• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے۔

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
حدیث رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 47 محمد
آیت نمبر 33

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَلَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَـكُمۡ

ترجمہ:
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔

اللّٰہ تعالیٰ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کی اطاعت سے انکار اعمال کو ضائع و برباد کرنے کے مترادف ہے۔اور اطاعت کے لحاظ سے دونوں کی اطاعت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اللّٰہ رب العزت کی اطاعت ہے۔

القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 80

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَنۡ يُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰهَ ‌ۚ وَمَنۡ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ حَفِيۡظًا

ترجمہ:
جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جو (اطاعت سے) منہ پھیر لے تو (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا (کہ تمہیں ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے)

اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے جی سے کوئی بات نہیں کہتے تھے بلکہ وہ جو فرماتے وحی کی بنا پر فرمایا کرتے تھے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 53 النجم
آیت نمبر 3

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ

ترجمہ:
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔

اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ‏

ترجمہ:
یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔

ایک مقام پر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 16 النحل
آیت نمبر 44

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

بِالۡبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ‌ؕ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ‏

ترجمہ:
ان پیغمبروں کو روشن دلائل اور آسمانی کتابیں دے کر بھیجا گیا تھا۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ قرآن کریم کے احکامات اور فرامین کی نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل کے ذریعے تشریح و توضیح فرمانے پر مقرر کیے گئے تھے ۔

کیا صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے؟
بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کی فلاح آیت سے ٹکراتی ہے یا اس کا مضمون قرآن کے فلاں مضمون کے خلاف ہے تو یہ لوگ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کو حدیث سے ٹکرانے والے فرق باطلہ ہی تھے ۔انہوں نے ہی یہ اصول وضع کیے تھے ۔
واضح رہے کہ یہ باطل عقیدہ بھی شیعہ کا ہے ان کی معتبر کتاب اصول کافی میں ہے ۔
پس جو حدیث کتاب اللّٰہ کے موافق ہو تو اسے لے لو اور جو کتاب اللّٰہ کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو ۔
اصول کافی جلد 1 صفحہ55 ۔

جو لوگ حدیث کو قرآن مجید کے خلاف کہتے ہیں ان کو سمجھانے کے لیے ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔
مثال کے طور پر قرآن کریم میں اللّٰہ رب العزت کا ارشاد ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 173

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡکُمُ الۡمَيۡتَةَ وَالدَّمَ وَلَحۡمَ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيۡرِ اللّٰهِ‌ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ

ترجمہ:
اس نے تو تمہارے لئے بس مردار جانور، خون اور سور حرام کیا ہے، نیز وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو ہاں اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو (اور ان چیزوں میں سے کچھ کھالے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔

قرآن کریم کی آیت سے واضح ہوا جو حلال جانور اپنی طبعی موت مر جائے حرام ہے ۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے ۔لیکن حدیث میں ہے ۔
سنن نسائی
کتاب: شکار اور ذبیحوں سے متعلق
باب: دریائی مرے ہوئے جانور
حدیث نمبر: 4355

ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا: اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ٥٩ (صحیح )
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4350
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مچھلی اگر چہ مردہ ہے لیکن اس کا کھانا حلال ہے اگر چہ یہ حدیث بزاہر قرآن مجید کے خلاف ہے لیکن قرآن وحدیث میں بزاہر تضاد ہوگا تو ان میں تطبیق دی جائے گی۔
یعنی اگر چہ مردہ حرام ہے لیکن مچھلی مردہ ہونے کے باوجود حلال ہے کیونکہ یہ ایک استثنائی صورت ہے۔اور دیکھا گیا ہے کہ منکرین حدیث بھی اسے مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے۔

مسند احمد
کتاب: حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی مرویات
باب: حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی مرویات
حدیث نمبر: 5465

ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمارے لئے دو طرح کے مردار اور دو طرح کا خون حلال ہے، مردار سے مراد مچھلی اور ٹڈی دل ہے (کہ انہیں ذبح کرنے کی ضرورت ہی نہیں) اور خون سے مراد کلیجی اور تلی ہے۔

صحیح بخاری
کتاب: ذبیحوں اور شکار کا بیان
باب: ٹڈی کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 5495

ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سنا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ سات یا چھ غزووں میں شریک ہوئے، ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ سفیان، ابوعوانہ اور اسرائیل نے ابویعفور سے بیان کیا اور ان سے ابن ابی اوفی نے، سات غزوہ کے لفظ روایت کئے۔

مچھلی سمندر کا جانور ہے جبکہ ٹڈی خشکی کا ہے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خشکی کے اس مردہ کو بھی کھایا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث پر سچے دل سے ایمان رکھا جائے اور ان پر شک و شبہ نہ کیا جائے ۔

القرآن - سورۃ نمبر 49 الحجرات
آیت نمبر 15

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ ثُمَّ لَمۡ يَرۡتَابُوۡا وَجَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوۡنَ

ترجمہ:
ایمان لانے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔

جمع و ترتیب جلال الزمان ۔
 
Top