• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث ’إنما الأعمال بالنيات ‘ کی تشریح

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حدیث ’إنما الأعمال بالنيات ‘ کی تشریح

عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ﷜ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إلَى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ".
رَوَاهُ إِمَامَا الْمُحَدِّثِينَ أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بنُ إِسْمَاعِيل بن إِبْرَاهِيم بن الْمُغِيرَة بن بَرْدِزبَه الْبُخَارِيُّ الْجُعْفِيُّ (رقم:1)، وَأَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ بنُ الْحَجَّاج بن مُسْلِم الْقُشَيْرِيُّ النَّيْسَابُورِيُّ )رقم:1907) فِي "صَحِيحَيْهِمَا" اللذَينِ هُمَا أَصَحُّ الْكُتُبِ الْمُصَنَّفَةِ.

(امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب ﷜ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی کی جانب ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت انہی کی جانب ہے)
(اسے محدثین کے امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی رح اور ابو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیشاپوری رح نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، اور یہ دونوں کتب تمام تصنیف کردہ کتب میں سے صحیح ترین کتب ہیں)
تشرح:
امام ابن رجب الحنبلی رح ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں فرماتے ہیں:
یہ ان احادیث میں سے ہے کہ جن پر دین کا دارومدار ہے۔ امام شافعی رح سے روایت کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا:
"ھذا الحدیث ثلث العلم ویدخل فی سبعین بابا من الفقہ" (یہ حدیث علم کا ایک تہائی حصہ ہے اور اس میں فقہ کے ستر ابواب داخل ہیں)۔
اور امام احمد بن حنبل رح سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"اصول الاسلام علی ثلاثۃ احادیث: حدیث عمر (انما الاعمال بالنیات) وحدیث عائشۃ (من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد) وحدیث النعمان بن بشیر (الحلال بین والحرام بین)" (اسلام کے بنیاد تین احادیث پر ہے ایک حدیث عمر (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) دوسری حدیث عائشہ (جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردودہے) اور حدیث نعمان بن بشیر y (حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے))۔
آپ ﷺ کا فرمان کہ:
’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)
اورایک روایت میں ہے
’’ الاعمال بالنية ‘‘ (اعمال نیت پر منحصر ہیں)۔
اور صحیح قول کے مطابق یہ دونوں صیغے (واحد اور جمع) حصر کا فائدہ دیتے ہیں۔ ’’ الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ‘‘ قول کی تقدیر کے تعین میں علماء میں اختلاف ہے۔
متاخرین میں سے بہت سوں کا خیال ہے اس کی تقدیر ہے
"الاعمال صحیحۃ او معتبرۃ او مقبولۃ بالنیات" (اعمال صحیحہ یا معتبرہ یا مقبولہ نیتوں پر منحصر ہیں)۔
اس قول کےمطابق اس سےمحض شرعی اعمال مراد ہیں کہ جن کے لیے نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ جو کام نیت کے محتاج نہیں جیسے عام عادات، کھانا پینا، کپڑے پہننا وغیرہ یا جیسے امانتوں اور ضمانتوں کو لوٹانا، بیعانہ (ڈپازٹ) رکھوانا یا عدم ادائیگی کی صورت میں مال قبضے میں لینا، ان میں سے کسی کے لیے نیت کی ضرورت نہیں۔
دوسروں نے کہا یہاں اعمال سے عموم مراد ہے اس میں کوئی چیز خاص نہیں۔ اور بعض اس کو جمہور کا قول کہتے ہیں۔ لہذا اس دوسرے والے قول کے مطابق کلام کی تقدیر یوں ہوگی
"الاعمال واقعۃ او حاصلۃ بالنیات" (واقع یا حاصل ہونے والےکوئی بھی اعمال ہوں ان کا دارومدار نیتوں پر ہے)
۔ اس صورت میں یہ اعمال سے محض خبر ہے کہ اختیاری اعمال عامل کی جانب سے قصداً ہی صادر ہوتے ہیں۔ وہی قصد ونیت اس عمل کو کرنے اور وجود میں لانے کا سبب ہوتا ہے۔
اس کے بعد فرمان ہے:
’’ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ‘‘ (اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ہوگی)
یہ شرعی حکم کی خبر ہے اور وہ یہ کہ عامل کا اپنے عمل میں وہی حصہ ہے جیسی اس کی نیت ہوگی۔ اگر نیت صالح ونیک ہے تو عمل بھی صالح ونیک ہے اور اسے اجر ملے گا۔ اور اگر نیت فاسد ہوگی تو عمل بھی فاسد ہوگا اور اس پر گناہ ووبال ہوگا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ
"الاعمال صالحۃ او فاسدۃ او مقبولۃ اومردودۃ او مثاب علیھا اوغیر مثاب علیھا بالنیات" (تمام اعمال خواہ صالحہ ہوں یا فاسدہ، مقبولہ ہوں یا مردودہ، باعث اجر ہوں یا غیرباعث اجر سب کادارومدار نیتوں پر ہے)۔
اس صورت میں یہ شرعی حکم کی خبر ہوگی کہ اعمال کا صالح وفاسد ہونا نیت کےصالح وفاسد ہونے پر منحصر ہے۔
یہ فرمان: ’’ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ‘‘ اس بات کی خبر ہے کہ انسان سے انہی اعمال کا صدور ہوتاہے جن کی اس نے نیت کی ہوتی ہے۔ اگر خیر کی نیت کی ہوگی تو خیر ہی حاصل ہوگی، اگر نیت ہی بری ہوگی تو برائی ہی حاصل ہوگی۔ لہذا فی نفسہ عمل کی صلاح وفساد یا اباحت اس نیت پر منحصر ہے جس نے اس پر ابھارا اور اسے وجود میں لانے کا تقاضہ کیا۔ اور عامل کا ثواب یا عقاب یا سلامتی اس نیت کے مطابق ہوگا جس کی بنا پر وہ عمل صالح یا فاسد یا مباح ہوا۔
لغت واصطلاح میں نیت کی تعریف:
لغت میں نیت کے معنی ہیں "نوع من القصد والارادۃ" (ایک قسم کا قصد وارادہ)۔ اور علماء کرام کے کلام میں نیت کے دو معانی مراد لیے جاتے ہیں۔
1- بعض عبادات کی بعض دوسری عبادات سے تمیز کے لیے جیسے نماز ظہر اور عصر میں جیسے رمضان کے روزے اور غیر رمضان کے روزے میں ۔ یا پھر عبادات اور عادات میں فرق کے لیے جیسے غسل جنابت اور غسل فرحت وصفائی میں تمیز کے لیے وغیرہ۔ اور فقہاء کرام کے کلام میں اسی پر زیادہ تر بات کی جاتی ہے۔
2- عمل سے جو مطلوب ہے اس کی تمیز کے لیے کہ آیا اس عمل سے مقصود محض اللہ تعالی ہے یا کوئی غیر، یا اللہ اور غیراللہ دونوں۔ اور یہ وہ نیت ہے جس پر عارفین علماء (جو زہد وتقوی سے متعلق بات کرتے ہیں) اپنی کتب میں کلام کرتے ہیں جیسے اخلاص اور اس کے تابع ومتعلقہ امور۔ اور یہ متقدمین سلف کے کلام میں بہت پایا جاتا ہے۔
رسول اللہﷺ اور سلف امت کے کلام میں جب نیت کا ذکر ہوتا ہے تو اس میں غالبا ً یہی دوسرا معنی مراد ہوتا ہے۔ اس صورت میں نیت سے مراد ارادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں اس کی تعبیر لفظ ارادے سے بہت کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ﴾ (آل عمران: 152)
(تم میں سے بعض کا ارادہ دنیا کا تھا اور بعض آخرت کا ارادہ رکھتے تھے)
اور
﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ﴾ (الشوری: 20)
(جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے اورایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں)
جبکہ سنت نبویﷺ اور کلام سلف میں نیت کا یہ معنی بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔ اسی میں سے حدیث سیدنا ابوہریرہ ﷜ ہے:
’’ إِنَّمَا يُبْعَثُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ ‘‘ ([1]) (لوگوں کو ان کی نیتوں کے مطابق ہی اٹھایا جائے گا)
۔ اسی طرح سے سیدنا سعد بن ابی وقاص﷜ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:
’’ إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى إِلَّا أُثِبْتَ عَلَيْهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِم امْرَأَتِكَ‘‘ ([2]) (تم کوئی بھی چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے مگر تمہیں اس پر ثواب دیاجاتا ہے یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو)۔
نیت کے بارے میں سلف کے اقوال:
امام یحیی بن ابی کثیررح فرماتے ہیں:
’’ تعلموا النیۃ فانھا ابلغ من العمل‘‘ (نیت کو ٹٹولو کیونکہ یہ عمل سے بھی بڑھ کر ہوا کرتی ہے)۔
امام زبید الیمامی رح فرماتے ہیں:
’’ انی لاحب ان تکون لی نیۃ فی کل شيء، حتی فی الطعام والشراب‘‘ (میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے ہر عمل میں نیت کارفرما ہو، یہاں تک کہ کھانے پینے میں بھی)۔
امام سفیان الثوری رح فرماتے ہیں:
’’ ما عالجت شیئا اشد علی من نیتی لانھا تتقلب علی ‘‘ (میں نے کسی چیز کا علاج نہیں کیا کہ جو مجھ پر سب سے زیادہ شاق ہو نیت سے، کیونکہ یہ ہر پل بدلتی رہتی ہے)۔
امام فضیل بن عیاض رح اللہ تعالی کے اس فرمان
﴿الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک: 2) (اسی نے موت وحیات کو پیدا فرمایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کس کے احسن عمل ہیں)
فرماتے ہیں:
’’ اخلصہ واصوبہ وقال :ان العمل اذا کان خالصا، ولم یکن صوابا، لم یقبل، واذا کان صوابا، ولم یکن خالصا، لم یقبل، حتی یکون خالصا صوابا۔ قال: والخالص اذا کان للہ عزوجل والصواب اذا کان علی السنۃ ‘‘ (احسن عمل سے مراد ہے اخلاص اور صواب پر مبنی عمل۔ اور فرمایا: اگر عمل خالص ہوگا لیکن برمبنئ صواب نہ ہوگا تو ناقابل قبول ہے، اسی طرح سے اگر برمبنئ صواب ہوگا لیکن خالص نہ ہوگا تو بھی ناقابل قبول ہے۔ یہاں تک کہ وہ مکمل خالص اور صواب پر مبنی ہوجائے۔ اور فرمایا: خالص کا مطلب ہے جو اللہ تعالی کے لیے ہو یعنی اخلاص ہو، اور صواب کا مطلب ہے جو سنت نبوی e کے مطابق ہو)۔
ہجرت :
آپ ﷺ کا یہ فرمانا:’’ فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إلَى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ‘‘ اور ہجرت کی اصل یہ ہے کہ:
’’ ھجران بلد الشرک والانتقال منہ الی دارالسلام‘‘ (دیارِکفر کو چھوڑ کر وہاں سے دیارِ اسلام میں منتقل ہوجانا)۔
جیسا کہ مہاجروں نے فتح مکہ سے قبل مدینہ نبویہ ہجرت کی اور اس سے قبل ہجرت کرنے والوں نے ملک ِحبشہ نجاشی کی جانب ہجرت کی۔ پس آپﷺنے خبر دی کہ یہ ہجرت نیتوں اور مقاصد کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے۔ جو کوئی اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی محبت ، تعلیم ِدینِ اسلام کی رغبت اور دین کے اظہار کے لیےہجرت کرتا ہے کیونکہ وہ دیار شرک میں اس پر عمل کرنے سے عاجز تھاتو ایسا ہی شخص حقیقی طور پر اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی جانب ہجرت کرنے والا ہے اور یہ اس کے لیے بڑے شرف وفخر کی بات ہے کہ اس کی اللہ تعالی اور اس کے رسول e کی جانب ہجرت کی جو نیت کی تھی وہ اسے حاصل ہوگئی۔ یہاں جواب شرط ’’ فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ‘‘ اپنے الفاظ کے ساتھ (یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف) دوبارہ ذکر کیا گیا ہےکیونکہ دنیا وآخرت میں اس ہجرت سے جو اصل مطلوب تھا وہ حاصل ہوگیا۔
اور جس کی ہجرت دیار شرک سے دیار اسلام کی طرف محض دنیا کے حصول کی خاطر یا دیار اسلام میں کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو ’’ فَهِجْرَتُهُ إلَى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ‘‘۔ پہلا شخص تاجر ہے اور دوسرا نکاح کا پیغام لے کر جانے والا ان میں سے کوئی مہاجر نہیں۔ اور یہاں مکمل الفاظ ذکر نہیں کیے، دنیاوی امور کو بے وقعت ظاہر کرنے کے لیے۔اور یہ بھی کہ اللہ تعالی اور رسول اللہ e کی جانب ہجرت ایک ہے جس میں تعدد نہیں اسی لیے جواب لفظِ شرط کے ساتھ ہی بیان ہوا ہے۔ جبکہ دنیاوی امور کے لیے ہجرت غیر محصور ہے انسان کبھی مباح دنیاوی امور کے لیے ہجرت کرتا ہے ، کبھی حرام کے لیے، اسی طرح سے وہ افراد جو دنیاوی غرض کے لیے ہجرت کرتے ہیں غیر منحصر ہیں۔ اسی لیے فرمایا: ’’ فَهِجْرَتُهُ إلَى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ‘‘ یعنی کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو۔
اور تمام اعمال کا اسی ہجرت کی طرح حال ہے کہ ان کی صلاح یا فساد جس نیت نے ان پر ابھارا ہے اسی پر منحصر ہے جیسے جہاد اور حج وغیرہ۔ نبی کریمﷺ سے جہاد میں مختلف نیتوں کے متعلق پوچھا گیا کہ جو ریاءکاری کے لیے، شجاعت یا اظہار کے لیےیاعصبیت کے لیےلڑتا ہے ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے؟ فرمایا:
’’ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‘‘ ([3]) (جو اس لیے لڑتا ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ ہو بس وہی فی سبیل اللہ ہے)
۔ پس آپ ﷺ تمام مسئولہ دنیاوی مقاصد کو اپنے اس فرمان سے خارج فرمادیا۔
اسی طرح سے جو لوجہ اللہ علم حاصل نہ کرے اس سے متعلق حدیث ہے: سیدنا ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘‘([4]) (جس نے وہ علم حاصل کیا کہ جو صرف لوجہ اللہ حاصل کیا جاتا ہے، لیکن اس نے اسے محض دنیاوی کمائی کے لیے حاصل کیا، تو وہ بروزقیامت جنت کی خوشبو تک نہيں پاسکے گا)۔
جان لیں کے غیراللہ کے لیے کیے گئے عمل کی کچھ اقسام ہیں:
1- کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عمل محض ریاء ودکھلاوا ہوتا ہے۔ اس طرح کہ وہ اپنے عمل کو دنیاوی غرض کے لیے صرف وصرف مخلوق کو دکھانا چاہتا تھا جیساکہ منافقین کا نماز میں حال ہوتا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء: 142)
(اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں)
اس عمل کے بارے میں کسی مسلمان کو شک نہیں ہوسکتا کہ یہ ضائع ہے اور ایسا شخص اللہ تعالی کی جانب سے عذاب وعقوبت کا مستحق ہے۔
2- اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمل تو اللہ تعالی کے لیے ہوتا ہے مگر اس میں ریاءکاری کی مشارکت ہوجاتی ہے۔ اگر اس نے اس کی اصل وبنیاد ہی میں اس ریاءکاری کو شریک کیا ہوگا تو صحیح نصوص کی روشنی میں یہ عمل بھی باطل وضائع ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’ أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ ‘‘([5]) (میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہوں۔ جس کسی نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی کو شریک کیا تو میں اس اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں)۔
اور اگر غیرریاء والی نیت شامل ہوجائے جیسے غیرریاءکاری والے جہاد کی نیت مگر اس خدمت کا اجرت لینا ، یا غنیمت سے کوئی چیز لینے یا تجارت کی نیت اس وجہ سے ان کے جہاد کا اجر کم ہوجائے گا لیکن بالکلیہ باطل نہیں ہوگا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو﷜ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ان الغزاۃ اذا غنموا غنیمۃ، تعجلوا ثلثی اجرھم، فان لم یغنموا شیئا، تم لھم اجرھم‘‘ ([6]) (اگر غازیوں کو مال غنیمت میں سے کچھ مل جائے تو انہیں دو تہائی اجر دنیا ہی میں مل گیا، اور اگر کچھ نہ پائیں تو ان کااخروی اجر کامل ہوجائے گا)۔
3- اگر عمل اصلا ًاللہ ہی کے لیے ہو پھر عمل کے دوران ہی اس پر ریاءکاری طاری ہوجائے۔ اب اگر وہ اس سے لڑکر اسے دفع کردیتا ہے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن اگر وہ اس ریاء کاری والے خیال کے ساتھ چلتا رہا تو کیا اس کا عمل ضائع ہوجائے گا یا پھر اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اسے اصل نیت پر ہی اجر ملے گا؟ اس بارے میں علماء سلف میں اختلاف ہے جسے امام احمد بن حنبل رح اور ابن جریر الطبری رح نے بیان کیا ہے اور دونوں نے اسی کو راجح قرار دیا ہے کہ عمل باطل نہیں ہوگا اور اسے اپنی پہلی نیت پر ہی جزاء ملے گی اور یہ امام حسن بصری رح وغیرہ سے بھی مروی ہے۔ امام ابن جریررح نے یہ بیان فرمایا کہ: یہ اختلاف ایسے عمل کی نیت سے متعلق ہے جس کا اول وآخر حصہ آپس میں باہم مربوط ہو جیسے نماز، روزہ اور حج وغیرہ لیکن جہاں تک معاملہ ہے ان اعمال کا جن میں یہ ربط نہیں ہوتا جیسے قرأت قرآن، ذکر، انفاقِ مال اور نشر ِعلم تو یہ ریاء کاری کی نیت طاری ہونے کی وجہ سے منقطع ہوجائیں گے اور تجدید نیت کی ضرورت پڑے گی۔
4- اور اگر خالصتاً عمل اللہ تعالی کے لیے کیا پھر اللہ تعالی نے مومنین کے دلوں میں اس کی اس نیک عمل کی وجہ سے تعریف ڈال دی جسے سن کر وہ اللہ تعالی کے فضل ورحمت پر خوش ہوا اوراسے بشارت سمجھا تو یہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اسی معنی میں سیدنا ابو ذر﷜ کی حدیث آئی ہے کہ نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا:
’’ أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ مِنَ الْخَيْرِ وَيَحْمَدُهُ النَّاسُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ ‘‘([7]) (آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص خالص اللہ تعالی کے لیے کوئی عملِ خیر کرتا ہے لیکن لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں، آپﷺنے فرمایا: یہ تو مومن کو (آخرت سے پہلے ہی) جلد ملنے والی بشارت ہے)۔
بالجملہ کیا ہی احسن قول ہے امام سہل بن عبداللہ التستری رح کا :
’’ لیس علی النفس شيء اشق من الاخلاص، لانہ لیس لھا فیہ نصیب‘‘ (نفس پر اخلاص سے زیادہ کوئی چیز مشکل وپرمشقت نہیں کیونکہ اس میں نفس کا کچھ حصہ ہی نہیں)۔
نیت کا مقام دل ہے:
نیت کا معنی ہے"قصد القلب" (دل کا ارادہ)۔ لہذا عبادات میں جو کچھ دل میں ہے اسے زبان سے تلفظ کرنا واجب نہیں۔بلکہ یہ بدعت ہے۔
حوالہ جات
[1] ابن ماجہ 4229، احمد 2/342
[2] بخاری 56، مسلم 168
[3] صحیح بخاری 123، صحیح مسلم 1904
[4] مسنداحمد 2/338، ابوداود 3664، ابن ماجہ 252
[5] صحیح مسلم 2985
[6] صحیح مسلم 1906 کے الفاظ ہیں: ’’ مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيُصِيبُونَ الْغَنِيمَةَ إِلَّا تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أَجْرِهِمْ مِنَ الْآخِرَةِ وَيَبْقَى لَهُمُ الثُّلُثُ، وَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ‘‘ (کوئی بھی غازیان جب اللہ کی راہ میں غزوہ کرتے ہیں اور مال غنیمت پالیتے ہیں تو وہ اپنے آخرت کے اجر سےدو تہائی اجر پالیتے ہیں اور ان کے لیے تیسرا حصہ بچ جاتا ہے، اور اگر کوئی غنیمت نہیں پاتے تو انہیں آخرت میں ان کا مکمل اجر ملے گا)۔ (ط ع)
[7] صحیح مسلم 2642
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
راقم صحیح بخاری کی تدریس کر رہا ہے اس دوران شرح صحیح بخاری پر بھی کام شروع کر دیا ہے ۔
پہلی حدیث کی شرح پیش خدمت ہے ۔
شرح بخاری حدیث :1،انما الاعمال بالنیات
IBN E BASHIR ALHUSAINWY 09:36 0 comments
امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی کتاب اربعین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے :البلد الاول مکۃاولا التعریف بالبلد مکۃ حرسھا اللہ تعالی وھی البلد الامین ثانیا الحدیث راویہ (ص:۲۸)ابن عساکر نے اپنے شیخ عبداللہ بن محمد بن اسمعیل المکی سے یہ حدیث مکہ میں بیت اللہ کے سامنے باب ابراہیم خلیل کے طرف بیٹھ کر سنی ۔اورپھر اسی سند میں ہے کہ کریمہ بنت احمد نے یہ حدیث مکہ میں ہی بیان کی ۔
علامہ بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو سلیمان بن اشعث نے کہا کہ فقہ کا دارومدار ہے اان میں ایک انما الاعمال بالنیات بھی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۴)
امام ابن االمنذر اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :لایجزی التیمم ولا اداء شیء من الفرائض الا بنیۃ(الاوسط :ج۲ص۱۵۵)
خطیب بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے کہا :فقہ کے ستر ابواب میں یہ حدیث داخل ہوتی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۵)
نیت کی اہمیت:
ابن مبارک کے شیخ جعفر بن حیان نے کہا:ملاک ھذہ الاعمال النیات فان الرجل یبلغ بنیتہ مالا یبلغ بعملہ(الزہد للمروزی :ص۶۳)
تنبیہ :یہ حدیث صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے غلطی کرتے ہوئے اس کو ابو سعید خدر ی سے بیان کردیا ہے (الارشاد للخلیلی:ج۱ ص ۱۳۳۔۱۶۷،اعلام الحدیث للخطابی :ج۱ص۱۱۱،حلیۃ الاولیاء :ج۶ ص۳۴۲ )اور یہ بات باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔جیسا کہ ابوحاتم (علل الحدیث ح:۳۶۲)نے اس کو باطل کہا ہے اور دیگر محدثین کے تبصرے پڑھنے کے لئے (الارشادات فی تقویۃ الاحادیث بالشواھد والمتابعات ص۲۰۹ )کا مطالعہ کریں ۔
تنبیہ:تمام طرق میں مرکزی راوی یحیی بن سعید ہے لیکن سھل بن صقیر نے اس کو ،دراوردی ،ابن عیینہ اور انس بن عیاض کے واسطے سے محمد بن عمر و بن علقمہ عن محمد بن ابراھیم سے روایت کیا ہے حالانکہ مذکورہ تینوں راوی اس حدیث کو یحیی بن سعید سے ہی بیان کرتے ہیں یہ سھل بن صقیر کی فحش غلطی ہے ۔(علل الدار قطنی:ج۲ص۱۹۲)
فقہ السند:
۱:محمد بن ابراہیم التیمی ثقہ مشہور راوی ہے اس کے باوجود امام احمد نے ان کے متعلق کہا:یروی احادیث منکرۃ،حالانکہ یہ انما الاعمال بالنیات کا مرکزی راوی ہے اس کا جواب یہ ہے امام احمد تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کردیتے ہیں یعنی یہ راوی حدیث بیان کر نے میں اکیلا ہے ۔فافھم(الرفع والتکمیل :ص۱۳)
۲:یحیی بن سعید الانصاری سے بے شمار راوی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں مثلا ابن عیینہ ،یزید بن ھارون ،مالک،سفیان ثور ی، حماد بن زید،عبدالوہاب ،لیث بن سعد ،ابوخالد الاحمر،حفص بن غیاث ،عبداللہ بن مبارک (المسند الجامع المعلل ج : ۳۳ص:۴۵)سفیان ثوری،حماد بن سلمہ ،شعبہ ،یحیی بن سعید القطان،ایک مخلوق جن کا شمار ناممکن ہے ،محمد بن علی الخشاب نے کہا :اس حدیث کو یحی بن سعید الانصاری سے دو سو پچاس راوی بیان کرتے ہیں ۔
امام ابوعبداللہ الانصاری کہتے ہیں : میں یہ حدیث یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۵۵)
اس پر حافظ ابن حجر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حدیث کو طلب کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میں جمع کرتا رہا ہوں میں سو بھی مکمل نہیں کر سکا ۔(فتح الباری ج۱ص۱۱)
ابن الملقن نے اس کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۶۵)
۳:سیدنا عمر سے صرف علقمہ بیان کرتے ہیں اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراھیم اوران سے صرف یحی بن سعید الانصاری بیان کرتے ہیں ان سے آگے بے شمار لوگ بیان کرتے ہیں اسی کو بالجزم بیان کیا ہے ترمذی ،نسائی،بزار،ابن سکن ،اورالکنانی نے ۔(فتح الباری :ج۱ ص۱۱) علامہ خطابی نے کہا ہے یہ حدیث صرف اسی سند سے ہی پہچانی جاتی ہے اس لے علاوہ اس کی کوئی سند نہیں ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن حجر فرماتے ہیں :یہ بات اسی طرح ہے جس طرح انھوں نے کہی ہے مگر دو قیدوں کے ساتھ،پہلی قید :صحیح ہونا کیو نکہ یہ حدیث کئی معلول طرق سے بھی مروی ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
دوسری قید:سیاق کے اعتبار سے اس کے معنی میں بے شمار روایات موجود ہیں جو مطلق کے متعلق ہیں مثلا من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ ۔اس طرح نیت کے متعلق بے شمار روایات صحیح ثابت ہیں ۔لیکن انما الاعمال بالنیات کے سیاق سے صرف ایک ہی ہے ۔(فتح الباری :ج۱ص۱۱)
ابن مندہ نے اس حدیث کو کئی ایک صحابہ کرام سے روایت ہونے کا دعوی کیا ہے (المعرفۃ لابن مندہ بحوالہ البدر المنیر لابن الملقن ج۱ص۶۵۶)جو کہ درست نہیں اسی طرح انھوں نے متابعات بھی ذکر کئے ہیں جو کہ ثابت نہیں واللہ اعلم بالصواب ۔ابن مندہ کی یہ تحقیق معتبر محدثین کے خلاف ہے ۔راجح بات یہی ہے کہ یحیی بن سعید الانصاری تک یہ سند منفرد ہی ہے ۔اور انماالاعمال باالنیات کے سیاق سے صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے ۔علامہ فاکھانی لکھتے ہیں :قد روی من حدیث ابی سعید الخدری وابی ھریرۃ وابن عباس وابن عمر و معاویۃ وقالوا:لایصح مسندا الا من حدیث عمر بن الخطاب(ریاض الاحکام شرح عمدۃ الاحکام :ج۱ص۱۵)تحقیق یہ حدیث سیدنا ابو سعید الخدری ،سییدنا ابوھریرۃ ،سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابن عمر اور سیدنا معاویۃ رضی اللہ عنھم سے روایت کی گئی ہے اور محدثین نے کہا ہے کہ مسند صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے صحیح ثابت نہیں ۔
اصول حدیث:
اس حدیث سے ثابت ہونے والے اصول :
پہلا اصول :ابواسحاق الابناسی(المتوفی:۸۰۲) کہتے ہیں کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن یہ ہے کہ وہ روایت کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے یہ شرط صحیح حدیث میں نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو حدیث صحیح ہوگی امام ترمذی کے نزدیک وہ حسن نہیں ہوگی جیسے انما الاعمال بالنیات ہے یہ صحیح ہے اس کی دوسری سند نہیں ہے اس لئے امام ترمذی کے نزدیک یہ حسن نہیں ہو گی ۔(الشذ الفیاح من مقدمہ ابن الصلاح ج:۱ص:۱۲۶)
دوسرا اصول:صحیح حدیث کے لئے دو سندوں کاہو نا شرط لگانا درست نہیں ہے بلکہ ایک سند بھی ہو لیکن وہ صحیح ہو تو اس حدیث کا قبول کرنا فرض ہے ۔
تیسرا اصول:خبر واحد جو صحیح ثابت ہو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے نہ کہ ظن کا جس طرح بعض نے باور کروایا ہے ۔یاد رہے جو بھی حدیث صحیح ثابت ہوجائے وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے خصوصا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث صحیح ہیں اور علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں تفصیل کے لئے (احادیث الصحیحین بین الظن والیقین لحافظ ثناء اللہ الزاہدی )
چوتھا اصول:اما م ترمذی جس حدیث کو حسن صحیح کہیں اس کا مطلب راجح قول کے مطابق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن یا اس کو بعض محدثین نے صحیح کہا ہے اور بعض حسن۔لیکن حدیث انما الاعمال باالنیا ت کو بھی امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور یہ خود اقرار بھی کیا ہے کہ لانعرفہ الا من حدیث یحیی بن سعید الانصاری ۔(سنن الترمذی :۱۶۴۷)راقم کی نظر میں اس کو کسی بھی محدث نے حسن نہیں کہا اور اس کی سند بھی ایک ہے اس کے باوجود امام ترمذی صاحب اس کو حسن صحیح فرما رہے ہیں !!!تو کہنا پڑے گا کہ یہ امام ترمذی کی اپنی خاص اصطلاح ہے۔
فائدہ: اس حدیث کا ذکر صحیح بخاری پر لکھے ہوئے مستدرکات میں نہیں ملا ۔
فائدہ:امام بخاری نے یہ حدیث اپنے شیخ امام حمیدی سے بیان کی اور امام حمیدی اس حدیث کو اپنی مسند (۲۸)میں لائے ہیں یاد رہے کہ مسند حمیدی میں فمن کانت ہجرتہ الی اللہ ورسولہ فہجرتہ الی اللہ ورسولہ الفاظ موجود ہیں لیکن امام بخاری ان کو نہیں لائے ۔اور امام بخاری نے اس حدیث کو امام حمیدی ہی کی سند سے بیان کیا ہے ۔
علامہ خطابی کہتے ہیں :امام حمید ی کے بعض اثبات شاگردوں نے اس زیادتی کو بیان کیا ہے ،ابویحیی بن ابی میسرہ اور بشر بن موسی۔دیکھئے (اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی :ج۱ص۱۰۹)
اور بطور فائدہ عرض ہے کہ چونکہ امام بخاری اختصار کے قائل تھے اس لئے انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے امام حمیدی سے یہ لفظ چھوڑ دئیے ہیں اور اپنے استاد عبداللہ بن مسلمہ سے جب یہ روایت بیان کی ہے تب یہ الفاظ بھی بیان کر دئیے ہیں دیکھئے (صحیح البخاری:۵۴)
باب کی حدیث سے مطابقت:
وحی کے اہل اللہ تعالی اسی اپنے برگزیدہ بندے کو منتخب فرماتا تھا جس میں اخلاص اور حسن نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو تمام انبیاء کرام مخلص تھے اور ان کی نیتوں میں شک کرنا ان کی توہین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں نبوت و رسالت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو وحی کے باب میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وحی الہی برحق ہے اور جس پر وہ نازل ہوئی وہ بھی برحق شخصیات تھیں ،ان کی اطاعت فرض ہے ۔
اور یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نیت بھی درست تھی اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان سے وحی الہی کو جمع کرنے کی توفیق عطافرمائی۔
اور یہ بھی سمجھانا تھا کہ اہل علم کو علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نیت درست نہ ہو گی ۔
حدیث سے اخذ ہونے والا مسائل:
یہ حدیث درج ذیل فوائد پر مشتمل ہے
۱:تمام عبادات و معاملات کا دارو مدار نیتوں پر ہے ،نیت درست عمل بھی درست نیت خراب تو عمل بھی خراب اور بے فائدہ۔
۲:ہرہر عمل میں نیت کرنا ضروری ہے ۔
۳:ہجرت تب کارآمد ہے جب صحیح نیت سے کی جائے ۔
۴:شادی کروانا صاحب استطاعت پر فرض ہے لیکن اگر اس کی ہجرت کا مقصد صرف عورت سے شادی کرنا تھی تو اس کو ہجرت کا اجر نہیں ملے گا لیکن اس کی قرآن وحدیث کے مطابق کی ہوئی شادی درست ہے ۔
۵:ہر ہر انسان کی نیت ایک جیسی ناممکن ہے ،اچھی نیت میں خیر کثیر ہی نہیں بلکہ خیر ہی خیر ہے ۔اور اسے لئے لازم پکرنا چاہئے۔
۶:روایت بالمعنی بیان کرنا درست ہے جب معنی میں کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
۷:حدیث کا اختصار کرنا بھی جائز ہے جب کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
حدیث کا صحیح مفہوم :
استاد محترم المحدث النقاد حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :''اس حدیث کی صحیح شرح میرے نزدیک یہ ہے کہ (انما الاعمال باالنیات )میں ذوات دینیہ کی نفی مراد ہے [یعنی نیتوں کے بغیر شرعی اعمال کا کوئی وجود نہیں]اور'' بالنیات ''میں شرعی نیتیں مراد ہیں اور اعمال ،اعمال صالحہ پر محمول ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے (انما الاعمال باالنیات)میں جس چیز کو مجمل بیان کیا ہے اسی کی تفصیل (فمن کانت ھجرتہ ۔۔۔۔۔۔۔فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ )میں بیان کی ہے ،پس ہجرت عمل صالح ہے اور پہلے مہاجر [اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے کی ]کی نیت شرعی نیت ہے اور دوسرے مھاجر [دنیا یا عورت کی طرف ہجرت کرنے والے]کی نیت غیر شرعی ہے،پس پہلی ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ ملی تو شریعت کے ہاں اس کا وجود ثابت ہوگیا دوسری ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ نہ ملی تو اس کا وجود شرع میں ثابت نہ ہوا ،جس طرح نماز شرعی نیت کے ساتھ ثابت اور موجود ہوتی ہے اور اس کے بغیر موجود نہیں ہوتی ۔
پس جن اعمال میں نیت ہے اور جن میں نیت نہیں دونوں حدیث کے مدلول میں شامل اور داخل ہیں ،بغیر نیت والے اعمال کو حدیث کے مدلول سے نکالنا اور وضو باالنیۃ اور بغیر النیۃ کے صحیح ہونے کوقیاس کی طرف سونپنا بالکل ہی باطل ہے اور کئی دلائل سے غلط ہے ۔''(ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج۱ص۱۲۷۔۱۲۸ مترجم)
نیت کے متعلق فقہی احکام و مسائل:
اس پر راقم کا ایک تحقیقی رسالہ ہے جو شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا مین مطبوع ہے
حج میں نیت:
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حج اور عمرہ میں نیت زبان سے کی جائے گی ؟
تو شیخ نے فرمایا کہ لبیک حجا او عمرۃ تو ذکر اور تلبیہ ہے نیت نہیں ہے اور جو نویت حجا او عمرۃ کہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(دروس للشیخ )
فائدہ:امام ابن القیم رحمہ اللہ کی نیت کے متعلق تمام فقہی بحوث کو یکجا پڑھنے کے لئے (جامع الفقہ للیسری سید محمد ج۱ص۳۹تا۶۲)کا مطالعہ کریں ،راقم نے اس کتاب کو بہت مفید پایا ہے کیونکہ اس میں امام ابن القیم کی تمام منتشر بحوث فقہیہ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یہ کتاب سات جلدوں میں ہے ۔اور دار الوفاء سے شایع ہوئی ہے ۔
فائدہ:(انور شاہ کشمیری دیوبندی نے صحیح بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال باالنیات کی تقریر میں بہت غلط استدلال کئے اور فقہ حنفی کے نیت کے باطل مسائل پر بحث کی تھی لیکن ان کا تفصیلی رد حافط محمد گوندلوی اور حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمھما للہ نے کیا ہے فجزاھما اللہ خیرا ۔ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج:۱ ص: ۵۳تا۱۴۳مترجم)
http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/08/1_31.html
 
Top