• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث : " ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ" کا مصداق کون

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ھائیوں،
پچھلے دنوں ایک چھوٹی سی عبارت نظر سے گذری جس میں اس حدیث کے متعلق امت کے اجماعی موقف کے خلاف درج ذیل توجیح درج تھی جس میں علی رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ کا مصداق ثابت کیا جارہا تھا عبارت کچھ اس طرح تھی۔
"اس حدیث کےمطابق باغی گروہ وہ ہے جس نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت سے بغاوت کی تھی اور پھر یہی گروہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو گیا جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے لڑائی میں پہل نہیں کی تھی نہ بغاوت کی کیونکہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ہی نہین کی تھی جب بیعت ہی نہیں کی تو امیر کی اطاعت سے بعاوت بھی نہیں ہوئی چنانچہ باغی گروہ وہ تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغاوت کر کے علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل ہو گیا تھا۔
اس عبارت کے سیاق کے مطابق باغی گروہ علی رضی اللہ عنہ کا ہے کیونکہ وہ باغی بعد میں علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے
ایک کا دفاع کرنے میں دوسرے پر وہی اعتراض وارد کر بیٹھے یہ تو وہی مثال ہوئی کہ
نماز بخشوانے گئے تھے اور روزے گلے پڑگئے
سب سے پہلے اس حدیث کو دیکھتے ہیں کہ اس کا مکمل سیاق کیا ہے۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے لوگ ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے مگر وہ دو دو اینٹیں لے کر جا رہے تھے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مٹی جھاڑی اور فرمایا" وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ "(صحیح بخاری کتاب الصلاہ باب تعاون فی بناء المسجد رقم447)
ترجمہ: عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا وہ انہیں جنت کی طرف بلائے گا اوروہ اس کو آگ کی طرف بلائیں گے تو عمار رضی اللہ عنہ نے کہا میں فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

اس حدیث میں درج ذیل نقاط ہیں۔
(1) عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرےگا۔
(2) باغی گروہ عمار رضی اللہ عنہ کے مخالف ہوگا۔
(3) وہ عمار رضی اللہ عنہ کو آگ کی طرف بلائیں گے اور عمار رضی اللہ عنہ ان کو جنت کی طرف بلائیں گے۔
اس حدیث کا سب سے اہم نقطہ جس میں عمار رضی اللہ عنہ کو امام کی اطاعت کی طرف بلائیں گے جس سے اس عبارت کی بنیاد بین و بیخ سے اکھڑ جاتی ہے کیونکہ اگر وہ علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل لوگ تھے تو عمار رضی اللہ عنہ اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلا رہیں ہیں اور وہ جبکہ وہ پہلے سے ہی اس گروہ میں شامل ہیں جو جنت کی طرف بلا رہا ہے تو بیک وقت وہ گروہ جنت کی طرف بھی ہے اور عمار رضی اللہ عنہ ان کو جنت کی طرف بھی بلا رہے ہیں اور وہ عمار رضی اللہ عنہ کو آگ کی طرف بلا رہیں ہے یہ ایک ایسی باطل تاویل ہے جو اپنے میں بھونڈا مزاق ہے اور دوسری طرف امت کے اجماعی عقیدہ کے بھی مخالف ہے اب سوال یہ ہے کہ پھر وہ باغی گروہ کون سا ہے جس کو عمار رضی اللہ عنہ جنت کی طرف یعنی امام کی اطاعت کی طرف بلا رہیں ہیں سب سے پہلے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی فضائل میں کچھ عرض کروں گا تاکہ معلوم ہو کہ وہ کیا شخصیت تھی جس کو حق اور باغی کا پیمانہ بنایا گیا ہے
گزشتہ سے پیوستہ

مناقب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

(1)عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الشَّأْمَ فَصَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَأَتَيْتُ قَوْمًا فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ، فَإِذَا شَيْخٌ قَدْ جَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقُلْتُ: إِنِّي دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَيَسَّرَكَ لِي، قَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ مِنْ أَهْلِ الكُوفَةِ، قَالَ: أَوَلَيْسَ عِنْدَكُمْ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ صَاحِبُ النَّعْلَيْنِ وَالوِسَادِ، وَالمِطْهَرَةِ، وَفِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ، - يَعْنِي عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح بخاری کتاب مناقب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رقم 3742)

ترجمہ علقمہ فرماتے ہیں جب میں شام گیا تو میں نے دو رکعت پڑھ کر دعا کی اے اللہ مجھے کسی نیک کی بیٹھک عطا کر پھر میں کچھ لوگوں کی طرف گیا اور ان میں بیٹھا پھر ایک بوڑھا شخص آیا اور میرے برابر بیٹھ گیا میں نے پوچھا اپ کون ہیں کہا ابودرداء رضی اللہ عنہ میں نے کہا کہ میں نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اپ کو بھیج دیاانہوں نے پوچھا تم کہاں سے ہو میں نے کہا اہل کوفہ سے ہوں آپ نے کہا کیا تم میں ام عبد(عبداللہ بن مسعود) نہیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اور بستر سنبھالنے والے ہیں اور کیا تم میں وہ(عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ) نہیں ہیں جن کو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کی وجہ سے شیطان سے پناہ دی ہے۔
(2) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُلِئَ عَمَّارٌ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ»(سنن ابن ماجہ رقم147،سلسلہ احادیث الصحیحۃ رقم 807)
ترجمہ: عمار رضی اللہ عنہ سر سے قدم تک ایمان سے لبریز ہیں۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل قدر صحابی جن کو اللہ نے شیطان سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور وہ ایمان سے لبریز ہیں ان کو حق اور باغی کا پیمانہ بنایا گیا تھا کہ وہ جس گروہ میں ہوں گے وہ حق پر ہو گا اور ان کا مخالف باغی گروہ کہلائے گا اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ جنگ صفین میں وہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور ان کے مخالف معاویہ رضی اللہ عنہ باغی گروہ تھا اور اس پر پوری امت کا اجماع ہے جس میں دفاع صحابہ کے نام پر نقیب ڈال کر اہل ایمان سے الگ راہ تلاش کی جا رہی ہے۔اب ہم اس حوالے سے دلائل نقل کریں گے۔

قرآن سے اجماع کی حیثیت و اہمیت

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(سورہ النساء آیت 115)
ترجمہ:جو ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے گا اور مومنوں کے راہ کے سواء چلے گا ہم اس کو وہیں موڑ دیں گے جہاں وہ جا رہ ہیں اور ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔
اس آیت سے آئمہ نے اجماع امت کی دلیل لی ہے اور جنگ صفین میں علی رضی اللہ عنہ کا حق پر ہونا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا باغی ہونا اجماع امت ہے جس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
جنگ صفین پر امت کا اجماعی موقف

اس حوالے سے سب سے پہلے ان کا قول نقل کریں گے جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی جی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے سب پڑھ لیں
زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ , فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْه(مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37841)
ترجمہ زیاد بن حارث جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قریب گئے اور کہا کہ اہل شام نے کفر کیا ہےانہوں نے فرمایا یہ نہ کہو ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن یہ لوگ حق سے ہٹ گئے ہیں اور ہم حق پر ہیں اور اس لئے ان سے لڑ رہے ہیں کہ یہ اس(حق) کی طرف آجائیں۔
حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ روای اپنی روایت کامفہوم دوسروں سےبہتر سمجھتا ہےاور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہے کہ ان کے مخالف گروہ باغی ہے تو آج کے معاصرین کے اقوال اس بارے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں جو الٹا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کو باغی بنانے پر تلے ہیں جبکہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اپنے مخالف گروہ کو باغی فرما رہے ہیں اور سونے پر سھاگہ اس پر امت کا اجما ع ہے

آئمہ اکابرین کے اقوال
امام حسن بصری فرماتے ہیں
قد فسر الحسن البصري الفئة الباغية بأهل الشام: معاوية وأصحابه.(فتح الباری ابن رجب الحنبلی باب التعاون علی المسجد جلد 3 ص 311)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں
حَدِيثَ تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةٍ مِنْهُمْ قَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ كَمَا تَقَدَّمَ وَأُمُّ سَلَمَةَ عِنْدَ مُسْلِمٍ وَأَبُو هُرَيْرَةَ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عِنْدَ النَّسَائِيِّ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَحُذَيْفَةُ وَأَبُو أَيُّوبَ وَأَبُو رَافِعٍ وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ وَمُعَاوِيَةُ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَأَبُو الْيُسْرِ وَعَمَّارٌ نَفْسُهُ وَكُلُّهَا عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ وَغَيْرِهِ وَغَالِبُ طُرُقِهَا صَحِيحَةٌ أَوْ حَسَنَةٌ وَفِيهِ عَنْ جَمَاعَةٍ آخَرِينَ يَطُولُ عَدُّهُمْ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَفَضِيلَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعَلِيٍّ وَلِعَمَّارٍ وَرَدٌّ عَلَى النَّوَاصِبِ الزَّاعِمِينَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ مُصِيبًا فِي حُرُوبِهِ(فتح الباری تحت رقم 447)
ترجمہ: حدیث عمار رضی اللہ عنہ متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے (اس کے بعد صحابہ کے نام نقل کیے پھر لکھا کہ)اور اس غالب طرق صحیح ہیں یا حسن اور متاخرین کی ایک بڑی تعداد نے روایت کی ہے اس حدیث میں نبوت کی علامات میں سے ہے اور اس میں عمار اور علی رضی اللہ عنھما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور ان میں ناصبیوں کا رد ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر نہیں تھے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح لکھا کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی تمام جنگوں میں حق پر تھے اب اس بات پر بھی اقوال دیکھتے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں

امام نووی فرماتے ہیں
قَالَ الْعُلَمَاءُ هَذَا الْحَدِيثُ حُجَّةٌ ظَاهِرَةٌ فِي أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ مُحِقًّا مُصِيبًا وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى بُغَاةٌ لَكِنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِمْ لِذَلِكِ
ترجمہ: علماء فرماتے ہیں یہ حدیث(عمار) حجت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور دوسری جماعت باغی ہے مگر وہ مجتھد ہے اس لئے ان پر کوئی گناہ نہیں ہے

ملا علی قاری فرماتے ہیں
واستدل به على أحقية خلافة علي، وكون معاوية باغياً لقوله عليه الصلاة والسلام: ويحك يا عمار يقتلك الفئة الباغية(شرح مسند ابی حنیفہ اقتدوا بعد ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما جلد ا ص245)

[FONT=Tahoma, sans-serif](حدیث عمار) سے استدلال کیا ہے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اور معاویہ رضی اللہ عنہ باغی ہیں۔
[/FONT]
صفی الرحمان مبارکپوری
الْمُرَادُ بِالْفِئَةِ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ وَالْفِئَةُ الْجَمَاعَةُ وَالْبَاغِيَةُ هُمُ الَّذِينَ خَالَفُوا الْإِمَامَ وَخَرَجُوا عَنْ طَاعَتِهِ بِتَأْوِيلٍ بَاطِلٍ وَأَصْلُ الْبَغْيِ مُجَاوَزَةُ الْحَد(تحفہ الاحوذی تحت رقم 3800)
ترجمہ: جماعت باغیہ سے مراد معاویہ رضی اللہ عنہ کی ساتھیوں کی جماعت ہے جنہوں نے امام کے خلاف کیا اور اس سے خروج کیا باطل تاویل کی بنا پر اور دراصل یہ بغاوت تھی جو اپنی حدود سے تجاوز تھا۔

امام الزرکشی فرماتے ہیں
قال الزركشي وهذا الحديث احتج به الرافعي لإطلاق العلماء بأن معاوية ومن معه كانوا باغين ولا خلاف أن عمار كان مع علي رضي الله عنه وقتله أصحاب معاوية.(توضیح الافکار لمعانی تنقیح الانظار جلد 2 ص257 تحت مسالۃ 63 معرفہ الصحابہ)
ترجمہ: اس حدیث کا اطلاق علماء نے اس پر کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور جو ان کے ساتھ تھےسب باغی تھے اور یہ اس کے خلاف نہیں کہ عمار رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ان کو قتل کیا۔


محمد بن إسماعيل الأمير الصنعاني
المتوفى: 1182ہجری
وقال الإستاذ عبد القاهر البغدادي أجمع فقهاء الحجاز والعراق ممن تكلم في الحديث والرأي منهم مالك والشافعي وأبو حنيفة والأوزاعي والجمهور الأعظم من التكلمين أن عليا عليه السلام مصيب في قتاله لأهل صفين كما أصاب في قتاله أهل الجمل وأن الذين قاتلوه بغاة ظالمين له لحديث عمار واجمعوا على ذلك.(حوالہ ایضا)
اس پر اجماع بتایا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ باغی گروہ تھا۔
ابن کثیر فرماتے ہیں

أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنَّهُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ وَبَانَ بِذَلِكَ أَنَّ عَلِيًّا مُحِقٌّ وَأَنَّ مُعَاوِيَةَ بَاغٍ(البدایہ والنھایہ جلد 7 ص266 باب مقتل عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ (عماررضی اللہ عنہ) کو باغی گروہ قتل کرے گا اس سے یہ ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے۔

امام شوکانی فرماتے ہیں

[FONT=Tahoma, sans-serif]قَوْلُهُ: (أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ) فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا وَمَنْ مَعَهُ هُمْ الْمُحِقُّونَ، وَمُعَاوِيَةَ وَمَنْ مَعَهُمْ هُمْ الْمُبْطِلُونَ، وَهَذَا أَمْرٌ لَا يَمْتَرِي فِيهِ مُنْصِفٌ وَلَا يَأْبَاهُ إلَّا مُكَابِرٌ مُتَعَسِّفٌ، وَكَفَى دَلِيلًا عَلَى ذَلِكَ الْحَدِيثُ. وَحَدِيثُ " يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " وَهُوَ فِي الصَّحِيحِ(نیل الاوطار جلد 7 ص 59)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(اولاھما بالحق) اس میں دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باطل پر تھے اور اس میں کسی بھی انصاف کرنے والے کے لئے کوئی شک نہیں ہے اور اس سے صرف ضدی اور ہٹ دھرم ہی انکار کرے گا۔[/FONT]
امام آلوسی فرماتے ہیں

الفئة الباغية كما أمرني الله تعالى- يعني بها معاوية ومن معه الباغي(تفسیر روح المعانی تحت آیت 5 سورہ الحجرات)
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ باغی گروہ تھا۔

صدیق حسن خان القنوجی فرماتے ہیں
لكان ذلك مفيدا للمطلوب ثم ليس معاوية ممن يصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الرياسة والدنيا بين قوم أغتام1 لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فخادعهم بأنه طلب بدم عثمان(الدرر البھیۃ والروضہ الندیۃ کتاب الجھاد و السیر باب فضل جھاد جلد 2 ص 360)
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو تعرض کیا صرف ریاست اور دنیا کی طلب کے لئے اس کے پیچھے نہ معروف تھا اور نہ منکر کو روکنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بھانہ بنا کر سب کو دھوکا دیا تھا۔


محمد بن إسماعيل الأمير الصنعاني.
وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ مُعَاوِيَةُ وَمَنْ فِي حِزْبِهِ وَالْفِئَةَ الْمُحِقَّةَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمَنْ فِي صُحْبَتِهِ وَقَدْ نَقَلَ الْإِجْمَاعَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ بِهَذَا الْقَوْلِ جَمَاعَةٌ مِنْ أَئِمَّتِهِمْ كَالْعَامِرِيِّ وَغَيْرِهِ وَأَوْضَحْنَاهُ فِي الرَّوْضَةِ النَّدِيَّةِ.(سبل السلام جلد 2 ص376 تحت رقم 1119 باب قتال البغاہ)

[FONT=Tahoma, sans-serif]ترجمہ: یہ حدیث دلیل ہے کہ باغی گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی گروہ کا ہے اور حق کی جماعت علی اور ان کے ساتھی تھے اور اس قول پر اہل سنت نے اجماع نقل کیا آئمہ میں سے عامری وغیرہ اور اس کو تفصیل سے میں نے الروضہ الندیہ میں نقل کیا ہے۔

اس کے علاوہ ابھی اور بھی بہت سے آئمہ کا قول باقی ہیں جو ہم نے طوالت کی وجہ سے نقل نہیں کیے ان میں دو رائے ہین ایک جماعت کا یہ ماننا ہے کہ یہ ان کا اجتھاد تھا جس میں ان سے خطا ہوئی ہے اور کچھ کا ماننا یہ ہے کہ یہ اجتھاد نہیں تھا حق معلوم ہونے کہ باوجود باطل پر اصرار تھا مگر سب کا ماننا یہی ہے کہ باغی گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔
ماحصل کلام
اللہ تعالی حق گوئی کو پسند کرتا ہے اور کتمان حق پر غضب کرتا ہے دفاع صحابہ رضی اللہ عنہ ہر امتی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا چاہیے یہ اس پر لازم ہے مگر یہ جن کے اقوال میں نے نقل کیے ہیں انہوں نے بھی یہ دفاع صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا کام کیا ہے مگر اس حد تک نہیں گئے کہ حق کہنا اور کتمان حق شروع کر دیں اور مومنوں سے الگ سبیل ڈھونڈ لیں جو یقینا گمراہی کی سبیل ہے اللہ سب کو ہدایت دے اور سلف و صالحین کے منھج پر چلنے کی توفیق دے۔آمین
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46


بھائی میں شروع نہیں ہوا یہ میرے پہلے کے مضامین ہے جو کنورسشن میں رہ گئے

 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46


بھائی میں شروع نہیں ہوا یہ میرے پہلے کے مضامین ہے جو کنورسشن میں رہ گئے تھے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71

باتیں اہل سنت کے حوالوں کے ساتھ لکھی ہے مگر رافضی ذہنیت معلوم ہوتی ہے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
عبداللہ 786 اسکا جواب آپ پر ادھار ہے پہلے سے

کیا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو مندرجہ بالا حدیث کی رو سے "باغی" سمجھتے تھے؟
1- )حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ
2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
3) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ (جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین میں شامل تھے پھر بعد میں انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔
4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
5) حضرت عقیل بن ابو طالب رضی اللہ عنہ

اسکے علاوہ بھی دیگر کئی حضرات صحابہ ہیں جن کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اس حدیث سے واقف ہونگے۔ کیا ان سب حضرات کے منہ ایسی کوئی باتیں کی کہ انہوں نے کبھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی سمجھا یا جانا
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
غلط فہمی : -

قرآن سے اجماع کی حیثیت و اہمیت

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(سورہ النساء آیت 115)
ترجمہ:جو ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے گا اور مومنوں کے راہ کے سواء چلے گا ہم اس کو وہیں موڑ دیں گے جہاں وہ جا رہ ہیں اور ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔
ازالہ : -

الله تعالیٰ فرماتا ہے : -

(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۘ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَؕ وَسَآءَتْ مَصِیْراً)


اورجو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد ، رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ (جہنم) برا ٹھکانہ ہے۔( النسآء:۱۱۵)
وضاحت : -

یہاں سبیل مؤمنین سے موصوف اجماع مراد لے رہے ہیں جبکہ سبیل مؤمنین رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی موجود تھا اور اس وقت یہ نام نہاد اجماع یعنی کتاب وسنت کی کسی بھی نص سے مسئلہ استنباط کیے بغیر مجتہدین کا اجماع موجود نہ تھا ۔
یعنی یہ آیت کریمہ تو واضح کر رہی ہے کہ حجت وشریعت صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ اس دور کے مؤمنین صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ہی مسائل اخذ کرتے تھے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ سبیل مؤمنین اجماع نہیں بلکہ کتاب وسنت سے استنباط واجتہاد ہے !
اور موصوف نے "سبیل المؤمنین" کا معنى "اجماع" ثابت کرنے کے لیے ایسے قیل وقال کا سہارا لیا ہے جو خود حجت نہیں ہیں ۔
جبکہ اسی لفظ کا معنى "رجوع إلى الکتاب والسنہ" اسی آیت کی دلالت میں موجود ہے ۔

جب اجماع ہی باطل ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا تو پھر آپ کا دعوی ہی باطل ہے کہ :
اس آیت سے آئمہ نے اجماع امت کی دلیل لی ہے اور جنگ صفین میں علی رضی اللہ عنہ کا حق پر ہونا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا باغی ہونا اجماع امت ہے
والحمد للہ رب العالمین
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
عمار تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار

"اس روایت کو روافض اور نیم روافض حضرت معاویہؓ کے خلاف پیش کرتے ہیں اس روایت کی مدلل تحقیق"

أخبرنا إسماعيل الصفار قال: سمعت أبا أمية محمد بن إبراهيم يقول: سمعت في حلقة أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين، وأبي خيثمة، والمعيطي، وذكروا: "تقتل عمارا الفئة الباغية" فقالوا: ما فيه حديث صحيح

ہمیں اسماعیل الصفار نے خبر دی کہا میں نے ابو امیہ محمد بن ابراہیم کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام احمد، امام یحیی بن معین، امام ابوخثیمہ اور امام معیطی کے حلقہ میں سنا کہ وہاں ذکر کیا گیا کہ: حضرت عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا، انہوں نے کہا: اس کے متعلق صحیح حدیث نہیں ہے۔
كتاب المنتخب من علل الخلال ۲۲۲

امام یحیی بن معین نے دقاق یزید بن ہثیم بن طہمان کی روایت میں کہا: دراوردی نے علاء بن عبدالرحمن سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمارؓ سے فرمایا: تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، یہ روایت دراوردی کی کتاب میں نہیں پائی جاتی، مجھے اس نے خبر دی جس نے دراوردی سے کتاب العلاء سنی اس صحیفہ میں یہ حدیث نہیں ہے اور یہ ایک واقعہ ہے رسولﷺ نے فرمایا ہے، اور دراوردی کا حافظہ کوئی شے نہیں اس کی کتاب زیادہ صحیح ہے۔

میں نے عبداللہ بن ابراہیم سے سنا آپ نے کہا: میں نے اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا کے میں نے امام احمد بن حنبلؒ کو فرماتے ہوئے سنا: حضرت عمارؓ کے متعلق اٹھائیس حدیثیں روایت کی گئی ہیں کہ: آپؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا، ان میں سے کوئی صحیح حدیث نہیں۔

ابن رجبؒ نے فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٥ پر کہا: یہ اسناد معروف نہیں ہے اور امام احمدؒ سے اس کے خلاف روایت کا گیا، یعقوب بن شیبہ السدوسی نے ان کی مسند کے حصے مسند عمارؓ میں کہا:

سمعت أحمد بن حنبل سئل عن حديث النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في عمار: تقتلك الفئة الباغية فقال أحمد: كما قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قتلته الفئة الباغية وقال: فی هذا غیر حدیث صحیح عن النبیﷺ وکره ان یتکلم فی هذا اباکثر من ‌هذا

میں نے امام احمدؒ سے سنا جبکہ آپ سے نبیﷺ کی حضرت عمارؓ کے متعلق حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا: حضرت عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا تو امام احمدؒ نے فرمایا: جیسا کہ رسولﷺ نے فرمایا: آپؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا اور آپ نے کہا: اس بارے میں نبیﷺ سے مروی صحیح حدیث نہیں ہے اور آپؒ نے اس کے متعلق اس سے زیادہ بات کرنا ناپسند کیا۔

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۴۱۴/۴
السنة للخلال ٤٦٣/۲

بخاری کے اکثر نسخوں میں اس اضافہ تقتله الفئة الباغية کا ذکر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حُمیدی نے "الجمع بین الصحیحین" میں اس کا تذکرہ نہیں کیا اور آپ نے کہا: امام بخاریؒ نے یہ اضافہ بالکل ذکر نہیں کیا، آپ نے کہا: شاید یہ امام بخاریؒ سے واقع نہیں ہوا یا واقع ہوا اور عمداً اسے حذف کردیا۔
فتح الباري شرح صحيح البخاري ٥٤٢/۱

جن لوگوں نے اس اضافے کی نفی کی ان میں سے ایک امام مزیؒ آپ نے تحفتہ الاشراف ۴۲۷/۳ پر کہا: اس عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا نہیں ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس اضافے کو ثابت کیا ہے چناچہ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ٥٤٢/۱ پر ذکر کیا ہے کہ ابن السکن، کریمہ وغیرہما کی روایت میں یہ اضافہ موجود ہے اور الصنعانی کے نسخہ میں بھی موجود ہے اور صنعانی نے ذکر کیا ہے کہ میں نے اس نسخے کو فربری ک نسخے سے تقابل کیا ہے، اسماعیل اور برقانی نے اس حدیث میں اضافے کو تخریج کیا ہے۔

مدرج ہونے کی وجہ سے بھی یہ اضافہ معلول ہے، حافظ ابن حجرؒ نے کہا: میرے لیے یہ بات ظاہر (راجع) ہوئی ہے کہ امام بخاریؒ نے اس اضافہ کو عمداً حذف کیا اور یہ ایک خفیہ نکتے کی وجہ سے کیا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آپ نے یہ اضافہ نبی کریمﷺ سے نہیں سنا، پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں یہ اضافہ مُدرج ہے، اور وہ روایت جو بیان ہوئی وہ امام بخاریؒ کی شرط پر نہیں ہے اور اسے امام بزارؒ نے داود بن ابی ہند کے طریق سے روایت کیا وہ ابونضرہ سے وہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے راوی ہیں چناچہ آپ نے مسجد کی تعمیر اور ان کا ایک ایک اینٹ اٹھانے کا ذکر کیا ہے اور اس میں ہے کہ حضرت ابوسعیدؓ نے کہا: مجھ سے میرے اصحاب نے بیان کیا اور میں نے یہ بات رسولﷺ سے نہیں سنی کہ آپﷺ نے فرمایا: اے ابن سمیہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، اور ابن سمیہ، حضرت عمارؓ ہیں، آپ کی والدہ کا نام سمیہ ہے، یہ سند مسلم کی شرط پر ہے، حضرت ابوسعید خدریؓ سے جس نے بیان کی آپ نے اس کی تعین کی ہے چناچہ مسلم اور نسائی میں ابو سلمہ کے طریق سے ہے کہ وہ ابونضرہ سے وہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے راوی، آپ نے کہا: مجھ سے اس نے بیان کیا جو مجھ سے بہتر ہے یعنی ابوقتادہ نے پھر یہی حدیث ذکر کی، پس امام بخاریؒ نے حدیث کی اتنی مقدار پر اکتفاء کیا جو حضرت ابوسعیدؓ نے نبی کریمﷺ سے سنا تھا آپ کے علاوہ کو چھوڑ کر، اور یہ بات امام بخاریؒ کی دقت فہم اور علل حدیث پر اطلاع کے تبحر پر دلالت کرتی ہے۔
 
Top