• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرم شریف میں نمازی کے آگے سے گزرنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ کیا حرم شریف میں نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
عرض ہے کہ اس مسئلہ سعودی عرب کے مشہور و مستند عالم جناب عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒ کا فتوی موجود ہے
ملاحظہ فرمائیں :
وسئل الشيخ ابن باز رحمه الله : لقد وجدت حديثا مثبتا وهذا نصه : إذا كان أحدكم في صلاة، فمر أمامه حمار أو كلب أسود أو امرأة فإن صلاته باطلة إذا كان نص الحديث صحيحا فما رأيكم في الذين يصلون في الحرم الشريف وتمر النساء أمامهم وهن طائفات؟
شیخ ابن باز ؒ سے سوال کیا گیا کہ :
ایک حدیث ،جو اگر صحیح ہو تو اس میں وارد ہے کہ اگر کسی نمازی کے آگے سے گدھا ، کالا کتا ،یا عورت گزرے تو نماز باطل ہوجاتی ہے ؛
حرم میں نمازی کے سامنے سے عورتیں طواف کرتے گزرتی ہیں،اس بارے آپ کی رائے کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب :
فأجاب : "الحديث صحيح يقول النبي صلى الله عليه وسلم: ( يقطع صلاة المرء المسلم إذا لم يكن بين يديه مثل مؤخرة الرحل: المرأة والحمار والكلب الأسود ) رواه الإمام مسلم في صحيحه ، فإذا مر بين يدي المصلي أو بينه وبين سترته كلب أسود أو حمار أو امرأة ، كل واحد يقطع صلاته. هكذا جاء الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم وهو الأصح من أقوال أهل العلم وفي ذلك خلاف بين أهل العلم ، منهم من يؤوله على أن المراد قطع الثواب ، أو قطع الكمال .
ولكن الصواب أنها تقطع الصلاة وأنها تبطل بذلك .
لكن ما يقع في المسجد الحرام معفو عنه عند أهل العلم ؛ لأن في المسجد الحرام لا يمكن للإنسان أن يتقي ذلك بسبب الزحام ولاسيما في أيام الحج فهذا مما يعفى عنه في المسجد الحرام ويستثنى من عموم الأحاديث ، فما يقع من مرور بعض النساء أو الطائفات بين يدي المصلين في المسجد الحرام لا يضرهم وصلاتهم صحيحة : النافلة والفريضة، هذا هو المعتمد عند أهل العلم " انتهى من "فتاوى الشيخ باز" (17/152)

شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ :
یہ حدیث صحیح ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :بندہء مسلم اگر پالان کی لکڑی جیسی کوئی سامنے رکھ نماز نہ پڑھ رہا تو سامنے سے گزرنے والی عورت ،گدھا اورسیاہ کتا اس کی نماز توڑ دیتا ہے ،، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے،اس لئے اگر کسی نمازی کے آگے سے گدھا ، کالا کتا ،یا عورت گزرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ؛
اور اہل علم کے اقوال میں صحیح قول بھی یہی ہے،جبکہ کچھ اہل علم اس کی تاویل کرتے ہیں کہ نماز نہیں ٹوٹتی بلکہ نماز کا ثواب ختم ہو جاتا ہے ،یا درجہ کمال حاصل نہیں ہوتا ،
لیکن صحیح بات یہی ہے کہ نماز ٹوٹ جاتی ہے ،اور باطل ہوجاتی ہے ؛
لیکن حرم میں نمازی کے سامنے سے گزرنا اہل علم کے نزدیک قابل درگذر ہے ،
اسلئے کہ رش اور ہجوم کے سبب اس سے بچنا ممکن نہیں ،اور خاص طور پر حج کے دنوں میں جبکہ ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے ،
اس لئے حرم میں یہ صورت احادیث کے حکم سے مستثنی ہے ،یعنی خاص حرم میں نمازی کے سامنے سے گذرنے پر کوئی گرفت نہیں ،اور نماز درست ہوگی،اہل علم کے ہاں یہی فتوی معتبر ہے "
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ایک سوال کے جواب میں محترم اسحاق سلفی صاحب نے ”شیخ ابن باز رحمۃ اللہ“ کا فتویٰ لکھا ہے جس کے اہم اجزا کو یہاں چسپاں کرکے کچھ اشکالات پیش کرتا ہوں امید ہے شافی جواب سے مطلع فرمائیں گے۔
ایک بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ کیا حرم شریف میں نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے
جواب :
عرض ہے کہ اس مسئلہ سعودی عرب کے مشہور و مستند عالم جناب عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒ کا فتوی موجود ہے
ملاحظہ فرمائیں :
شیخ ابن باز ؒ سے سوال کیا گیا کہ :
ایک حدیث ،جو اگر صحیح ہو تو اس میں وارد ہے کہ اگر کسی نمازی کے آگے سے گدھا ، کالا کتا ،یا عورت گزرے تو نماز باطل ہوجاتی ہے ؛
الجواب :
فأجاب : "الحديث صحيح يقول النبي صلى الله عليه وسلم:
شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ :
یہ حدیث صحیح ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :بندہء مسلم اگر پالان کی لکڑی جیسی کوئی سامنے رکھ نماز نہ پڑھ رہا تو سامنے سے گزرنے والی عورت ،گدھا اورسیاہ کتا اس کی نماز توڑ دیتا ہے ،، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے،اس لئے اگر کسی نمازی کے آگے سے گدھا ، کالا کتا ،یا عورت گزرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ؛
اہل علم کے اقوال میں صحیح قول بھی یہی ہے،جبکہ کچھ اہل علم اس کی تاویل کرتے ہیں کہ نماز نہیں ٹوٹتی بلکہ نماز کا ثواب ختم ہو جاتا ہے ،یا درجہ کمال حاصل نہیں ہوتا ،
لیکن صحیح بات یہی ہے کہ نماز ٹوٹ جاتی ہے ،اور باطل ہوجاتی ہے ؛
اس ساری تصریح کے بعد جو یہ لکھا گیا؛
اس لئے حرم میں یہ صورت احادیث کے حکم سے مستثنی ہے ،یعنی خاص حرم میں نمازی کے سامنے سے گذرنے پر کوئی گرفت نہیں ،اور نماز درست ہوگی،اہل علم کے ہاں یہی فتوی معتبر ہے "
پوچھنا یہ ہے کہ ایک صحیح حدیث سے استثناء کے کیا اصول ہیں قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں؟
اہلِ علم نے یہ فتویٰ کہاں سے (قرآن کی کس آیت سے یا کس صحیح حدیث سے) حاصل کیا؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس لئے حرم میں یہ صورت احادیث کے حکم سے مستثنی ہے ،یعنی خاص حرم میں نمازی کے سامنے سے گذرنے پر کوئی گرفت نہیں ،اور نماز درست ہوگی،اہل علم کے ہاں یہی فتوی معتبر ہے "
اصل میں اس گنجائش کی وجہ اضطرار اور مجبوری ہے ، اور جہاں جہاں اضطرار اور مجبوری ہوگی یہ گنجائش ہوگی ، جہاں نہیں ہوگی وہاں یہ گنجائش نہیں ہوگی ۔
بعض دفعہ حرمین میں بعض جگہوں پر رش نہیں ہوتا ، لہذا یہ گنجائش نہیں ہوگی ۔ بعض دفعہ حرمین سے ہٹ کر بعض جگہوں پر ایسی صورت حال بن جاتی ہے ، لہذا اضطرار و مجبوری کی بنا پر وہاں بھی یہ گنجائش ہوگی ۔
حرم ( یا حرمین ) کو اس حوالے سے خاص کرنا گو بعض اہل علم کا موقف ہے ، لیکن درست محسوس نہیں ہوتا ۔ واللہ اعلم ۔
پوچھنا یہ ہے کہ ایک صحیح حدیث سے استثناء کے کیا اصول ہیں قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں؟
اہلِ علم نے یہ فتویٰ کہاں سے (قرآن کی کس آیت سے یا کس صحیح حدیث سے) حاصل کیا؟
اصول فقہ کا معروف قاعدہ ہے ، الضرورات تبیح المحظورات ، اور اس کی بنیاد قرآن مجید کی آیت : فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا إثم علیہ ۔۔۔۔ اور إلا من أکرہ و قبلہ مطئمن بالإیمان وغیرہ ہوسکتی ہیں ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اصل میں اس گنجائش کی وجہ اضطرار اور مجبوری ہے ، اور جہاں جہاں اضطرار اور مجبوری ہوگی یہ گنجائش ہوگی ، جہاں نہیں ہوگی وہاں یہ گنجائش نہیں ہوگی ۔
اس اضطرار کا فائدہ طواف کرنے والے کو تو یوسکتا ہے نماز پڑھنے والے کو نہیں۔ وہ بغیر سترہ کے یا ایسی جگہ پر نماز کیون پڑھتا ہے جہاں سے یقین ہے کہ دوسروں نے گزرنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
القرآن
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا
اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا

اللہ تعالی نے انسان کو گناہوں سے اجتناب اور اوامر کی تکمیل میں اسی حد تک مکلف کیا ہے جس قدر اس کی استطاعت ہے ۔
یعنی جس مقام پرانسان مجبور ہوجائے وہاں اس پر کوئی مواخذہ نہیں ۔ مواخذہ صرف اس صورت میں ہے کہ جہاں انسان استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔

الحدیث:
مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ، فَاجْتَنِبُوهُ وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ
’’ جس چیز سے میں تمہیں منع کروں ،اس سے اجتناب کرو ۔اور جس چیز کا حکم دوں تو اس کو ’’ جہاں تک ہوسکے ‘‘ بجا لاؤ۔
صحیح مسلم
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
"ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺜﻨﺎﺀ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﺻﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ؟ﺍﮨﻞِ ﻋﻠﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﺘﻮﯼٰ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ (ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﺲ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﯾﺎ ﮐﺲ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ) ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ؟ "

میرے خیال سے سائل کو تشفی بخش جواب نہیں پہونچایا جاسکا۔
سوال میں ایک فکر ہے اور اس فکر کا تقاضا ہیکہ اگر کوئی ایسا فیصلہ "اہل حدیث" نے لیا تو وہ فیصلہ حدیث نبوی شریف کے عکس ہے ، جبکہ دعوی عکس ہے ۔ آپ میں سے کسی نے اس فکر پر توجہ نہیں کی ۔
اگر آپ اقتباسات کی ترتیب ان کی پوسٹ میں دیکہیں تو انکی بنیاد پر انہوں نے ایک فکر کے تحت سوال کیا ہے ۔ آپ کے جوابات اس فکر پر یرگز نہیں ہیں ۔
اور یہی فکر اہم ہے ۔ اہل علم کو اس فکر پر توجہ دینی چاہیئے ۔
اگر سائل کو میری فہم سوال پر اختلاف ہو تو وہ کہے تاکہ سوال مزید واضح ہو جائے اور مقصد بهی ۔ یہ بهی ہوگا کہ میرا فہم غلط خود بخود مردود ہو جائیگا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس اضطرار کا فائدہ طواف کرنے والے کو تو یوسکتا ہے نماز پڑھنے والے کو نہیں۔ وہ بغیر سترہ کے یا ایسی جگہ پر نماز کیون پڑھتا ہے جہاں سے یقین ہے کہ دوسروں نے گزرنا ہے۔
بعض دفعہ ایسی صورت حال ہو جاتی ہے کہ وہاں سترہ رکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا ، اور نماز کے لیے بھی کہیں اور جانا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ جو حرم یا حرمین کی زیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہے وہ اس مجبوری کو بخوبی سمجھتا ہے ۔
 
Top