• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث بخاری پر ایک رافضی اعتراض!!

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ایک فیس بک کی پوسٹ پر مباحثہ کے دوران تحریف قرآن کے موضوع پر مجھے بخاری شریف پر یہ رافضی اعتراض سننے کو ملا۔ رافضی، صحیح بخاری کی اس حدیث پر اعتراض وارد کرتے ہوئے اہل سنت پر تحریف قرآن کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری کی یہ رویات دیکھئے، کتاب تفسیر قرآن، سورۃ تبت یدا ابی لھب وتب: حدیث نمبر 4973

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ ‏"‏ يَا صَبَاحَاهْ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا مَنْ هَذَا، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ‏"‏‏.‏ قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلاَّ لِهَذَا ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ ‏{‏تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ‏}‏ وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ‏.‏

ترجمہ: ہم سے یوسف بن موسٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا جب (سورہ شعراء کی) یہ آیت اتری وَ اَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ وَرَھطَکَ مِنھُمُ المُخلِصِینَ تو رسول اللہﷺ (مکہ سے) باہر نکلے۔ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہاں پکارا ارے لوگو ہوشیار ہو جاؤ۔ مکہ والے کہنے لگے یہ کون ہے۔ وہ سب (رسول اللہﷺ کے پاس جا کر) جمع ہو گئے۔ آپؐ نے فرمایا بتاؤ تو سہی اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے تلے سے نکلنے والے ہیں تو تم میری بات سچ مانو گے۔ انہوں نے کہا (بیشک) کیونکہ ہم نے آپؐ کو آج تک کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا (چناچہ اسی وجہ سے آپؐ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا)۔ آپؐ نے فرمایا۔ تو پھر میری بات سنو میں تم کو آگے آنے والے قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کو ابو لہب مردود کہنے لگا ارے تو تباہ ہو تو نے ہم کو اس لئے جمع کیا تھا (نا حق پریشان کیا) ۔ آخر آپؐ اٹھ کھڑے ہوئےاور اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ سورت اتاری تَبَّت یَدَا اَبِی لَھَبٍ ۔ اعمش نے یو ں پڑھا ہے وَ قَد تَبَّ جس دن یہ حدیث روایت کی۔

لنک: حدیث نمبر 4973
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر پیش کی گئی روایت میں جس آیت کے نازل ہونے کو حضرت ابن عباس نے پیش کیا ہے وہ سورۃ شعراء کی آیت (نمبر ۲۱۴) ہے لیکن ہمارے موجودہ قرآن کے نسخوں میں یہ آیت صرف وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کے الفاظ تک ہی ہے اور اس کے آگے کے الفاظ وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ موجود نہیں ہیں۔

قرآنی آیت : سورۃ الشعراء آیت نمبر 214 (ترتیب 26:214)
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
ترجمہ: اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو


عبداللّٰه ابن عباس ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں، جن کے لئے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے سے لگا کردعا کی تھی کہ “اے اللّٰه! اسے اپنی کتاب (قرآن) کا علم عطا فرما “(صحیح بخاری: حدیث ۷۵) . ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلہ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر کے سامنے بیان کی ہے، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے، جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی اور یہ بھی قرآن کی انہیں آیات میں شامل ہو گئی کہ جن پر اللّٰه کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سوال میں حدیث کے متعلق سیکشن میں بھی پوسٹ کرسکتا تھا، لیکن وہاں بہت سارے سوالات پہلے ہی سے التوا کا شکار ہیں اور انکے مناسب جواب ملنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے، اسلئے میں نے اس سوال کو اس سیکشن میں پوسٹ کیا ہے۔
یہاں پر موجود شیخ حضرات اور جید علمائے کرام سے درخواست ہے کہ مراسلے کا جلد از جلد مکمل جواب عنایت کیا جائے۔ اسکے علاوہ جس جس بھائی کو بھی "صحیح قرآنی معلومات" و " حدیث علومہ" کے فن میں مہارت حاصل ہو، وہ بھی کوشش کرکے ایک اچھا سا جواب دے دے، تاکہ اس رافضی کی زبان بند کی جاسکے۔
شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس کا جواب ہر آدمی کی سوچ و فکر کے اعتبار سے مختلف ہوسکتا ہے ، مثلا جو آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہوا ہے ، لہذا اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ، ایسے آدمی کے لیے سیدھا سیدھا جواب ہے کہ یہ الفاظ ( رهطك منهم المخلصين ) قرآن مجید کی ان آیات یا آیات کے اجزاء میں سے ہیں جن کی تلاوت بعد میں منسوخ کردی گئی ، جیساکہ رجم اور رضاعت وغیرہ سے متعلق آیات ہیں ۔ ابن حجر نے فتح الباری (ج8ص502) میں قرطبی کے حوالہ سے یہی جواب نقل کیا ہے ۔
جن لوگوں کے نزدیک قرآن مجید میں تحریف ہوچکی ہے ، ان کے ساتھ پہلے اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ۔
مزید یہاں دیکھ لیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایک فیس بک کی پوسٹ پر مباحثہ کے دوران تحریف قرآن کے موضوع پر مجھے بخاری شریف پر یہ رافضی اعتراض سننے کو ملا۔ رافضی، صحیح بخاری کی اس حدیث پر اعتراض وارد کرتے ہوئے اہل سنت پر تحریف قرآن کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتا ہے
یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے ،
اور علامہ النووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’(ورهطك منهم المخلصين) قال الإمام النووي الظاهر أن هذا كان قرآنا أنزل ثم نسخت تلاوته ‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ یہ جملہ پہلے قرآن تھا ،پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ‘‘
اور فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وهذه الزيادة وصلها الطبري من وجه آخر عن عمرو بن مرة أنه كان يقرؤها كذلك قال القرطبي لعل هذه الزيادة كانت قرآنا فنسخت تلاوتها ۔۔‘‘
اس اضافی جملہ (ورهطك منهم المخلصين) کو امام طبری نے ایک اور سند کے ساتھ عمرو بن مرہ سے نقل کیا ہے ،کہ وہ اسی طرح پڑھتے تھے ،اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ جملہ قرآن کا حصہ تھا ،تاہم اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــ
اور رافضیوں کے امام أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي ،اپنی تفسیر ’’ التبیان ‘‘ میں لکھتے ہیں :
شيخ الطائفة الطوسي في تفسيره ( التبيان ) (1 / ۸۶) :
’’ لا يخلو النسخ في القرآن الكريم من أقسام ثلاثة ، أحدها : نسخ حكمه دون لفظه , الثاني: ما نسخ لفظه دون حكمه كآية الرجم ، فإن وجوب الرجم على المحصنة لا خلاف فيه ، والآية التي كانت متضمنة له منسوخة بلا خلاف وهي قوله (والشيخ والشيخة إذا زنيا).
ثم قال في موضع اخر : (1/ 394) : " وقد أنكر قوم جواز نسخ القرآن ، وفيما ذكرناه دليل على بطلان قولهم ، وجاءت أخبار متظافرة بأنه كانت أشياء في القرآن نسخت تلاوتها "

قرآن میں نسخ تین قسم کا ہے ،ایک قسم یہ کہ قرآن میں واردحکم منسوخ کردیا جاتا ہے ،لیکن تلاوت باقی رکھی جاتی ہے ،
دوسرا یہ کہ الفاظ منسوخ ہوجاتے ہیں لیکن حکم باقی رکھا جاتا ہے ،جیسے آیت رجم میں کیا گیا ،کہ محصنہ پر رجم کی سزا باقی رہی جس پر کسی کا اختلاف نہیں ،لیکن جس آیت میں یہ سزا بیان کی گئی تھی وہ بالاتفاق منسوخ ہے ،اور وہ یہ ہے :(والشيخ والشيخة إذا زنيا)
اور شیخ الطائفہ طوسی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’ کچھ لوگوں نے قرآن میں نسخ کا انکار کیا ہے ،لیکن ہم نے جو بیان کیا وہ منکرین نسخ کے قول رد کی دلیل ہے ،اور بے شمار روایات قرآن کی کئی چیزوں کے منسوخ ہونے پر موجود ہیں ‘‘

النسخ 2.jpg
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس سے ظاہر ہے کہ یہ جملہ پہلے قرآن تھا ،پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ‘‘
شیعہ تحریفِ قرآن کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان کی اصول کافی میں اس قسم کی خرافات بکثرت ملتی ہیں۔
قرآن میں نسخ بھی ہؤا ہے اور بھلا دینے والی بات بھی ہوئی ہے مگر یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہؤا۔ وصال کے بعد اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔
قرآنِ پاک کی آیت؛
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
اس کے متعلق کہتے ہیں کہ ”اصل قرآن امام غائب کے پاس محفوظ ہے“
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
شکریہ برادران کریم @خضر حیات ، @اسحاق سلفی ، @عبدالرحمن بھٹی صاحبان۔ آپ لوگوں کے جوابات بہترین ہیں،
جزاک اللہ خیرا کثیرا

محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب ، @خضر حیات اور بھٹی بھائی کی طرف ایک اور چیز کی جانب توجہ مرکوز دلانا چاہتا ہوں، اسحاق بھائی نے ارشاد فرمایا

یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے ،
اور علامہ النووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’(ورهطك منهم المخلصين) قال الإمام النووي الظاهر أن هذا كان قرآنا أنزل ثم نسخت تلاوته ‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ یہ جملہ پہلے قرآن تھا ،پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ‘‘
اور فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وهذه الزيادة وصلها الطبري من وجه آخر عن عمرو بن مرة أنه كان يقرؤها كذلك قال القرطبي لعل هذه الزيادة كانت قرآنا فنسخت تلاوتها ۔۔‘‘
اس اضافی جملہ (ورهطك منهم المخلصين) کو امام طبری نے ایک اور سند کے ساتھ عمرو بن مرہ سے نقل کیا ہے ،کہ وہ اسی طرح پڑھتے تھے ،اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ جملہ قرآن کا حصہ تھا ،تاہم اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ‘‘
جبکہ اس رافضی نے اوپر یہ اعتراض کیا تھا کہ
بن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلہ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر کے سامنے بیان کی ہے، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے، جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی اور یہ بھی قرآن کی انہیں آیات میں شامل ہو گئی کہ جن پر اللّٰه کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی؟؟؟؟
تو ذرا معاملے کے اس پہلو کی طرف بھی شیوخ محترم اور بھٹی بھائی کچھ روشنی ڈالیں کہ اگر آیت مبارکہ کا مذکورہ بالا حصہ منسوخ ہوچکا تھا تو کیا یہ بات سیدنا عبداللہ بن عباس رض اور حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو نہیں پتہ تھی؟ اور کیا انکے دور میں کیا واقعی اتنے حصے کی تلاوت کی جاتی رہی تھی؟ ثبوت و نفی کے حوالے مدلل عنایت کردیجئے گا تاکہ رافضی کی یہاں دال نہیں گل سکے۔ میرے خیال سے ادھر الزامی جواب دینا مناسب نہ ہوگا کیونکہ اسطرح تو ایران توران کا قصہ کھڑا ہوجائے گا اور ہم اگر اسکی کتب کی 10 روایات تحریف قرآن کے موضوع پر پیش کرینگے تو وہ اسطرح کی 20 روایات ہماری کتب سے پیش کرکے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے گا۔

باقی قرآن کریم کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہے کہ وہ مکمل ہے اور آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں جتنا منسوخ ہونا تھا وہ ہوچکا، اب یہ ہمارے ہاتھوں میں بغیر کسی تغیر کے موجود ہے اور تاقیامت رہے گا۔
ان شاء اللہ و للہ الحمد
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عبداللّٰه ابن عباس ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں، جن کے لئے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے سے لگا کردعا کی تھی کہ “اے اللّٰه! اسے اپنی کتاب (قرآن) کا علم عطا فرما “(صحیح بخاری: حدیث ۷۵) . ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلہ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر کے سامنے بیان کی ہے، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے، جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی اور یہ بھی قرآن کی انہیں آیات میں شامل ہو گئی کہ جن پر اللّٰه کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی؟؟؟؟
یہ حدیث اس واقعہ کے بیان میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانیہ اسلام کی دعوت کا حکم فرمایا۔ یہ نبوت کے ابتدائی ایام کی بات ہے۔ اس کو جب کوئی بیان کرے گا تو انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرے گا جو اس وقت تک تھے جیسا کہ ان کے الفاظ ”قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ“ سے ظاہر ہے۔ بعد میں ”‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ“ منسوخ ہوگئے اور تلاوت صرف ”‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏“ تک کی مود ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
مَا نَنْسَخْ مِنْ آَيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا الآیۃ (سورۃ البقرۃ آیت 106)
تو یہ تنسیخ ”مِثْلِهَا“ کی قبیل سے ہے۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
یہ حدیث اس واقعہ کے بیان میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانیہ اسلام کی دعوت کا حکم فرمایا۔ یہ نبوت کے ابتدائی ایام کی بات ہے۔ اس کو جب کوئی بیان کرے گا تو انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرے گا جو اس وقت تک تھے جیسا کہ ان کے الفاظ ”قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏}‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ“ سے ظاہر ہے۔ بعد میں ”‏ وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ“ منسوخ ہوگئے اور تلاوت صرف ”‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ‏“ تک کی مود ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
مَا نَنْسَخْ مِنْ آَيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا الآیۃ (سورۃ البقرۃ آیت 106)
تو یہ تنسیخ ”مِثْلِهَا“ کی قبیل سے ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا بھٹی بھائی،
میں نے جب آپ کا یہ جواب "فیس بک" کی پوسٹ پر لگایا تو وہاں سے اس شیعہ کا جواب یہ آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سوال یہ ہے کہ ابن عباس تو اسے منسوخ نہیں مانتے تھے، وہ تو قرآن میں اضافہ کررہے تھے، ان پر کیا فتویٰ لگے گا؟ اور یہ مت بھولیے گا کہ یہ بہانہ نہ بنائیں کہ جی ان تک خبر نہیں گئی۔۔۔ کمال ہے! امام االمفسرین کہا جاتا ہے انہیں، ان تک خبر نہیں گئی؟؟؟؟ ساتھ ہی ساتھ سعید بن جبیر کی روایت اور اس حدیث کو بیان کرنے والے آخیر تک کے تمام ثقہ روایوں کو بھی کیا یہ اضافہ نہیں پتہ تھا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ ہی اس نے، اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔" (سنن دارقطنی: باب النوادر ، ١١٧١)
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 189(36588) - کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری اس صحیح حدیث کے تحت تمہاری صحیح بخاری میں درج اس حدیث کو اب صحیح کیا جائے کیونکہ حضور صلعم نے ارشاد فرمایا کہ "کلام اللہ، میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے"۔ کیونکہ آپ کی بخاری کی حدیث میں وہ الفاظ زیادہ ہیں جو کلام اللہ سے زیادہ ہیں، اس لئے اپنی صحیح بخاری کو واقعی میں صحیح کرلو اب۔ اور یہ تمہارے امام، شافعی بھی کہتے ہیں کہ

اس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی ہر حدیث کو، اگر وہ ہمیں بظاہر قرآن کے مطابق نہ لگے، یہ کہہ رد کیا جا سکتا ہے کہ "آپ نے ایسا نہیں فرمایا ہو گا۔" اس طرح سے ان دو بنیادوں پر حدیث کو رد کرنے کو درست سمجھ لیا جائے گا: ایک تو یہ کہ اگر حدیث کے الفاظ قرآن کے الفاظ سے کچھ مختلف ہوں اگرچہ اس کا معنی کتاب اللہ سے موافقت رکھتا ہو (تو اسے رد کر دیا جائے) یا پھر اس کے الفاظ اگر آیت کے الفاظ سے کچھ زیادہ ہوں (تب بھی اسے کر دیا جائے) اگرچہ ان میں معمولی نوعیت کا فرق پایا جائے۔

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی۔ (اردو ترجمہ و تلخیص)

لنک: http://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-10-Risala.htm


 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
محترم! طہتر یہ ہے کہ وہ رافضی شیعہ اس فورم پر ”لاگ ان“ ہو اور براہِ راست گفتگو کرے آپ اس کی نمائندگی نہ کریں۔
"سوال یہ ہے کہ ابن عباس تو اسے منسوخ نہیں مانتے تھے، وہ تو قرآن میں اضافہ کررہے تھے، ان پر کیا فتویٰ لگے گا؟
انہوں نے ابتدائے نبوت کا واقعہ اس حدیث میں بیان فرمایا ہے اور اد وقت تک یہ آیت اسی طرح تھی۔ وہ اگر اس واقعہ کے بیان میں اس موجودہ آیت کو اسی طرح بیان کرتے تو ان پر خیانت کا الزام لگ سکتا تھا۔
وہ اس آیت کے اس حصہ کو منسوخ بھی مانتے ہیں اور قرآن میں اضافہ بھی نہیں کر رہے وہ وقوعہ کی بات کر رہے ہیں۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔" (سنن دارقطنی: باب النوادر ، ١١٧١)
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 189(36588) - کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان]
رافضی نے یہاں کھلا دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےکلام کو منسوخ کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کا کلام اللہ بھی منسو خ نہی کرسکتا؟ یقینا کرسکتا ہے اور کیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ عز و جل ہے؛
مَا نَنْسَخْ مِنْ آَيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (106) سورۃ البقرۃ
اس آیت کے اس حصہ کو اللہ تعالیٰ نے ہی منسوخ کیا ہے اس کا نسخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔

تمہاری اس صحیح حدیث کے تحت تمہاری صحیح بخاری میں درج اس حدیث کو اب صحیح کیا جائے کیونکہ حضور صلعم نے ارشاد فرمایا کہ "کلام اللہ، میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے"۔ کیونکہ آپ کی بخاری کی حدیث میں وہ الفاظ زیادہ ہیں جو کلام اللہ سے زیادہ ہیں، اس لئے اپنی صحیح بخاری کو واقعی میں صحیح کرلو اب۔
یہ ہے ہی صحیح تو اس کی تصحیح کا کہنا ہی غلط ہے۔

اس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی ہر حدیث کو، اگر وہ ہمیں بظاہر قرآن کے مطابق نہ لگے، یہ کہہ رد کیا جا سکتا ہے کہ "آپ نے ایسا نہیں فرمایا ہو گا۔" اس طرح سے ان دو بنیادوں پر حدیث کو رد کرنے کو درست سمجھ لیا جائے گا: ایک تو یہ کہ اگر حدیث کے الفاظ قرآن کے الفاظ سے کچھ مختلف ہوں اگرچہ اس کا معنی کتاب اللہ سے موافقت رکھتا ہو (تو اسے رد کر دیا جائے) یا پھر اس کے الفاظ اگر آیت کے الفاظ سے کچھ زیادہ ہوں (تب بھی اسے کر دیا جائے) اگرچہ ان میں معمولی نوعیت کا فرق پایا جائے۔
اِس کا اُس معاملے سے تعلق ہی نہیں۔ اُس میں وقوعہ بیان کیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم بیان نہیں ہو رہا۔ البتہ اس وقوعہ کو کسی قرآنی آیت کے خلاف ثابت کردو تب یہ سوچنے کی بات ہوگی۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
جزاکم اللہ خیرا کثیرا برادر
محترم! طہتر یہ ہے کہ وہ رافضی شیعہ اس فورم پر ”لاگ ان“ ہو اور براہِ راست گفتگو کرے آپ اس کی نمائندگی نہ کریں۔
محترم برادر میں اس رافضی کوکئی دفعہ اس فورم میں مدعو کیا ہے، نہ صرف اس پوسٹ کے لئے بلکہ اپنی کئی دوسری اور پوسٹوں میں بھی، لیکن وہ ہردفعہ کنی کاٹ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جو معاملے ہیں انکو فیس بک پر ہی حل کرو، اب کبھی کبھی تو وہ خود ہی وہاں سے دم دبا کر بھاگ پڑتا ہے جب اسکے جھوٹ کا پردہ چاک ہوتا ہے، کبھی کبھی وہ بہت سر درد کرنے لگتا ہے۔ یہ حدیث کا معاملہ یہاں آنکر مجھ سے پھنس گیا تھا اس لئے میں اس پوسٹ کو اس فورم پر لے آیا، ورنہ اس سے نمٹنے کے لئے تو میں اکیلا ہی کافی تھا۔
نیز بھائی اتنااور بتا دوں کہ میں کسی رافضی وغیرہ کا نمائندہ شمائندہ نہیں ہوں، تو ازرائے کرم میرے متعلق کوئی غلط فہمی نہ رکھئے گا، اس فورم میں بھی سب سے زیادہ میری پوسٹیں شیعوں رافضیوں کے خلاف ہی لگی ہوئی ہیں، چاہے تو میری پروفائل سے چیک کرلیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
آپ نے نمائندگی کا مطلب غلط لے لیا ۔ دراصل وہ شخص اگر بالواسطہ کلام کرے تو اسے بالواسطہ فورم پر موجود اهل علم بهتر جواب دے سکتے هیں ۔ اللہ آپکے علم میں برکت دے اس مخصوص گروپ سے مباحثات کو هلکے انداز میں نہ لیں هرگز ۔ اهل علم میں سے بهی اختصاصی طور پر علماء انکا بهتر رد کرسکتے هیں جنهوں نے انکی کتب پڑهی هوئی هے اور جنکا حافظہ عمدہ هے ۔
محترم بهٹی صاحب نے یقینا انتباہ کیا هے طنز نهیں ۔
جزاکم اللہ خیر
 
Top