• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
علی بن ابی طالب {رض} سے مروی ہے کہ اللہ نے ابراہیم {ع} کو وحی فرمائی تھی کہ کعبتہ اللہ بیت معمور کے عین مقابل اور سامنے ہے ۔ بیت معمور آسمانوں میں فرشتوں کے لیے بیت اللہ و کعبتہ اللہ ہے جس کے ارد گرد ہر آن میں ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں اور پھر کسی فرشتے کی دوبارہ قیامت تک طواف کی باری نہیں آتی تو اس بیت معمور کے مقابل زمین پر کعبتہ اللہ ہے
اسی طرح ساتوں آسمانوں میں عبادت خانے یعنی مساجد ہیں جیسا کہ بعض بزرگوں نے بیان فرمایا کہ ہر آسمان میں ایک گھر ہے جس میں آسمان والے عبادت کرتے ہیں اور بیت معمور آسمانوں میں ایسے ہی ہے جیسے زمین پر کعبتہ اللہ ۔ واللہ اعلم
پھر اللہ نے ابراہیم {ع} کو حکم فرمایا کہ فرشتوں کے عبادت گھروں جیسا ایک گھر زمین والوں کے لیے زمین میں بناؤ ۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو بیت اللہ کی پہلے سے متعین جگہ سمجھا دی جو آسمانوں اور زمین کے پیدائش کے وقت سے متعین تھی ۔
رسول اللہ {ص} سے کہیں بھی مروی نہیں ہے کہ بیت اللہ ابراہیم {ع} کے بنانے سے قبل تعمیر شدہ تھا
اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ بنا ہوا تھا انہوں نے مَكَانَ الْبَيْتِ سے استدلال کیا یعنی اس کا مطلب لیا کہ پہلے سے وہاں عمارت یا گھر تھا
لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے وہاں عمارت کی جگہ پہلے سے اللہ کے علم اور ارادے میں بیت اللہ کے لیے مقرر تھی اور حضرت آدم {ع} سے ابراہیم {ع} تک تمام کے نزدیک وہ جگہ مبارک اور عظمت والی تھی ۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
کہتے ہیں آدم {ع} نے اس جگہ پر ایک قبہ سا بنایا تھا اور فرشتوں نے ان سے کہا تھا ہم آپ سے پہلے اس گھر کا طواف کر چکے ہیں اور کشتی نوح نے بھی تقریبا چالیس دن اس گھر کا طواف کیا تھا ۔ مگر یہ سب باتیں بنی اسرائیل سے مروی ہیں ۔ واللہ اعلم
اللہ تعالی فرماتا ہے " بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے ( سورۃ آل عمران 96 ) "
یعنی عام لوگوں کی ہدایت و برکت کے واسطے پہلا گھر جو بنایا گیا وہ مکہ میں ہے ۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ۔ مقام ابراہیم ہے ۔ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم {ع} نے کعبے کی دیواروں کو بلند کیا تھا ۔ پہلے نیچے کھڑے ہوکر تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں بلند ہونا شروع ہوئیں تو اس کا سہارا لیا تھا اور یہ پتھر اسماعیل {ع} نے لاکر رکھا تھا
پھر یہ پتھر اس زمانے سے عمر فاروق {رض} کے دور خلافت تک کعبے کی دیوار کے ساتھ چپکا رہا ۔ پھر عمر {رض} نے اس کو تھوڑا وہاں سے دور کردیا تاکہ طواف کے وقت رکاوٹ نہ ہو ۔
کئی کاموں میں اللہ تعالی نے عمر {رض} کے فیصلوں کی موافقت اور تائید فرمائی ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ عمر {رض} نے نبی پاک {ص} کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر ہم مقام ابراہیم پر نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوجائے ، لیکن نبی پاک {ص} خاموش رہے پھر اللہ نے قرآن میں نازل فرما دیا " وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى " یعنی اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} نے سب سے عظیم و اشرف مسجد بنائی اور زمین کے سب سے اشرف ٹکڑے پر بنائی ۔ پھر اپنے اہل کے لیے وہاں برکت کی دعا کی اور دنیاوی رزق حلال کی بھی کہ اللہ ان کو پھلوں سے رزق عطا فرمائے ۔ کیونکہ یہ زمین پانی ، درختوں ، پھلوں اور کھیتوں سے بالکل خالی تھی اور یہ بھی درخواست کی کہ اس علاقے کو محترم حرم بنادے اور امن و امان کا گہوارہ بنادے
پھر اللہ نے اپنے دوست کی درخواست و التجا کو قبول فرمایا ، بےشک اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں ، وہ ہی پکارنے والوں کی فریاد سنتا ہے ۔ اللہ نے ابراہیم {ع} کی دعا کو قبول فرمایا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے " اور کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں ، کیا ہم نے انہیں حرم میں جگہ نہیں دی جو امن کا مقام ہے جہاں ہر قسم کے میووں کا رزق ہماری طرف سے پہنچایا جاتا ہے لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے ( سورۃ القصص 57 ) "
ان دعاؤں کے علاوہ ابراہیم {ع} نے ایک بہت بڑی اور پیاری دعا بھی فرمائی تھی کہ اللہ عزوجل ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیج دے جو انہی کی زبان کا ہو یعنی عرب سے ہو ، تاکہ اس طرح ان پر دین و دنیا دونوں عالم کی نعمتیں پوری ہوجائیں
اور اللہ نے اپنے دوست کی یہ خواہش اور مراد بھی پوری فرمادی اور ایک رسول ان میں یعنی مکہ والوں میں بھیج دیا
وہ رسول جس کے ساتھ انبیاء اور رسولوں کا سلسلہ ختم فرما دیا ۔ وہ رسول جس کو مکمل دین عطا فرما دیا جو اس سے پہلے کسی کو نہیں عطا کیا گیا ۔ اس عظیم رسول کی دعوت پوری روئے زمین کے لیے عام کردی ، خواہ وہ زمین والے کسی زبان کے ہوں ، کسی علاقے کے ہوں یا کسی ہی صفات کے حامل ہوں ۔ قیامت تک تمام شہروں ، علاقوں اور تمام اطراف میں اس رسول کی نبوت رکھ دی گئی ۔ اس عظیم پیغمبر کی تمام پیغمبروں اور رسولوں کے درمیان خاصیت تھی ۔ کیونکہ اس میں بہت سے شرف اور اعزاز اکٹھے ہوئے ، اس کی ذات کا شرف و مرتبہ اس کے ساتھ بھیجی گئی کتاب ، اس کی زبان تمام روئے زمین کی سردار ، اس عظیم پیغمبر کی اپنی گناہ گار امت پر انتہائی نرمی و شفقت لطف و رحمت ، اس کے ماں باپ بھی عظیم اور اس کی جائے پیدائش بھی عظیم
اسی وجہ سے کہ ابراہیم {ع} نے اللہ کے گھر کی بنیاد رکھی تو اللہ نے بھی ان کی اولاد میں اس عظیم رسول یعنی محمد {ص} کو پیدا فرما دیا
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر درود بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے اور محمد اور آل محمد پر اپنی برکت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہے ، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگ ہے
سدی {رح} کا قول ہے کہ جب اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} اور اسماعیل {ع} کو اپنے گھر کو بنانے کا حکم فرمایا تو ان کو پتہ نہ چلا کہ اس کی جگہ کون سی ہے ۔ حتی کہ اللہ نے ہوا بھیجی جس کو خجوج کہا جاتا ہے اس کے دو پر تھے اور سر تھا اور وہ سانپ کے شکل میں تھی اور اس نے کعبہ کے ارد گرد کی جگہ کو صاف کردیا اور پہلی بنیادیں ظاہر کردیں ۔ پھر ابراہیم {ع} اور اسماعیل {ع} نے وہاں کھدائی کی حتی کہ بنیادیں رکھ دیں ۔ پھر جب بنیادیں اٹھ چکیں اور رکن بنانے لگے تو ابراہیم {ع} نے اسماعیل {ع} کو کو کہا " اے میرے بیٹے ! کوئی عمدہ حسین پتھر لاؤ جس کو میں یہاں رکھوں " ۔ اسماعیل {ع} جو کام کرکے تھک چکے تھے عرض کیا " میں مشقت کی وجہ سے سست ہوچکا ہوں " تو ابراہیم {ع} بولے " چلو میں اس کا بندوبست کرتا ہوں " پھر ابراہیم {ع} کے پاس جبرائیل {ع} ہند سے حجر اسود لے کر آئے جو اس وقت اسود نہیں تھا بلکہ سفید یاقوت تھا اور انتہائی سخت سفید تھا ثغامہ کی گھاس کی طرح ۔ آدم {ع} اس پتھر کو جنت سے لے کر اترے تھے اور اب یہ پتھر لوگوں کی خطاؤں کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہے ۔ اتنے میں اسماعیل {ع} بھی دوسرا پتھر لے آئے ۔ جب اپنا لایا ہوا پتھر ابراہیم {ع} کے پاس لائے تو وہاں حجر اسود کو دیکھا تو پوچھا " ابا جان یہ پتھر کون لایا ؟ "
ابراہیم {ع} نے فرمایا " اس کو تجھ سے زیادہ چست شخص لایا ہے "
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے کہ کعبتہ اللہ پانچ پہاڑوں یعنی حرا طور ، زیتا ، حیل ، لبنان اور طور سینا کے پتھروں سے بنایا گیا ہے ۔ واللہ اعلم
آگے فرمایا اس وقت ذوالقرنین زمین کے بادشاہ تھے اور وہ ان کے پاس سے گزرے اور یہ تعمیر میں مصروف تھے پوچھا کس نے تم کو اس کا حکم کیا ؟ ۔ ابراہیم {ع} نے فرمایا " اللہ نے ہم کو اس کا حکم فرمایا ہے " پوچھا تمہاری بات کی مجھے تصدیق کون کرے گا ؟ ۔ تو پانچ مینڈھوں نے گواہی دی جس کا حکم ان کو اللہ نے فرمایا تھا ۔ تو ذوالقرنین ایمان لے آئے اور تصدیق کردی ۔
ازرقی {رح} فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین نے ابراہیم {ع} کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا اور پھر عرصہ دراز تک بیت اللہ اسی طرح ابراہیم {ع} کی تعمیر پر برقرار رہا پھر قریش نے اس کی نئی تعمیر کی لیکن ابراہیم {ع} کی بنیادوں سے جانب شمال جو شام کی طرف ہے ، کم کردیا
صحيح البخاری میں عائشہ {رض} سے مروی ہے کہ نبی پاک {ص} نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بےشک ایسا کر دیتا ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
صحيح البخاری میں ہے ۔ ۔ ۔ ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین عائشہ {رض} نے کہ رسول اللہ {ص} نے فرمایا ، عائشہ ! اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا ، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ اس حصہ کو بھی داخل کر دوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کر دوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں ، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں ۔ اس طرح ابراہیم {ع} کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہو جاتی ۔ عبداللہ بن زبیر{رض} کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا ۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبداللہ بن زبیر {رض} نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اندر کر دیا تھا ۔ میں نے ابراہیم {ع} کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے ۔ جریر بن حازم نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا ، ان کی جگہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں ۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے ۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہو گی یا ایسی ہی کچھ ۔
عبداللہ بن زبیر {رض} نے اپنے زمانے میں اسی طریقے پر کعبہ کو بنایا تھا ۔ جیسا رسول اللہ {ص} کی خواہش تھی جس کی خبر ان کو ان کی خالہ عائشہ {رض} نے دی تھی ۔ پھر جب حجاج نے تہتر ہجری میں ان کو شہید کر ڈالا تو خلیفہ عبدالملک بن مردان کو کعبہ کی نئی تعمیر کے متعلق لکھا تو خلیفہ نے خیال کیا کہ کعبہ کی اس طرح کی تعمیر عبداللہ بن زبیر {رض} نے اپنی طرف سے کی ہے لہذا اس کو واپس اپنی حالت میں لوٹانے کا حکم کر دیا ۔ اور پھر دوبارہ شامی دیوار کو توڑ دیا ، پتھر اس سے نکال دیے اور دیوار بند کردی اور کعبہ کے اندر پتھر بھر دیے اور باب شرقی بلند کردیا اور غربی بالکل بند کردیا
بعد میں جب عبدالملک بن مردان کو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر {رض} کو اس تعمیر کا عائشہ {رض} نے بتایا تھا اور یہ تعمیر رسول اللہ {ص} کی خواہش کے مطابق تھی تو اپنے کئے پر سخت نادم ہوا اور افسوس کیا کہ کاش کعبہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیتے تو بہتر ہوتا ۔
پھر جب مہدی بن منصور کا زمانہ خلافت آیا تو انہوں نے امام مالک بن انس {رح} سے مشورہ کیا کہ کعبتہ اللہ کو عبداللہ بن زبیر {رض} کی تعمیر کردہ صورت پر لوٹا دیا جائے تو کیسا ہے ؟
مالک بن انس نے فرمایا " مجھے ڈر ہے کہ خلفاء اس کو کھیل بنالیں گے یعنی جب کوئی بادشاہ آئے گا تو اپنے خیال کے مطابق اس کو بنائے گا ۔ لہذا امام نے اس کو اسی حالت پر برقرار رہنے دیا ۔ جس پر آج تک ہے
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
قرآن میں میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور ہم نے نوح اور ابراھیم کو بھیجا تھا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی تھی ، پس بعض تو ان میں راہ راست پر رہے ، اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں ( سورۃ الحدید 26 ) "
سورۃ الانعام میں اللہ عزوجل نے فرمایا " اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا ، ہم نے سب کو ہدایت دی ، اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی ، اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسی اور ہارون ہیں ، اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں ( 84 ) اور زکریا اور یحیی اور عیسی اور الیاس ، سب نیکوکاروں میں سے ہیں ( 85 ) اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط ، اور ہم نے سب کو سارے جہان والوں پر بزرگی دی ( 86 ) "
لہذا جو بھی آسمانی کتاب نازل کی گئی کسی بھی پیغمبر پر ، وہ حضرت ابراہیم {ع} کے بعد نازل کی گئی اور آپ کی اولاد ہی میں سے کسی پیغمبر پر نازل ہوئی ۔ اور یہ ایسا عظیم مرتبہ عطا فرمایا ہے جس کا مقابلہ ممکن نہیں
یہ یوں ہوا کہ اللہ نے ابراہیم {ع} کی پشت سے دو عظیم صالح لڑکے عطا فرمائے ۔ اسماعیل {ع} ہاجرہ {ع} سے پھر اسحاق {ع} سارہ {ع} سے اور آگے اسحاق {ع} سے یعقوب {ع} پیدا ہوئے ۔ اور انہی کا لقب اسرائیل ہے اور انہی میں سے انبیاء کے تمام گروہ ہیں
ان میں نبوت بھی چلی اور بہت چلی ، حتی کہ ان کے انبیاء کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا سوائے اس ذات کے جس نے ان انبیاء کو مبعوث کیا اور ان کو رسالت و نبوت کے ساتھ خصوصیت مرحمت فرمائی ۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے انبیاء کا یہ سلسلہ عیسی {ع} پر پہنچ کر ختم ہوا
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اور دوسری طرف اسماعیل {ع} ہیں ان کی اولاد میں عرب کی مختلف جماعتیں ہی پیدا ہوئیں اور ان میں سے کوئی نبی نہ ہوا سوائے ایک نبی کے ۔
ایک نبی جنہوں نے آ کر تمام انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا ۔ وہ آدم کی تمام اولاد کے سردار بنے ۔ اور وہ بنی آدم کے لیے سرمایہ افتخار ثابت ہوئے ۔
یعنی محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم قریشی {ص}
تو حضرت اسماعیل {ع} کی پشت میں پوری شاخ کے اندر سوائے اس عظیم خزانے ، اور قیمتی موتی ، اور بیش قیمت ہار کے اور کوئی نہیں آیا ۔ اور یہی وہ تمام گروہوں ، جماعتوں کے سردار ہیں جن پر قیامت کے روز اولین و آخرین سب کے سب رشک کرتے ہونگے
صحيح البخاری میں ہے ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} حسن و حسین {رض} کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق {ع} کے لیے مانگا کرتے تھے ۔ " میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے " ۔
نبی پاک {ص} نے ابراہیم {ع} کی خوب تعریف فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ {ص} کے بعد ابراہیم {ع} تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں اور وہ بھی دونوں جہاں میں ۔ اس عالم فانی میں بھی روز قیامت بھی ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اللہ تعالی فرماتا ہے " اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا ، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے ؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے ، فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے ، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے ( سورۃ البقرۃ 260 ) "
حضرت ابراہیم {ع} نے جب یہ سوال بارگاہ الہی میں پیش کیا کہ اے پروردگار مجھے دکھائیں کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ فرمائیں گے ؟ تو اللہ نے ان کی درخواست کو قبول فرمایا ۔ اور چار پرندے لینے کا حکم دیا ۔ وہ پرندے کون کون سے ہیں ان کے بارے میں اختلاف ہے اور کئی اقوال ذکر کئے گئے ہیں ، مگر ہر صورت میں مقصود سب سے حاصل ہوجاتا ہے ۔ پھر اللہ نے ابراہیم {ع} کو ان پرندوں کے ٹکرے ٹکرے کرنے کا حکم دیا ، پھر ان ٹکروں کو مختلف پہاڑوں پر دور دور پھیلانے کا حکم دیا اور پھر ان پرندوں کو بلانے کا حکم فرمایا
حضرت ابراہیم {ع} نے اسی طرح ان کو بلایا تو ہر پرندے کا عضو اس پرندے کے ساتھ آکر مل گیا حتی کہ ہر پر اپنے دوسرے پر کے ساتھ مل کر اپنے پرندے کے ساتھ جڑ گیا الغرض سب پرندوں کا جسم بالکل پہلی حالت پر آگیا ۔ ابراہیم {ع} اس دوران اللہ کی قدرت کا مشاہدہ فرماتے رہے جس قدرت کا مطلب ہے کہ اللہ جس چیز کو " ہوجا " فرما دیتے ہیں وہ فورا ہوجاتی ہے
یقینا ابراہیم {ع} اللہ کی مردے کو دوبارہ زندہ کر دینے کی قدرت کو خوب یقین کے ساتھ جانتے تھے جس میں کوئی شک نہیں لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کو پسند فرمایا تاکہ علم الیقین سے عین الیقین کی طرف ترقی کریں لہذا اللہ نے ان کو قبول فرمایا اور ان کی خواہش پوری فرما دی ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
قرآن میں سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اے اہل کتاب ! ابراھیم کے معاملہ میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو اس کے بعد اتری ہیں ، کیا تم یہ نہیں سمجھتے ( 65 ) ہاں تم وہ لوگ ہو جس چیز کا تمہیں علم تھا اس میں تو جھگڑے ، پس اس چیز میں کیوں جھگڑتے ہو جس چیز کا تمہیں علم ہی نہیں ، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ( 66 ) ابراھیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن سیدھے راستے والے مسلمان تھے ، اور مشرکوں میں سے نہ تھے ( 67 ) لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراھیم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی تابعداری کی ، اور یہ نبی اور جو اس نبی پر ایمان لائے ، اور اللہ ایمان والوں کا دوست ہے ( 68 ) "
یہود و نصاری کا دعوی تھا کہ ابراہیم {ع} ان کے دین پر تھے ۔ اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو ان سے بری کردیا ۔ کیونکہ اللہ نے تورات اور انجیل کو ابراہیم {ع} کے بعد نازل فرمایا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ابراہیم {ع} یہود یا نصاری کے دین پر ہوں
اللہ تعالی یوں فرماتا ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی ، بلکہ ان سب سے بےتعلق ہوکر ایک اللہ کے پیروکار تھے اور " دین حنیف " پر تھے ۔ دین حنیف کہتے ہیں جس سے اخلاص مقصود ہو اور جان بوجھ کر باطل سے حق کی جانب آیا جائے اور دین حنیف یہودی ، عیسائی اور مشرکین کے مذہب کے بالکل خلاف ہے ۔ اسی کو اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا اور ابراہیم {ع} نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی
تو اللہ نے ابراہیم {ع} کو یہودیت اور نصرانیت دونوں سے بالکل جدا قرار دیا اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے
محمد {ص} کے لیے بھی اللہ نے وہی دین مقرر فرمایا جو ابراہیم {ع} کے لیے فرمایا تھا ۔ بلکہ اللہ تعالی نے محمد {ص} کے ہاتھوں پر اس دین کو مزید اضافے اور زیادتی کے ساتھ مکمل فرما دیا اور محمد {ص} کو وہ کچھ عطا فرمایا جو اور کسی نبی یا رسول کو دیا گیا ۔ جیسے اللہ نے سورۃ الانعام میں فرمایا " کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے ، ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا ، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا ( 161 ) کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے ( 162 ) اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں ( 163 ) "
 
Top