• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے

عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ طَرَقْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ بَعْضِ الْحَاجَۃِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ مُشْتَمِلٌ عَلٰی شَیْئٍ لَا أَدْرِیْ مَا ھُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِیْ قُلْتُ: مَا ھٰذَا الَّذِيْ أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَیْہِ، فَکَشَفَہٗ فَإِذَا حَسَنٌ حُسَیْنٌ عَلٰی وَرکَیْہِ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( ھَذَانِ إِبْنَايَ وَاِبْنَا ابْنَتِيْ ، أَللّٰھُمَّ أُحِبُّھُمَا فَأَحِّبَھُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّھُمَا۔ ))1
''سیّدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ایک رات میں نے اپنے کسی کام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو اپنی چادر میں کسی چیز کو لپیٹے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کیا چیز ہے۔ جب میں نے اپنی ضرورت پوری کرلی تو پوچھا: اللہ کے رسول! آپ یہ کیا چیز لپیٹے ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر ہٹائی تو یہ (میرے محبوب ساتھی) حسن و حسین ابناء علی رضی اللہ عنہم تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کولہوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما ) میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی (فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور اس سے بھی پیار رکھ جو ان دونوں سے انس رکھتا ہے۔ ''
نیز فرمایا:
(( حُسَیْنٌ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ، اَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنًا ، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْاَسْبَاطِ۔ ))2
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن ترمذي، رقم: ۲۹۶۶؍ کتاب المناقب ؍ حدیث: ۳۷۶۹۔
2 صحیح سنن ترمذي، رقم: ۲۹۶۹ ؍ کتاب المناقب ؍ حدیث: ۳۷۷۵۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
'' حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہے حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔ ''
شرح...: یہ دونوں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور سیّدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کی تھی۔ حضرت حسن کی پیدائش اکثر کے نزدیک رمضان ۳ ھ کو ہوئی۔ بعض اس سے بھی آگے کی تاریخ بتاتے ہیں۔ (رضی اللہ عنہ و ارضاہ)
(( لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ أَشْبَہُ بِالنَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ۔ ))1
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ مشابہت حسن رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی تھی۔ ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
(( اِبْنِيْ ھٰذَا سَیِّدٌ، وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ ))2
'' میرا یہ بیٹا (حسن) سردار ہوگا اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔''
یہ پیش گوئی اس وقت ثابت ہوئی جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی اور کتاب اللہ اور سنت رسول کو قائم کرنے پر ان کی بیعت کرلی۔ چنانچہ جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ گئے اور لوگوں نے ان کی بیعت کی ۔چونکہ اس سال مسلمان اکٹھے ہوگئے اور لڑائی ختم ہوگئی تھی اس لیے اسے لوگوں کے اتحاد اور جنگ کے خاتمے کا سال (عام الجماعۃ) کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں حضرت حسن کی فضیلت واضح طور پر سمجھ آرہی ہے کہ یہ حکمرانی کو نہ تو قلت اور نہ ہی ذلت اور نہ ہی کسی علت کی وجہ سے چھوڑیں گے بلکہ صرف اس لیے دستبردار ہوں گے کہ ان کے پیش نظر مسلمانوں کے ناجائز خون کی حفاظت ہوگی اور مسلمانوں کو بچانا اور اس کا ثواب ہوگا، چنانچہ انہوں نے امت کی خیر خواہی اور دین کے معاملہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کام کیا۔3
اکثر مؤرخین کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش شعبان ۴ھ میں ہوئی۔
حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کئی فضائل میں مشترک نظر آتے ہیں، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب فضائل الصحابۃ، باب: مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، رقم: ۳۷۵۲۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب فضائل الصحابۃ، باب: مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، رقم: ۳۷۴۶۔
3 فتح الباری، ص: ۶۳، ۶۶ ؍ ۱۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
((حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ... سَمِعْتَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ وَسَأَلَہُ عَنِ الْمُحْرِمِ: قَالَ شُعْبَۃُ: أَحْسِبُہُ یَقْتُلُ الذُّبَابَ؟ فَقَالَ: اَھْلُ الْعِرَاقِ یَسْأَلُوْنَ عَنِ الذُّبَابِ وَقَدْ قَتَلُوْا ابْنَ ابْنَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَقَالَ النَّبِيُّ! ھُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا۔ ))1
''شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے حالت احرام میں مکھی مارنے کے بارے میں کسی نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ظالم اہل عراق مکھی کے متعلق سوال کر رہے ہیں (کہ اسے حرم میں مارنے کا کتنا گناہ ہے) جب کہ بلاشبہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ـ(سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما )کو قتل کر ڈالا تھا ۔ (اس وقت ان ظالموں کو ایک مومن ، صحابیٔ رسول اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کو قتل کرنے کا جرمِ عظیم یاد نہ رہا )نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''یہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہم ) دنیا میں میرے دو پھل ہیں۔ ''
مزید فرمایا:
(( أَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، سَیِّدَا شَبَابِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ۔ ))
'' کہ حسن اور حسین ( رضی اللہ عنہما ) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ''
(اس موضوع پر تفصیل ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند اور ناپسند'' میں ملاحظہ کیجیے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاري ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب: مناقب الحسن والحسین رضی اللّٰہ عنہما رقم : ۳۷۵۳۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
"حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں" روایت کی تحقیق


سوال:”کچھ حدیثیں ارسال کر رہا ہوں، مہربانی فرما کر اسماء الرجال کی نظر میں (تحقیق کریں کہ) یہ روایات کیسی ہیں ؟
نمبر۱: حضرت اُ م فضل فرماتی ہیں ایک روز میں نے دیکھا رسول اللہﷺ کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے پوچھا : میرے ماں باپ قربان آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل () آئے اور مجھے بتایا کہ میری اُمت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی ۔ جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں اسے قتل کیا جائے گا ۔ مشکوٰۃ، بیہقی فی دلائل النبوت۔
نمبر۲: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے۔ حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔ مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۱۵۹ (فضل حسین ، قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب:
۱:٭ ام الفضل بن الحارثؓ سے منسوب روایت دلائل النبوۃ للبیہقی ( ۴۶۹/۶) میں بحوالہ محمد بن مصعب: حدثنا الاوزاعی عن شداد بن عبداللہ کی سند سے مذکور ہے ۔ اس کی سند محمد بن مصعب کی وجہ سے ضعیف ہے ۔(اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح: ۶۱۷۱)
محمد بن معصب بن صدقہ القرقسائی پر جمہور محدثین نے جرح کر رکھی ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا: محمد بن مصعب القرقسانی کی اوزاعی سے حدیث مقارب (یعنی صحت و تحسین کے قریب) ہوتی ہے ۔ (مسائل ابی داؤد : ۳۲۸ بحوالہ موسوعۃ اقوال الامام احمد ۳۱۷/۳ ، ۳۱۸ ، تاریخ بغداد ج ۳ ص ۲۷۷ وسندہ صحیح)
اس کے مقابلے میں ابوزرعہ الرازی نے کہا:”محمد بن مصعب یخطئ کثیراً عن الأوزاعي وغیرہ“ محمد بن مصعب اوزاعی وغیرہ سے بہت غلطیاں کرتا ہے ۔ (کتاب الضعفاء لابی زرعۃ الرازی ج ۲ ص ۴۰۰)
حافظ ابن حبان نے محمد بن مصعب کی اوزاعی سے ایک روایت کو “باطل” کہا (کتاب المجروحین ۲۹۴/۲)
ابو احمد الحاکم نے کہا :”روی عن الأوزاعي أحادیث منکرۃ“ اس نے اوزاعی سے منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔
(تہذیب التہذیب ج۹ص ۴۶۱، ولعلہ فی کتاب الکنٰی لأبی احمدا لحاکم)

معلوم ہواکہ قولِ راجح میں محمد بن مصعب کی اوزاعی سے بھی روایت ضعیف ہی ہوتی ہے ، اُسے “مقارب” کہنا صحیح نہیں ہے۔

۲: ٭٭یہ روایت “حسین مني و أنا من حسین، أحب اللہ من أحب حسیناً، حسین سِبط من الأسباط
کے متن کے ساتھ عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن سعید بن ابی راشد عن یعلی العامری کی سند سے درج ذیل کتابوں میں موجود ہے ۔
مسند الامام احمد (۱۷۲/۴) و فضائل الصحابۃ للامام احمد (ح ۱۳۶۱) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۲،۱۰۳/۱۲ ح ۳۲۱۸۶) المستدرک للحاکم (۱۷۷/۳ ح ۴۸۲۰ وقال : ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی: صحیح) صحیح ابن حبان (الاحسان: ۶۹۳۲، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۱) المعجم الکبیر للطبرانی (۳۳/۳ ح ۲۵۸۹ و ۲۷۴/۲۲ ح ۷۰۲) سنن ابن ماجہ (۱۴۴) سنن الترمذی (۳۷۷۵ وقال :”ھذا حدیث حسن”)

اس حدیث کی سند حسن ہے ۔ اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے ۔سنن ابن ماجہ کے زوائد کی تحقیق کرنے والے مشہور محدث علامہ شہاب الدین احمد بن ابی بکر البوصیری (المتوفی 840ھ) مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه میں فرمایا : :”ھذا إسناد حسن، رجالہ ثقات“ یعنی اس حدیث کی اسناد حسن ہے ،اور اس کے راوی ثقہ ہیں "
اس کا راوی سعید بن ابی راشد: صدوق ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا : صدوق (الکاشف ۲۸۵/۱ ت ۱۹۰۰) اسے ابن حبان، ترمذی اور حاکم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے ۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ “اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے ” باطل ہے۔
شیخ البانیؒ نے غلط فہمی کی بنیاد پر سعید بن ابی راشد پر جرح کرنے کے باوجود اس حدیث کو شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے اور اسے اپنی مشہور کتاب السلسلۃ الصحیحہ میں داخل کیا ہے دیکھئے (ج ۳ ص ۲۲۹ ح ۱۲۲۷)
خلاصہ التحقیق: یہ روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے ۔ والحمد للہ
(۲۰صفر ۱۴۲۷؁ھ)
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج2ص257

محدث فتویٰ​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top