• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کے خلاف عمل

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آج ایک فورم پر صحیح مسلم کی ایک حدیث نظر سے گذری اس کو پڑھ کر ایک سوال ذہین میں آیا پہلے حدیث ملاحظ کرتے ہیں

لا تُسَافِرُوا بالقرآنِ. فإنِّي لا آمَنُ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ. في حديثِ ابنِ عُلَيَّةَ والثَّقَفِيِّ فإنِّي أخَافُ. وفِي حديثِ سُفْيانَ وحدِيثِ الضَّحَاكِ بنِ عثمانَ مَخَافَةَ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1869
خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید ساتھ لے کر سفر نہ کرو کیونکہ میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔

اس حدیث کو پڑھکر ایک سوال دماغ میں آیا کہ آج انٹر نیٹ پر قرآن کریم کے سوفٹ ویرز اور قرآن کریم کے تراجم مختلف زبان میں ہرکس ناکس کی دسترس میں ہیں جن میں کفار بھی شامل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح قرآن مجید کی اشاعت انٹر نیٹ پر کرنا کہ یہ کفار کی دسترس میں چلاجائے جائز کس طرح ہوا ؟؟؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
آج ایک فورم پر صحیح مسلم کی ایک حدیث نظر سے گذری اس کو پڑھ کر ایک سوال ذہین میں آیا پہلے حدیث ملاحظ کرتے ہیں

لا تُسَافِرُوا بالقرآنِ. فإنِّي لا آمَنُ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ. في حديثِ ابنِ عُلَيَّةَ والثَّقَفِيِّ فإنِّي أخَافُ. وفِي حديثِ سُفْيانَ وحدِيثِ الضَّحَاكِ بنِ عثمانَ مَخَافَةَ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1869
خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید ساتھ لے کر سفر نہ کرو کیونکہ میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔

اس حدیث کو پڑھکر ایک سوال دماغ میں آیا کہ آج انٹر نیٹ پر قرآن کریم کے سوفٹ ویرز اور قرآن کریم کے تراجم مختلف زبان میں ہرکس ناکس کی دسترس میں ہیں جن میں کفار بھی شامل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح قرآن مجید کی اشاعت انٹر نیٹ پر کرنا کہ یہ کفار کی دسترس میں چلاجائے جائز کس طرح ہوا ؟؟؟
بہرام صاحب میں اس کی شروحات دیکھیں ہیں جو بات مجھےسمجھ میں آئی ہےاس کاخلاصہ یہ ہےکہ یہ ممانعت جنگ کی وجہ سے ہےیعنی جس وقت آپ حالت جنگ میں ہوتوقرآن اپنےساتھ لے کرنہ جاؤ۔
اوررہی بات انٹرنیٹ کےحوالےسےتو اس باب میں تقریبا تمام کامؤقف یہی ہےکہ امن کی حالت میں لےجایا جاسکتاہے اور بالخصوص تو تعلیم میں توکسی نےبھی ممانعت نہیں کی یعنی تعلیم دینےکےلئے اگرلےجایاجارہاہےتو کوئی مضائقہ نہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب میں اس کی شروحات دیکھیں ہیں جو بات مجھےسمجھ میں آئی ہےاس کاخلاصہ یہ ہےکہ یہ ممانعت جنگ کی وجہ سے ہےیعنی جس وقت آپ حالت جنگ میں ہوتوقرآن اپنےساتھ لے کرنہ جاؤ۔
اوررہی بات انٹرنیٹ کےحوالےسےتو اس باب میں تقریبا تمام کامؤقف یہی ہےکہ امن کی حالت میں لےجایا جاسکتاہے اور بالخصوص تو تعلیم میں توکسی نےبھی ممانعت نہیں کی یعنی تعلیم دینےکےلئے اگرلےجایاجارہاہےتو کوئی مضائقہ نہیں
شکریہ
ایک اور حدیث
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت ہمیشہ جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کے قیامت قائم ہو۔

یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہمیشہ حالت جنگ میں رہے گا حتٰی کہ قیامت قائم ہوجائے گی
اب یہ امن کی حالت کی کیا صورت ہوگی ؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
شکریہ
ایک اور حدیث
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت ہمیشہ جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کے قیامت قائم ہو۔

یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہمیشہ حالت جنگ میں رہے گا حتٰی کہ قیامت قائم ہوجائے گی
اب یہ امن کی حالت کی کیا صورت ہوگی ؟
یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث میں ایک خبرہےحکم نہیں یعنی آپﷺکی یہ مرادنہیں تھی کہ قیامت تک لڑو۔بلکہ آنحضرتﷺکی یہ مرادتھی کہ ایساہوناہےکیونکہ دین اسلام کی دعوت جوکہ ایک پرامن،محبت بھری،پرخلوص اور ربانی دعوت ہےیہ جہاں بھی پہنچےگی وہاں کی شیطانی طاقتیں خوبخودہی اس سےلڑنےآجائیں گی۔شروحات حدیث میں اس حدیث کی یہی شرح کی گئی ہے۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
شکریہ
ایک اور حدیث
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت ہمیشہ جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کے قیامت قائم ہو۔

یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہمیشہ حالت جنگ میں رہے گا حتٰی کہ قیامت قائم ہوجائے گی
اب یہ امن کی حالت کی کیا صورت ہوگی ؟
تمام عالم کے مسلمان حالت جہاد میں نہیں ہونگے، بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔ تصحیح فرمالیں۔
اس میں بشارت ہے جہاد قیامت تک باقی رہے گا۔ انشاء اللہ،
جہاد قیامت تک اقوام عالم میں امن و سلامتی کے قیام کے لئے ہوگا۔
اس بشارت جہاد کا تعلق اقدامی جہاد سے ہے۔فی الحال مسلمان دفاعی جہاد یعنی حالت جنگ میں ہے۔
 

mabid.bilkhair

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2013
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
19
آج ایک فورم پر صحیح مسلم کی ایک حدیث نظر سے گذری اس کو پڑھ کر ایک سوال ذہین میں آیا پہلے حدیث ملاحظ کرتے ہیں

لا تُسَافِرُوا بالقرآنِ. فإنِّي لا آمَنُ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ. في حديثِ ابنِ عُلَيَّةَ والثَّقَفِيِّ فإنِّي أخَافُ. وفِي حديثِ سُفْيانَ وحدِيثِ الضَّحَاكِ بنِ عثمانَ مَخَافَةَ أنْ ينَالَهُ العَدُوُّ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1869
خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید ساتھ لے کر سفر نہ کرو کیونکہ میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔

اس حدیث کو پڑھکر ایک سوال دماغ میں آیا کہ آج انٹر نیٹ پر قرآن کریم کے سوفٹ ویرز اور قرآن کریم کے تراجم مختلف زبان میں ہرکس ناکس کی دسترس میں ہیں جن میں کفار بھی شامل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح قرآن مجید کی اشاعت انٹر نیٹ پر کرنا کہ یہ کفار کی دسترس میں چلاجائے جائز کس طرح ہوا ؟؟؟


http://trueislamic-info.blogspot.com/
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تمام عالم کے مسلمان حالت جہاد میں نہیں ہونگے، بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔ تصحیح فرمالیں۔
اس میں بشارت ہے جہاد قیامت تک باقی رہے گا۔ انشاء اللہ،
جہاد قیامت تک اقوام عالم میں امن و سلامتی کے قیام کے لئے ہوگا۔
اس بشارت جہاد کا تعلق اقدامی جہاد سے ہے۔فی الحال مسلمان دفاعی جہاد یعنی حالت جنگ میں ہے۔
میں ایسی فی الحال کی ہی بات کررہا ہوں کہ یعنی اس وقت بقول آپ کے جب مسلمان حالت جنگ میں تو پھر اس طرح انٹر نیٹ پر قرآن کریم کا ہر کس و ناکس کی پہنچ میں ہونا کیا اس حدیث کے خلاف نہیں ؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میرے خیال میں آپ کی یہ شرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے میل نہیں کھا رہی

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے

" میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں "

اس فرمان کی شرح تو وہی صحیح ہے جو راوی حدیث نے کی ہے کہ
" راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔"

اور یہی آج کل ہورہا ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
میرے خیال میں آپ کی یہ شرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے میل نہیں کھا رہی

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے

" میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں "

اس فرمان کی شرح تو وہی صحیح ہے جو راوی حدیث نے کی ہے کہ
" راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔"

اور یہی آج کل ہورہا ہے
قرآن کا دشمنوں کے ہاتھ لگ جانا، فقط بحالت جنگ اور مصحف کی بے حرمتی کے خوف کی وجہ سے ہے۔ ورنہ تو قرآن تو غیر مسلموں کی ہدایت کے لئے بھی ہے۔
اب مثال کے طور پر قرآن تو حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے۔ تو اس حدیث سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں کہ حفاظ کو کفار کے پاس جانا ہی نہیں چاہئے ورنہ وہ قرآن کی بے حرمتی کر سکتے ہیں۔

آپ کا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ آپ ایک حدیث کی بنیاد پر فیصلے اور اعتراضات کرنے کے خواہشمند ہیں۔ آپ اصول و مبادی کو نہیں دیکھتے اور شریعت کے حکم کی مصلحت پر غور کرنے کو اس کی مخالفت گردانتے ہیں۔ یہ عام رویہ ہے جہاں اعتراض برائے اعتراض کرنا ہو، وہاں یہی روش دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور ایسے ہی اعتراضات اہل تشیع پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔
ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دیکھتے ہیں تو یہ بھی پاتے ہیں کہ حالت امن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خط لکھے اور اس میں قرآن کی آیات لکھیں۔ حالانکہ ایسی حالت میں ان خطوط کی بے حرمتی کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔
لہٰذا خاص حالات کے حکم کو عام حالات پر منطبق کر کے، اس حکم پر اعتراض کرنے والے خود حماقت میں مبتلا ہیں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
قرآن کا دشمنوں کے ہاتھ لگ جانا، فقط بحالت جنگ اور مصحف کی بے حرمتی کے خوف کی وجہ سے ہے۔ ورنہ تو قرآن تو غیر مسلموں کی ہدایت کے لئے بھی ہے۔
اب مثال کے طور پر قرآن تو حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے۔ تو اس حدیث سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں کہ حفاظ کو کفار کے پاس جانا ہی نہیں چاہئے ورنہ وہ قرآن کی بے حرمتی کر سکتے ہیں۔

آپ کا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ آپ ایک حدیث کی بنیاد پر فیصلے اور اعتراضات کرنے کے خواہشمند ہیں۔ آپ اصول و مبادی کو نہیں دیکھتے اور شریعت کے حکم کی مصلحت پر غور کرنے کو اس کی مخالفت گردانتے ہیں۔ یہ عام رویہ ہے جہاں اعتراض برائے اعتراض کرنا ہو، وہاں یہی روش دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور ایسے ہی اعتراضات اہل تشیع پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔
ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دیکھتے ہیں تو یہ بھی پاتے ہیں کہ حالت امن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خط لکھے اور اس میں قرآن کی آیات لکھیں۔ حالانکہ ایسی حالت میں ان خطوط کی بے حرمتی کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔
لہٰذا خاص حالات کے حکم کو عام حالات پر منطبق کر کے، اس حکم پر اعتراض کرنے والے خود حماقت میں مبتلا ہیں۔

" راوی ایوب نے کہا اگر قرآن کو دشمنوں نے پا لیا تو اس کے ذریعہ تم سے مقابلہ کریں گے۔"

اس تشریح میں کہاں لکھا ہے کہ یہ صرف حالات جنگ کی بات یہاں تو صرف دشمن کی بات ہی ہے اور مسلمانوں کے دشمن کون ہیں یہ آپ جیسے صاحب علم سے پوشیدہ نہیں ہوگا اور میں انھیں دشمن کی وجہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ انٹر نیٹ تو انھیں دشمنوں کا ہے پھر اس پر قرآن کی اشاعت کرکے اور آپ اس کی حمایت کرکے قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ
"میں قرآن کے دشمنوں کے ہاتھ لگ جانے سے بے خوف نہیں ہوں"
 
Top