• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدث اصغر کی صورت میں مصحف قرآنی کو ہاتھ لگانے کا حکم

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں جب سے اہل حدیث ہوا ہوں آج تک یہی سمجھتا رہا ہوں کہ قرآن کو بلاوضو چھونا جائز ہے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کی تحریر بھی پڑھی تھی کہ قرآن چھونے کے لئے وضو کی شرط عائد کرنا لوگوں کو مشقت میں ڈالنا اور قرآن سے دور کرنا ہے۔ پچھلے دونوں ایک اہل حدیث بھائی سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو انہوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا پھر مجھے اس پر تحقیق کی ضرورت محسوس ہوئی جب میں نے چھان بین اور کتب کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گیا کہ بلا وضو چھونے کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی۔

اہل علم سے گزارش ہے کہ اس بارے میں اپنی قیمتی آرا پیش کریں اور اپنے علم سے ہمیں مستفید فرمائیں۔جزاک اللہ خیرا

@انس @خضر حیات @ابوالحسن علوی
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دلیل تو اس کی چاہیے کہ قرآن چھونے سے پہلے باقاعدہ باوضو ہونا ضروری ہے اور ایسی کوئی صریح دلیل موجود ہی نہیں؛اگر ہے تو پیش کی جائے تاکہ اس پر غور کیا جاسکے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
(غالباً ) نسائی کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مجھے صرف نماز کے لئے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ طواف بھی نماز ہی ہے۔ البتہ طواف میں بوقت ضرورت بات کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں حدیثوں کی رو سے نماز اور طواف میں وضو لازم آتا ہے۔ البتہ صفا و مروا کے درمیان سعی بلا وضو بھی کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کو ہاتھ لگانے یا تلاوت کرنے کے لئے وضو کی شرط قرآن و صحیح حدیث میں کہیں نہیں ملتی۔
واللہ اعلم بالصواب
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
دلیل تو اس کی چاہیے کہ قرآن چھونے سے پہلے باقاعدہ باوضو ہونا ضروری ہے اور ایسی کوئی صریح دلیل موجود ہی نہیں؛اگر ہے تو پیش کی جائے تاکہ اس پر غور کیا جاسکے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان لا یمس القرآن الا طاہر‘‘ پاک آدمی کے سوا قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ (موطا امام مالک)

اب مسئلہ یہ ہے کہ حدیث میں قرآن چھونے کے لئے جو طاہر کی شرط ہے اس سے صرف جنابت اور حیض ونفاس سے پاک شخص مراد ہے یا باوضو شخص۔ تو امام مالک نے اس حدیث کی توضیح میں فرمایا ہے کہ قرآن کو صرف باوضو شخص ہی ہاتھ لگائے۔ معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک طاہر سے باوضو شخص مراد ہے۔ امام مالک کے علاوہ بھی سلف میں سے کئی لوگ اس طاہر سے مراد باوضو شخص ہی لیتے ہیں۔

عبداللہ بن جار اللہ بن ابرہیم الجاراللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدث سے پاک (باوضو) ہو کر تلاوت کرے، خواہ یہ حدث چھوٹا ہو یا بڑا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’لا یمسہ الا المطھرون‘‘ اسے بس پاک (فرشتے) ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔(فضائل قرآن،ص47، طبع دارلسلام)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
(غالباً ) نسائی کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مجھے صرف نماز کے لئے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ طواف بھی نماز ہی ہے۔ البتہ طواف میں بوقت ضرورت بات کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں حدیثوں کی رو سے نماز اور طواف میں وضو لازم آتا ہے۔ البتہ صفا و مروا کے درمیان سعی بلا وضو بھی کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کو ہاتھ لگانے یا تلاوت کرنے کے لئے وضو کی شرط قرآن و صحیح حدیث میں کہیں نہیں ملتی۔
واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ بھائی بالکل درست فرمایا۔ لیکن عدم ذکر عدم نفی کی دلیل نہیں ہوتا۔ درج بالا پوسٹ میں، میں نے جو حدیث پیش کی ہے اس پر غور فرما کر اپنی معلومات اور علم شئیر کریں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
۴۷۷۔ عن أبی ہریر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لقیہ وھو جنب قال: فا نحنیت فاغتسلت ثم جئت فقال: أیْنَ کُنْتَ اَوْ اَیْنَ ذَھْبَتَ ، قلت : انی کنت جنبا ، قال: اِنَّ الْمُؤمِنَ لاَیَنْجِسُ ۔

فتاوی رضویہ جدید ۴/۳۵۱

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے میری حالت جنابت میں ملاقات ہوئی تو میں موقع پا کر آہستہ سے کھسک آیا اور غسل کرکے واپس خدمت اقدس میں حاضر ہو ا ۔ حضور نے فرمایا: کہاں تھے ۔ میں نے عرض کیا : میں جنبی تھا ۔ فرمایا : مومن در حقیقت کبھی ناپاک نہیں ہوتا ۔

پس تحریر: اس حدیث کی تحقیقی مطلوب ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک اللہ بھائی بالکل درست فرمایا۔ لیکن عدم ذکر عدم نفی کی دلیل نہیں ہوتا۔ درج بالا پوسٹ میں، میں نے جو حدیث پیش کی ہے اس پر غور فرما کر اپنی معلومات اور علم شئیر کریں۔
میرا خیال ہے (جو غلط بھی ہوسکتا ہے) کہ زیر بحث معاملہ میں یہ کلیہ استعمال نہیں ہوسکتا۔
نماز، روزہ، مناسک حج، قربانی، تلاوت یہ سب کے سب بنیادی عبادات میں شمار ہوتے ہیں۔ جہاں جہاں وضو کی شرط احادیث میں واضح طور پر بیان ہے، صرف وہیں وضو لازم ہوگا، باقی جگہوں پر نہیں۔ جیسے حج کے رکن اعظم وقوف عرفات کے لئے وضو تو کیا غسل بھی فرض نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین مخصوص ایام میں وقوف عرفات کرسکتی ہیں، جبکہ طواف بلا غسل تو دور کی بات ہے، بلا وضو بھی نہیں کیا جاسکتا۔

آپ نے موطا کی جس حدیث کا ذکر کیا ہے، اس حدیث کے متن میں ”وضو کی شرط“ موجود نہیں ہے۔ البتہ امام مالک کی ”وضاحت“ میں وضو کا ذکر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور طواف کے لئے واضح طور پر وضو کو لازم قرار دیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو ہاتھ لگانے یا تلاوت کرنے کے لئے ایسا کیوں نہیں کیا۔ جو شرط اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں لگائی، وہ کوئی اور اپنی طرف سے کیسے لگا سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
۴۷۷۔ عن أبی ہریر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لقیہ وھو جنب قال: فا نحنیت فاغتسلت ثم جئت فقال: أیْنَ کُنْتَ اَوْ اَیْنَ ذَھْبَتَ ، قلت : انی کنت جنبا ، قال: اِنَّ الْمُؤمِنَ لاَیَنْجِسُ ۔

فتاوی رضویہ جدید ۴/۳۵۱

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے میری حالت جنابت میں ملاقات ہوئی تو میں موقع پا کر آہستہ سے کھسک آیا اور غسل کرکے واپس خدمت اقدس میں حاضر ہو ا ۔ حضور نے فرمایا: کہاں تھے ۔ میں نے عرض کیا : میں جنبی تھا ۔ فرمایا : مومن در حقیقت کبھی ناپاک نہیں ہوتا ۔

پس تحریر: اس حدیث کی تحقیقی مطلوب ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں۔
حدیث درست ہے لیکن استدلال درست نہیں کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن چونکہ اصلاً طاہر اور پاک ہے اس لئے وہ حالت جنابت میں بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے حالانکہ حدث اکبر یعنی حالت جنابت، حیض و نفاس کی صورت میں قرآن کو ہاتھ لگانا بالاتفاق حرام ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
حدیث درست ہے لیکن استدلال درست نہیں کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن چونکہ اصلاً طاہر اور پاک ہے اس لئے وہ حالت جنابت میں بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے حالانکہ حدث اکبر یعنی حالت جنابت، حیض و نفاس کی صورت میں قرآن کو ہاتھ لگانا بالاتفاق حرام ہے۔
حالت جنابت تو ایک عارضی اور اختیاری حالت ہے۔ انسان فوری طور پر غسل کر کے اس حالت سے نکل سکتا ہے۔ لیکن حیض و نفاس اختیاری اور عارضی نہیں ہے۔ کیا دینی مدارس میں خواتین ان ایام میں قرآن کی درس و تدریس میں حصہ نہیں لیتیں؟ اب یہ نہ کہئیے گا کہ ایسی خواتین قرآن کو براہ راست ہاتھوں سے نہیں بلکہ کپڑے وغیرہ سے مس کرتی ہیں۔ اور قرآنی آیات کو رواں نہیں بلکہ توڑ توڑ کر ادا کرتی ہیں۔ یہ ہدایات ”مولویوں“ کی اپنی اختراع ہیں، احادیث میں (غالباً) اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ان مخصوص ایام میں کپڑے وغیرہ سے قرآن کو چھونے پر عمل کرنے کے قائلین اس حدیث کو ضرور مد نظر رکھیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ مسجد سے جائے نماز اٹھا کر دو تو اماں
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرما یا کہ میں تو حیض کی حالت میں ہوں (یہ کام کیسے کروں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کیا حیض تمہارے ہاتھوں میں ہے ؟
 
Top