• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
فَلَمَّا بَلَـغَ مَعَهُ السَّعْىَ ( 102 ) کی تفسیر مجاہد {رح} نے یوں فرمائی ہے کہ جب اسماعیل جوان ہوگئے اور اتنی طاقت و قوت کے حامل ہوگئے کہ اپنے والد کے ساتھ کام کریں ۔
جب اسماعیل {ع} اپنی عمر کی اس بہار کو پہنچ گئے تو آپ کے والد ابراہیم {ع} نے خواب میں دیکھا کہ ان کو اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کا حکم ہو رہا ہے
ابن عباس {رض} سے مرفوع حدیث یوں مروی ہے کہ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں ۔ یہ عبید بن عمیر کا بھی فرمان ہے ۔
واللہ اعلم
یہ خواب اللہ کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم {ع} کا امتحان تھا کہ وہ اپنے بیٹے جو ان کو بڑھاپے میں بڑی دعاؤں سے ملا ان کو ذبح کریں اور اس سے پہلے وہ عظیم امتحان بھی گزچکا تھا جب وہ اپنی بیوی ہاجرہ {ع} اور اسماعیل {ع} کو جنگل بیابان میں تن تنہا چھوڑ آئے تھے ۔ جہاں نہ کوئی کھیتی تھی نہ دودھ دینے والا جانور اور نہ ہی کوئی دل بہلانے والی چیز ۔ بلکہ وہ ایک خشک صحرا تھا ۔ پھر بھی ابراہیم {ع} اللہ کے اس امتحان پر پورا اترے اور دونوں کو اس جگہ محض اللہ کے توکل چھوڑ دیا ۔ پھر اللہ نے بھی وہاں ان دونوں کے لیے کشادگی و فراخی کا راستہ کھول دیا اور ایسی جگہ سے ان کو رزق دیا جہاں ان کا گمان بھی نہ جاسکتا تھا
الغرض جب پہلی قربانی پوری ہوگئی اور ابراہیم {ع} اس میں پورا اترے تو اللہ تعالی کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم {ع} کو دوسری قربانی یعنی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ملا ، یہ حکم ایسا تھا جو اللہ نے اپنے اس خاص دوست کو دیا تھا ۔ اسماعیل {ع} بھی اس وقت تک اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے ۔ اس کے باوجود ابراہیم {ع} نے حکم خداوندی پر لبیک کہا ۔ اور حکم کی فرمانبرداری میں دوڑ پڑے
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی طرف سے مانگی اس قربانی کو اپنے بیٹے کے سامنے رکھتے ہوئے کہا " اے میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ۔ پس تیرا کیا خیال ہے ؟ "
اسماعیل {ع} نے جواب دیا " اے میرے ابا ! جس کا آپ کو حکم کیا گیا ہے ، آپ کر ڈالئے ۔ انشاءاللہ آپ مجھ کو صابرین میں سے پائیں گے "
حضرت اسماعیل {ع} کی یہ فرمانبرداری اپنے والد اور اپنے پروردگار کا حکم ماننے کی بہترین مثال ہے ۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّـهٝ لِلْجَبِيْنِ ( 103 ) کی تفسیر کے دو حصے ہیں
ایک تو یہ ہے کہ دونوں تابعدار ہوگئے اور اس قربانی کا عزم کرلیا اور دونوں نے سر تسلیم خم کردیا
دوسرا حصہ میں ہے کہ ابراہیم {ع} نے اسماعیل {ع} کو منہ کے بل لٹا دیا تاکہ گدی کی طرف سے ذبح فرمائیں اور ایسا کرتے وقت اسماعیل {ع} کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور کہیں باپ کی محبت نہ جاگ جائے
ابن عباس {رض} ، مجاہد {رح} ، سعید بن جبیر {رح} ، قتادہ {رح} اور ضحاک {رح} کا یہی قول ہے
لیکن دوسرا قول یہ بھی مروی ہے کہ اسماعیل {ع} کو اسی طرح لٹایا تھا جس طرح کے عام قربانی کے جانور کو لٹایا جاتا ہے
سدی {رح} فرماتے ہیں کہ ابراہیم {ع} نے چھری اسماعیل {ع} کے حلق پر چلائی ۔ لیکن چھری نے کچھ خراش تک نہ لگائی ۔ کہا جاتا ہے کہ چھری اور اسماعیل {ع} کی گردن کے درمیان کانسی کی سطح قائم ہوگئی تھی ۔ واللہ اعلم
تو ایسے وقت میں اللہ کی طرف سے ابراہیم {ع} کو آواز دی گئی کہ " اے ابراہیم ! بےشک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ، بےشک اسی طرح ہم بھی محسنین کو اچھا بدلہ دیتے ہیں " یعنی تیری فرمانبرداری کا جو امتحان مقصود تھا وہ پورا ہوگیا اور تم اس میں کامیاب ہوئے اور تم نے اس حکم کی اطاعت بہت جلدی کی اور اسی طرح تیرے بیٹے نے بھی بہت ہی عمدہ قربانی پیش کی کہ اپنے جسم و جان کو میری راہ میں ذبح ہونے کے لیے بےدریغ پیش کیا ۔ ۔ ۔ بےشک یہ تجھ پر ایک کھلی اور عظیم آزمائش تھی ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} نے تو اپنی طرف سے اپنے بیٹے کی بازی لگا دی لیکن اللہ نے ابراہیم {ع} کو ان کے بیٹے کی قربانی کے بجائے ایک دوسرا جانور عطا فرما دیا ۔ جمہور سے یہ مشہور ہے کہ وہ مینڈھا تھا ۔ جس کا سفید رنگ ، عمدہ آنکھیں اور وہ سینگوں والا تھا ۔ کہتے ہیں ابراہیم {ع} نے اس کو مقام ثبیر میں ببول کے درخت کے ساتھ بندھا دیکھا تھا ۔ واللہ اعلم
عبداللہ بن عباس {رض} سے مروی ہے کہ اس مینڈھے نے جنت میں چالیس سال چرا تھا
سعید بن جبیر {رح} فرماتے ہیں کہ وہ جنت میں چرتا تھا ، حتی کہ وہ ثبیر میں آیا اور اس پر سرخی رنگ کا اوون تھا
ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس {رض} سے مروی ہے وہ مینڈھا کوہ ثبیر سے اتر کر ابراہیم [ع} کی طرف آیا ، وہ عمدہ آنکھوں اور سینگوں والا تھا اور ممیاتا ہوا نیچے اترا اور یہ وہ ہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت ہابیل نے دی تھی اور اللہ نے اسے قبول فرمایا تھا
مجاہد {رح} فرماتے ہیں ابراہیم {ع} نے اس مینڈھے کو مقام منی میں ذبح فرمایا تھا ۔ جبکہ عبید بن عمیر {رح} مقام ابراہیم پر ذبح کرنا فرماتے ہیں ۔
حسن {رح} سے مروی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانور ایک پہاڑی بکرا تھا ، جس کا نام جریر تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان سے یہ صحیح مروی نہیں ہے
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
جو یہاں اقوال مذکور ہیں وہ اکثر اسرائیلی روایتوں سے مذکور ہیں ۔ اور قرآنی رو سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہی کافی ہے کہ یہ قربانی ابراہیم {ع} کا عظیم کام تھا اور ایک کٹھن امتحان تھا ۔ پھر ابراہیم {ع} نے اللہ کے فضل سے مینڈھے کی قربانی دی اور حدیث کی رو سے بھی وہ جانور مینڈھا تھا
مسند احمد میں بنوسلیم کی ایک خاتون جس نے بنوشیبہ کے اکثر بچوں کی پیدائش کے وقت دائی کا کام کیا تھا ، سے مروی ہے کہ نبی {ص} نے عثمان بن طلحہ کو قاصد کے ذریعے بلایا ، یا یہ کہ خود انہوں نے عثمان سے پوچھا کہ نبی {ص} نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی {ص} نے فرمایا میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تھا تو میں نے مینڈھے کے دو سینگ وہاں دیکھے تھے ، میں تمہیں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ انہیں ڈھانپ دو ، لہذا اب جا کر انہیں ڈھانپ دینا کیونکہ بیت اللہ میں کسی ایسی چیز کا ہونا مناسب نہیں ہے جو نماز کو غافل کردے ، راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں سینگ خانہ کعبہ میں ہی رہے ، اور جب بیت اللہ کو آگ لگی تو وہ بھی جل گئے ( مسند احمد ۔ جلد ششم ۔ حدیث 2445 )
اسی طرح ابن عباس {رض} سے بھی مروی ہے کہ مینڈھے کا سر ہمیشہ سے کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکا رہتا تھا اور وہ خشک ہوچکا تھا ۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابراہیم {ع} کے دو بیٹے تھے ، ایک اسماعیل {ع} اور دوسرے اسحاق {ع} ۔
یہود کا گمان ہے کہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے والے اسحاق {ع} ہیں ۔ ان کے قول کے مطابق اللہ نے ابراہیم {ع} کو اسحاق {ع} کے ذبح کا حکم فرمایا ، تورات میں بھی لفظ اسحاق آیا ہے
اور یہ بات کہ وہ اسحاق {ع} ہی تھے اس بات کو بھی دلیل بناتے ہیں کہ جب ذبح کرنے کا حکم آیا تھا تو اس وقت ان کا بیٹا ان کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا تھا یعنی ان کے ساتھ رہتا تھا جبکہ اسماعیل {ع} تو اپنی والدہ کے ساتھ سکونت پذیر تھے ، وہ ابراہیم {ع} کے پاس نہ تھے
لیکن مسلمان اہل علم کہتے ہیں کہ ذبیح اللہ سماعیل {ع} ہیں اور تورات میں لفظ اسحاق تحریف شدہ ہے اوراس کا اضافہ جھوٹ اور بہتان ہے
اہل کتاب کو اس بات پر عرب سے حسد نے ابھارا ہے ۔ کیونکہ اسماعیل {ع} عرب کے باپ ہیں ۔ وہ عرب جو حجاز مقدس میں رہتے تھے ۔ اور ان ہی میں سے ہمارے نبی محمد {ص} ہیں
چونکہ اسحاق {ع} یعقوب {ع} کے والد ہیں اور یعقوب {ع} کا لقب اسرائیل تھا جس کی طرف بنی اسرائیل منسوب ہیں تو اس لئے بنی اسرائیل نے چاہا کہ یہ شرف و مرتبہ اپنی طرف کھینچ لیں ۔ پھر اس مذموم مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے اللہ کی کتاب کو بھی بدل ڈالا ۔ اور اس میں اپنی طرف سے زیادتی کی ۔ قوم بنی اسرائیل بہتان باندھنے والی جھوٹی قوم ہے جو اپنے حسد کی بناء پر یہ اقرار نہیں کرتی کہ فضل و شرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہے عطا فرمائے ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ( سورۃ ھود 71 ) "
حضرت قعب قرظی {رح} نے اس آیت سے بہت بہترین استدلال نکالا ہے کہ جب اللہ نے ابراہیم {ع} کو اسحاق {ع} کی پیدائش سے پہلے ہی اسحاق {ع} کی خوشخبری اور اس کے بعد اسحاق{ع} سے یعقوب [ع} کی خوشخبری یعنی بیٹے کی پیدائش سے پہلے ہی پوتے کی پیدائش کی خوشخبری دے دی تو پھر اسحاق {ع} کی قربانی کا حکم ابراہیم {ع} کے لیے آزمائش ہی نہیں رہی کیونکہ ابراہیم {ع} کو پہلے علم ہوچکا تھا کہ ابھی اسحاق سے یعقوب کا جنم لینا باقی ہے لہذا اسحاق ذبح نہیں ہونگے ۔ تو اس بات سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل {ع} ہیں نہ کہ یعقوب {ع}
اس کے باوجود بعض سلف اس بات کے قائل ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق {ع} تھے ۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ اکرام {رض} سے بھی یہ مروی ہے اس بات کو انہوں نے یا تو کعب احبار سے نقل کیا ہے یا تو اہل کتاب کے صحیفوں سے لیا ہے
اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والے کون تھے ؟
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
قرآن کی سورۃ الصافات میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی نیک لوگوں میں سے ہوگا ( 112 )
اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں ، اور ان کی اولاد میں سے کوئی نیک بھی ہیں اور کوئی اپنے آپ پر کھلم کھلا ظلم کرنے والے ہیں ( 113 )
قرآن کی سورۃ ھود میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
اور ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ، انہوں نے کہا سلام ، اس نے کہا سلام ، پس دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا ( 69 )
پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس تک نہیں پہنچتے تو انہیں اجنبی سمجھا اور ان سے ڈرا ، انہوں نے کہا خوف نہ کرو ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ( 70 )
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ( 71 )
وہ بولی اے افسوس کیا میں بوڑھی ہو کر جنوں گی اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے ، یہ تو ایک عجیب بات ہے ( 72 )
انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ، تم پر اے گھر والو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ، بے شک وہ تعریف کیا ہوا بزرگ ہے ( 73 )
قرآن کی سورۃ الحجر میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال سنا دو ( 51 )
جب اس کے گھر میں داخل ہوئے اور کہا سلام ، اس نے کہا بے شک ہمیں تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے ( 52 )
کہا ڈرو مت بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری سناتے ہیں جو بڑا عالم ہوگا ( 53 )
کہا مجھے اب بڑھاپے میں خوشخبری سناتے ہو ، سو کس چیز کی خوشخبری سناتے ہو ( 54 )
انہوں نے کہا ہم نے تمہیں سچی خوشخبری سنائی ہے سو تو نا امید نہ ہو ( 55 )
کہا اپنے رب کی رحمت سے نا امید تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ( 56 )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
یہ تین فرشتے تھے ۔ جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل {ع} ۔ جب یہ حضرت ابراہیم {ع} کے پاس تشریف لائے تو ابراہیم {ع} نے دیکھتے ہی ان کو مہمان سمجھا ۔ لہذا پھر ان کے ساتھ مہمانوں والا برتاؤ اور خاطر تواضع شروع کردی ۔ اور اپنی گایوں میں سے ایک بہترین عندہ موٹا بچھڑا ان کے لیے ذبح کیا ۔ لیکن ابراہیم {ع} نے دیکھا کہ ان کا تو کھانا کھانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے ۔ تو ابراہیم {ع} نے ان سے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہ دشمن تو نہیں کیونکہ دشمن ایک دوسرے کا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ فرشتوں نے ابراہیم {ع} کی اس کیفیت کو بھانپ لیا اور کہا " خوف نہ کیجئے ، ہم تو فرشتے ہیں اور قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ تاکہ ان پر عذاب برسائیں "
اس وقت سارہ {ع} بھی وہیں کھڑی تھیں ۔ جیسا کہ عرب کے یہاں مہمانوں کے ساتھ اس وقت کا رواج تھا ۔ جب سارہ {ع} نے عذاب کی خبر سنی تو ان پر خوف کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ اور منہ سے بےساختہ ایک عجیب سی آواز نکلی ۔ جس پر فرشتوں نے ان کا خوف ختم کرنے کے لیے اللہ کے حکم سے اسحاق {ع} کی خوشخبری اور اسحاق کے بعد یعقوب {ع} کی خوشخبری سنائی ۔ ہاجری {ع} مزید تعجب میں آگئیں
اور کہنے لگیں " ہائے افسوس کیا اب میں کسی اولاد کو جنم دونگی جبکہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہوچکے ہیں " یعنی ان کا مطلب تھا ایک تو میں بڑھیا اور میرے شوہر بھی بوڑھے اوپر سے میں بانجھ بھی ہوں تو کیسے مجھے اولاد ہوگی ، یہ بات تو میرے لیے تعجب والی ہے
اس پر فرشتے بولے " کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ؟ ۔ جبکہ اے نبی کے گھر والوں تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اترتی رہتی ہیں ۔ بےشک اللہ تعریف کے لائق ہے ، وہ بزرگی والا ہے اور اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں "
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ان خوشخبریوں پر جیسے سارہ {ع} تعجب میں آئیں ویسے ہی ابراہیم {ع} کو بھی تعجب میں آنا ہی تھا ۔ وہ بھی فرشتوں سے بول اٹھے " جس اولاد کی میں نے تمنا اور دعائیں کی تھیں کیا تم مجھے اس کی خوشخبری دیتے ہو جبکہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا ہے ، پھر کس چیز کی خوشخبری دے رہے ہو ؟ "
فرشتوں نے جواب دیا " ہم آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دے رہے ہیں لہذا آپ مایوس ہونے والوں میں سے نہ ہوں "
اس طرح فرشتوں کے جواب نے ابراہیم {ع} کو مزید مضبوط کردیا ۔ دونوں میاں بیوی کو بچے کی خوشخبری نے سرشار کردیا ۔ ابراہیم {ع} اس خبر کو سن کر سجدہ ریز ہوگئے
جیسا کہ قرآن ہی میں ایک اور جگہ آتا ہے کہ اللہ نے پہلے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بھی دی جس سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ ابراہیم {ع} اور سارہ {ع} اپنے بیٹے اسحاق {ع} سے نفع اٹھائیں گے جس کے بعد اسحاق کے یہاں یعقوب {ع} جنم لیں گے ۔ وہ ان سے یعنی اپنے پوتے سے بھی نفع اٹھائیں گے ۔
اسحاق اور یعقوب ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہونگے ۔
" پھر جب علیحدہ ہوا ان سے اور اس چیز سے جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا ، اور ہم نے ہر ایک کو نبی بنایا ( سورۃ مریم 49 ) "
اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے
صحيح البخاری میں ہے ابوذر {رض} نے نبی اپک {ص} سےعرض کیا : یا رسول اللہ ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے ؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ مسجد الحرام ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اور اس کے بعد ؟ ۔ فرمایا کہ مسجد الاقصی ( بیت المقدس ) ۔ انہوں نے عرض کیا ، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے ؟ ۔ آپ {ص} نے فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے ۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے ۔
اور اہل کتاب کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کی بنیاد یعقوب {ع} نے رکھی ۔
تو اس سے معلوم ہوا ابراہیم {ع} کے کعبتہ اللہ بنانے کے چالیس سال بعد ان کے پوتے نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ۔ ظاہر یہی ہے کہ یعقوب {ع} ابراہیم {ع} کی زندگی ہی میں پیدا ہوئے تھے ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اللہ اپنے بندے ، اپنے رسول ۔ اپنے دوست ، موحدین کے امام ، انبیاء کے والد ماجد یعنی ابراہیم {ع} کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہوں نے قدیم گھر کی تعمیر فرمائی جس کو تمام لوگوں کے فائدے کے واسطے سب سے پہلی مسجد و گھر ہونے کا شرف حاصل ہے تاکہ لوگ آئیں اور اس میں اپنے معبود برحق کی پرستش کریں ۔ اور ابراہیم {ع} کو اس گھر کی تعمیر کا حکم اور رہنمائی اور اس کو بنانے میں مدد سب اللہ عزوجل کی طرف سے حاصل ہوئی
قرآن کی سورۃ الحج میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے کعبہ کی جگہ معین کر دی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ ( 26 ) اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں ( 27 ) "
قرآن کی سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے ( 96 ) اس میں ظاہر نشانیاں ہیں مقام ابراھیم ہے ، اور جو اس میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے ، اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو ، اور جو انکار کرے تو پھر اللہ جہان والوں سے بے پروا ہے ( 97 ) "
قرآن کی سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نے انہیں پورا کر دیا ، فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا ، کہا اور میری اولاد میں سے بھی ، فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ( 124 ) اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا ، مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ ، اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو ( 125 ) اور جب ابراھیم نے کہا اے میرے رب اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے رہنےو الوں کو پھلوں سے رزق دے جو کوئی ان میں سے اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ، فرمایا اور جو کافر ہوگا سو اسے بھی تھوڑاسا فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں دھکیل دوں گا ، اور وہ برا ٹھکانہ ہے ( 126 ) اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے ( 127 ) اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا ، اور ہمیں ہمارے حج کے طریقے بتا دے اور ہماری توبہ قبول فرما ، بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے ( 128 ) اے ہمارے رب ! اور ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے ، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ( 129 ) "
 
Top