Difa-Hadees1
مبتدی
- شمولیت
- فروری 16، 2022
- پیغامات
- 6
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 5
محترم اسد الطحاوی صاحب نے اس روایت کے صحیح ہونے کے حوالے سے اپنا موقف وضاحت اور دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے مگر
ہمارا موقف اس حوالے سے مختلف ہے جو ہم ذیل میں وضاحت اور دلائل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
ہمارے مطابق یہ روایت ایک راوی کے زیادۃ الثقات کی بنیاد پر شاذ مردود ہےاس میں ایک روای نے تمام رواۃ سے ہٹ کر اس روایت میں اضافہ کیا ہے جو اور کسی روای نے نقل نہیں کیا ہے مگر سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کن کتب میں بیان ہوئی ہے ہے
سنن ابن ماجہ, عمل اليوم والليلة للنسائی
دیگر حوالاجات
جامع ترمذی 3578
مسند احمد 17242-17240 4/138
النسائی الکبری 10606-10604
المستدرک حاکم 1909،1929،1930
اس روایت کو ابو جعفر خطمی عمیر بن یزید بن عمیر بن حبیب سے اس کے چار تلامذہ نے نقل کیا ہے
شعبہ بن الحجاج
روح بن القاسم
ھشام بن ابی عبداللہ سنبر الدستوائی
حماد بن ابی سلیمان
اور اس میں صرف روح بن القاسم کے ایک شاگرد شبیب بن سعید نے اس روایت میں یہ اضافہ کیا ہے اور وہ بھی ہر جگہ اس اضافے کو بیان نہیں کیا ہے اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے سب سے پہلے ہم اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ ابو جعفر خطمی کے چار شاگردوں سے جس جس نے بھی یہ روایت بیان کی ہے کسی نے بھی اس میں اضافہ نقل نہیں کیا ہے سب نے اس کو ایک ہی طریقہ پر الفاظ کی کم بیشی کے ساتھ اسی طرح بیان کیا ہے
شعبہ بن الحجاج: سےروایت بیان کرنے والے تلامذہ
عثمان بن عمر() جامع ترمذی 3578، سنن ابن ماجہ1385،
17240 مسند احمد)
سنن النسائی الکبریٰ 10605
روح بن عباد: ٘مسند احمد 17241
محمد بن جعفر غندر: المستدرک الحاکم 1909
ھشام بن ابی عبداللہ سنبر الدستوائی کے تلامذہ
معاذ بن ھشام(بیٹا) النسائی الکبریٰ 10606
حماد بن سلمۃ کے تلامذہ
مومل بن اسماعیل: مسند احمد 17242
حبان بن ھلال الباھلی البصری(النسائی الکبریٰ 10604)
روح بن القاسم کے تلامذہ
عون بن عمارۃ (مستدرک الحاکم 1929)
شبیب بن سعیدالمستدرک الحاکم 1930)
ان میں عثمان بن عمر، روح بن عباد، حبان بن ھلال محمد بن جعفر غندر عندالجمہور ثقہ ہیں اور باقی سب صدوق حسن الحدیث ہیں اور ان میں فقط عون بن عمارۃ ضعیف ہے ان تمام رواۃ میں سے کسی نے بھی اس روایت میں یہ اضافہ بیان نہیں کیا یہاں تک کہ شبیب بن سعید سے مستدرک الحاکم میں یہ روایت اس کے بیٹے احمد بن شبیب بن سعید کے طریق سے روایت کی ہے مگر اس میں اس نے خود اس واقعہ کا اضافہ نہیں کیا ہے یہ اضافہ امام طبرانی نے اور امام یعقوب الفسوی نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے چنانچہ جب اتنے سارے ثقہ اور صدوق رواۃ نے یہ اضافہ نقل نہیں کیا، تو کیا وہ سب اس کو بھول گئے اور صرف شبیب بن سعید نے اس کو یاد رکھا تو اب یہ دیکھنا ہوگا شبیب بن سعید کے بارے میں محدثین کرام کیا فرماتے ہیں کیا اس کا ضبط اتنا اعلی پایہ کا ہے کہ تمام رواۃ جو ایک پورا واقعہ بھول گئے وہ شبیب نے یاد رکھا اوریا پھر شبیب اس واقعے کو بیان کرنے میں اس کے ضبط نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور وہ وہم اور غلطی کا شکار ہو گیا۔
موصوف طحاوی الحنفی نے امام ابن ابی حاتم اور امام ابوزرعہ کے تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں
اس کے بعد اس کی ازخود تشریح کرتے ہوئے ہیں
امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ اس کے پاس یونس کی کتاب تھی اور یہ صالح الحدیث اور لا باس بہ ہے یعنی اس میں کوئی حرج نہیں(حفظ و ضبط کے لحاظ) سے
دوئم امام ذہبی کے حوالے سے یہ فرما رہے ہیں کہ جب امام ابن ابی حاتم کسی کو ثقہ فرما دیں تو اس کو پکڑلو یعنی وہ ثقہ راوی ہوتا ہے
جبکہ اگر ہم اس حوالے سے امام ابن ابی حاتم کے ان الفاظ تعدیل کو جاننے کی کوشش کریں تو ان کے مطابق یہ الفاظ کسی کے لئے بھی ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ ان الفاظ کو راوی کے حوالے سے کس طرح دیکھتے ہیں خود ملاحظہ کریں
اس میں صالح الحدیث ان رواۃ کے بارے میں فرمارہے ہیں جن کی حدیث صرف اعتبار کے لئے لکھ جائے یعنی اس کی متابعت میں لکھی جائے گی وگرنہ وہ حدیث قابل اعتبار نہیں سمجھی جائے توامام ابن ابی حاتم کے نذدیک بھی شبیب بن سعید کوئی ثقہ روای نہیں ہے جیسا کہ موصوف باور کروانا چاہ رہے تھے اس لئے شبیب بن سعید امام حاتم کے نذدیک اس درجے کا راوی ہے جس کی احادیث صرف اعتبار کے لئے لکھی جائی گی اور ابو زرعہ نے جو اس کو لاباس بہ فرمایا ہے اسے حوالے سے بھی اصول دیکھ لیتے ہیں محدثین کے نذدیک لاباس بہ متوسط طبقہ کا راوی ہوتا ہے یعنی صدوق درجے کا روای ہوتا ہے ملاحظہ کریں
تو محدثین کے نذدیک اصول میں یہ موجود ہے کہ جس روای کو لاباس بہ کہا جائے اس سے مراد ثقہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صدوق یعنی طبقہ تعدیل میں یہ تیسرے درجے کے راوی ہوتا ہے اب اس کے بعد امام دارقطنی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے شبیب بن سعید کو ثقہ کہا ہے اس حوالے سے بھی ذرا اصول پر نظر ڈالتے ہیں
کہ مقدمین میں جب کسی راوی پر ثقہ کا اطلاق کرتے تھے تو اس سے مراد اس کا ضبط نہیں ہوتا تھا چنانچہ امام ذہبی نے اس کو اور وضاحت سے بیان کیا ہے
قلت : فمن هذا الوقت بل وقبله صار الحفاظ يطلقون هذه اللفظة على الشيخ الذي سماعه صحيح بقراءة متقن ، وإثبات عدل ، وترخصوا في تسميته بالثقة ، وإنما الثقة في عرف أئمة النقد كانت تقع على العدل في نفسه ، المتقن لما حمله ، الضابط لما نقل ، وله فهم ومعرفة بالفن ، فتوسع المتأخرون
ترجمہ ابن خلاد(الشيخ الصدوق المحدث مسند العراق أبو بكر أحمد بن يوسف بن خلاد بن منصور النصيبي ثم البغدادي العطار)
جلد صفحہ ۷۰ جلد ۱۶ سیر الاعلام النبلاء امام ذہبی
امام سخاوی اور امام ذہبی کے تبصرات سے یہ بات واضح ہیں کہ جو راوی اگر کتاب سے روایات بیان کرتا ہے تو مقدمین کے نذدیک وہ ثقہ عند الکتاب کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے کیونکہ وہ اپنی کتاب سے روایت کرنے میں ضبط کے اعتبار سے صحیح ہے اور وہ خود ایک صدوق یعنی سچا راوی ہے اس لئے اس کو ثقہ کہا جاتا ہے اس سے اس کے حافظہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور شبیب بن سعید کو امام دارقطنی بھی اس بنا پر ثقہ فرما رہے ہیں کہ اس کے پاس یونس کی کتاب موجود ہے اور اس کتاب سے روایت کرنے میں وہ ثقہ ہے چنانچہ اس کا حاصل کلام یہی ہے کہ امام دارقطنی کے نذدیک بھی شبیب جب تک ثقہ ہے جب وہ اپنی کتاب سے روایت بیان کرتا ہے امام کے نذدیک شبیب کو ثقہ کہنا صرف اس کی عدالت کو ثابت کرتا ہے اس کے ضبط کو نہیں جبکہ راوی کہ ثقہ ہونے کے لئے عدالت اور ضبط دونوں کا ہونا ضروری ہے اس لئے امام دارقنطی کا ثقہ کہنا بھی شبیب بن سعید کی عدالت کو ثابت کرتا ہے اور عدالت ثابت ہونے سے روای فقط صدوق کہلاتا ہے۔
اس کے بعد امام طبرانی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے شبیب کو ثقہ کہا ہے
امام طبرانی کے اس قول پر ذرا تبصرہ کرتے ہیں
امام طبرانی کے اپنی الصغیر میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں
اس میں امام طبرانی نے اس کو ثقہ کہنے کے باوجود بھی اس کی اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے وہ اس جانب اشارہ فرما رہے ہیں کہ اس کی روایت کو اس کی اس کتاب کی سند سے دیکھنے کی ضرورت ہے چنانچہ ابن حجر عسقلانی امام طبرانی اور ان کے ہم عصر محدثین کی بابت اپنی کتاب لسان المیزان میں فرماتے ہیں
اس میں ابن حجر نے واضح کیا ہے کہ امام طبرانی اور ان کے ہم عصر محدثین روایت کی سند بیان کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے تھے اسی لئے امام طبرانی نے شبیب بن سعید کو صرف ثقہ کہنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی کتاب کا بھی ذکرکر کے یہ باور کروادیا کہ اس کتاب کے بیان کرنے میں یہ ثقہ ہے وگرنہ ثقہ مطلق ماننے کے بعد کتاب کا ذکر چہ معنی واد، جبکہ امام طبرانی نے اس کی کتاب والی روایت یعنی اس کے بیٹے کے سند سے یونس بن الاعلی والی روایت بھی بیان نہیں کی ہے تو پر اس کتاب کا ذکر کرنے کا صرف یہی مقصد ہے کہ شبیب کا بیٹا اپنے والد کی کتاب سے روایت کرے گا تو وہ ثقہ ماننا جائے گا وگرنہ اس کی بیان کردہ روایت پر نظر رکھی جائے۔
امام طبرانی کے قول ثقہ کی وضاحت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام طبرانی بھی شبیب کو مطلق ثقہ نہیں مانتے تھے اور ان کے نذدیک بھی شبیب کتاب کے ساتھ روایت کرے تو صحیح ہے اور یہاں ثقہ سے مراد صرف اس کی عدالت ہے وگرنہ اس کے ضبط اور حفظ پر کلام ہے جیسا ہم اس کی اور وضاحت آئندہ سطور میں کریں گے۔
حافظ ابن حجر کی توثیق
حافظ ابن حجر کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ لسان المیزان میں حافظ صاحب نے اس کو بلاحجت ثقہ فرمایا ہے۔
موصوف سے عرض ہے کہ لسان المیزان حافظ صاحب کی ابتدائی کتب میں سے ہے جبکہ اگر ہم تقریب التھذیب میں حافظ صاحب کا تبصرہ شبیب بن سعید کے بارے میں دیکھیں تو اس میں حافظ صاحب نے شبیب بن سعید کو لاباس بہ فرمایا ہے اور لا باس بہ کے بابت حافظ صاحب نے اپنی اسی کتاب میں کیا اصول نقل کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ ابن حجر نے شبیب بن سعید کے ترجمہ میں کچھ اس طرح نقل کیا ہے
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب .
حافظ کی اس عبارت کا موصوف یہ ترجمہ فرما رہے ہیں
اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، اور نہ ہی ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں ۔
جبکہ اس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے۔
اس کی جو روایت اس کے بیٹے سے نقل ہوئی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں،اور ابن وھب سے اس کی روایت روایت(صحیح)نہیں ہے۔
اگر ابن جحر نے ابن وھب سے بھی اس کی روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تو عبارت کچھ اس طرح سے ہوتی
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، ومن رواية ابن وھب
اس کی ابن وھب اور اسے بیٹے احمد کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے
مگر ابن وھب کے ساتھ حافظ صاحب نے لا اطلاق کیا ہے جو اس کا متقاضی ہے کہ یہاں دونوں سے حدیث کا پیمانہ کچھ الگ ہے بالفرض اگر ہم موصوف کے بتائے ہوئے ترجمہ کو ہی مان لیتے ہیں تو اس میں بھی فقط یہی ثابت ہوتا ہے کہ شبیب بن سعید صدوق درجے کا روای ہے دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ ابن وھب اور احمد بن شبیب سے ہر روایت ویسے ہی معتبر نہیں مانی جا سکتی ہے کیونکہ اگر ابن حجر کی بات مان لی جائے تو بھی یہ ایک عام قاعدہ ہے مگر جس روایت کے بارے میں ہم تذکرہ کر رہے اس روایت میں شبیب جمہور رواۃ کی روایت میں اضافہ کر رہا ہے اور جب کوئی صدوق راوی ثقات کی روایت میں اضافہ کرتا ہے تو اصول میں ویسے اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی اور یہ بات خود ابن حجر نے النکت میں نقل فرمائی ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ابن حجر کا یہ قول ویسے ہی مان لیا جائے جیسے موصوف بیان کررہے ہیں تو بھی اصول حدیث کے مطابق اس کی یہ روایت عموم سے ہٹ کر ہے اور اس کی منکرات وغرائب میں شامل ہے اور اس سے منکرات اور غرائب کا صادر ہونا جمہور محدثین نے نقل کیا ہے اوریہ سب اس کے ضبط میں کمی کی بنا پر ہوا ہے اس وجہ سے جمہور نے اس کو صدوق کے درجے میں رکھا ہے ذیل میں ہم محدثین کے اقوال اس حوالے سے پیش کرتے ہیں کہ جمہور کے نذدیک یہ راوی صدوق درجے کا ہے اور اس سے منکرات بھی صادر ہوئی ہیں
امام ابن المدینی:
امام ابن المدینی کے قول سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسکی کتاب کو صحیح مانتے ہیں وگرنہ ثقہ کہنے کے باوجود کتاب کا ذکر کیوں کیا جاتا۔
امام ابن ابی حاتم:
امام ابن ابی حاتم بھی اس کو صالح الحدیث فرما رہے ہیں جیسا ان کے حوالے سے ہم اوپر نقل کر آئے ہیں۔
امام طبرانی
ان کا موقف بھی ہم نقل کر چکے ہیں
امام ابو رزعہ:
انہوں نے بھی اس کو لاباس بہ فرمایا ہے۔
امام النسائی:
نے بھی اس کو لاباس بہ کہا ہے اور اس حوالے سے امام نسائی کا منھج ملاحظہ فرمالیں
عون المعبود شرح ابوداود تحت رقم 4375
ہمارا موقف اس حوالے سے مختلف ہے جو ہم ذیل میں وضاحت اور دلائل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
ہمارے مطابق یہ روایت ایک راوی کے زیادۃ الثقات کی بنیاد پر شاذ مردود ہےاس میں ایک روای نے تمام رواۃ سے ہٹ کر اس روایت میں اضافہ کیا ہے جو اور کسی روای نے نقل نہیں کیا ہے مگر سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کن کتب میں بیان ہوئی ہے ہے
سنن ابن ماجہ, عمل اليوم والليلة للنسائی
دیگر حوالاجات
جامع ترمذی 3578
مسند احمد 17242-17240 4/138
النسائی الکبری 10606-10604
المستدرک حاکم 1909،1929،1930
اس روایت کو ابو جعفر خطمی عمیر بن یزید بن عمیر بن حبیب سے اس کے چار تلامذہ نے نقل کیا ہے
شعبہ بن الحجاج
روح بن القاسم
ھشام بن ابی عبداللہ سنبر الدستوائی
حماد بن ابی سلیمان
اور اس میں صرف روح بن القاسم کے ایک شاگرد شبیب بن سعید نے اس روایت میں یہ اضافہ کیا ہے اور وہ بھی ہر جگہ اس اضافے کو بیان نہیں کیا ہے اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے سب سے پہلے ہم اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ ابو جعفر خطمی کے چار شاگردوں سے جس جس نے بھی یہ روایت بیان کی ہے کسی نے بھی اس میں اضافہ نقل نہیں کیا ہے سب نے اس کو ایک ہی طریقہ پر الفاظ کی کم بیشی کے ساتھ اسی طرح بیان کیا ہے
شعبہ بن الحجاج: سےروایت بیان کرنے والے تلامذہ
عثمان بن عمر() جامع ترمذی 3578، سنن ابن ماجہ1385،
17240 مسند احمد)
سنن النسائی الکبریٰ 10605
روح بن عباد: ٘مسند احمد 17241
محمد بن جعفر غندر: المستدرک الحاکم 1909
ھشام بن ابی عبداللہ سنبر الدستوائی کے تلامذہ
معاذ بن ھشام(بیٹا) النسائی الکبریٰ 10606
حماد بن سلمۃ کے تلامذہ
مومل بن اسماعیل: مسند احمد 17242
حبان بن ھلال الباھلی البصری(النسائی الکبریٰ 10604)
روح بن القاسم کے تلامذہ
عون بن عمارۃ (مستدرک الحاکم 1929)
شبیب بن سعیدالمستدرک الحاکم 1930)
ان میں عثمان بن عمر، روح بن عباد، حبان بن ھلال محمد بن جعفر غندر عندالجمہور ثقہ ہیں اور باقی سب صدوق حسن الحدیث ہیں اور ان میں فقط عون بن عمارۃ ضعیف ہے ان تمام رواۃ میں سے کسی نے بھی اس روایت میں یہ اضافہ بیان نہیں کیا یہاں تک کہ شبیب بن سعید سے مستدرک الحاکم میں یہ روایت اس کے بیٹے احمد بن شبیب بن سعید کے طریق سے روایت کی ہے مگر اس میں اس نے خود اس واقعہ کا اضافہ نہیں کیا ہے یہ اضافہ امام طبرانی نے اور امام یعقوب الفسوی نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے چنانچہ جب اتنے سارے ثقہ اور صدوق رواۃ نے یہ اضافہ نقل نہیں کیا، تو کیا وہ سب اس کو بھول گئے اور صرف شبیب بن سعید نے اس کو یاد رکھا تو اب یہ دیکھنا ہوگا شبیب بن سعید کے بارے میں محدثین کرام کیا فرماتے ہیں کیا اس کا ضبط اتنا اعلی پایہ کا ہے کہ تمام رواۃ جو ایک پورا واقعہ بھول گئے وہ شبیب نے یاد رکھا اوریا پھر شبیب اس واقعے کو بیان کرنے میں اس کے ضبط نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور وہ وہم اور غلطی کا شکار ہو گیا۔
موصوف طحاوی الحنفی نے امام ابن ابی حاتم اور امام ابوزرعہ کے تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں
اس کے بعد اس کی ازخود تشریح کرتے ہوئے ہیں
امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ اس کے پاس یونس کی کتاب تھی اور یہ صالح الحدیث اور لا باس بہ ہے یعنی اس میں کوئی حرج نہیں(حفظ و ضبط کے لحاظ) سے
دوئم امام ذہبی کے حوالے سے یہ فرما رہے ہیں کہ جب امام ابن ابی حاتم کسی کو ثقہ فرما دیں تو اس کو پکڑلو یعنی وہ ثقہ راوی ہوتا ہے
جبکہ اگر ہم اس حوالے سے امام ابن ابی حاتم کے ان الفاظ تعدیل کو جاننے کی کوشش کریں تو ان کے مطابق یہ الفاظ کسی کے لئے بھی ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ ان الفاظ کو راوی کے حوالے سے کس طرح دیکھتے ہیں خود ملاحظہ کریں
اس میں صالح الحدیث ان رواۃ کے بارے میں فرمارہے ہیں جن کی حدیث صرف اعتبار کے لئے لکھ جائے یعنی اس کی متابعت میں لکھی جائے گی وگرنہ وہ حدیث قابل اعتبار نہیں سمجھی جائے توامام ابن ابی حاتم کے نذدیک بھی شبیب بن سعید کوئی ثقہ روای نہیں ہے جیسا کہ موصوف باور کروانا چاہ رہے تھے اس لئے شبیب بن سعید امام حاتم کے نذدیک اس درجے کا راوی ہے جس کی احادیث صرف اعتبار کے لئے لکھی جائی گی اور ابو زرعہ نے جو اس کو لاباس بہ فرمایا ہے اسے حوالے سے بھی اصول دیکھ لیتے ہیں محدثین کے نذدیک لاباس بہ متوسط طبقہ کا راوی ہوتا ہے یعنی صدوق درجے کا روای ہوتا ہے ملاحظہ کریں
تو محدثین کے نذدیک اصول میں یہ موجود ہے کہ جس روای کو لاباس بہ کہا جائے اس سے مراد ثقہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صدوق یعنی طبقہ تعدیل میں یہ تیسرے درجے کے راوی ہوتا ہے اب اس کے بعد امام دارقطنی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے شبیب بن سعید کو ثقہ کہا ہے اس حوالے سے بھی ذرا اصول پر نظر ڈالتے ہیں
کہ مقدمین میں جب کسی راوی پر ثقہ کا اطلاق کرتے تھے تو اس سے مراد اس کا ضبط نہیں ہوتا تھا چنانچہ امام ذہبی نے اس کو اور وضاحت سے بیان کیا ہے
قلت : فمن هذا الوقت بل وقبله صار الحفاظ يطلقون هذه اللفظة على الشيخ الذي سماعه صحيح بقراءة متقن ، وإثبات عدل ، وترخصوا في تسميته بالثقة ، وإنما الثقة في عرف أئمة النقد كانت تقع على العدل في نفسه ، المتقن لما حمله ، الضابط لما نقل ، وله فهم ومعرفة بالفن ، فتوسع المتأخرون
ترجمہ ابن خلاد(الشيخ الصدوق المحدث مسند العراق أبو بكر أحمد بن يوسف بن خلاد بن منصور النصيبي ثم البغدادي العطار)
جلد صفحہ ۷۰ جلد ۱۶ سیر الاعلام النبلاء امام ذہبی
امام سخاوی اور امام ذہبی کے تبصرات سے یہ بات واضح ہیں کہ جو راوی اگر کتاب سے روایات بیان کرتا ہے تو مقدمین کے نذدیک وہ ثقہ عند الکتاب کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے کیونکہ وہ اپنی کتاب سے روایت کرنے میں ضبط کے اعتبار سے صحیح ہے اور وہ خود ایک صدوق یعنی سچا راوی ہے اس لئے اس کو ثقہ کہا جاتا ہے اس سے اس کے حافظہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور شبیب بن سعید کو امام دارقطنی بھی اس بنا پر ثقہ فرما رہے ہیں کہ اس کے پاس یونس کی کتاب موجود ہے اور اس کتاب سے روایت کرنے میں وہ ثقہ ہے چنانچہ اس کا حاصل کلام یہی ہے کہ امام دارقطنی کے نذدیک بھی شبیب جب تک ثقہ ہے جب وہ اپنی کتاب سے روایت بیان کرتا ہے امام کے نذدیک شبیب کو ثقہ کہنا صرف اس کی عدالت کو ثابت کرتا ہے اس کے ضبط کو نہیں جبکہ راوی کہ ثقہ ہونے کے لئے عدالت اور ضبط دونوں کا ہونا ضروری ہے اس لئے امام دارقنطی کا ثقہ کہنا بھی شبیب بن سعید کی عدالت کو ثابت کرتا ہے اور عدالت ثابت ہونے سے روای فقط صدوق کہلاتا ہے۔
اس کے بعد امام طبرانی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے شبیب کو ثقہ کہا ہے
امام طبرانی کے اس قول پر ذرا تبصرہ کرتے ہیں
امام طبرانی کے اپنی الصغیر میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں
اس میں امام طبرانی نے اس کو ثقہ کہنے کے باوجود بھی اس کی اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے وہ اس جانب اشارہ فرما رہے ہیں کہ اس کی روایت کو اس کی اس کتاب کی سند سے دیکھنے کی ضرورت ہے چنانچہ ابن حجر عسقلانی امام طبرانی اور ان کے ہم عصر محدثین کی بابت اپنی کتاب لسان المیزان میں فرماتے ہیں
اس میں ابن حجر نے واضح کیا ہے کہ امام طبرانی اور ان کے ہم عصر محدثین روایت کی سند بیان کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے تھے اسی لئے امام طبرانی نے شبیب بن سعید کو صرف ثقہ کہنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی کتاب کا بھی ذکرکر کے یہ باور کروادیا کہ اس کتاب کے بیان کرنے میں یہ ثقہ ہے وگرنہ ثقہ مطلق ماننے کے بعد کتاب کا ذکر چہ معنی واد، جبکہ امام طبرانی نے اس کی کتاب والی روایت یعنی اس کے بیٹے کے سند سے یونس بن الاعلی والی روایت بھی بیان نہیں کی ہے تو پر اس کتاب کا ذکر کرنے کا صرف یہی مقصد ہے کہ شبیب کا بیٹا اپنے والد کی کتاب سے روایت کرے گا تو وہ ثقہ ماننا جائے گا وگرنہ اس کی بیان کردہ روایت پر نظر رکھی جائے۔
امام طبرانی کے قول ثقہ کی وضاحت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام طبرانی بھی شبیب کو مطلق ثقہ نہیں مانتے تھے اور ان کے نذدیک بھی شبیب کتاب کے ساتھ روایت کرے تو صحیح ہے اور یہاں ثقہ سے مراد صرف اس کی عدالت ہے وگرنہ اس کے ضبط اور حفظ پر کلام ہے جیسا ہم اس کی اور وضاحت آئندہ سطور میں کریں گے۔
حافظ ابن حجر کی توثیق
حافظ ابن حجر کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ لسان المیزان میں حافظ صاحب نے اس کو بلاحجت ثقہ فرمایا ہے۔
موصوف سے عرض ہے کہ لسان المیزان حافظ صاحب کی ابتدائی کتب میں سے ہے جبکہ اگر ہم تقریب التھذیب میں حافظ صاحب کا تبصرہ شبیب بن سعید کے بارے میں دیکھیں تو اس میں حافظ صاحب نے شبیب بن سعید کو لاباس بہ فرمایا ہے اور لا باس بہ کے بابت حافظ صاحب نے اپنی اسی کتاب میں کیا اصول نقل کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ ابن حجر نے شبیب بن سعید کے ترجمہ میں کچھ اس طرح نقل کیا ہے
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب .
حافظ کی اس عبارت کا موصوف یہ ترجمہ فرما رہے ہیں
اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، اور نہ ہی ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں ۔
جبکہ اس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے۔
اس کی جو روایت اس کے بیٹے سے نقل ہوئی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں،اور ابن وھب سے اس کی روایت روایت(صحیح)نہیں ہے۔
اگر ابن جحر نے ابن وھب سے بھی اس کی روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تو عبارت کچھ اس طرح سے ہوتی
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، ومن رواية ابن وھب
اس کی ابن وھب اور اسے بیٹے احمد کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے
مگر ابن وھب کے ساتھ حافظ صاحب نے لا اطلاق کیا ہے جو اس کا متقاضی ہے کہ یہاں دونوں سے حدیث کا پیمانہ کچھ الگ ہے بالفرض اگر ہم موصوف کے بتائے ہوئے ترجمہ کو ہی مان لیتے ہیں تو اس میں بھی فقط یہی ثابت ہوتا ہے کہ شبیب بن سعید صدوق درجے کا روای ہے دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ ابن وھب اور احمد بن شبیب سے ہر روایت ویسے ہی معتبر نہیں مانی جا سکتی ہے کیونکہ اگر ابن حجر کی بات مان لی جائے تو بھی یہ ایک عام قاعدہ ہے مگر جس روایت کے بارے میں ہم تذکرہ کر رہے اس روایت میں شبیب جمہور رواۃ کی روایت میں اضافہ کر رہا ہے اور جب کوئی صدوق راوی ثقات کی روایت میں اضافہ کرتا ہے تو اصول میں ویسے اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی اور یہ بات خود ابن حجر نے النکت میں نقل فرمائی ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ابن حجر کا یہ قول ویسے ہی مان لیا جائے جیسے موصوف بیان کررہے ہیں تو بھی اصول حدیث کے مطابق اس کی یہ روایت عموم سے ہٹ کر ہے اور اس کی منکرات وغرائب میں شامل ہے اور اس سے منکرات اور غرائب کا صادر ہونا جمہور محدثین نے نقل کیا ہے اوریہ سب اس کے ضبط میں کمی کی بنا پر ہوا ہے اس وجہ سے جمہور نے اس کو صدوق کے درجے میں رکھا ہے ذیل میں ہم محدثین کے اقوال اس حوالے سے پیش کرتے ہیں کہ جمہور کے نذدیک یہ راوی صدوق درجے کا ہے اور اس سے منکرات بھی صادر ہوئی ہیں
امام ابن المدینی:
امام ابن المدینی کے قول سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسکی کتاب کو صحیح مانتے ہیں وگرنہ ثقہ کہنے کے باوجود کتاب کا ذکر کیوں کیا جاتا۔
امام ابن ابی حاتم:
امام ابن ابی حاتم بھی اس کو صالح الحدیث فرما رہے ہیں جیسا ان کے حوالے سے ہم اوپر نقل کر آئے ہیں۔
امام طبرانی
ان کا موقف بھی ہم نقل کر چکے ہیں
امام ابو رزعہ:
انہوں نے بھی اس کو لاباس بہ فرمایا ہے۔
امام النسائی:
نے بھی اس کو لاباس بہ کہا ہے اور اس حوالے سے امام نسائی کا منھج ملاحظہ فرمالیں
عون المعبود شرح ابوداود تحت رقم 4375