• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
دور حاضر میں جہاں ہر انسان تقلیدی نقطۂ نگاہ سے چیزوں کو دیکھنے اور بلا چوں و چرا اور بغیر کسی رد و کد کے ہر اس چیز کو "آب حیات" سمجھ کر پی جانے یا پھر کار خیر سمجھ کر دل کی دیواروں پہ سجانے اور عمل کے گلشن میں آبیاری کرنے لگ جاتا ہے جس کی اصل نہ قرآن میں ہے نہ ہی احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں تو بے اختیار قرآن پاک کی یہ آیت یاد آتی ہے۔
مفہوم: "اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے دریافت کرلو"۔
اس آیت کی رو سے آج ہم کیوں تقلید اور عدم تقلید کی دنیا میں پھنس کر اسلامی جمعیت کو سبوتاژ کررہے ہیں؟
ہمیں قرآن کی یہ آیت:
مفہوم : اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو"
"ولا تفرقوا" کے ذریعہ فرقہ بندی سے روکا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مذکورہ دونوں سورتوں سے اگر اختلاف کروگے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑجائے گی اور الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤٍ گے چنانچہ فرقہ بندی کی تاریخ اگر دیکھی جائے تو یہی چیزیں نمایاں ہوکر سامنے آئیں گی۔

قرآن و حدیث کے فہم اور اس کی توضیح و تعبیر میں کچھ "اختلاف" یہ فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) وتابعین (رحمہم اللہ عنہم) کے زریں عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے کیونکہ ان اختلافات کے باوجود سب کا مرکز اطاعت، محور عقیدت ایک ہی تھا وہ تھا
(1) قرآن۔
(2) حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستان فکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت و عقیدت کے مرکز و محور تبدیل ہو گئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال و افکار اولین حیثیت کے اور اﷲ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے اور یہیں سے امت مسلمہ کی افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہو گیا۔
جو امت "امۃ وسط" کے نام سے جانی جاتی ہے جیسا کہ اﷲ رب العزت نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے ۔
مفہوم : ہم نے اس طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور جن کا کام یہ ہوگا کہ "یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر"
لیکن آج خود کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور جو امت تقسیم ہو چکی ہو اور آپس میں بٹ چکی ہو قرآن پاک اور احادیث کی رو سے وہ کیا خاک گواہی دے گی؟
ایک حدیث پاک میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد مبارک ہے کہ جب اﷲ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے۔ اﷲ رب العزت فرمائے گا کہ تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے ہاں! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی امت۔ چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔
اس لئے "وسطا" کا ترجمہ ابن کثیر کی روایت کے مطابق "عادل" بھی کیا گیا ہے یعنی یہ امت متعدل اور افراط و تفریط سے پاک ہوگی۔ ان تمام چیزوں پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سبب اختلاف صرف ایک ہے وہ ہے قرآن و حدیث سے دوری بنائے رکھنا، پیغام محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیزاری برتنا اور صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی محبتوں سے عاری ہونا بس۔۔۔

اس لئے عہد حاضر میں جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت و ضرورت ہے وہ ہے ملت اسلامیہ میں باہمی یگانگت و اخوت، اتحاد و اتفاق، اور مکالمہ بین الفرق کی نہ کہ مناظرہ اور مجادلہ بین المذاہب کی۔
اور یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کوئی مقصد اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ ہمارے عقائد میں یکجہتی اور مماثلت نہ ہو۔ اس لئے سیدھا سادھا اور قدرتی ذریعہ نجات پانے کا وہی ہے جس کی طرف رحمۃ العالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وضاحت فرمائی ہے۔
پھر یہ ہماری کیسی ناعاقبت اندیشی ہے کہ ہم ایک قومی ایک مذہب ایک قرآن اور ایک پیغمبر اور ایک ﷲ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی معمولی معمولی باتوں اور جزئیات اعمال میں الجھ کر بنیادی مقاصد دین سے بعید تر ہوگئے بقول علامہ اقبال
حرم پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

دور حاضر میں جو فقہی اختلافات ہمارے دلوں میں گھر کرچکے ہیں اگر ان فقہی مسائل کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث مختلف ہوتی تو اقوال صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) میں تلاش کیا جاتا، نہ ملتا تو تابعین (رحمہم اللہ عنہم) کے اقوال میں، اگر یہاں بھی پیاس نہ بجھتی تو پھر آگے بڑھ کر تبع تابعین اور اقوال سلف میں تلاش و جستجو کے میدان کو آگے بڑھایا جاتا۔
پھر بعد کے ادوار میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے جنہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرتے ہوئے علم کے دریا بہادئیے۔
ان چند لوگوں میں قابل ذکر سعید بن المسیبؒ، ابراہیم نخعیؒ، امام زہریؒ، امام مالک ؒ، سفیان بن عینیہ، امام شعبیؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ ، یحییٰ بن سعید القطان، یزید بن ہارون، عبدالرزاقؒ، ابوبکر بن منبہ، احمد بن حنبلؒ، علنی بن مدینیؒ، اسحاق بن راہویہ، فضل بن دکینؒ، محمد بن ادریس المعروف بہ امام شافعیؒ، نعمان بن ثابت المعروف بہ امام ابوحنیفہ وغیرہم ہیں جن کے علم و عمل، زہد و تقویٰ، فہم و فراست کا چہار دانگ عالم میں چرچا رہا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ ایسی کئی مثالیں شریعت کے نام پر اسلام کے اندر موجود ہیں جو صحیح احادیث سے معارض و متصادم ہیں اب جب کہ ﷲ رب العزت نے حدیث کے حاملین کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا فرما دی ہے جنہوں نے غلط، صحیح، قوی، ضعیف، منقطع، غیر منقطع، متصل، منفصل، حسن، غیرحسن، غریب، شاذ وغیرہ کو چھان پھٹک کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے تو ہم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ صحیح احادیث پر عمل کرتے ہوئے فقہی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اب وقت آگیا کہ اختلافات سے اوپر اٹھ کر چھوٹی بڑی تمام مسلم جماعتیں اطاعت کریں ﷲ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نقطہ پر غور و فکر کریں:

یہ جو میکدہ کا نظام ہے اسے میں بدل کے بھی کیا کروں
یہ جو مست ہیں اسی حال میں انہیں ہوش آئے تو بات ہو

مضون - (اسعد اللہ ندوی )۔ بشکریہ :
تعمیر نیوز : حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
 
Top