• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث القہقہۃ اور امام ابو حنیفہ

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
حدیث القہقہۃ اور امام ابو حنیفہa
از: حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
الحمد اﷲ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسول اﷲ محمد بن عبد اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، ومن والاہ، أما بعد:
امام دارقطنیa فرماتے ہیں:
''حدثنا أبوبکر الشافعي وأحمد بن محمد بن زیاد وآخرون قالوا: حدثنا إسماعیل بن محمد بن أبي کثیر القاضي: حدثنا مکی بن إبراھیم: نا أبو حنیفۃ عن منصور بن زاذان، عن الحسن، عن معبد، عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، قال: بینما ھو في الصلاۃ، إذ أقبل أعمی یرید الصلاۃ، فوقع في زبیۃ، فاستضحک القوم، حتی قھقھوا، فلما انصرف النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: ((من کان منکم قھقھۃ، فلیعد الوضوء والصلاۃ))
سنن الدارقطني (١/ ١٦٧، حدیث: ٢٢، دوسرا نسخہ: ٦١١)
''معبد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اﷲe نماز پڑھا رہے تھے، ایک نابینا شخص نماز کی ادائیگی کے لیے حاضر ہوا تو وہ گڑھے میں گر گیا، لوگوں نے اسے دیکھ کر قہقہہ لگایا۔ جب نبی کریمe نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو انھیں ارشاد فرمایا: ''تم میں سے جس نے قہقہہ لگایا ہے وہ وضو کر کے نماز دوبارہ لوٹائے''۔''
اس حدیث کی سند مکی بن ابراہیم تک صحیح ہے۔ امام ابو حنیفہa نے اس حدیث کی سند اور متن میں ثقہ راویان سے اختلاف کیا اور سند میں معبد کا ذکر کیا جسے صحابی باور کرانے کے لیے احناف نقد ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ اب ان نکات کی تفصیل ملاحظہ ہو:
امام ابو حنیفہa سے اس حدیث کو ایک جماعت نے موصول بیان کیا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے اسے مرسل بیان کیا ہے۔
حدیث کو موصول بیان کرنے والے:
موصول بیان کرنے والے: مکی بن ابراہیم، سعد بن الصلت، قاضی ابو یوسف اور ابو یحییٰ حمانی ہیں:
١۔ مکی بن ابراہیم المقری (ثقۃ ثبت۔ التقریب: ٧٧٤٠) ان کی روایت سنن دارقطنی (١/ ١٦٧، ح: ٢٢)، الکامل لابن عدی (٣/ ١٠٢٧)، الخلافیات للبیھقی (٢/ ٣٩٢) میں ہے۔
٢۔ سعد بن الصلت (الإمام المحدث الکوفی، سیر أعلام النبلائ: ٩/ ٣١٧) ان کی روایت أسد الغابۃ لابن الأثیر الجزری (٤/ ٣٩١) میں ہے۔
٣۔ قاضی ابو یوسف، تلمیذ الإمام أبی حنیفہ، ان کی روایت کتاب الآثار لأبی یوسف (ص: ٢٨، رقم: ١٣٥)، الکامل لابن عدی (٣/ ١٠٢٧)، الخلافیات (٢/ ٣٩٢) میں ہے۔
٤۔ ابو یحییٰ الحمانی عبد الحمید بن عبدالرحمن (صدوق یخطیئ، التقریب: ٤١٩٦) ان کی روایت الکامل لابن عدی (٣/ ١٠٢٧)، الخلافیات (٢/ ٣٩٢، رقم الحدیث: ٧٢٧) میں ہے۔
یہ چاروں شاگرد امام ابو حنیفہ عن منصور بن زاذان عن الحسن عن معبد عن النبيؐ سے موصولاً روایت کرتے ہیں۔
موسل بیان کرنے والے:
جبکہ محمد بن حسن شیبانی، حسن بن زیادہ لؤلؤی اور زفر تینوں معبد کے واسطے کے بغیر مرسلاً روایت کرتے ہیں۔
١۔ محمد بن حسن شیبانی (کذاب، قالہ ابن معین کما فی ضعفاء العقیلی: ٤/ ٥٢) ان کی روایت الحجۃ علی أھل المدینۃ للشیبانی (١/ ٢٠٤۔ ٢٠٦)، الکامل لابن عدی (٣/ ١٠٢٧)، الخلافیات (٢/ ٣٩٣) میں ہے۔
٢۔ حسن بن زیادہ لؤلؤی، کذاب خبیث۔ قالہ النسائي في الضعفاء الصغیر (ص: ٢٦٦)، الجوہر النقي لابن الترکمانی (١/ ١٤٥)
٣۔ زفر بن الھذیل العنبری (متکلم فیہ ہے۔ لسان المیزان: ٢/ ٤٧٦۔٤٧٨) الکامل لابن عدی (٣/ ١٠٢٧)، الخلافیات (٢/ ٣٩٣)
عن أبي حنیفۃ عن منصور بن زاذان عن الحسن البصري عن النبیؐ یعنی مرسلاً روایت کرتے ہیں، ایسی صورت میں اس روایت کے دو حل ہیں:
١۔ امام ابو حنیفہa نے کبھی تو اسے موصول بیان کیا اور کبھی مرسل، ان کے تلامذہ نے جس طرف سنا اسی طرح بیان کر دیا، مگر یہ حل غور طلب ہے، کیونکہ اس تأویل کی گنجائش وہاں ہوتی ہے، جہاں راوی ثقہ اور کثیر الروایہ ہو، مگر یہ دونوں اوصاف امام ابو حنیفہa میں ناپید ہیں۔
٢۔ اسے موصول بیان کرنے والی ایسی جماعت ہے جس کے رواۃ تعدیل کے اعلیٰ درجات پر بھی فائز ہیں، جبکہ ان کے مقابل اسے مرسل بیان کرنے والے ضعفاء اور متروکین ہیں، بنا بریں راجح یہ ہے کہ یہ روایت امام صاحب سے موصولاً ہی مروی ہے، جس بنا پر محدثین نے ان پر تنقید بھی کی ہے۔
امام ابو حنیفہa کا ثقات کی مخالفت کرنا:
منصور بن زاذان کے شاگرد ابو حنیفہa کے علاوہ غیلان اور ہشیم بھی ہیں، غیلان بن جامع ثقہ ہیں۔ (التقریب: ٦٠٣٥) مگر وہ امام ابوحنیفہa کے برعکس منصور عن ابن سیرین عن معبد الجہني بیان کرتے ہیں۔ جبکہ امام ابو حنیفہ، منصور عن الحسن البصري عن معبد بیان کرتے ہیں۔
امام دارقطنیa امام ابوحنیفہa کی سند کو مرجوح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
''غیلان بن جامع و ہشیم بن بشیر وھما أحفظ من أبي حنیفۃ للإسناد.'' (سنن الدارقطني: ١/ ١٦٧)
''کہ غیلان اور ہشیم امام ابو حنیفہ a سے زیادہ سندوں کو یاد رکھنے والے ہیں''
حافظ بیہقیa نے الخلافیات (٢/ ٣٩٤) میں امام دارقطنیa کا قول باسند نقل کر کے ان کی خاموش تائید کی ہے۔
٢۔ ہشیم بن بشیر، منصور بن زاذان کے دوسرے شاگرد ہیں۔ یہ بھی ثقہ ثبت اور کتب ستہ کے راوی ہیں۔ (التقریب: ٨٢٣٢)
موصوف امام ابوحنیفہa کے خلاف اس حدیث کی سند یوں بیان کرتے ہیں:
''عن منصور بن زاذان، عن ابن سیرین و خالد الحذائ، عن حفصۃ، عن أبي العالیۃ مرسلاً.''
گویا دو مقامات پر انھوں نے امام ابو حنیفہa کی مخالفت کی ہے۔
١۔ یہ روایت ابو العالیہ کی مرسل ہے۔
٢۔ اس کی سند منصور عن ابن سیرین و خالد عن حفصۃ... ہے۔
منصور عن الحسن عن معبد نہیں، جس طرح امام ابوحنیفہa نے بیان کی ہے۔
ہشیم اسی حدیث کو ابن سیرین کی متابعت کے بغیر بھی خالد الحذاء کی سند سے ذکر کرتے ہیں۔ (سنن الدارقطني: ١/ ١٦٨، حدیث: ٢٥)
اس سند میں ہشیم کی متابعت سفیان ثوری (دارقطنی: ١/ ١٦٨، ح: ٢٦، ٢٧، الکامل: ٣/ ١٠٢٩، الخلافیات: ٢/ ٣٧٦، رقم: ٦٩٣) اور حماد بن زید (سنن الدارقطنی: ١/ ١٦٨، ح: ٢٨) نے کی ہے۔
حافظ ابن عدیa امام ابو حنیفہa کی سند کو مرجوح قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
''وأصحاب منصور بن زاذان صاحب المختص فیہ ہشیم بن بشیر، لأنہ من أھل بلدہ وأبي عوانۃ ھذا الحدیث لا موصولاً ولا مرسلاً، فأخطأ أبو حنیفۃ في إسناد ھذا الحدیث ومتنہ، لزیادتہ في الإسناد معبد، والأصل عن الحسن مرسلاً، وزیادتہ في متنہ القھقھۃ، ولیس في حدیث أبي العالیۃ مع ضعفہ وإرسالہ القھقھۃ.'' (الکامل: ٣/ ١٠٢٨)
حافظ ابن عدیa کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ منصور شہر واسط کے باشندے اور محدث ہیں ان کے دو شاگرد (ہشیم اور ابو عوانہ وضاح بن عبداﷲ الیشکری) بھی اس شہر کے رہائشی ہیں۔ بلکہ ہشیم تو منصور کے خاص شاگرد ہیں، ان سب کے باوجود وہ اس حدیث کو امام حسن بصری سے موصولاً بیان کرتے ہیں اور نہ مرسلاً۔ امام ابو حنیفہa نے اس سند اور متن میں غلطی کی ہے۔ سند میں غلطی یہ کہ انھوں نے معبد کے واسطے کا اضافہ کیا ہے، جبکہ یہ حدیث حسن بصری سے مرسلاً مروی ہے اور متن میں قہقہہ کا ذکر کیا ہے حالانکہ ابو العالیہ کی حدیث میں ضعف اور ارسال کے باوجود قہقہہ کا ذکر نہیں ہے۔
ابن سیرین اور خالد الحذاء کی متابعت ہشام بن حسان (سنن دارقطنی: ١/ ١٧٠، ح: ٣٤۔ ٣٧، الکامل لابن عدی: ٣/ ١٠٢٩)، ایوب السختیانی (١/ ١٦٨۔١٦٩، ح: ٢٩)، مطر (دارقطنی (١/ ١٦٩، ح: ٣١) اور حفص بن سلیمان المنقری (سنن الدارقطنی: ١/ ١٦٩، ح: ٣٢) وغیرہ نے کی ہے۔
حفصہ بنت سیرین کی متابعت ابو ہاشم (سنن الدارقطنی: ١/ ١٧٠، ح: ٣٨۔ ٤٢، الکامل لابن عدی: ٣/ ١٠٢٨) اور قتادہ (سنن الدارقطنی: ١/ ١٦٣، ح: ٥۔٩، الخلافیات: ٢/ ٣٧٦۔٣٧٨، رقم: ٦٩٥۔٦٩٦، الکامل: ٣/ ١٠٢٨) نے کی ہے۔
گویا یہ حدیث مرسل ہے۔ امام حسن بصری بھی ابو العالیہ کی طرح اسے مرسل ہی بیان کرتے ہیں۔
مخالفت کی ایک اور زبردست دلیل:
امام حسن بصری کے انتہائی خاص شاگرد، بلکہ اپنی زندگی کا ایک عرصہ آپ کی خدمت اور رفاقت میں گزارنے والے راوی ہشام بن حسان ازدی ہیں۔ جنھوں نے اس روایت کو امام ابو حنیفہ کے خلاف امام حسن بصری سے مرسلاً ہی بیان کیا ہے۔ حافظ دارقطنیa نے حضرت حسن بصری کی اسی مرسل روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔سنن الدارقطنی (١/ ١٦٥، ح: ١٤) ہشام نے حسن بصری سے سنا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔
حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں:
''ثقۃ من أثبت الناس في ابن سیرین، وفي روایتہ عن الحسن وعطاء مقال لأنہ قیل: کان یرسل عنہما۔''
(التقریب:٨٢٠٥)
''کہ ہشام ثقہ ہیں، ابن سیرین سے روایت کرنے میں تمام راویوں سے اثبت ہیں، اور ان کی حسن (بصری) اور عطاء سے روایات میں کلام ہے۔ منقول ہے کہ وہ ان دونوں سے ارسال کیا کرتے تھے۔''
ہشام کا حسن بصری سے سماع:
جبکہ صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ ان کا حسن بصری سے سماع ثابت ہے۔ اس کے تین دلائل ہیں:
اولاً: شیخ الاسلام امام بخاری a نے ان کا حسن بصری سے سماع ثابت کیا ہے۔
(التاریخ الکبیر، ج:٨، ص:١٩٧، ترجمہ: ٢٦٨٩)
امام احمد بن حنبلa اور امام ابونعیمa تو فرماتے ہیں:
'' ہشام دس برس تک حسن بصری کی رفاقت میں رہے۔''
(العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد بن حنبل، ج:١، ص:٢٤٦، فقرہ: ١٣٩٨ دوسرا نسخہ، ج:١، ص:٢١٨، فقرہ:١٣٩٨۔ وحلیۃ الأولیاء لأبي نعیم، ج:٦، ص:٢٦٩)
ثانیاً: امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور امام حاکمS نے ہشام کی حسن بصری سے روایات کی تصحیح کی ہے۔
١۔ امام بخاریa، دیکھئے ہدی الساری لابن حجر (ص: ٤٤٨ )
٢۔ امام مسلمa (ح:٦/١٦٤٨، دارالسلام: ٤٢٦٢ و ٦٤/ ١٨٥٤ دارالسلام: ٤٨٠٣)
٣۔ امام ترمذیa، سنن الترمذی (ح: ١٧٥٦، ٢٢٦٥ وقال: حسن صحیح )
٤۔ امام الائمہ ابن خزیمہa، صحیح ابن خزیمہ (ج:٢، ص:٩٧، ح:٩٩٤، ج:٤، ص:١٤٥، ح:٢٥٤٩)
٥۔ امام ابن حبانa، صحیح ابن حبان ۔۔۔۔۔۔ الاحسان ۔۔۔۔۔۔ (ج:١، ص:٣٣٣، ح:٤٤١، ج:٣، ص:١٢، ح:١٤٥٩، ج:٤، ص:١٤٨، ح:٢٦٤١، ج:٧، ص:٤١٠، ح:٥٤٦٠، ج:٩، ص:٢٣٩، ح: ٧٣٤٠۔ دوسرا نسخہ، ح:٤٤٠، ١٤٦١، ٢٦٥٠، ٥٤٨٤، ٧٣٨٣)
٦۔ امام حاکمa، المستدرک علی الصحیحین (ج:٢، ص:٦٨۔ ٦٩، ج:٤، ص:٣٦٧)
ثالثاً: خود ہشام بن حسان اپنے بارے میں فرماتے ہیں ''میں حسن بصری کے ساتھ دس برس تک رہا۔'' (التاریخ لیحیی بن معین بروایۃ الدوری، ج:٤، ص:٢١٩، فقرہ:٤٠٥١)، التاریخ الکبیر للبخاری (ج:٨، ص:١٩٧)، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (ج:٩، ص:٥٦ ۔سندہ صحیح۔)
اس لیے ہشام کے حسن بصری سے سماع میں کوئی شک نہیں اور جنھوں نے ان کے سماع کی نفی کی ہے ان کی بات مرجوح ہے۔ کیوں کہ مثبت نافی پر مقدم ہوتا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ سلیمان بن ارقم (سنن الدارقطني: ١/ ١٦٦، ح: ١٦، ١٧) اور امام زہری (سنن الدارقطنی: ١/ ١٦٦، ح: ١٨۔٢٠، الکامل لابن عدي: ٣/ ١٠٢٦) نے ہشام کی متابعت کی ہے۔
معبد راوی کے تعین میں اختلاف:
امام ابو حنیفہa نے منصور بن زاذان عن الحسن البصری عن معبد میں معبد کا ذکر کیا ہے، وہ کون ہے؟ اس بارے میں مختلف آرا ملاحظہ ہوں:
١۔ یہ معبد بن ہوذہ ہے۔ جسے امام بخاریa نے تسمیۃ أصحاب النبیe میں ذکر کیا ہے۔ یہ دعویٰ حافظ الدولابی کا ہے۔ (الکامل لابن عدی: ٣/ ١٠٢٧)
امام بخاریa اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
''معبد بن ھوذۃ الأنصاری لہ صحبۃ.''
التاریخ الکبیر (٧/ ٣٩٨، ترجمۃ: ١٧٤٠)
٢۔ یہ معبد بن ابی معبد یا معبد بن ام معبد الکعبی الخزاعی ہے۔ امام بو نعیمa نے ان کے تذکرہ میں حدیث القہقہۃ ذکر کی ہے۔
معرفۃ الصحابۃ (٥/ ٢٥٢٩، حدیث: ٦١٢٤)
٣۔ یہ معبد بن صبیح تابعی ہے۔ محدثین کی ایک جماعت کا یہ موقف ہے۔
٤۔ یہ معبد بن خالد جہنی ابو روعۃ ہے۔ معبد قدری نہیں۔
الجوہر النقي لابن الترکمانی (١/ ١٤٥۔١٤٦)
٥۔ یہ معبد جہنی ہے۔ جس کا نسب معلوم نہیں جو مشہور قدری ہے۔
پہلے قول کا مناقشہ: یہ معبد بن ہوذہt نہیں:
حافظ دولابی کا اس مبہم راوی کو معبد بن ہوذہ قرار دینا درست نہیں، کیونکہ ابن ہوذہt ایک مشہور انصاری صحابی ہیں، جن کی ایک معروف اور منکر روایت ''روزہ دار روزے کی حالت میں سرمہ نہ لگائے۔'' ہے جسے امام بخاریa (التاریخ الکبیر: ٧/ ٣٩٨، رقم: ١٧٤٠)، امام ابن ابی حاتمH (الجرح والتعدیل: ٨/ ٢٧٩، ترجمۃ: ١٢٧٥)، امام ابو نعیمa (معرفۃ الصحابہ: ٥/ ٢٥٢٦، حدیث: ٦١١٦)، امام ابن عبدالبرa (الاستیعاب: ٣/ ٤٨٠، ترجمۃ: ٢٤٨٢)، امام ذہبیa (تجرید أسماء الصحابۃ: ٢/ ٨٦، رقم: ٩٦٣) وغیرہ نے معبد بن ہوذہ انصاریt کے ترجمے میں ذکر کیا ہے۔
امام یحییٰ بن معینa (سنن ابی داود: ٢٣٧٧) اور محدث البانیa نے اسے منکر قرار دیا ہے۔ السلسلۃ الضعیفۃ (٣/ ٦٥۔٨٠، ح: ١٠٢٧) اس لیے حافظ دولابی کا یہ دعویٰ بلا دلیل ہے، بلکہ ان کی تردید میں حافظ ابن عدیa فرماتے ہیں:
''وھذا الذي ذکرہ ابن حماد غلط، وذلک أنہ قیل معبد الجہني، فکیف یکون جھني، أنصاري؟ ومعبد بن ہوذۃ أنصاري... إلا أن ابن حماد اعتذر لأبي حنیفۃ فقال: ھو معبد بن ھوذۃ، لمیلہ أبي حنیفۃ، ولم یقلہ أحد عن معبد في ھذا الإسناد إلا أبو حنیفۃ.''
''ابن حماد دولابی کا اسے معبد بن ہوذہ قرار دینا غلط ہے، کیونکہ اسی راوی کو معبد جہنی بھی کہا گیا ہے۔ معبد جہنی، معبد انصاری کیسے ہوسکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ دولابی، ابو حنیفہa کی طرف سے معذرت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ معبد بن ہوذہ ہے، کیونکہ وہ حنفی مسلک کے طرف مائل تھے۔ اس سند میں صرف ابو حنیفہa نے معبد کا ذکر کیا ہے۔'' (الکامل لابن عدي: ٣/ ١٠٢٧)
دوسرے قول کا مناقشہ: یہ معبد خزاعیt نہیں:
معبد بن ابی معبد خزاعیt بلاشبہ صحابی ہیں، امام ابن مندہa نے معرفۃ الصحابۃ (أسد الغابۃ لابن الأثیر: ٤/ ٣٩١۔ ٣٩٢) امام ابو نُعیم نے معرفۃ الصحابہ (٥/ ٢٥٢٩، ترجمۃ: ٢٦٩٣) اور حافظ ابن حجرa نے الإصابۃ (٥/ ١٧٤، ترجمۃ: ٨١٠٦ ۔القسم الاول۔) میں ذکر کیا ہے۔
یہ وہی خوش نصیب گھرانہ ہے جنھیں آپe نے ہجرتِ مدینہ کے سفر کے دورانِ میں شرفِ میزبانی بخشا اور وہاں بکری کا دودھ بھی دوہا، جس کی تفصیل مذکورہ بالا کتب کے علاوہ دیگر کتب سیر و تاریخ میں منقول ہے۔
رسول اﷲe کی آمد کے وقت یہ کم سن تھے۔ معلوم نہیں کہ حافظ ابو نُعیمa نے کس دلیل کی بنیاد پر انھیں حدیث القہقہۃ کا راوی قرار دیا ہے، جب ان کا اس حدیث سے دور کا بھی ناطہ نہیں، کیونکہ
١۔ امام حسن بصری کی کوئی بھی صحیح یا ضعیف روایت حضرت معبد بن ابی معبد خزاعی t سے مروی نہیں۔
٢۔ امام حسن بصری کے اساتذہ میں کسی بھی محدث نے معبد خزاعی کا نام نہیں دیا اور نہ معبد خزاعی کے شاگردوں میں حسن بصری کا شمار کیا ہے۔
٣۔ امام ابونعیم، جنھوں نے معرفۃ الصحابۃ میں حسن بصری عن معبد کی روایت کا تذکرہ کیا ہے، نے حلیۃ الاولیاء (ج:٢، ص:١٣١۔١٦١) میں حسن بصری کے مفصل حالات زندگی میں ان کے شیوخ میں معبد موصوف کو ذکر نہیں کیا۔
٤۔ احادیث کے وسیع ترین ذخیرہ میں معبد مذکور کی کوئی روایت نہیں ملی۔ البتہ غزوہئ حمراء الاسد میں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام (٢/ ١٠٢) جوامع السیرۃ لابن حزم (ص: ١٧٥)، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر (٣/ ٩٩)
٥۔ صاحب المسانید میں سے کسی نے بھی مسند معبد خزاعی قائم نہیں کی۔
٦۔ المنفردات والوحدان اور الغرائب والافراد میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔
٧۔ حافظ ابن الجوزی ٥٩٧ھ نے تلقیح فہوم اہل الاثر (ص:٢٠٧۔٢٠٩) میں مستقل طور پر ان صحابہئ کرام کا بھی تذکرہ کیا ہے جن سے صرف ایک ہی تابعی روایت کرتے ہیں۔ اس مقام پر انھوں نے حسن بصری کے چار اساتذہ کا بھی ذکر کیا ہے جن سے امام بصری روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے یہاں بھی حسن بصری عن معبد خزاعی کا مطلق طور پر ذکر ہی نہیں کیا۔
٨۔ حافظ بقی بن مخلد ٢٧٦ھ نے اپنی مسند، جو دنیا کی سب سے بڑی مسند تھی، (الرسالۃ المستطرفۃ للکتانی، ص:٦٣) میں معبد خزاعی کی کوئی روایت نہیں لائے۔ یہ مسند تو مفقود ہے تاہم حافظ ابن حزمa نے اس میں موجود سبھی صحابہ کرامy کے ناموں کو ایک چھوٹے سے رسالے میں جمع فرمایا ہے، جو جوامع السیرۃ لابن حزم کے ساتھ ہی مطبوع ہے۔ (دیکھئے: أسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد، ص:٢٧٣۔ ٣١٥) اس میں موجود اس قسم، جو ان صحابہ کرام کے اسماء کے ساتھ مختص ہے جن کی صرف ایک ہی روایت ہے، میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں۔
بلکہ حافظ ابن الجوزیa نے بھی تلقیح فہوم اہل الاثر میں بھی ان صحابہئ کرام کا تذکرہ کیا ہے اور ان اسماء پر بطورِ استدراک حافظ ابوبکر البرقیa احمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم ٢٧٠ھ (المنتظم لابن الجوزی، ج:١٢، ص:٢٣٠) کی کتاب التاریخ سے دیگر صحابہ وغیرہ کا بھی اضافہ کیا ہے۔ مگر ان سب میں معبد خزاعی کا ذکر تک نہیں ہے۔
٩۔ امام ابوحنیفہ a سے مکی بن ابراہیم نے یہی روایت (سنن دارقطنی، ج:١، ص:١٦٧، ح:٢٢) بغیر کسی نسبت اور تحدید کے بیان کی ہے۔
١٠۔ مکی بن ابراہیم کی ایک جماعت نے متابعت کی ہے، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس لیے جماعت کی روایت ہی معتبر ہوگی۔ تلک عشرۃ کاملۃ
ان مضبوط قرائن سے معلوم ہوا کہ امام ابونعیمa وغیرہ کا اس روایت کو معبد خزاعی کے ترجمے میں ذکر کرنا غیر صحیح ہے یا اس مبہم اور مجہول راوی کو معبد خزاعی قرار دینا بہر نوع غلط ہے۔
تیسرے قول کا مناقشہ: معبد بن صبیح تابعی ہے:
معبد بن صبیح (صبیحۃ) القرشی التیمی تابعی ہیں۔ حافظ ابن حبانa نے اسے تابعین میں ذکر کیا ہے۔ الثقات لابن حبان (٥/ ٤٣٢۔ ٤٣٣)۔ حافظ ابن حبانa (الثقات: ٥/ ٤٣٢۔ ٤٣٣)، حافظ ابن عبدالبر (الاستیعاب: ٣/ ٤٧٩، ترجمۃ: ٢٤٧٤)، حافظ ابن الاثیر الجزریa (اسد الغابۃ: ٤/ ٣٩١)، حافظ ذہبیa (تجرید اسماء الصحابۃ (٢/ ٨٥، ترجمۃ: ٩٥١)، حافظ ابن حجرa (الإصابۃ: ٥/ ٢٩٥، ترجمۃ: ٨٥٩١) وغیرہ نے فرمایا ہے کہ حدیث القہقہۃ کا یہی راوی ہے۔
بلکہ مسند الإمام الأعظم ابی حنیفۃ لأبي عبد اﷲ الحسین بن محمد بن خسرو ٥٢٢ھ، (٢/ ٨٠٣، حدیث: ١٠٥٠) اور جامع المسانید للخوارزمی (١/ ٢٧٤) میں عن الحسن عن معبد بن صبیح مرفوعاً مروی ہے۔ مگر احناف انھیں معبد بن صبیح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں!!!
ثانیاً: حافظ ابو نُعیمa فرماتے ہیں:
''ورواہ أسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ فقال: معبد بن صبیح.''
معرفۃ الصحابۃ (٥/ ٢٥٢٩) و أسد الغابۃ (٤/ ٣٩١)
اسد بن عمرو پر محدثین نے سخت تنقید کی ہے۔ لسان المیزان (١/ ٣٨٣۔٣٨٤)
اس پر مستزاد یہ کہ اس نے امام ابو حنیفہa کے دیگر تلامذہ کی مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ اسے بدونِ نسبت ذکر کرتے ہیں یا کم از کم معبد بن صبیح باور نہیں کراتے۔
ثالثاً: حافظ ابن الجوزیa فرماتے ہیں: ''معبد بن ابی معبد الکعبی الخزاعی، جس کی والدہ کا نام ام معبد ہے، کو معبد بن صبیح بھی کہا جاتا ہے۔
(تلقیح فھوم أھل الأثر لابن الجوزي، ص: ١٢٦)
حافظ ابن الجوزیa کا یہ موقف قابلِ غور ہے، کیونکہ معبد خزاعی صحابی ہیں اور معبد بن صبیح تابعی ہیں۔ مؤخر الذکر کو حافظ ابن حبانa نے ثقات التابعین میں ذکر کر کے ان کے صحابی ہونے کی نفی کی ہے۔ (الثقات: ٥/ ٤٣٣)
حافظ ابن حجرa نے بھی الاصابۃ کی القسم الرابع میں انھیں ذکر کیا ہے۔ الإصابۃ (٥/ ٢٩٥)۔ جن میں وہ ان اشخاص کا ذکر کرتے ہیں جنھیں غلطی یا وہم کی وجہ سے جماعتِ صحابہ میں شمار کیا گیا ہو۔ جیسا کہ انھوں نے خود تصریح کی ہے کہ ''القسم الرابع فیمن ذکر في الصحابۃ غلطاً'' اور مقدمہئ کتاب میں اس کی صراحت بھی کی ہے۔
چوتھے قول کا مناقشہ: یہ راوی معبد بن خالدt نہیں:
علامہ ابن الترکمانی کا رجحان اس جانب ہے کہ یہ معبد بن ابی معبد خزاعی ہے یا پھر معبد جہنی ہے جو قدری نہیں، اگر اسے قدری تسلیم کیا جائے تو تب بھی اس کے صحابی ہونے سے انکار کی گنجائش نہیں، کیونکہ فتح مکہ کے روز قبیلہ جہینہ کے چار علم برداروں میں سے ایک تھے۔ (الجوہر النقی: ١/ ١٤٥۔ ١٤٦) علامہ بدر الدین عینی نے بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ (البنایۃ شرح الہدایۃ: ١/ ٢٩٢)۔ علامہ ابن ہمام نے بھی علامہ عینی کا حق شاگردی ادا کیا ہے۔ (فتح القدیر: ١/ ٣٥) مولانا عبدالحی لکھنوی کا بھی یہی موقف ہے۔ (الھسھسۃ بنقض الوضوء بالقھقھۃ، ص: ١٤، ١٥)
معبد بن خالد جہنی ابو روعۃt کو اس حدیث کا راوی قرار دینا قابلِ التفات نہیں، کیونکہ یہ دلیل سے تہی دامن ہے۔
بلاشبہ آپ کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے۔ الإصابۃ لابن حجر (٥/ ١٧٢، رقم: ٨٠٩٢ ۔القسم الأول۔)، الجرح والتعدیل (٨/ ٢٧٩، ترجمۃ: ١٢٧٦)، الاستیعاب لابن عبدالبر (٣/ ٤٧٨، ترجمۃ: ٢٤٧١)، أسد الغابۃ لابن الأثیر (٤/ ٣٩٠)
محدثین نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ آپ معبد قدری نہیں۔
پانچویں قول کا مناقشہ: یہ معبد جہنی ہے:
امام ابو حنیفہa کی سند میں معبد، معبد جہنی قدری ہے، اسے معبد بن عبداﷲ بن عویمر اور معبد بن خالد بھی کہا جاتا ہے، درست یہ ہے کہ اس کا نسب معلوم نہیں، بصرہ کا یہ پہلا شخص تھا جس نے تقدیر کا انکار کیا۔ (التاریخ الکبیر: ٧/ ٣٩٩، الجرح والتعدیل: ٨/ ٢٨٠، ترجمۃ: ١٢٨٢، المجروحین لابن حبان : ٣/ ٣٥) مگر یہ اپنی ضلالت اور گمراہی کے باوجود صدوق راوی ہے۔ (التقریب: ٧٦٣٥)
متعدد محدثین نے اسے معبد جہنی قرار دیا ہے، حافظ دارقطنیa فرماتے ہیں:
ومعبد ھذا لاصحبۃ لہ، ویقال: إنہ أول من تکلم في القدر من التابعین.''
''یہ معبد جہنی صحابی نہیں، منقول ہے کہ تابعین میں سب سے پہلے اس نے تقدیر کا انکار کیا۔'' (سنن الدارقطنی: ١/ ١٦٧)
حافظ بیہقیa نے بھی حافظ دارقطنیa کا یہ قول باسند ذکر کیا ہے۔
(الخلافیات: ٢/ ٣٩٤، حدیث: ٧٢٨)
حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں:
''والمحفوظ أن الذي روی حدیث الضحک یقال لہ: معبد الجہني، وکذا وقع عند الدارقطني.'' (الإیثار لابن حجر، رقم: ٢٤٠)
''حدیث الضحک کا راوی معبد بن صبیح نہیں، محفوظ یہ ہے کہ اس کا راوی معبد جہنی ہے جیسا کہ سنن دارقطنی میں ہے۔''
حافظ صاحب نے اسے اور اس کی روایت کو مراسیل میں ذکر کیا ہے۔
(اتحاف المھرۃ: ١٩/ ٥٤٦۔٥٤٧)
تنبیہ: حافظ صاحب نے اتحاف میں معبد بن غیلان الجہنی البصری کا ذکر کیا ہے، جبکہ درست معبد بن خالد وغیرہ ہے۔ کتاب کے فاضل محقق نے بھی اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔
حافظ ابن حجرa نے اتحاف المہرۃ میں سنن دارقطنی کی سند نقل کی ہے، جبکہ وہاں سرے ہی سے معبد بن غیلان کا تذکرہ نہیں ہے۔
راجح قول:
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ محدثین کا رجحان اس جانب ہے کہ یہ معبد بن صبیح ہے یا معبد جہنی قدری، اور وہ دونوں تابعی ہیں۔ لہٰذا حدیث القہقہہ مرسل ہوئی جو کہ ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔
حافظ ابن عبدالبرa فرماتے ہیں:
''یہ حدیث محدثین کے ہاں ثابت نہیں، اہل حجاز بھی اسے نہیں جانتے۔'' (الاستیعاب: ٣/ ٤٧٩، ترجمۃ: ٢٤٧٤)
حاصل یہ ہے کہ یہ روایت اور اس جیسی باقی تمام مرفوع اور موقوف مرویات ضعیف ہیں۔ ہمیں تو سرِ دست صرف اتنا ہی عرض کرنا تھا کہ امام ابوحنیفہa اس روایت کو بیان کرتے ہوئے سند اور متن میں وہم کا شکار ہوگئے، جس کی پردہ پوشی کے لیے حافظ دولابیa نے معبد بن ہوذہ کا نام دیا ہے۔ اس لیے حافظ ابن عدیa نے اپنے استاد حافظ دولابیa کو خطاوار ٹھہرایا۔ حدیث کی تفصیل ملاحظہ فرمانے کے لیے: سنن دارقطنی (ج:٢، ص:٥٩۔٦٤، ط:ہند)، الکامل لابن عدی (ج:٣، ص:١٠٢٦۔١٠٣٠)، الخلافیات للبیہقی (ج:٢، ص:٣٦١۔٤١٦، مسئلہ:٢٢)، نصب الرایۃ للزیلعی (ج:١، ص:٤٧۔٥٣)، البنایۃ شرح الہدایۃ للعینی (ج:١، ص:٢٨٧۔٢٩٥)، اعلاء السنن للعثمانی (ج١، ص:٩٥۔١٠٥)، موسوعۃ الأحادیث والآثار الضعیفۃ والموضوعۃ، اعداد: علی حسن الحلبی وغیرہ (ح:٥٢٨٦، ٥٢٨٧، ٧٧٨٤، ٧٨٤٢، ٨٨١٥، ١٣٦٦١، ١٥٤٤٦، ١٧٥٣٧، ١٧٥٣٨، ٢٥٢٥٩، ٢٥٢٦٣)
حافظ خلیلیa ٤٤٦ھ نے ایک جزء میں ان تمام مرویات کو اکٹھا کیا ہے۔
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ١/ ١١٥، رقم: ١٥٣٠)
اسی طرح مولانا عبدالحئی لکھنوی کا ایک رسالہ ''الہسہسۃ بنقض الوضوء بالقہقھۃ'' بھی مطبوع ہے۔
فقہی مسئلہ:
اگر کوئی شخص کسی وجہ سے دورانِ نماز میں ہنس پڑے یا قہقہہ لگائے اس کی نماز باطل ہے، وہ صرف نماز کا اعادہ کرے گا اور وضو اس کا برقرار رہے گا۔ کیوں کہ حضرت جابرt وغیرہ کا یہی قول ہے۔
(المصنف لابن أبي شیبۃ: ٣/ ٣٠٩، ح: ٣٩٢٩ سندہ صحیح، والخلافیات للبیہقي: ٢/ ٣٦٥ وھامشہ، وإرواء الغلیل للألباني:٢/ ١١٤)
حافظ ابن المنذرa فرماتے ہیں:
اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ نماز کے علاوہ ہنسنے سے طہارت ختم نہیں ہوتی اور نہ وضو واجب ہوتا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ نماز میں ہنسنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔
(الأوسط لابن المنذر: ١/ ٢٢٦، مسئلہ: ٤١،٤٢)
اہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ جو نماز میں (کسی پاکباز عورت پر) تہمت لگائے (اس کی نماز باطل ہوجائے گی) اس پر وضو لازم نہیں آئے گا۔ انھوں (احناف) نے ہنسنے کے حکم کو تہمت کے حکم سے بڑا جانا ہے۔
(الأوسط لابن المنذر: ١/ ٢٣٠)
جمہور علماء اور محدثین کے ہاں ہنسنا یا قہقہہ لگانا صرف ناقض نماز ہے۔ مالکی مسلک دیکھنے کے لیے بدایۃ المجتہد لابن رشد (ج:١، ص:٢٩)، المدونۃ الکبریٰ المنسوب إلی مالک بن انس (ج:١، ص:١٠٠) ملاحظہ فرمائیں۔
شوافع کا مسلک دیکھنے کے لےے: الام للامام الشافعی (ج:١، ص:١٨)، المہذب لابی اسحاق الشیرازی (ج:١، ص:٢٤) وشرحہ المجموع المہذب للنووی (ج:٢، ص:٦٠)، روضۃ الطالبین للنووی (ج:١، ص:٧٢)، فتح العزیز شرح الوجیز لابی القاسم الرافعی (ج:٢، ص:٢۔ ہامش المجموع المہذب)، مغنی المحتاج للخطیب الشربینی (ج:١، ص:٣٢) ملاحظہ ہو۔
حنابلہ کا مسلک دیکھنے کے لیے: مسائل الامام أحمد لابی داود السجستانی صاحب السنن (ص:١٣)، مسائل الامام احمد لابن ہانی (ج:١، ص:٧، فقرہ:٣٨)، الافصاح لابن ہبیرہ (ج:١، ص:٨٢)، الاقناع للمقدسی الحجاوی (ج:١، ص:٤٠۔ دوسرا نسخہ، ج:١، ص:٦٠)، المغنی لابن قدامہ (ج:١، ص:١٦٩ و ص:١٧٧)، الفروع مع تصحیح الفروع لابن مفلح (ج:٢، ص:٢٨٧)، شرح منتہی الارادات للمنصور البہوتی (ج:١، ص:١٤٦)، تنقیح تحقیق احادیث التعلیق لابن عبد الہادی (ج:١، ص:١٦٧)، ملاحظہ فرمائیں۔
ان سب کے برعکس احناف کے ہاں دورانِ نماز میں ہنسنا یا قہقہہ لگانا نماز کے باطل کرنے کے ساتھ ساتھ وضو کو بھی باطل کردیتا ہے۔
الاصل لمحمد بن حسن الشیبانی (ج:١، ص:١٧١)، الحجۃ علی أہل المدینۃ لہ (ج:١، ص:٢٠٣)، الہدایۃ للمرغینانی (ج:١، ص:٢٦،٢٧) وشروحہ فتح القدیر لابن ہمام (ج:١، ص:٣٤،٣٥) والعنایۃ للبابرتی (ج:١، ص:٣٤،٣٥ ہامش: فتح القدیر) والبنایۃ لبدر الدین العینی (ج:١ ،ص:٢٩٢)، المبسوط للسرخسی (ج:١، ص:٧٧)، البحر الرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم (ج:١، ص:٤٢۔٤٤)، حاشیہ رد المحتار لابن عابدین (ج:١، ص:١٤٤،١٤٥)، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح للطحطاوی (ص: ٧٣،٧٤)، بدائع الصنائع للکاسانی (ج:١، ص:٦٠١)، کشف الاسرار لعبد العزیز بن محمد البخاری (ج:١، ص:١٨)، فتاویٰ عالمگیری (ج:١، ص:١٢)، فتاویٰ قاضی خان (ج:١، ص:٣٨ ہامش فتاویٰ عالمگیری) دوسرا نسخہ (ج:١، ص:١٩،٢٠، طبع: ہند)، فتاویٰ التاتارخانیہ للاندریتی (ج:١، ص:١٣٨۔ ١٤٣)
حتی کہ احناف کے سرخیل مولانا عبدالحي لکھنوی نے قہقہہ کو ناقضِ وضو قرار دینے کے لیے ''الھسھسۃ بنقض الوضو بالقھقھۃ'' بھی تصنیف فرمائی۔
اس بارے میں امام شافعی اور حسن بن زیادہ لؤلؤی کا دلچسپ مناظرہ دیکھیے: آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم الرازی (ص: ١٦٩، ١٧١)، الکامل لابن عدی (٢/ ٧٣٢)، الاوسط لابن المنذر (١/ ٢٢٦۔ ٢٣٠، مسئلہ: ٣٠)، فتاویٰ الدین الخالص لأمین اﷲ بشاوری (٢/ ٣٧٧۔٣٧٨)۔
B(مقالات اثریہ )
 
Top