اٹھانے سے گراں نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی اس عمل کے جواز میں پہلے بیان ہو چکا ہے، جو کہ سوال نمبر: (1255) کے جواب میں موجود ہے۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:
کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔
‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’
(صحیح البخاری: ۹۶/۱ تعلیقا، مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، کتاب المصاحف لابن داوٗد: ۷۹۷، السنن الکبرٰی للبیھقی: ۲۵۳/۲، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ نوویؒ (خلاصۃ الاحکام: ۵۵۰/۱) نے اس کی سند کو ‘‘ صحیح’’ اور حافظ ابن حجرؒ (تغلیق التعلیق: ۲۹۱/۲) نے اس روایت کو ‘‘صحیح’’ قرار دیا ہے۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کان أنس یصلّی، وغلامہ یمسک المصحف خلفہ، فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ۔
‘‘ سیدنا انس بن مالکؓ نماز پڑھتے تھے۔ ان کا غلام ان کے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو وہ لقمہ دے دیتا تھا۔’’
(مصنف ابی ابن شیبۃ: ۳۳۷/۲، السنن الکبری للبیھقی: ۲۱۲/۳، وسندہٗ صحیحٌ)
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
جو لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں قرآن کریم پکڑ کر نماز میں قرائت کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں:
۔ سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے ہمیں قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر امامت کرانے سے منع فرمایا۔’’
(کتاب المصاحف: ۷۷۲)

تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین ‘‘ ضعیف’’ ہے، کیونکہ:
۱۔ اس کی سند میں نہشل بن سعید راوی ‘‘ متروک’’ اور ‘‘کذاب’’ ہے۔
(تقریب التھذیب: ۷۱۹۷، میزان الاعتدال: ۲۷۵/۴)
۲۔ اس کے راوی ضحاک بن مزاحم کا سیدنا ابن عباسؓ سے سماع نہیں ہے۔
( تفسیر ابن کثیر: ۲۳۶/۵، التلخیص الحبیر لابن حجر: ۲۱/۱، العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر: ص۱۰۴)
 
Top