• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث وسنت : فرق اور باہمی تعلق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث وسنت : فرق اور باہمی تعلق

…عقیدہ کے اعتبار سے قرآن کریم بھی سنت میں شامل ہے جو حدیث ہی کے ذریعے ہمیں ملا۔ اس لئے عموماًمحدثین حدیث وسنت کو مترادف سمجھتے ہیں مگر صحیح بات یہ ہے کہ ان میں عموم وخصوص کا فرق ہے۔ یعنی حدیث عام ہے اور سنت خاص۔ وہ اس طرح:

حدیث سند و متن کے مجموعے کا نام ہے اور اس متن کے ثبوت کے بعد جومسئلہ(خواہ وہ فرض ہو یا مسنون، عقیدہ ہو حرام ہو یا حلال ، قول ہویا عمل ) معلوم ہو اسے سنت کہتے ہیں۔

…فقہی اعتبار سے سنت اسے کہیں گے جو فرض کے بعد کا درجہ رکھتی ہے۔جس میں سنت مؤکدہ یا راتبہ اور سنت غیر مؤکدہ یا راتبہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

… چونکہ علوم نبوت کے لئے حدیث و سنت کا استعمال عام ہے ۔اس لئے محدثین و متکلمین کے ہاں جب بھی حدیث یا سنت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبی ﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات ہی ہوتے ہیں۔ اس مفہوم کے علاوہ کسی اور طرف ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا۔

…سنت کا تعلق آپ ﷺ کے قول ، فعل اور تقریر سے ہوتاہے ۔مگرصحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کے اقوال و افعال گو کتب حدیث میں موجود ہیں انہیں سنت نہیں بلکہ اثر، موقوف ، مقطوع یا خبر کہاجاتا ہے ۔

…صرف صحیح یا حسن حدیث سے سنت ثابت ہوگی اس لئے کہ صحیح حدیث کے علاوہ دیگر اقسام حدیث جیسے ضعیف، موضوع، متروک، مرسل یا اجتہاد وفتوی وغیرہ سے سنت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے سنت نام دیا جاسکتا ہے۔نیز حدیث کو تو ضعیف وموضوع کہا جاتا ہے مگر سنت کو نہیں۔

… سنت و حدیث میں تعداد کے لحاظ سے بھی فرق ہے مثلاً آپ ﷺ کی یہ قولی سنت ہے: إنما الأعمال بالنیات۔۔۔ یہ سنت تقریباً(۷۰۰) سات سو طریقوں سے بیان ہوئی ہیں۔ یوں یہ سنت ایک ہے مگر ا س کی احادیث (۷۰۰) سات سو ہیں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ امام بخاری کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں تو اس سے مراد اسانید ہیں نہ کہ سنت۔ اسی طرح ایک ہی حدیث میں بے شمار سنتوں کا استنباط فقیہ کا کام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
… بعض لوگ سنت وحدیث کے درمیان یوں فرق کرتے ہیں کہ حدیث وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کے قول وفعل اور تقریر وصفات کی صورت میں منقول ہو۔اور سنت وہ ہے جو شرعی اعتبار سے آپ ﷺکے عہد سے عصر صحابہ کے آخر تک عملاً واقع ہوئی ہو۔مثلاًوہ کہتے ہیں:حدیث میں یہ منقول ہے مگر سنت اس کے خلاف ہے۔ان کی مراد یہ ہے کہ وہ عمل جو زمانۂ رسول سے لے کر عہد صحابہ کے اخیر تک جاری وساری رہا یہ حدیث اس کے برعکس ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ سنت یہ تھی اور حدیث اس کے خلاف نکل آئی؟ کیا ایسا نہیں ہوا کہ عہد صحابہ میں ہی ایک عمل بصرہ یاکوفہ میں تھا اور حدیث اس کے خلاف تھی؟ یا مدینہ میں تھا اور کو فہ وبصرہ کا عمل اس کے خلاف تھا؟ غور کیا جائے تویہ سوال حدیث کی ہمہ گیریت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اور لفظ سنت کوعلاقائیت یا انفرادیت کی نذر کیا جارہا ہے جو اصولاً غلط ہے۔وجہ یہ ہے کہ اگر یہی حدیث مدینہ میں رہتی ہے تو سنت ٹھہرتی ہے اوروہاں سے نکل کر اگربصرہ یا مصر میں چلی جاتی ہے تو مدینہ کے عمل کو کیا نام دیا جائے گا۔وفات نبوی کے بعد بہت سے صحابہ کرام ان علاقوں میں جا آباد ہوئے ۔ علم وعمل کو انہوں نے اپنے شاگردوں کو دیا، کیا وہ رسول کی تعلیمات اور حدیث رسول کے بغیر تھا؟کیا مدینہ کی سنت کوفیوں نے تسلیم کی؟ یا کوفیوں کی سنت، مدنی لوگوں نے مانی؟ اس لئے علاقائی یا انفرادی طریقے سنت نہیں کہلا سکتے۔سبھی مکلف ہیں حدیث رسول کی اتباع کرنے کے۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ نے اپنے ارشادات میں یہ بات فرمائی: صحیح حدیث آجائے تو میرا قول وعمل دیوار پر دے مارو۔اس لئے حدیث ہی آفاقی شے ہے ۔ یہ جہاں بھی ملے گی اسے اپنانا ہی سنت ہوگا۔مقامی عرف اور عادات کو اسی کے مطابق ہی ڈھالنا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث وسنت کے ماہرین کا تجزیہ بعض علماء نے یوں پیش کیا ہے کہ امام عبد الرحمنؒ بن مہدی سے پوچھا گیاکہ امام مالک، اوزاعی اور سفیان بن عیینہ میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ فرمایا: اوزاعی امام سنت ہیں امام حدیث نہیں۔ سفیان امام حدیث ہیں امام سنت نہیں۔ اور مالک دونوں میں امام ہیں۔(ترتیب المدارک از قاضی عیاض ۱ـ۱۳۲) ابن ابی حاتم ، عبد الرحمن بن مہدی کا یہ قول بھی لکھتے ہیں: علماء کی مختلف اقسام ہیں۔ ان میں کوئی امام سنت وحدیث ہے۔ کوئی صرف امام سنت ہے حدیث نہیں۔ اور کوئی اس کے برعکس۔ رہا وہ جو دونوں میں امام ہو وہ صرف ابو سعید سفیان ثوری ہیں۔یہ فرق اس لئے کہ حدیث کی سند اور متن کا عالم امام حدیث کہلایا اور جو حدیث کے ان دونوں حصوں میں صحیح متن سے بھرپور واقفیت کے بعد اس سے استنباط مسائل کرتا وہ امام سنت کہلایا۔یہ سبھی اطباء تھے۔کیونکہ کوئی عالم، فقیہ یامجتہد کہلانے کا مجازہی اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے پاس سند ومتن کا صحیح علم ہو۔اور استنباط کا ملکہ بھی اسے حاصل ہو۔ورنہ وہ فقیہ ہے نہ مجتہد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چند قاعدے:
٭… سنت صرف آپ ﷺ کے راستے پر چلنے کا نام ہے ۔ کسی اور کے راستے کو سنت نہیں کہا جاسکتا إلا یہ کہ وہ اتباع رسول ﷺ کے زمرہ میں آئے۔

٭…سنت خلفاء راشدین بھی اتباع سنت ہی کا نام ہے۔اسی طرح جب رسول اکرم ﷺ سے کوئی سنت واضح طور پر ثابت ہو تو صحابہ کرام کے اختلاف سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

٭… سنت ثابتہ کے مقابل میں صحابی کا انفرادی عمل دلیل نہیں ۔ صحابہ بلاشبہ سنت رسولﷺ کے محب تھے۔مگر ان کا عمل اس وقت دلیل ہوسکتا ہے جب رسول اکرم ﷺ سے صراحتاً اس باب میں کچھ ثابت نہ ہو۔ آپ ﷺ سے جب وضاحت آجائے تووہی سنت ہوگی۔مثلاً بعض صحابہ بیس تراویح پڑھتے تھے مگر رسول اکرم ﷺ سے یہ تعداد ثابت نہیں۔رسول اکرم ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ کی تین طلاقوں کو ایک سمجھا سیدنا عمرؓ نے انہیں تین ہی نافذ کردیا۔اسی طرح سیدنا عمرؓ حج تمتع کو ناپسند کرتے تھے۔(صحیح مسلم) سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ رکوع میں تشبیک کے قائل تھے حالانکہ سنت صحیحہ اس کے خلاف ہے۔(ترمذی) ایسے مسائل میں صحابہ کرام کے عمل سے سنت ثابت نہیں ہوگی اور نہ ہی صحابہ پر طعن کیا جائے گا۔

٭٭٭٭٭​

دور کی کوڑی:
سنت سے کد رکھنے والے ایک اور دور کی کوڑی لائے کہ لفظ سنت ، عبرانی لفظ مسناۃ سے مأخوذ ہے۔جو زبانی روایات کے معنی میں ہے۔عربی نہیں۔ یہ بات حسداً کی گئی ہے کہ بہترین اصطلاحات مسلمانوں کے پاس کیوں ہوں؟ ورنہ لفظ سنت ایک خالص عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی راستہ یا طریقے کے ہیں۔ اور اصطلاحاً وہ راستہ جس پر جناب رسول اکرم ﷺ تمام عمر قائم رہے ۔ اس کے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں زبانی روایت کے معنی ہرگز نہیں ملتے ( کتاب الاسلام عقیدۃ وشریعۃ از شیخ محمود شلتوت : ص ۵۱۳) اورمقالات سلیمان ج ص 166)۔ ہاں مسناۃ کے لفظ پر ہمیں کوئی شکایت نہیں اس لئے کہ یہود نے اپنی مذہبی کتب کی روایت زبانی کی ہے۔جن میں ان کے اکابرین کے اقوال منقطع اوربلاسند ہیں۔ وہ سند بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔اس لئے یہ نام ان کی کتب پر صحیح چسپاں ہوتا ہے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
شمولیت
ستمبر 27، 2014
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
33
فیس بک پہ ایک صاحب ہیں شائد منکر حدیث سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک سٹیٹس لگائی ہے۔ اس کا جواب کیا دیا جاسکتا ہے
لط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہیے کہ اِن دونوں کی حقیقت بھی ایک ہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربیت کی رو سے ہر جگہ حدیث اور سنت کو مترادف کے طور پر استعمال کیا بھی نہیں جاسکتا۔ مندرجہ ذیل چند مثالوں سے قارئین اِس مقدمے کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں : ا۔ 'النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ' کے بجائے ہم اگر کہیں: 'النِّکَاح مِنْ حَدِيْثِیْ' تو بالبداہت واضح ہے کہ استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے اِس جملہ کو غلط قرار دینے میں کسی شخص کو تردد نہیں ہوسکتا۔ اِس مثال سے واضح ہے کہ حدیث اور سنت دو مختلف چیزیں ہیں۔ چنانچہ اِن الفاظ کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ ب۔ اگر کہا جائے کہ ملاقات کے موقع پر'السَّلاَمُ عَلَيْکُمْ' کہنا اور اُس کا جواب دینا "سنت" ہے،تو ظاہر ہے کہ یہ بیان ہر پہلو سے درست ہے۔ لیکن ہم اگر کہیں کہ ایسا کرنا "حدیث" ہے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ زبان کی رو سے یہاں "حدیث" کے لفظ کا استعمال قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ مثال بھی پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہے کہ حدیث اور سنت دو متفرق چیزیں ہیں۔ ج۔ اگر کوئی شخص کہے کہ لڑکوں کا ختنہ کرنا "حدیث" ہے تو اُس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ یہ "حدیث" نہیں،بلکہ "سنت" ہے۔ اِسے حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اِس مثال سے بھی ہر شخص حدیث اور سنت کے فرق کو با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ د۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ نماز کے قیام میں سورۂ فاتحہ کی قرأت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "حدیث" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اِس جملے کو بھی ہر لحاظ سے غلط ہی قرار دیا جائے گا۔ صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ آپ نے اِسے "سنت" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ مثال بھی واضح ہے کہ حدیث کا مصداق اور ہے اورسنت کا کچھ اور
LikeLike · · Share
 
Last edited by a moderator:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حدیث وسنت کے ماہرین کا تجزیہ بعض علماء نے یوں پیش کیا ہے کہ امام عبد الرحمنؒ بن مہدی سے پوچھا گیاکہ امام مالک، اوزاعی اور سفیان بن عیینہ میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ فرمایا: اوزاعی امام سنت ہیں امام حدیث نہیں۔ سفیان امام حدیث ہیں امام سنت نہیں۔ اور مالک دونوں میں امام ہیں۔(ترتیب المدارک از قاضی عیاض ۱ـ۱۳۲) ابن ابی حاتم ، عبد الرحمن بن مہدی کا یہ قول بھی لکھتے ہیں: علماء کی مختلف اقسام ہیں۔ ان میں کوئی امام سنت وحدیث ہے۔ کوئی صرف امام سنت ہے حدیث نہیں۔ اور کوئی اس کے برعکس۔ رہا وہ جو دونوں میں امام ہو وہ صرف ابو سعید سفیان ثوری ہیں۔یہ فرق اس لئے کہ حدیث کی سند اور متن کا عالم امام حدیث کہلایا اور جو حدیث کے ان دونوں حصوں میں صحیح متن سے بھرپور واقفیت کے بعد اس سے استنباط مسائل کرتا وہ امام سنت کہلایا۔یہ سبھی اطباء تھے۔کیونکہ کوئی عالم، فقیہ یامجتہد کہلانے کا مجازہی اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے پاس سند ومتن کا صحیح علم ہو۔اور استنباط کا ملکہ بھی اسے حاصل ہو۔ورنہ وہ فقیہ ہے نہ مجتہد۔
ہائی لائٹ کردہ بات کی روشنی میں کیا آپ ” امام ابو حنیفہؒ“کو عالم، فقیہ یا مجتہد مانتے ہیں ؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سنت اور حدیث میں فرق یہ ہے کہ سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے جبکہ حدیث اس سنت کے بیان کا نام ہے۔ سنت کا بیان جدیث میں ہوتا ہے یعنی روایت صحابی حدیث ہے۔ صحابی جب سنت یعنی قول، فعل یا تقریر کو نقل کرتا ہے تو اس کا یہ نقل یا بیان یا روایت کرنے کا عمل حدیث کہلاتا ہے۔ پس حدیث بیان صحابی ہے اور سنت جو اس بیان کے مشمولات ہیں، وہ ہیں۔
 
Top