• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث (اللهم أجرني من النار) کی تحقیق

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
فرض نمازوں کے بعد جن دعاؤں کے پڑھنے کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے انہیں میں سے ایک دعا ’’(اللهم أجرني من النار)‘‘ بھی ہے ، بعض حضرات فرض نماز کے بعد اس دعاء کے پڑھنے کو مسنون بتلاتے ہیں حالانکہ اس موقع پر اس دعاء کی مسنونیت کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ذیل میں اس بارے میں ملنے والی روایات کی تحقیق پیش خدمت ہے:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مذکورہ دعاء درج ذیل دو صحابہ سے نقل کی جاتی ہے:

  • اول: ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ۔
  • دوم: مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ۔


ذیل میں ان دونوں صحابہ سے نقل کی جانی والی روایات کا جائزہ پیش خدمت ہے:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدیث ابی امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ



امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا أحمد بن خالد بن مسرح الحراني ثنا معلل بن نفيل الحراني ثنا محمد بن محصن العكاشي ثنا الأوزاعي قال سمعت سليمان بن حبيب المحاربي يقول سمعت أبو أمامة الباهلي يقول قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا أقيمت الصلاة فتحت أبواب السماء واستجيب الدعاء فإذا انصرف المنصرف من الصلاة ولم يقول اللهم أجرني من النار وأدخلني الجنة وزوجني من الحور العين قالت النار : يا ويح هذا أعجز أن يستجير الله من جهنم وقالت الجنة : يا ويح هذا أعجز أن يسأل الله الجنة وقالت الحور العين : يا ويح هذا أعجز أن يسأل الله أن يزوجه من الحور العين [المعجم الكبير 8/ 102]۔

یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ، سند میں ’’محمد بن محصن العكاشي‘‘ کذاب راوی ہے ۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
كذاب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 195]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
مُحَمَّد بن مُحصن الْأَسدي شيخ يضع الْحَدِيث عَلَى الثِّقَات[المجروحين لابن حبان: 2/ 277]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
متروك يضع [سؤالات البرقاني للدارقطني: ص: 62]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
كَذَّابٌ يَضَعُ الْحَدِيثَ[القراءة خلف الإمام للبيهقي ص: 202]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
مُحَمَّدٌ هَذَا كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ عَلَى الثِّقَاتِ[تذكرة الحفاظ لابن القيسران ص: 26]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
متهم ساقط[الكاشف للذهبي: 2/ 214]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
محمد بن محصن العكاشي نسب إلى جده الأعلى وهو محمد بن إسحاق بن إبراهيم بن محمد بن عكاشة بن محصن الأسدي كذبوه[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 6268]۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى963)نے کہا:
محمد بن محصن الأسدى عن الأوزاعى كذاب[تنزيه الشريعة لابن العراق: 1/ 113]۔

امام طبرانی کے استاذ أحمد بن خالد بن مسرح الحراني بھی سخت ضیعف ہیں۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ضعيف ليس بشيء ما رأيت أحدا أثنى عليه [سؤالات حمزة للدارقطني: ص: 148]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدیث مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ۔


امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو النَّضْرِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْفِلَسْطِينِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُسْلِمٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ التَّمِيمِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهِ فَقَالَ: " إِذَا انْصَرَفْتَ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ فَقُلْ: اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ ثُمَّ مِتَّ فِي لَيْلَتِكَ كُتِبَ لَكَ جِوَارٌ مِنْهَا، وَإِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَقُلْ كَذَلِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ مِتَّ فِي يَوْمِكَ كُتِبَ لَكَ جِوَارٌ مِنْهَا " أَخْبَرَنِي أَبُو سَعِيدٍ، عَنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ قَالَ: «أَسَرَّهَا إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحْنُ نَخُصُّ بِهَا إِخْوَانَنَا»[سنن أبي داود 4/ 320 رقم 5079 واخرجہ غیرہ من طریق الحارث بہ]۔

یہ روایت ضعیف ہے ۔
سند میں موجود ’’الحارث بن مسلم‘‘ مجہول ہے ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول قرار دیا ، چنانچہ:
امام برقاني رحمه الله (المتوفى425)نے کہا:
قلت مسلم بن الحارث التميمي عن أبيه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال مسلم مجهول لا يحدث عن أبيه إلا هو[سؤالات البرقاني للدارقطني: ص: 65]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حارث بن مسلم کی توثیق کے دلائل کا جائزہ


حارث بن مسلم مجہول راوی ہے لیکن بعض اہل علم کا ماننا ہے کہ یہ ثقہ ہے چنانچہ حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:
حارث بن مسلم کے بارے میں اختلاف ہے دارقطنی وغیرہ نے انہیں مجہول سمجھا اوربعض علماء نے انہیں صحابہ میں ذکر کیا ، مثلا دیکھئے معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصبھانی (ج2ص 794ت659) ۔
جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسر ثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے دیکھئے التلخیص الحبیر(ج1ص74ح70)۔
حارث بن مسلم مذکور کی توثیق ابن حبان ، ہیثمی ( مجمع الزوائد 8/ 99) ابن حجر اورالمنذری (کما تقدم) نے کررکھی ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث تھے والحمدللہ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو حارث بن مسلم کی جہالت کی وجہ سے ضعیف قراردینا درست نہیں بلکہ یہ روایت حسن لذاتہ ہے [فتاری علمیہ ج 1ص484 ]۔
عرض ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف ہی راجح ہے ، اورحافظ موصوف نے جو توثیقات پیش کی ہیں ان کا جائزہ پیش خدمت ہے:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مختلف فیہ صحابیت والے راوی کی توثیق

یہ کہنا کہ جس راوی کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو وہ راوی کم از کم حسن الحدیث ضرور ہوتا ہے محل نظر ہے ، ہمیں اصول حدیث کی کسی کتاب میں یہ قائدہ نہیں بلکہ اس سلسلے میں صرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت کا حوالہ دیا گیا ہے :

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’أسماء بنت سعيد بن زيد بن عمرو‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَأَمَّا حَالُهَا فَقَدْ ذُكِرَتْ فِي الصَّحَابَةِ، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ لَهَا صُحْبَةٌ فَمِثْلُهَا لَا يُسْأَلُ عَنْ حَالِهَا[تلخيص الحبير 1/ 74]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اسی عبارت سے یہ اصول اخذ کیا جارہا ہے کہ جس راوی کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو وہ ثقہ یا حسن الحدیث ہوتا ہے ۔

عرض ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ بات بطور اصول نہیں کہی ہے بلکہ خاص ’’أسماء بنت سعيد بن زيد بن عمرو‘‘ کے بارے میں ایسا کہا ہے ، اور یہ بات قرائن کی بنیاد پر کہی ہے نہ کہ صرف اس بنیاد پر کہ ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی متعدد مقامات پر مختلف فیہ صحابیت والے ایسے رواۃ کو مجہول کہا ہے جن پر کوئی جرح نہیں ملتی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

كبشة بنت كعب بن مالك:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
كبشة بنت كعب بن مالك كانت تحت أبى قتادة الأنصاري لها صحبة [الثقات لابن حبان: 3/ 357]۔

یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ بلکہ صحابی ہیں نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی تلخیص ہی میں فرماتے ہیں:
واما كبشة فقيل إنها صحابية فإن ثبت فلا يضر الجهل بحالها والله أعلم[تلخيص الحبير 1/ 42]۔

یعنی اگر کبشہ کی صحابیت ثابت نہ ہوئی تو وہ مجہول میں شمار ہوں گی ، بالفاظ دیگر ان کی صحابیت میں اختلاف ان کی توثیق کے لئے کافی نہیں ہے۔

أبو عذرة:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
أبو عذرة يروى عن عائشة روى عنه عبد الله بن شداد قيل له صحبة [الثقات لابن حبان: 5/ 577]۔

یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ ہے اور ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں مجہول قراردیا ہے چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
أبو عذرة بضم أوله وسكون المعجمة له حديث في الحمام وهو مجهول من الثانية ووهم من قال له صحبة د ت ق[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 8250]۔

جون بن قتادة بصرى:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
جون بن قتادة بصرى يروى عن سلمة بن المحبق روى عنه الحسن [الثقات لابن حبان: 4/ 119]۔

یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ ہے اور ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں صرف مقبول قراردیا، چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
جَوْن ابن قتادة ابن الأعور ابن ساعدة التميمي ثم السعدي البصري لم تصح صحبته ولأبيه صحبة وهو مقبول من الثانية د س[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 986]۔

مالك بن نمير :
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
مالك بن نمير الأزدي الخزاعي بصرى يروى عن أبيه وله صحبة روى عنه عصام بن قدامة[الثقات لابن حبان: 5/ 386]۔

یعنی ابن حبان کے نزیک یہ ثقہ بلکہ صحابی ہیں نیز ان پر کسی نے بھی کوئی جرح نہیں کی ہے پھر بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں واضح طورپر مجہول قرار دیتے ہوئے کہا:
مالك بن نمير تابعي ذكره أبو بكر بن أبي علي في الصحابة وأخرج عن بن المقري عن أبي يعلى من أبي الربيع عن محمد بن عبد الله عن عصام بن قدامة عن مالك بن نمير قال كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا جلس في الصلاة وضع يده اليمنى على فخذه الحديث قال أبو موسى رويناه من طريق إبراهيم بن منصور عن بن المقري بهذا السند فقال عن مالك بن نمير عن أبيه قلت الحديث المذكور معروف لنمير أخرجه أبو داود والنسائي من طريق مالك بن نمير عن أبيه فكأن قوله عن أبيه سقطت من الرواية فظن مالكا صحابيا وليس كذلك بل هو تابعي مجهول الحال [الإصابة لابن حجر: 6/ 323]۔




حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین کا بھی یہی موقف ہے یعنی محدثین محض صحابیت میں اختلاف کو توثیق کے لئے کافی نہیں سمجھتے ، حتی کہ ’’رکب المصری ‘‘ کے صحابی ہونے کے بارے میں بعض نے اجماع کادعوی کیا اورحافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے کہا
يقال: إنه ليس بمشهور في الصحابة، وقد أجمعوا على ذكره فيهم[الإستيعاب لابن عبد البر: 1/ 150، الإصابة لابن حجر: 2/ 498]۔

اس کے باوجود د بھی محدثین اسے مجہول مانتے ہیں چنانچہ:

امام ابن منده رحمه الله (المتوفى395)نے کہا:
مجهول لا تعرف له صحبة[معرفة الصحابة لابن منده ص: 658]۔

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
مجهول لا تعرف له صحبة[جامع المسانيد والسنن لابن کثیر: 4/ 298]

الغرض یہ کہ کسی کے صحابی ہونے میں اختلاف اس کی توثیق کے لئے کافی نہیں ہے مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : [تحفة الأبرار في تحقيق أثر مالك الدار: ص52 تا 85]۔ یہ کتاب بڑی عمدہ ہے اورمختلف فیہ صحابیت والے راوی کی توثیق سے متعلق 33 صفحات پر بھرپور اور مفصل بحث کی گئی ہے شائقین کو یہ کتاب اور یہ بحث ضرور پڑھنی چاہئے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق۔


ابن حبان رحمہ اللہ توثیق میں متساہل ہیں ان کی منفرد توثیق بالاتفاق مردود ہوتی ہے ۔ اورزیر بحث راوی کی توثیق میں ان کا مؤید کوئی نہیں ہے کما سیاتی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام ہیثمی رحمہ اللہ کی توثیق

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا الحسين بن إسحاق التستري ثنا علي بن بحر ثنا الوليد بن مسلم ثنا عبد الرحمن بن حسان الكناني ثنا الحارث بن مسلم التميمي عن أبيه : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كتب له كتابا بالوصاة إلى من بعده ممن ولاه الله الامر وختم عليه[المعجم الكبير 19/ 434]۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
وَعَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ التَّمِيمِيِّ: «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَتَبَ لَهُ كِتَابًا بِالْوُصَاةِ إِلَى مَنْ بَعْدَهُ مِنْ وُلَاةِ الْأَمْرِ، وَخَتَمَ عَلَيْهِ».رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُمَا ثِقَاتٌ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 8/ 99]۔


یعنی اس سند میں حارث بن مسلم بھی ہے اورامام ہیثمی رحمہ اللہ نے سند کے تمام رواہ کو ثقہ کہا ہے ۔

عرض ہے کہ یہاں پر امام ہیثمی رحمہ اللہ نے جس سند کے رجال کو ثقات کہا ہے اس میں گرچہ حارث بن مسلم بھی ہیں لیکن امام ہیثمی رحمہ اللہ کی یہ توثیق بے سود ہے کیونکہ خود امام ہیثمی رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پوری صراحت کے ساتھ حارث بن مسلم کا نام لیکر اسے مجہول قراردیا ہے ، چنانچہ:

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا موسى بن هارون ثنا الحكم بن موسى قالا ثنا صدقة بن خالد عن عبد الرحمن بن حسان ثنا الحارث بن مسلم التميمي عن أبيه قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم في سرية فلما هجمنا على القوم تقدمت أصحابي على فرسي فاستقبلنا النساء والصبيان يضجون فقلت لهم : تريدون أن تحرزوا أنفسكم ؟ قالوا : نعم قلت : قولوا أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله فقالوها فجاء أصحابي فلاموني فقالوا أشرفنا على الغنيمة فمنعتنا ثم انصرفنا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ( ما تدرون ما صنع لقد كتب الله له من كل انسان كذا وكذا من الاجر ) ثم أدناني منه فقال : ( إذا صليت صلاة الغداة فقل قبل أن تكلم أحدا اللهم أجرني من النار سبع مرات فإنك أن مت من يومك ذلك كتب الله لك بها جوارا من النار وإذا صليت المغرب فقل قبل أن تكلم أحد اللهم أجرني من النار سبع مرات فإنك ان مت من ليلتك كتب الله لك جوارا من النار )[المعجم الكبير 19/ 433] ۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
«وَعَنْ مُسْلِمٍ التَّمِيمِيِّ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي سَرِيَّةٍ، فَلَمَّا هَجَمْنَا عَلَى الْقَوْمِ تَقَدَّمْتُ أَصْحَابِي عَلَى فَرَسٍ، فَاسْتَقْبَلَنَا النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ يَضِجُّونَ، فَقُلْتُ لَهُمْ: تُرِيدُونَ أَنْ تُحْرِزُوا أَنْفُسَكُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَقُلْتُ: قُولُوا: نَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالُوهَا، فَجَاءَ أَصْحَابِي فَلَامُونِي وَقَالُوا: أَشْرَفْنَا عَلَى الْغَنِيمَةِ فَمَنَعْتَنَا، ثُمَّ انْصَرَفْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ مَا صَنَعَ؟ لَقَدْ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ إِنْسَانٍ كَذَا وَكَذَا "، ثُمَّ أَدْنَانِي مِنْهُ».رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَفِي إِسْنَادِهِ الْحَارِثُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَهُوَ مَجْهُولٌ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 1/ 26]۔


یہاں پر خود امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اسی راوی کو نام لے کر پوری صراحت کے ساتھ مجہول قرار دیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے مقام پر ان سے سہوا ہوا اور موصوف ایک پوری سند کے تمام رواۃ کو ایک ساتھ ہی ثقہ کہتے وقت یہ دھیان نہیں دے سکے کہ ان میں ایک راوی ایسا بھی ہے جو خود ان کے نزدیک بھی مجہول ہے، اورامام ہیثمی رحمہ اللہ سے اس طرح کا تساہل بہت ہوا ہے نیز اس بات میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوناچاہئے کہ عمومی طور پر لگائے گئے حکم کے بالمقابل خصوصی طور پرلگائے گئے حکم کو ترجیح حاصل ہوگی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی توثیق

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کسی بھی کتاب میں زیر بحث راوی کو صراحۃ ثقہ نہیں کہا البتہ نتائج الافکار میں اس کی زیر تحقیق روایت کو حسن کہا ہے اسی سے بعض اہل علم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں یہ راوی ثقہ ہیں کیونکہ حدیث کی تصحیح یا تحسین اس کی اسناد کے رجال کی توثیق ہوتی ہے ۔

عرض ہے کہ یہاں پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین سے توثیق کا نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اس راوی کے مجہول ہونے کی بات کہی ہے اور صراحت کی ہے کہ اس کی کہیں توثیق نہیں ملتی چنانچہ:
محصل ذلك الاختلاف في الصحابي هل هو الحارث بن مسلم أو مسلم بن الحارث وفي التابعي كذلك ولم أجد في التابعي توثیقا إلا ما اقتضاه صنيع بن حبان حيث أخرج الحديث في صحيحه وقد جزم الدار قطني بأنه مجهول والحديث الذي رواه أصله تفرد به ما رأيته إلا من روايته وتصحيح مثل هذا في غاية البعد لكن بن حبان على عادته في توثيق من لم يرو عنه إلا واحد إذا لم سكن فيما رواه ما ينكر [تهذيب التهذيب 10/ 113]۔

اس عبارت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہا کہ حارث بن مسلم کی کسی نے توثیق نہیں کی بلکہ ابن حبان رحمہ اللہ کے طرزعمل پر اعتراض بھی کیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں یہ راوی بھی مجہول ہی ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذلك صنع الحافظ في " تهذيب التهذيب " ، فلم يجعل للولد ترجمة خاصة ، ولكنه ذكره في ترجمة أبيه ، ونقل عن الدارقطني أنه مجهول ، وذكر أنه لم يجد فيه توثيقا ، إلا ما اقتضاه صنيع ابن حبان ، حيث أخرج الحديث في " صحيحه " ، وما رأيته إلا من روايته . قال الحافظ : " وتصحيح مثل هذا في غاية البعد ، لكن ابن حبان على عادته في توثيق من لم يروعنه إلا واحد ، إذا لم يكن فيما رواه ما ينكر " . وهذا معناه أن الرجل مجهول [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 129]۔

معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یہ راوی مجہول ہی ہے ، لہذا مذکورہ تحسین سے اس راوی کی توثیق کا نتیجہ نکا لنا بھی غیردرست ہے ، کیونکہ یا توحافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین ان کا تساہل ہے یا پھر تحسین اصطلاحی نہیں ہے اورغالبا اسی لئے ’’حدیث حسن‘‘ کہا نہ کہ ’’اسنادہ حسن‘‘ واللہ اعلم، اور بالفرض توثیق ان کا یہ موقف ان کے دوسرے موقف کے معارض ہے، لہٰذا غیر مسموع ہے۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول قرار دیا ، چنانچہ:
امام برقاني رحمه الله (المتوفى425)نے کہا:
قلت مسلم بن الحارث التميمي عن أبيه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال مسلم مجهول لا يحدث عن أبيه إلا هو[سؤالات البرقاني للدارقطني: ص: 65]۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یہ راوی مجہول ہی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام منذری رحمہ اللہ کی توثیق

امام منذری رحمہ اللہ نے نہ تو کہیں اس راوی کی توثیق کی ہے اور نہ ہی اس کی توثیق کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے ، ملاحظہ ہو امام منذری رحمہ اللہ کی اصل عبارت :
وَعَن الْحَارِث بن مُسلم التَّمِيمِي رَضِي الله عَنهُ قَالَ قَالَ لي النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا صليت الصُّبْح فَقل قبل أَن تَتَكَلَّم اللَّهُمَّ أجرني من النَّار سبع مَرَّات فَإنَّك إِن مت من يَوْمك كتب الله لَك جوارا من النَّار وَإِذا صليت الْمغرب فَقل قبل أَن تَتَكَلَّم اللَّهُمَّ أجرني من النَّار سبع مَرَّات فَإنَّك إِن مت من ليلتك كتب الله لَك جوارا من النَّار رَوَاهُ النَّسَائِيّ وَهَذَا لَفظه وَأَبُو دَاوُد عَن الْحَارِث بن مُسلم عَن أَبِيه مُسلم بن الْحَارِث قَالَ الْحَافِظ وَهُوَ الصَّوَاب لِأَن الْحَارِث بن مُسلم تَابِعِيّ قَالَه أَبُو زرْعَة وَأَبُو حَاتِم الرَّازِيّ[الترغيب والترهيب للمنذري: 1/ 181] ۔

اس پوری عبارت میں کہیں نہیں ہے کہ امام منذری رحمہ اللہ نے حارث بن مسلم کی توثیق کی ہے یا اس کی توثیق کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی کیا ہے ، ہاں سند میں ایک نام کی درستگی کی ہے یعنی یہ بتلایا ہے کہ اس کا صحیح نام مسلم بن حارث ہے حارث نہیں کیونکہ حارث تو تابعی ہے ۔ لیکن نام کی اس تصحیح سے یہ کہاں لازم آیا کہ امام منذری اس تابعی کو ثقہ مان رہے ہیں ؟؟؟؟

الغرض یہ کہ امام منذری رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کی توثیق نہیں کی ہے اورنہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے۔


درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’ حارث بن مسلم ‘‘ مجہول راوی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہے ، الضعيفة رقم1624 ۔
 
Top