• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی روشنی میں ایک معلم کے لیے ضروری باتیں ((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
ایک معلم کے لیے ضروری باتیں
حدیث کی روشنی میں
1۔استادکوطلبہ کے سوالات کےجوابات دینے چاہیں ۔
حدیث نبوی ہے۔
نبی اکرم ﷺ ایک علمی مجلس میں تشریف فر ما تھے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) آیا اس نے دوران مجلس آپﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی ؟آپ ﷺ نے فرمایا :
جب امانتیں ضائع کر دی جائیں گی۔(بخاری شریف‘ کتاب العلم‘رقم الحدیث:54)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔
٭مجلس کے دوران سوال کیا جا سکتا ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس اعرابی کو ڈانٹا نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ دوران کلاس یا مجلس کوئی سوال ہو تو اپنے پاس لکھ لینےچاہیے اور مجلس کے اختتام پر سوال و جواب کرنے چاہیے تاکہ استاد یا عالم اپنی بات کو اچھی طرح مکمل کر لے۔
٭علم کے حصول کے لیےسفرکیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اعرابی دیہات سے چل کر آپ کی مجلس میں آیا تھا مسئلہ پوچھنے کے لیے ۔
٭سوال و جواب بھی علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔
٭جہاں دنیا کے بارے میں دیگر چیزوں کا علم حاصل کرنا ضروری ہے وہاں آخرت اور قیامت کے بارے میں علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔
٭لوگوں کو علم سکھانے کے لیے علمی مجلس کا قیام کیا جا سکتا ہے ۔
٭لوگوں کے مسائل سننے کے لیے عالم کو یا استاد کو وقت دینا چاہیے ۔
٭کسی عالم یا استاد کو اپنی بات مکمل کرنے کے بعد سامعین کے سوال کے جواب دینے چاہیے پہلے اپنی بات مکمل کریں۔
٭کسی بھی استاد کو سبق ختم ہونے کے بعد یا پریڈ کے آخر میں کچھ ٹائم طلباءکے سوال و جواب کے لیے بھی نکالنا چاہیے۔
٭علامات قیامت کے بارے میں بھی استاد کو علم ہونا چاہیے تاکہ بچوں کی رہنمائی اچھی طرح کر سکے۔
٭اسلام میں امانتوں کی حفاظت کی بہت بڑی اہمیت ہے اس لیے امانتوں کے بارے میں بھی طلبا کو بتایا جائے ۔
٭ نصاب تعلیم امانتوں اور علامات قیامت وغیرہ پر مشتمل ہونا چاہیے جن کی بنیاد پر آخرت میں انسان کامیاب ہوسکے گا ۔
٭ جہاں علمی حلقوں مثلا مسجد یا اسکول وغیرہ کا انتظام نہ ہو وہا سے کچھ لوگوں کا علمی مجالس کی طرف سفر کر کے جانا اور علم حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں یا علاقے والوں کو آ کر بتانا بھی ضروری ہے کچھ لوگو ں کو اس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

2۔استاد کا سبق پڑھاتے وقت اپنی آواز کو بلند کرنا تاکہ طلبہ کو بات صحیح سمجھ آ جائے۔
حدیث نبوی ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے وضو کرتے وقت ایڑیاں خوشک رہ جانے پرآپ ﷺ نے بلند آواز سے دو یا تین دفعہ فرمایا (ویل للاعقاب من النار ) ایڑیاں خوشک رہ جانے پہ عذاب ہوگا۔
(بخاری ‘ رقم الدیث :55)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔
٭سفر کے دوران علمی گفتگو ں کرنی چاہیے ۔
٭ جب ہجوم زیادہ ہو تب استاد یا عالم کو بلند آواز سے یا کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر لوگوں کی رہنمائی کرے تاکہ سب اچھیطرح بات سمجھ سکیں ۔
٭استاد طلبا میں کوئی نا پسند بات دیکھے تو فوری رہنمائی کرے ۔
٭کسی بات کی اہمیت کو واضع کرنے کے لیے بار بار دہرانا جائز ہے تاکہ اچھی طرح بات سمجھی جا سکے ۔
٭ کسی شرعی مسئلےمیں نا پسندیدہ بات پر استاد یا عالم کو خاموش نہیں رہنا چاہیے ۔

3۔ استادکا وقتاً فوقتاًطلبہ کی علمی آزمائش کرنی چاہیے ۔
حدیث نبوی ہے ۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ کونسا درخت جس کا پت جھڑ نہیں مسلمان کی مثال اس درخت سی ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ معلوم نہیں ‘ تو ابن عمر جو چھوٹی عمر کے بچے تھے فرماتے ہیں مجھے علم تھا مگر میں شرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے ۔
(بخاری ‘ رقم الحدیث :)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔
٭استاد طلبا کی علمی آزمائش کے لیے اس طرح کے سوال کر سکتا ہے ۔
٭استاد کو چاہیے کی مثالوں کے ساتھ بات کو واضح کرے۔
٭درختوں میں بھی بعض درخت فائدے کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
٭انسان کو کسی اچھی چیز کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے جیسے درخت وغیرہ۔
٭اس سے بات بھی علم میں اضافے کا سبب ہے کہ پت جھڑ ہر درخت پر نہیں ہوتا ۔
٭اس سے یہ بات بھی علم میں اضافے کا سبب ہے کہ علمی مجلس یا بڑوں کی مجلس میں بچوں کو جو کچھ سمجھدار ہو لیجایا جا سکتا ہے ۔
٭اس سےبات بھی سمجھ آتی ہے کہ ہر بات علم ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔
٭اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ کسی حکمت کی وجہ سے علم ہونے کے باوجود مجلس میں خاموشی اختیار کرنا آداب مجلس میں سے ہے۔

4۔ استاد کو بچوں سے سبق سنتے وقت تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
ارشاد نبوی ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم مسجد میں تھے ایک آدمی آیا اس نے مسجد میں آپنا اونٹ بیٹھا کر اس کے پاؤں باندھ دیے اور مسجد میں داخل ہو کر اس نے صحابہ کرام سے آپﷺ کے بارے میں دریافت کیا آپﷺ سفید تکیہ لگائے بیٹھے تھے صحابہ کرام نے اشارے سے کہا کہ وہ ہیں آپﷺ اس نے آگے بڑتے ہوئے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں مگر آپ نے غصہ نہیں کرنا بلکہ تحمل سے میری بات کا جواب دینا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ پوچھیے کیا پوچھنا ہے :
اس نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اپنے اور آپ ﷺ سے پہلے لوگوں کے پروردگار کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا واقتاً اللہ نے آپ کو پغمبر بنا کر بھیجا ہے ؟کیا آپ کو اللہ نے پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے ؟ کیا آپ کو اللہ نے صدقہ مال داروں سے لے کر مستحقین میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے ؟آپﷺ نے فرمایا :جی ہاں! مجھے اللہ تعالیٰ نے ہی حکم دیا ہے سب باتوں کا میں ہی اللہ کا آخری رسول ہوں۔اس نے کہا میں اس شریعت پر ایمان لایا جو آپ لائے ہیں میں ضمام بن ثعلبہ ہوں مجھے میری قوم (قبیلہ )بنی سعد بن بکر والوں نے بھیجا ہے ۔
(بخاری ‘ رقم الحدیث :57)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔
٭مسجد میں تعلیم و تعلم کے لیے کلاس یا مجلس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔
٭اپنی سواری یا سامان کی خود حفاظت کرنی چاہیے ۔
٭مسجد یا کالج وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنےوالوں کی سواری کے لیے پارکنگ کا اہتمام کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔
٭سلام کیے بغیر علمی یا کسی بھی مجلس میں داخل ہونے والے پر طعن کرنا صحیح نہیں جب کہ وہ لا علمی یا بھول کی وجہ سے سلام کیے بغیر مجلس یا کلاس میں داخل ہو بلکہ بعد میں اس کو اچھے انداز کے ساتھ سمجھایا جائے ۔
٭ استاد یا عالم کا مسجد یا کسی بھی علمی حلقے میں کسی چیز سے ٹیک لگا کر بیٹھنا درست ہے ۔
٭استاد کے سامنے استاد کے بارے میں پوچھنے والے کو سامعین یا طلبا میں سے کوئی اشارے سے بتا دے کہ وہ یا فلا جوبیٹھے ہیں اس سے استاد کو اپنی توہین نہیں سمجھنے چاہیے ۔
٭استاد یا عالم کی موجودگی میں مسئلہ یا کوئی سوال پوچھے تو سامعین یا طلبا کو استاد کی طرف رجوع کرنا چاہیے نہ کہ جیسا ہمارے معاشرے میں ہے استاد یا مفتی سے پہلے حاضرین مجلس میں سے کوئی جلدی سے جواب دے دیتا ہے یہ درست نہیں ۔
٭سوال کا جواب یا فتوی ٰ دیتے وقت استاد یا مفتی کو حوصلے ‘تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئےتعلیم دینی چاہیے ۔
٭کسی طالب علم کا استاد سے سوال کرتے وقت کچھ سخت لہجا استعمال کرنے سے استاد کو چاہیے کے بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالب علم کو تنقید یا سزا کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی ناگوار بات کو بھی بڑی سمجھداری سے برداشت کرنا چاہیے ۔
٭ہر بندے کے لیے دین کے بنیادی مسائل کا علم جاننا ضروری ہے ۔
٭کسی قوم یا قبیلے کا کسی شخص کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے علاقے میں بھیجنا تاکہ وہ آ کر انہیں علم سکھلا دے درست ہے۔
٭علمی مجلس یا کلاس میں لیٹ آنےوالے طالب علم کو کلاس روم یا مجلس میں داخل ہونے سے منع نہیں کرنا چاہیے ۔
٭حاضرین مجلس کو بعد میں آنے والے طالب علم کو بھی کلاس میں یا علمی مجلس میں جگہ دینی چاہیے ۔

5۔علم کی باتیں لکھ کر استاد یا کسی عالم کا دوسرے علاقوں تک پہنچانا۔
ارشاد نبوی ہے ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کسی قاصد کے ہاتھ اپنا خط بحرین کے حاکم کو بھیجا اس نے کسریٰ(شاہ ایران )کو دے دیااس نے پھاڑ دیا تو آپ ﷺ نے بد دعا دی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں ۔
(بخاری ‘ رقم الحدیث :58)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔
٭تحریرکے ذریعے لٹریچر ‘خط ‘کالم ‘کتاب ‘ نوٹس وغیرہ کی صورت میں بھی علم پھیلایا جا سکتاہے۔
٭استاد کو ’’تعلیم بالقلم ‘‘یعنی کہ لکھ کر علم سکھلانا یا عالم کا کسی دوسرے علاقے میں پہنچانا درست ہے ۔
٭استاد کو غیر مسلموں کی تربیت اور رہنمائی کا اہتمام بھی کرنا چاہیے ۔
٭دین کی دعوت غیر مسلموں تک پہنچانا ایک استاد یا عالم کی ذمہ داری ہے ۔
٭آپ کا نصاب تعلیم دعوتی اور فکری بنیادوں پر مرتب ہونا چاہیے ۔
٭کسی علاقے کی اصلاح کے لیے استاد یا عالم کا اہتمام کرنا محکمہ تعلیم اور حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
٭ کسی علاقے کا بھیجے گئے استاد یا عالم سے بد سلوکی کرنے پر حکومت یا محکمہ کے بڑے کا اس علاقے کے خلاق طاقت کے مطابق کاروائی کرنا درست ہے ۔

6۔وقت اور موقع کی مناسبت سے استاد کا طلبہ کوتعلیم دینا۔
ارشاد نبوی ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمیں نصیحت کرتے وقت موقع اور وقت کا لحاظ کرتے ہمارے اکتا جانے کے ڈر سے روز وعظ نہ کرتے تھے ۔
(بخاری ‘ رقم الحدیث :62)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ ہو سکتے ہیں ۔
٭استاد کا سبق پڑھاتےاور عالم کا وعظ کرتے وقت موقع محل کا خیال رکھنا بے حدضروری ہے ۔
٭استاد یا عالم کو سامعین کی تھکاوٹ‘عدم دلچسپی ‘سبق نہ پڑھنے کے استفسار‘ چھٹیوں وغیرہ کے موقع پر سفر کر کے آنے والے طلبہ کی نیند اور اکتاہٹ کی وجہ سے عدم توجہ کو جاننا اور اس دن سبق کو نہ پڑھانا بھی بہترین استاد اور ماہرین تعلیم ہونے کی نشانی ہے ۔
٭ایک استاد کا نفسیات کا ماہر ہونا بھی بے حد ضروری ہے تا کہ طلبہ کے چہروں تاثرات پڑھ کر کلاس میں سبق پڑھانا شروع کرے آیا کہ بچے پڑھنے کے موڑ میں بھی ہیں یا نہیں ورنہ استاد کااس دن کا پریڈ سوائے تنقید اور طلبہ میں نفرت پیدا ہونے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔
٭ایک استاد یا عالم کو وقت کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور سامعین و طلبہ کے چہروں کے تاثرات کو دیکھ کر معلوم کر لینا چاہیے کہ کتنی دیر تک میرا سبق یا وعظ سامعین یا طلبہ میں دلچسپی رکھتا ہے اور جب عالم یا استاد دیکھے کہ اب میرا سبق یا وعظ بوریت اور سامعین کے لیے مایوسی کا بعث بنتا جا رہا ہے تو فوری اپنے سبق یا وعظ کو ختم کر دینا چاہیے ۔
٭کسی بھی تعلیمی ادارے کا تعلیمی شیڈول مرتب کرتےہوئے پریڈ یا سکول اور وعظ کا ٹائم اتنا ہونا چاہیے جو طلبہ یا سامعین کی توجہ اور دلچسپی کو برقرار رکھ سکے۔
٭تعلیمی سال کے آغاز کے پہلے دن اور آخری دن کو خاص طور پر مد نظر رکھا جائے کیونکہ اس دن طلبہ کچھ خاص پڑھنے کی پوزیشن اور موڑ میں نہیں ہوتے تو استاد کو بھی ان دنوں میں نصیحت اور کچھ تقریری یا مذاحیاں پروگرام جو اخلاقی دائرہ میں رہ کر ہو ان کااہتمام کر لینا چاہیے۔
 
Top