• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج خطبہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
*پیغامِ حج*
️ ابو الحسین *محمد عقیل* السلفى
متعلم جامعہ سلفیہ اسلام آباد

اسلام عالمگیر دین ہے اور اس کے احکامات حکمت اور افادیت سے لبریز ہیں.
*توحید باری تعالی* جو کہ امن و ہدایت کی اساس ہے، *نماز* روح کی غذا اور عبادت باری تعالی کا مظہر ہے، *روزہ* حیوانی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے، *زکوٰۃ* تکبر و غرور کا سر خم کر دیتی ہے.
حج انہی احکامات میں سے ایک عظیم حکم، اہم رکن اور شعیرہ اسلام ہے، اس رکن کا یہ خاصہ ہے کہ اس کی ادائیگی *بیت اللہ الحرام* کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو اس کی عظمت و رفعت اور شعیرہ اسلام ہونے پر دلالت کرتی ہے، اسی لیے جب اللہ تعالی نے *بیت اللہ* کا تذکرہ کیا تو حج کو بھی ساتھ ذکر فرمایا.
《 *إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِله عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ* 》
بے شک لوگوں پر (اللہ کی بندگی کیلیے) جو پہلا گھر مقرر کیا گیا، یقینا وہی ہے جو بکہ(مکہ)میں ہے، بہت با برکت اور جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
اس میں واضح نشانیاں ہیں، ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو کوئی اس میں داخل ہوا وہ پر امن ہو گیا اور لوگوں میں سے جو استطاعت رکھے اس پر اللہ کیلیے اس گھر کا حج (فرض) ہے، اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔
[آل عمران :97، 96]

حج ایک جامع عبادت اور شعیرہ اسلام ہونے کی وجہ سے عالم اسلام کیلئے بہت سی *نشانیاں اور پیغامات* لاتا ہے، چند کا تذکرہ درج ذیل ہے:

1۔ *توحید* :
توحید اسلام کا بنیادی رکن ہے جو ہر ہر عبادت میں پنہاں ہے. حج کے تمام اعمال سے توحید کا درس جھلکتا ہے.بیت اللہ کا قصد، احرام، تلبیہ، طواف، صفا اور مروہ کی سعی، وقوفِ عرفات، قربانی الغرض ہر ہر عمل توحید کے درس سے لبریز ہے.

• *بیت اللہ* جو حج کا مرکز ہے اس کے آباد کرنے کا مقصد توحید ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
《 *وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ*》
"اور جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین کر دی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کا طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع، سجود کرنے والوں کے لیے پاک کرنا"۔
[الحج : 26]
چونکہ حج اللہ کے گھر *کعبة اللہ* کے ساتھ خاص ہے اور وہ گھر توحید کا مرکز و محور ہے تو حج کا عظیم پیغام اللہ کی توحید باری تعالی ہے.

• *تلبیہ* حج چونکہ شعارِ توحید ہے اس لیے حج کی ابتداء توحید کے کلمات بلند کرنے سے ہوتی ہے.

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
*" فأهلَّ بالتوحيد* " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے ساتھ تلبیہ کہنا شروع کیا: *" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ".*
”حاضر ہوں اے اللہ! حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، بادشاہت تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں“.
(صحیح مسلم :1218)

غور فرمائیں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے تلبیہ کو توحید قرار دیا جو حج کے آغاز میں باآواز بلند پکارا جاتا ہے.

اسی طرح *بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف اور قربانی* اللہ کے عظیم شعائر میں سے ہیں اور توحید کا عظیم مظہر ہیں. اسی لیے اللہ تعالی نے جب ابراهيم علیہ السلام کو حج کے اعلان کا حکم دیا اور قربانی و طواف کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی تنبیہ فرمائی کہ شرک کی نجاستوں سے محفوظ رہتے ہوئے خالص اللہ کیلیے ان کاموں کو بجا لانا ہے کیوں کہ یہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں. اللہ تعالی فرماتا ہے:
《 *ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ* 》
"پھر وہ اپنا میل کچیل(ناخن اور بال) دور کریں اور اپنی نذریں (قربانی) پوری کریں اور اس قدیم گھر کا خوب طواف کریں"۔
《 *ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ* 》
"یہ اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے اور تمھارے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جو تمھیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو".
《 *حُنَفَاءَ لِله غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ* 》
"اس حال میں کہ اللہ کیلئے (عبادت کو) خالص کرنے والے،اس کے ساتھ شرک نہ کرنے والے ہو اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا، پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں، یا اسے ہوا کسی دور جگہ میں گرا دیتی ہے".
[الحج :30،31]

2. *عبادت میں سبقت*:
حج کا دوسرا عظیم پیغام اللہ کی بندگی میں سبقت لے جانا اور بھرپور سعی کرنا ہے.
عبادت کا معنی بہت وسیع ہے کہ انسان اپنے مالک کی خوشنودی اور تقرب کیلئے کوشش اور سبقت حاصل کرے. اس لیے حج کیلئے گھروں سے نکل کر *بیت اللہ* کا سفر کرنا، طواف، رمل ومشی ،صفا اور مروہ کی سعی، چٹیل میدان میں دن اور رات بسر کرنا، کروڑوں جانوروں کی قربانی اور پھر سر پر موجود بالوں تک کو اللہ کی خوشنودی کیلئے اتار دینا یہ تمام چیزیں پیغام دیتی ہیں کہ انسان اللہ کی بندگی اور تقرب کیلیے بھر پور کوشش کرے اور نیکی کے کسی کام کو حقیر نہ جانے.
اللہ تعالی فرماتا ہے :
《 *وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ* 》
"اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل اور لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی"۔
(الحج : 27)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج جیسی عظیم عبادت جو خود بے شمار عبادتوں کو سموئے ہوئے ہے، کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا :
*"العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة".*
"ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے"۔
(صحیح البخاری : 1773)
حج مبرور سے مراد وہ حج جو نیکیوں سے بھرپور اور گناہ و فجور سے پاک ہو اور مکمل سنت کے مطابق ہو.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
*"من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه ".*
"جس شخص نے حج کیا اور کوئی بیہودگی اور گناہ کا کام نہیں کیا، تو وہ ایسے واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہو ".
(صحيح البخاری: 1521، صحیح مسلم: 1350)

3. *عبادت میں اتباع سنت* :

حج کا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ عبادت کی قبولیت میں شرط اتباع سنت رسول ﷺ ہے.اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا حج سواری پر بیٹھ کر کیا تا کہ لوگ حج کا طریقہ سیکھ سکیں.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر (سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فرما رہے تھے :
*"لتأخذوا مناسككم، فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتي هذه".*
"تمھیں چاہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ،میں نہیں جانتا شاید اس حج کے بعد میں (دوبارہ ) حج نہ کر سکوں"۔
(صحیح مسلم : 1297)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل بیان کرتے ہوئے جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" *ثم أذن في الناس في العاشرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حاج، فقدم المدينة بشر كثير، كلهم يلتمس أن يأتم برسول الله صلى الله عليه وسلم، ويعمل مثل عمله* "۔
"اس کے بعد ہجرت کے دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کروایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کررہے ہیں۔ (یہ اعلان سنتے ہی) بہت زیادہ لوگ مدینہ میں آگئے۔ وہ سب اس بات کے خواہشمند تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں اس پر عمل کریں"۔
(صحيح مسلم:1218)
اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سنت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے حجر اسود کو خطاب کر کے فرمایا:
*"أما والله، إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم استلمك ما استلمتك فاستلمه.*
ثم قال: *فما لنا وللرمل؟ إنما كنا راءينا به المشركين وقد أهلكهم الله، ثم قال : شيء صنعه النبي صلى الله عليه وسلم فلا نحب أن نتركه.*
"اللہ کی قسم! مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔“ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا:
اور اب ہمیں رمل کی بھی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا۔ پھر فرمایا ”جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے"۔
(صحیح البخاری : 1605)
گویا حج میں بیان کیا گیا ہر عمل چاہے اس کا مقصد جو بھی تھا سنت رسول ﷺ کی وجہ سے اتباع لازم ہے اور یہی حج کا پیغام ہے.
4۔ *اللہ کے لیے دوستی و دشمنی* :
حج جہاں اجتماعیت اور بھائی چارہ کا درس دیتا ہے وہاں دوستی اور دشمنی کا معیار بھی مقرر کرتا ہے. *الولاء والبراء* اسلام کے بنیادی حکم ہے جس کا ایک مومن اور مسلمان کے دل و دماغ میں راسخ ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ شرک و بدعت سے بیزاری کے بغیر ایمان اور کلمہ توحید کی حقیقت کو حاصل نہیں کیا جا سکتا. حج چونکہ شعارِ توحید ہے اس لیے شرک اور اہل شرک سے بیزاری کا درس جہاں عمومی طور پر اس کے ارکان میں شامل ہے وہاں خصوصاً اللہ تعالی نے حج میں مشرکین سے بیزاری کا حکم دیا.
اللہ تعالی فرماتا ہے :
《 *بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ* 》
"اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا"
《 *فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي الله ۙ وَأَنَّ اللهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ* 》
"پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے واﻻ ہے".
《 *وَأَذَانٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ*》
"اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ مشرکوں سے بیزار ہے، اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ اور کافروں کو دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے".
[التوبة:1-3]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حج کے موقع پر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم نحر ( ذو الحجہ کی دسویں تاریخ ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمٰن فرماتے ہیں: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ سورۃ برات (توبہ) پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کر سکے گا۔
(صحیح البخاری: 369)

ہر سال حج مسلمانوں کو یہ عظیم پیغام دیتا ہے کہ تمہاری دوستی اور دشمنی کا معیار توحید اور اسلام ہے. اہل ایمان کیلیے نرمی اور محبت جبکہ کفار اور مشرکین سے بغض و عداوت کے سبق کو لیا جائے.
5. *حج اجتماعیت کاشعار اور علامت*:
دین اسلام محبت و مودت اور اخوت و اجتماعیت کو لازم قرار دیتا ہے اور رنگ و نسل اور افکار و نظریات کے افتراق کی بیخ کنی کرتا ہے اس کا عظیم مظہر حج ہے جس میں ہر رنگ و نسل کا شخص ایک جیسا لباس زیب تن کیے ہوئے بلا تفریق صف در صف اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے. مختلف زبانوں کے لوگ ایک ہی تلبیہ یک زبان ہو کر پکارتے ہیں اور ہر قسم کے افکار و نظریات کو پس پشت ڈال کر فقط کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہیں جس سے عالم اسلام کو اسلام کی اجتماعیت اور بھائی چارگی کا درس ملتا ہے.
《 *إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ* 》
"بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے سے اور اس حرمت والی مسجد سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے"۔
[الحج : 25]
6. *شعائر اللہ کی تعظیم* :
شعائر اللہ سے مراد وہ چیزیں جو اللہ تعالی نے اپنی عظمت کا شعور دلانے کیلئے مقرر کر رکھی ہیں انکی تعظیم و توقیر کا درس حج کا اہم پیغام ہے. شعائر اللہ چاہے وہ مقامات ہوں جیسے مسجد حرام، صفا اور مروہ وغیرہ، ایام ہوں جیسے حرمت کے مہینے، رمضان المبارک وغیرہ اوامر ہوں جیسے قربانی کیلئے مختص کیے گئے جانور، حج یہ پیغام دیتا ہے کہ جو چیزیں بھی اللہ کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں انکی تعظیم کرنا یہ دلوں کی پاکیزگی اور طہارت کا زریعہ ہیں:
《 *ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ* 》
"یہ اور جو اللہ کے نام کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کا تقویٰ ہے"۔
[الحج : 32]
7. *ہدایت یافتہ اہل ایمان کے راستے کی پیروی* :
اسلام آزاد خیالی اور آزاد فہمی کا نام نہیں بلکہ مومنوں کے ہدایت یافتہ راستے کا نام ہے اور حج اسی پیغام کو خاص طور پر مسلمانوں کے ذہنوں میں اجاگر کرتا ہے. حج سے جڑے اکثر امور کا تعلق پہلے مومنوں کا راستہ اور جاری سنن ہیں۔ اللہ تعالی کی بڑائی، طوافِ بیت اللہ، صفا مروہ کی سعی، زم زم، منی کی وادی، قربانی جیسا عظیم عمل یہ سب اس بات کا درس دیتے ہیں کہ یہ دین ایک مضبوط اور مربوط دین ہے جو اپنی ایک اصل اور بنیاد رکھتا ہے. ابراھیم علیہ السلام سے لیکر ہمارے نبی ﷺ تک انبیاء کے ساتھ ربط اور تعلق اور پھر نبی کریم ﷺ سے لے کر تا قیامت اہل حق و ایمان کی مبارک جماعت اس صراط مستقیم کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔
اور یہ وہی مبارک جماعت ہے جنہوں نے دین اور اس کا فہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ان سے تابعین عظام نے ان سے ائمہ دین نے اور اسی ہدایت یافتہ راستے کی پیروی مؤمنین کی جماعت ہمیشہ کرتی رہے گی۔
وہ فہمِ دین جو رسول اللہ نے اپنے اصحاب کو دیا اور اصحاب رسول نے تابعین کو دیا، دین کا یہ فہم محفوظ و مربوط اور اسلم و احکم ہے. حج یہی پیغام مسلمانوں کو دیتا ہے کہ اپنے اسلاف کے ساتھ جڑ جائیں تا کہ دین کی اصل اور منشا کو پا سکیں.
اللہ تعالی فرماتا ہے :
《 *وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا* 》
"اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے"۔
[النساء : 115]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
*" لا يزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لا يضرهم من خذلهم، ولا من خالفهم، حتى يأتيهم أمر الله وهم على ذلك ".*
"میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر ہیں گے"۔
(صحيح البخاری : 3641)

*تمت والحمد لله*
 
Top