• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"حسنات کا تحفظ اور ان میں اضافہ کیسے؟" از حذیفی حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
"حسنات کا تحفظ اور ان میں اضافہ کیسے؟"


از حذیفی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 13-شوال- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "حسنات کا تحفظ اور ان میں اضافہ کیسے؟" ارشاد فرمایا :

جس میں انہوں نے کہا کہ سنت کے عین مطابق نیکی کرنے کا موقع ملنا بہت بڑی نعمت ہے، پھر ان نیکیوں کی حفاظت اس سے بھی ضروری امر ہے چنانچہ اس کیلیے کسی بھی ایسے گناہ سے بچیں جو آپ کی نیکیاں ضائع کر سکتا ہو، یا ان کے ثواب میں کمی لا سکتا ہو، شیطان شروع دن سے ہی انسان کا دشمن ہے اور نیکیاں ضائع کرنے کیلیے خوب محنت کر رہا ہے اس کام کیلیے اس نے قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیکیوں کے تسلسل کو جاری رکھنا بھی نیکیوں کو تحفظ دیتا ہے، مثلاً: آپ مقروض لوگوں کے قرضے چکا سکتے ہیں، مالدار طبقہ اپنے مال کی زکاۃ دیانت داری سے ادا کرے تو ضرورت مندوں کی ضروریات با آسانی مکمل ہو سکتی ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کے کام آنا روزِ قیامت کی مشکلات میں آسانی کا باعث ہے، دوسرے خطبے میں انہوں نے فرمایا کہ : اپنا اور دوسروں کا بھلا کرنا اسلام کا ہدف ہے اور دوسروں کے کام آنے والا اللہ تعالی کا محبوب بھی ہے، آخر میں انہوں نے سب کیلیے جامع اور لمبی دعا فرمائی۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، دنیا و آخرت میں اسی کیلیے حمد ہے اور اسی کی بادشاہی ہے نیز اسی کی جانب لوٹ کر جانا ہے، اللہ تعالی نے مخلوقات کو بغیر نمونے کے پیدا فرمایا ،اپنے علم اور قدرت کی بدولت سب کی تقدیریں لکھیں، حکم اور مشیئت اسی کا جاری و ساری ہے، وہی بلند و بالا ہے، میرا پروردگار پاک ہے اس سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ،لیکن وہ مخلوق سے پوچھ گچھ کرے گا، ظاہری اور خفیہ تمام نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے ، اسی کیلیے تعریفیں ہیں اور اللہ تعالی شریکوں سے کہیں بلند و بالا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ کو جہانوں کیلیے رحمت بنا کر بھیجا گیا، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر، انکی آل اور نبوی تعلیمات پر عمل پیرا صحابہ کرام پر سلامتی اور رحمتیں نازل فرما۔

خطبہ کی عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو؛ کیونکہ تقوی دنیاوی سعادت اور اخروی کامیابی کا باعث ہے، اس لیے کہ متقی لوگ ہی سعادت مند ہوتے ہیں اور رو گردانی کرنے والے ہی نقصان اٹھاتے ہیں۔

اللہ کے بندو!

جن سے پروردگار راضی ہو ایسے نیک اعمال انسان کا بہترین سرمایہ ہیں ، جن سے انسان دنیا میں خوشحال ہو ، ہر حالت میں کامیاب رہے، اور آخرت میں بلند درجات پائے، اور اللہ تعالی کے ہاں لکھے ہوئے درجے پر پہنچ جائے۔

اگر اللہ تعالی انسان کو عبادت کا موقع میسر فرمائے اور اسے نیکی کیلیے اخلاص کی دولت سے نوازے ، نیز سنت نبوی کے عین مطابق عمل کرنے کی توفیق دے، تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی کرم نوازی ہے، اللہ تعالی نے اسے اعلی ترین مطلوب و مقصود عطا کر دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(بیشک اللہ تعالی دنیا اپنے محبوب اور غیر محبوب سب لوگوں کو دیتا ہے، لیکن دین صرف اسی کو دیتا ہے جو اللہ کا محبوب ہو) اس روایت کو احمد نے مسند میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: { إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} بیشک اللہ تعالی متقین سے قبول کرتا ہے۔[المائدة: 27]

بندے کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو کرم نوازی فرمائی ہے اس کا شکر ادا کرنے کیلیے نیکی پر استقامت اختیار کرے؛ کیونکہ استقامت اختیار کرنے والا خیر و بھلائیاں سمیٹ لیتا ہے اور تباہی سے نجات پاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ}

بیشک جن لوگوں نے کہا: ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ گئے۔ ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم خوف نہ کھاؤ اور نہ ہی غم کرو، نیز جنت کی خوشخبری لے لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔[فصلت: 30]

سفیان بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! مجھے اسلام کی ایسی تعلیم دیں کہ اس کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم کہو: میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ) مسلم

اللہ تعالی کی طرف سے نیکی کرنے کی توفیق ملے تو پھر کی ہوئی نیکیوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری امر ہے، اس کیلیے ایسے تمام گناہوں اور خطاؤں سے بچیں جو ان کو ضائع کر سکتی ہیں یا ایسے ظلم یا گناہوں سے دور رہیں جن کی وجہ سے ان کا ثواب کم ہو سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔[محمد: 33]

مسلمانو! اپنا ہر دن گزشتہ دن سے بہتر بنانے کیلیے بھر پور کوشش کریں، اور آنے والا کل آج سے بہتر بنائیں۔

جو شخص حرام کاموں سے بچنے کیلیے اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کرے تو اللہ تعالی اس کی مدد فرماتا ہے اور اس کی صراط مستقیم کی جانب رہنمائی فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}

اور جو لوگ ہمارے لیے جد و جہد کرتے ہیں ہم ان کی اپنے راستے کی طرف لازمی رہنمائی کرتے ہیں، اور بیشک اللہ تعالی عمدہ کارکردگی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[العنكبوت: 69]

آج نیکیوں کیلیے مقابلہ ہے تو کل مقابلے میں حصہ لینے والوں کو انعامات ملیں گے۔

ناقابل تلافی خسارہ، اور ناقابل تدارک گھاٹا، نیز ایسی بد بختی کہ جس کے بعد نیک بختی ناممکن ہو یہ ہے کہ نیک اعمال کرنے کے بعد انسان کے اعمال ضائع ہو جائیں، انسان راہِ راست پر استقامت اختیار کرنے بعد پھر الٹے پاؤں مڑ جائے۔

شیطان ہر وقت انسان کی تاک میں ہے ، وہ انسان کے خلاف ہر خیر کے راستے پر گھات لگائے ہوئے ہے تا کہ انسان کو اللہ تعالی سے دور کر دے ، خیر سے روکے اور اس کے نیک اعمال غارت کر دے، انسان کی نیکیاں غارت کرنے کیلیے شیطان شبہات، بدعات اور شہوات خوبصورت بنا کر دکھاتا ہے۔

اللہ تعالی نے شیطان کی انسانیت سے عداوت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}

اس نے کہا بسبب اس کے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں ان کے خلاف تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا۔[16] پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے ان کی داہنی جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے آؤں گا ، پھر ان میں سے اکثر کو توں شکر گزار نہ پائے گا۔ [الأعراف: 16، 17]

دوسری جانب نیکی کے دروازے بھی بہت زیادہ ہیں، فضیلت اور مغفرت حاصل کرنے کے طریقے وافر ہیں ، رحمت الہی بہت وسیع ہے، لہذا اللہ تعالی کے ہاں وہی تباہ و برباد ہو گا جو خود اپنے آپ کو تباہی میں ڈالے اور اس میں خیر کی کوئی رمق باقی نہ ہو۔

نیکی اور فضیلت والے اعمال محض ماہانہ ہی نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر میسر ہیں، نیز اللہ تعالی بندے کی معمولی سی نیکی کی بھی قدر فرماتا ہے اور ڈھیروں ثواب سے نوازتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا}

بیشک اللہ تعالی ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں فرماتا اور اگر کسی کی معمولی نیکی ہوئی تو اسے بھی بڑھا دے گا اور اسے اپنی طرف سے عظیم اجر بھی عنایت کرے گا۔[النساء: 40]

نیکیوں کا ایک عظیم باب، جس کا فائدہ بہت زیادہ ہے، اس کا عملی دائرہ بہت بڑا ہے، نیز اس کے مثبت نتائج بھی بہت وسیع ہیں وہ یہ ہے کہ:

مقروض لوگوں کے قرضے چکائے جائیں، اللہ تعالی سے بدلہ لینے کیلیے لوگوں کے ذمہ مالی واجبات کی ادائیگی کریں، خصوصاً ایسے لوگوں کی جو قرضے ادا کرنے سے قاصر ہیں اور قرضوں کی وجہ سے جیل کاٹ رہے ہیں، وہ اپنی گلو خلاصی کیلیے کسی محسن اور مشفق کی تاک میں ہیں، ایسے میں مقروض شخص کی حالت پانی میں ڈوبنے والے شخص کی طرح ہو گی کہ جس کا ہاتھ تھام کر خشکی کے کنارے لگا دیا جائے؛ کیونکہ قرضے کی وجہ سے ان کی عیدیں، خوشی اور مسرت کے اوقات بھی جیل میں گزرتے ہیں اس لیے کہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنی آل اولاد کے بارے میں پریشان ہیں کہ ان کی ضروریات کیسے پوری ہوں ؟ نیز انہیں ان کے تباہ ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔

مسلمان ہمیشہ شفقت اور اچھا برتاؤ کرنے والا ہوتا ہے، صاحب ثروت لوگوں کی دولت پر زکاۃ اور صدقات اتنے بنتے ہیں جو محتاج لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہو سکتے ہیں ۔

اس وقت جیلوں میں بند مقروض لوگوں تک براہِ راست رسائی بہت آسان ہے کہ آپ جیل کی انتظامیہ سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں، بلکہ قرض خواہوں کو ان کی رقم یقینی طور پر پہنچا سکتے ہیں، ساتھ میں آپ مقروض لوگوں کو ان کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلیے جیب خرچ بھی دیں تا کہ مناسب ذریعہ معاش ملنے تک گھر کے اخراجات پورے کر سکے۔

نیز ہر ملک میں ضرورت مند افراد کی ضروریات بر وقت پوری کرنا بھی آسان ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ}

اور تم جو کچھ بھی [راہِ الہی میں]خرچ کرو تو وہ اسے لوٹا دے گا ، اور وہ روزی دینے والوں میں سے بہترین ہے۔[سبأ: 39]

اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان ہے: (صدقہ کسی کا مال کم نہیں کرتا) اس روایت کو مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

جسے ان کاموں کی توفیق ملے اور اپنے دروازے کھول دے نیز اس پر کار بند بھی ہو جائے تو ایسے شخص کیلیے دنیا و ما فیہا سے اعلی بدلے کی خوش خبری ہے ، جو کہ نبی ﷺ کے اس فرمان میں موجود ہے:

(جو شخص کسی مومن کا دنیاوی کرب دور کرے تو اللہ تعالی اس کا قیامت کے دن کا کرب دور فرما دے گا۔ اور جو کسی مشکل میں پھنسے شخص پر آسانی کرے تو اللہ تعالی اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرماتا ہے۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے) مسلم

کرب سے یہاں ایسی شدید مصیبت مراد ہے جس کی وجہ سے انسان انتہائی اذیت اور تکلیف میں ہو، اور قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے سے پہلے کا دورانیہ ایسی ہی مصیبتوں سے بھرا ہوا ہے اور سب کی سب مصیبتیں ایک بڑھ کر ایک ہیں، جیسے کہ بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(روزِ قیامت انسان پسینے میں شرابور ہوں گے یہاں تک کہ ان کا پسینہ زمین میں ستر ہاتھ تک سرائیت کر جائے گا اور وہ اپنے پسینے میں غوطے کھائیں گے یہاں تک پسینہ ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا)

اسی طرح عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (ہر شخص اپنے صدقے کے سائے تلے ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ کر دیا جائے) یہ صحیح حدیث ہے اور اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}

اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اسے متقی لوگوں کیلیے تیار کیا گیا ہے۔ [133] جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے ۔[آل عمران: 133، 134]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔


دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی رزق دینے والا، قوت والا اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سربراہ اور نبی جناب محمد اس کے بندے اور صادق، امین رسول ہیں، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، اور صحابہ کرام پر اپنی رحمت ،سلامتی اور برکتیں روزِ قیامت تک نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

کماحقُّہ تقوی اختیار کرو؛ کیونکہ تقوی اختیار کرنے والے کو اللہ تعالی اپنا دوست بنا لیتا ہے اور جسے اللہ تعالی اپنا دوست بنا لے اس کی دنیا و آخرت میں حفاظت فرماتا ہے۔

اللہ کے بندو!

اسلام کا ہدف یہ ہے کہ اپنے بارے میں اچھا سوچو اور مخلوق کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ رکھو، اپنے بارے میں اچھائی کی صورت یہ ہے کہ اپنا عقیدہ توحید مضبوط بنائیں، اللہ کی محبت سے سرشار ہو کر عبادات صرف اسی کیلیے بجا لائیں، اللہ سے اجر پانے کیلیے اسی کے سامنے عاجزی، انکساری اور ناتوانی کا اظہار کریں، نیز تمام حرام کردہ امور سے بچیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

{ وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (64) وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا(65)إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (66) وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (67) وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا}

رحمان کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ سلامتی والی بات کہتے ہیں[63] اور وہ اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔ [64] اور وہ یہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم سے دوزخ کا عذاب دور کر دے، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے [65] بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے [66] اور وہ خرچ کرتے وقت بھی اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں [67] اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ [68] اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ [69]اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو اللہ ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے، اور اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان: 63 - 70]

جبکہ مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ مختلف طریقوں سے روا رکھا جا سکتا ہے، مثلاً:

جن کا خرچہ آپ کے ذمہ ہے ان کے اخراجات پورے کریں، یا نفل صدقہ خیرات کریں، علم کو عام کریں، دوسروں کی طرف سے ملنے والی تکلیف برداشت کریں، صبر کریں، دوسروں کو تکلیف دینے سے بچیں یا اسی طرح کے دیگر مثبت کام سر انجام دیں۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تمام مخلوقات اللہ کے زیر کفالت ہیں، اس لیے اللہ کے ہاں محبوب ترین وہی ہے جو اس کی مخلوقات کیلیے زیادہ نفع بخش ہو ) زیر کفالت کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی ہی انہیں رزق دیتا ہے اور ان کے معاملات چلاتا ہے۔ اس حدیث کو ابو یعلی اور طبرانی نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے) اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو:

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔

یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت ، سخاوت اور کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! تمام کافروں اور ملحدوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ اپنے دین، قرآن اور سنت نبوی کا بول بالا فرما، یا اللہ! اپنے دین، قرآن اور سنت نبوی کو غلبہ عطا فرما، یا قوی! یا متین! یا اللہ! اپنے دین، قرآن اور تیرے نبی ﷺ کی سنت کو غلبہ عطا فرما۔

یا اللہ! دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں بھی بخش دے اور تمام مسلمانوں کی بخشش فرما ، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما۔

یا اللہ! ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ، جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما، توں ہی پست و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم اور اس کے قریب کرنے والے اعمال سے تیری پناہ مانگتے ہیں ، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے تحفظ عطا فرما۔ یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! تمام معاملات میں ہمارا انجام کار بہتر فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں ،شیطانی لشکروں اور شیطان کے یاروں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! جن نیکیوں کو سر انجام دینے کی توں نے ہمیں توفیق دی یا اللہ! ہماری وہ سب نیکیاں اپنی بارگاہ میں قبول فرما، یا اللہ! ان نیکیوں کو ہمارے لیے ضائع ہونے سے محفوظ فرما ، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کے گناہ معاف فرما دے، یا غفور! یا رحیم! یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تمام مومن مرد و خواتین اور مسلمان مردو خواتین کے معاملات سنوار دے۔

یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، یا اللہ! جن کے دلوں میں ناچاقیاں ہیں یا اللہ! ان کے دلوں کو ملا دے، یا اللہ! انہیں سلامتی والا راستہ دکھا، یا اللہ! انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لا کھڑا فرما، یا اللہ! مسلمانوں سے فتنوں کو دور فرما دے، یا اللہ! گمراہ کن ظاہری یا باطنی تمام فتنے مسلمانوں سے دور فرما دے۔

یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ مسلمانوں پر خصوصی شفقت فرما، مسلمانوں پر خصوصی رحمت فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمارے ملک کی ہمہ قسم کے شر سے حفاظت فرما، ہر شریر کے شر سے اس ملک کی حفاظت فرما، یا اللہ! دھماکے کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! تکفیروں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! بدعات کا خاتمہ فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ روزِ قیامت تک کیلیے بدعات کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! تیرے دین اور تیرے نبی ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات سے متصادم بدعات کا خاتمہ فرما۔

یا اللہ! ہمارے سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری فوج حرمین شریفین کے تقدس کی حفاظت کر رہی ہے، اور مملکت حرمین کو تحفظ دے رہی ہے، یا ذو الجلال و الاکرام! ان کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! ان کے دلوں کو مضبوط بنا، یا اللہ! انہیں صحیح سلامت ،کامیابی کے ساتھ اور فاتح بنا کر واپس لوٹا، یا رب العالمین!

یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے مسلمانوں سے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، ظاہری اور باطنی تمام فتنوں سے محفوظ فرما، ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور ان کے تمام اعمال تیری رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، انہیں ہدایت یافتہ اور راہِ ہدایت کا راہی بنا، ان کے ذریعے دین کا بول بالا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، ا اللہ! ان کی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور ان کے تمام اعمال تیری رضا کیلئے قبول فرما۔ یا اللہ! انہیں بہترین حاشیہ نشین میسر فرما، جو ان کی بھلائی کے کاموں میں مدد اور رہنمائی کریں، جو بھولنے پر یاد کروائیں، اور یاد رہنے پر تعاون کریں، یا اللہ! ان کے ہاتھ پر کی جانے والی بیعت کو اس ملک اور تمام مسلمانوں کیلیے بہتر بنا، یا ذو الجلال والاکرام! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تمام مسلمانوں کو صرف ایسے کام کرنے کی توفیق دے جو تیری رضا کا باعث ہوں اور جنہیں توں پسند فرمائے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]

اللہ تعالی کا ڈھیروں ذکر کرو، صبح و شام اسی کی تسبیحات بیان کرو، اللہ کا کثرت سے ذکر کر، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے سب کاموں سے با خبر ہے۔

خصوصی گزارش: اردو مجلس سے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ کہیں اور نشر کرنے والے احباب سے گزارش ہے کہ علمی امانت داری کا بھر پور خیال کریں۔اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر سے نوازے۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کیلیے کلک کریں
 
Top