محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا اپنے دانت توڑنا :
Last edited:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!السلام علیکم و رحمت الله -
اویس قرنی رح کے وجود کے بارے میں اختلاف ہے -
امام بخاری نے "کتاب الضعفاء" میں میں حضرت اویس قرنی کو "فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے] کہد دیا ہے-
لیکن الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
اویس قرنی رحمہ اللہ والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ امام بخاری کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔
(11؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ) [الحدیث:۲۲]
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ج۲،ص۲۷۸)
ان کے بارے میں مسلم میں روایت ہے کہ:
ان خیرالتابعین رجل یقال لہ أویس، ولہ والدۃ ، وکان بہ بیاض، فمروہ فلیستغفرلکم)
''تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں ، اس کی والدہ (زندہ) ہے اور اس کے (جسم میں) سفیدی ہے ۔ اس سے کہو کہ تمہارے لیے دعا کرے ۔'' (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اویس قرنی ، ح۲۵۴۲وترقیم دارالسلام:۶۴۹۱)
مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ دانت توڑنے والی روایت من گھڑت ہے۔ لیکن اس موضوع حدیث کی وجہ سے سیدنا اویس قرنی سے متعلق دیگر بہت ساری صحیح احادیث مبارکہ من گھڑت کیسے ہوگئیں؟؟؟ یا للعجب!لیکن کچھ معاملات اسے ہیں جن کی بنا پر بیشتر اہل علم نے ان (اویس قرنی رح) کے وجود سے ہی انکار کیا ہے -جو درجہ ذیل ہیں
١- یہ روایت کہ سیدنا اویس بن عامر القرنی رحمہ اللہ نے اپنے تمام دانت توڑ دئیے تھے ، بے اصل اور من گھڑت روایت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہو گئی ہے ۔ محدثین کی کتابوں میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔
اس اعتراض کی سمجھ نہیں آئی؟!٢-نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم نے خبر دی کہ ان کا تعلق عراق کے ایک قبیلے "قرن " سے ہے -
تو صحیح مسلم ودیگر کتب کی جن صحیح احادیث کا آپ انکار کر رہے ہیں ان میں بھی یہ بات موجود نہیں کہ سیدنا عمر اور علی رضی اللہ عنہما نے اویس قرنی رحمہ اللہ کیلئے عراق کا سفر کیا تھا؟؟! اگر ان صحیح روایات میں یہ بات ہوتی تو ہمیں اسے تسلیم کیے بغیر چارا نہ ہوتا۔٣-نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو امّت کی شفاعت کے لئے ان سے دعا کروانا -سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا ان سے استغفار ( دعا کی درخواست) کرانا مذکور ہے (صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۶۴۹۲ )-
جب کہ کسی صحیح اسلامی تاریخ حوالے سے ثابت نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کبھی کسی دور میں عراق گئے تھے -اگر ایسا تھا تو اس کا ذکر کسی اسلامی تاریخ حوالے میں ضرور ملتا کہ -سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ عراق کا سفر کیا ہو اویس قرنی رح سے ملنے کے واسطے -
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شفاعت کا حق صرف نبی کریمﷺ کو حاصل ہے؟؟!! اللہ تعالیٰ روز قیامت شفاعت کرنے کا اعزاز انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ فرشتوں اور نیک لوگوں کو بھی دیں گے اور امت محمدیہ میں صحابہ سے بڑھ کر افضل اور نیک مومن کون ہو سکتا ہے؟!٤-پھر یہ کہ امّت کی شفاعت کا حق الله نے خود نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو دیا ہے - تو پھرآپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اس حق کو ایک صحابی بھی نہیں بلکہ ایک تابعی کے حوالے کیوں کردیا؟؟
اگر بالفرض آپ کی بات صحیح بھی ہو تو اس سے سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کی صرف جنگ صفین میں شرکت مشکوک ہوگی!٥یہ بھی مشہور ہے کہ اویس قرنی رح جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله کے طرف سے لڑے - جب کہ کسی تاریخی حوالے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جنگ صفین میں موجود تھے - اہل سنّت کی اکثریت ان کو ولی الله مانتی ہے اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ الله کا ولی کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا - جب کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی فوج کو فتح حاصل ہوئی اور حضرت علی رضی الله کی فوج نے شکست کھائی تھی - یعنی اویس قرنی رح کی موجودگی بھی ان کو فتح نہ دلوا سکی -