• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاملہ اور مرضعہ کے رمضان کے روزے اور اس کے متعلق احکامات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم @غضنفر اللہ بھائی نے مجھے ان باکس میں بعنوان بالا یہ پیغام دیا ہے۔
"علماء حضرات پلیز اس کو واضح کریں."
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب! اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے! راہنمائی فرمائیں!
محترم غضنفر اللہ بھائی!
اس طرح کے سوالات متعلقہ زمرے میں"نیا موضوع ارسال کریں" کا بٹن دبا کر لکھا کریں۔ جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم @غضنفر اللہ بھائی نے مجھے ان باکس میں بعنوان بالا یہ پیغام دیا ہے۔
حاملہ اور مرضعہ کے رمضان کے روزے اور اس کے متعلق احکامات


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :

هل يجوز لزوجتي التي ترضع ابني البالغ من العمر عشرة أشهر الإفطار في شهر رمضان ؟ .
تم النشر بتاريخ: 2003-11-07
الحمد لله

المرضع ومثلها الحامل لها حالان :

الأولى :

أن لا تتأثر بالصيام ، فلا يشق عليها الصيام ولا يُخشى منه على ولدها ، فيجب عليها الصيام ، ولا يجوز لها أن تفطر .

الثانية :

أن تخاف على نفسها أو ولدها من الصيام ويشق عليها ، فلها أن تفطر وعليها أن تقضي الأيام التي أفطرتها .

وفي هذه الحال الأفضل لها الفطر ، ويكره لها الصيام ، بل ذكر بعض أهل العلم أنها إذا كانت تخشى على ولدها وجب عليها الإفطار وحرم الصوم .

قال المرداوي في الإنصاف" (7/382) :

"يُكْرَهُ لَهَا الصَّوْمُ وَالْحَالَةُ هَذِهِ . . . وَذَكَرَ ابْنُ عَقِيلٍ : إنْ خَافَتْ حَامِلٌ وَمُرْضِعٌ عَلَى حَمْلٍ وَوَلَدٍ , حَالَ الرَّضَاعِ لَمْ يَحِلَّ الصَّوْمُ , وَإن لَمْ تَخَفْ لَمْ يَحِلَّ الْفِطْرُ" اهـ . باختصار .

وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله تعالى في فتاوى الصيام (ص161) :

إذا أفطرت الحامل أو المرضع بدون عذر وهي قوية ونشيطة ولا تتأثر بالصيام فما حكم ذلك ؟

فأجاب :

لا يحل للحامل أو المرضع أن تفطرا في نهار رمضان إلا للعذر، فإذا أفطرتا للعذر وجب عليهما قضاء الصوم ، لقول الله تعالى في المريض : ( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ) . وهما بمعنى المريض وإذا كان عذرهما الخوف على الولد فعليهما مع القضاء عند بعض أهل العلم إطعام مسكين لكل يوم من البر (القمح) ، أو الرز، أو التمر، أو غيرها من قوت الاۤدميين ، وقال بعض العلماء: ليس عليهما سوى القضاء على كل حال ؛ لأنه ليس في إيجاب الإطعام دليل من الكتاب والسنة ، والأصل براءة الذمة حتى يقوم الدليل على شغلها ، وهذا مذهب أبي حنيفة رحمه الله ، وهو قوي اهـ .

وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله تعالى أيضاً في فتاوى الصيام (ص162) :

عن الحامل إذا خافت على نفسها أو خافت على ولدها وأفطرت فما الحكم ؟

فأجاب :

جوابنا على هذا أن نقول : الحامل لا تخلو من حالين :

إحداهما : أن تكون نشيطة قوية لا يلحقها مشقة ولا تأثير على جنينها ، فهذه المرأة يجب عليها أن تصوم ؛ لأنها لا عذر لها في ترك الصيام .

والحال الثانية : أن تكون الحامل غير متحملة للصيام : إما لثقل الحمل عليها ، أو لضعفها في جسمها ، أو لغير ذلك ، وفي هذه الحال تفطر ، لاسيما إذا كان الضرر على جنينها ، فإنه قد يجب الفطر عليها حينئذ . وإذا أفطرت فإنها كغيرها ممن يفطر لعذر يجب عليها قضاء الصوم متى زال ذلك العذر عنها ، فإذا وضعت وجب عليها قضاء الصوم بعد أن تطهر من النفاس ، ولكن أحياناً يزول عذر الحمل ويلحقه عذر آخر وهو عذر الإرضاع ، وأن المرضع قد تحتاج إلى الأكل والشرب لاسيما في أيام الصيف الطويلة النهار ، الشديدة الحر، فإنها قد تحتاج إلى أن تفطر لتتمكن من تغذية ولدها بلبنها، وفي هذه الحال نقول لها أيضاً: أفطري فإذا زال عنك العذر فإنك تقضين ما فاتك من الصوم اهـ .

وقال الشيخ ابن باز في مجموع الفتاوى (15/224) :

أما الحامل والمرضع فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم من حديث أنس بن مالك الكعبي عن أحمد وأهل السنن بإسناد صحيح أنه رخص لهما في الإفطار وجعلهما كالمسافر . فعلم بذلك أنهما تفطران وتقضيان كالمسافر ، وذكر أهل العلم أنه ليس لهما الإفطار إلا إذا شق عليهما الصوم كالمريض ، أو خافتا على ولديهما والله أعلم اهـ .

وجاء في فتاوى "اللجنة الدائمة" (10/226) :

"أما الحامل فيجب عليها الصوم حال حملها إلا إذا كانت تخشى من الصوم على نفسها أو جنينها فيرخص لها في الفطر وتقضي بعد أن تضع حملها وتطهر من النفاس" اهـ .

الإسلام سؤال وجواب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
: دودھ پلانے والی اورحاملہ کے روزے کا حکم
کیا میری بیوی جواپنے دس ماہ کے بچے کودودھ پلارہی ہے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑنا جائز ہیں ؟
Published Date: 2004-03-20
الحمدللہ

دودھ پلانے والی اور اسی طرح حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :

پہلی حالت :

روزہ اس پر اثرانداز نہ ہو ، اورنہ ہی اسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو اورنہ ہی اسے اپنے بچے کا خدشہ ہے ، ایسی عورت پرروزہ رکھنا واجب ہے اوراس کے لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ ترک کرے ۔

دوسری حالت :

عورت کواپنے آپ یا پھر بچے کونقصان نہ خدشہ ہو ، اوراسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو توایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن وہ بعد میں اس کی قضاء میں چھوڑے ہوئے روزے رکھے گی ۔

اس حالت میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اوربہتر ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، بلکہ بعض اہل علم نے تویہ کہا ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کا خطرہ ہو تو اس پر روزہ ترک کرنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔

مرداوی رحمہ اللہ تعالی " الانصاف " میں کہتے ہیں :

ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔۔۔ اورابن عقیل رحمہ اللہ تعالی نے ذکرکیا ہے کہ : اگر حاملہ اوردودھ پلانے والی کوحمل کا بچے کو نقصان ہونے کا خطرہ ہو تواس کے لیے روزہ رکھنا حلال نہیں ، اوراگر اسے خدشہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا حلال ہے ۔ ا ھـ اختصار کے ساتھ ۔

دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 382 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :

جب حاملہ اوردودھ پلانے والی قوی اورچوک وچوبند اور بغیر کسی عذر کے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی وہ روزے سے متاثر ہوتواس کیا حکم ہوگا ؟

حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنا جائے نہيں ، اوراگر وہ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھیں توان پر بعد میں ان روزوں کی قضاء کرنا واجب ہوگی ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجوکوئي مریض ہویا پھر مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہوگي } ۔

یہ دونوں عورتیں بھی مریض کی مانند ہی ہیں ، اور جب ان کا عذر ہو کہ روزہ رکھنے سے انہیں بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہو تووہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں ان ایام کی قضاء کرلیں اوربعض اہل علم قضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم یا چاول یا کھجور وغیرہ بھی دینا ہوگي ۔

اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ : ہرحال میں انہيں روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اس لیے کہ کتاب وسنت میں کھانا کھلانے کی کوئي دلیل نہیں پائي جاتی ، اوراصل توبری الذمہ ہونا ہے ، یہاں تک کہ اس سے کوئي دلیل مشغول کردے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے اورقوی بھی یہی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 161 ) ۔

شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :

اگرحاملہ عورت کواپنے آپ یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:

پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو روزہ رکھنے سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اورنہ ہی اس کے بچے پر اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہيں ۔

دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔

اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے ‏عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضاء کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضاء واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئي اورعذر درپیش ہوجائے مثلا دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کھانے پینے کی محتاج ہوتی ہے اور خاص کر گرمیوں کے لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ نہ رکھنے کی ضرورت ہوگي تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے ۔

تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضاء کرلیں ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 162 ) ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہنا ہے :

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :

انس بن مالک کعنبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔

تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں روزہ اس وقت نہيں رکھیں گی جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا پھر وہ دونوں اپنے بچے کا خطرہ محسوس کریں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :

حاملہ عورت پر حمل کی حالت میں روزے رکھنا واجب ہیں لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ ہو توروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضاء رکھنا ہونگے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
حاملہ اور مرضعہ کے روزوں کی قضا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 07 September 2013 11:09 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب یہ رمضان شروع ہوا تو میری بیوی ٣ ماہ سے حاملہ تھی۔ وہ اپنی حالت زچگی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکی۔ اس نے یہ سوچا کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد قضا کر لے گی جیسے کہ قران میں آتا ہے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ اگلے رمضان سے قبل اور بچہ ہونے کے بعد درمیان میں صرف ٤ ماہ ہوں گے جن میں اسے دودھ پلانے کی وجہ سے انشااللہ روزے کی پھر سے چھوٹ ہوگی۔ اور ویسے بھی دودھ پلاتے وقت بھی حالت کچھ ناساز سی ہی ہوتی ہے کہ روزہ رکھ سکے۔تو اب مسلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس رمضان میں چھوڑے گئے روزوں کو کیسے قضا کرے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے صحیح رائے کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کا حکم بیمار عورت کی طرح ہوگا اور اسے روزہ نہ رکھنےکی اجازت ہے اسے صرف بعد میں روزوں کی گنتی پوری کرنی ہوگی اگر وہ خود کی یا بچےکی صحت کا خوف محسوس کرے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ و سلّم نے فرمایا : "الله نے مسافر کو روزہ موخر کرنے اور نصف نماز ادا کرنیکی رخصت دی ہے جبکہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کو روزہ موخر کرنیکی رخصت دی ہے"- (ترمذ ی ، ٣/٨٥ ، اسے امام ترمذی نے حسن کہا ہیں-)
اگر حاملہ خاتون کو روزہ رکھنے کے بعد خون آئے تب بھی اسکا روزہ صحیح ہوگا اور اسے اسکے روزے پر کچھ بھی اثر نہیں ہوگا- (فتاوى اللجنة الدائمة ، ١٠/٢٢٥
اب اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دو سالوں کے روزے اکٹھے کسی وقت قضا کر لے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی

فتوی کمیٹی
 
شمولیت
اگست 03، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
42
بھائی آپ نے فتاوی وغیرہ بھیج دئیے ۔
دلائل تو پختہ ہونے چاہئیں
 
Top