• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا اپنے دانت توڑنا :

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
پھربھی اگر یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو ہم پر مرفوع حدیث یا اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی تابعی رحمہ اللہ کی اس کی ذاتی قول وفعل کی تابعداری لازم نہیں ہے ۔ یہ اس کی خطاء تصور کی جائے گی ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

اویس قرنی رح کے وجود کے بارے میں اختلاف ہے -

امام بخاری نے "کتاب الضعفاء" میں میں حضرت اویس قرنی کو "فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے] کہد دیا ہے-

لیکن الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
اویس قرنی رحمہ اللہ والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ امام بخاری کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔
(11؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ) [الحدیث:۲۲]
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ج۲،ص۲۷۸)
ان کے بارے میں مسلم میں روایت ہے کہ:

ان خیرالتابعین رجل یقال لہ أویس، ولہ والدۃ ، وکان بہ بیاض، فمروہ فلیستغفرلکم)
''تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں ، اس کی والدہ (زندہ) ہے اور اس کے (جسم میں) سفیدی ہے ۔ اس سے کہو کہ تمہارے لیے دعا کرے ۔'' (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اویس قرنی ، ح۲۵۴۲وترقیم دارالسلام:۶۴۹۱)


لیکن کچھ معاملات اسے ہیں جن کی بنا پر بیشتر اہل علم نے ان (اویس قرنی رح) کے وجود سے ہی انکار کیا ہے -جو درجہ ذیل ہیں

١- یہ روایت کہ سیدنا اویس بن عامر القرنی رحمہ اللہ نے اپنے تمام دانت توڑ دئیے تھے ، بے اصل اور من گھڑت روایت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہو گئی ہے ۔ محدثین کی کتابوں میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔

٢-نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم نے خبر دی کہ ان کا تعلق عراق کے ایک قبیلے "قرن " سے ہے -

٣-نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو امّت کی شفاعت کے لئے ان سے دعا کروانا -سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا ان سے استغفار ( دعا کی درخواست) کرانا مذکور ہے (صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۶۴۹۲ )-

جب کہ کسی صحیح اسلامی تاریخ حوالے سے ثابت نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کبھی کسی دور میں عراق گئے تھے -اگر ایسا تھا تو اس کا ذکر کسی اسلامی تاریخ حوالے میں ضرور ملتا کہ -سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ عراق کا سفر کیا ہو اویس قرنی رح سے ملنے کے واسطے -

٤-پھر یہ کہ امّت کی شفاعت کا حق الله نے خود نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو دیا ہے - تو پھرآپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اس حق کو ایک صحابی بھی نہیں بلکہ ایک تابعی کے حوالے کیوں کردیا؟؟

٥یہ بھی مشہور ہے کہ اویس قرنی رح جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله کے طرف سے لڑے - جب کہ کسی تاریخی حوالے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جنگ صفین میں موجود تھے - اہل سنّت کی اکثریت ان کو ولی الله مانتی ہے اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ الله کا ولی کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا - جب کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی فوج کو فتح حاصل ہوئی اور حضرت علی رضی الله کی فوج نے شکست کھائی تھی - یعنی اویس قرنی رح کی موجودگی بھی ان کو فتح نہ دلوا سکی -

٦-اویس فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی "بھیڑیا کے ہیں" اور قرن کے معنی "پہاڑی" کے ہیں - اویس قرنی یعنی "پہاڑی بھیڑیا" - کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو الله نے جب ان کے بارے میں خبر دی - تو آپ صل الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عمر رضی الله عنہ سے یہ کیوں نہ فرمایا کہ ان سے کہنا کہ اپنا نام تبدیل کر لیں - نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم جب بھی کسی ایسے انسان کا نام سنتے جس میں یا تو شرک کی آمیزش ہوتی یا وہ جانوروں کے معنی پر ہوتا تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم خود ہی اس کی تبدیل کردیتے تھے (احادیث نبوی میں اس کی متعدد مثالیں ہیں)

٧-امام بخاری رح نے اویس قرنی رح کو فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے قرار دیا] - اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ قابل اعتماد نہ ہو -تو پھر ایسے شخص سے امّت کی شفاعت کی دعا کروانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے -

٧-اویس قرنی رح زندگی میں اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے کبھی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے ملاقات کے لئےمدینہ نہیں آئے - جب کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا حال یہ تھا کہ اپنے ماں باپ کو نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کی ذات پر قربان کردیتے تھے-اویس قرنی رح اگر چاہتے تو کسی کو والدہ کی خبر گیری کے لئے چھوڑ کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو سکتے تھے یا خط و کتابت کر سکتے تھے-لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا - یہ ان کی نبی کریم سے کیسی محبّت تھی ؟؟

الغرض یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر کچھ علماء و مجتہدین نے ان کے مجہول ہونے پر دلالت کی ہے -کہ اس نام کے کسی شخص کا کی وجود تھا یا نہیں - اس معاملے میں مسلم کی روایت کو بھی جس میں اویس قرنی رح کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے اس کا بغور جائزہ لینا چاہیے - اور اس کی اسناد پر تحقیق کرنا ضروری ہے - (واللہ اعلم)-

نوٹ : میری یہ تحقیق حتمی نہیں - ممبران جو اس بارے میں علم رکھتے ہیں سے گزارش ہے کہ اس پر اپنا علمی موقف و تحقیق پیش کریں -

الله آپ سب کو جزاے خیر عطا کرے (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم انس صاحب آپ کے میری پوسٹ کے حوالے سے غیر متفق ہونے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میرے نوٹ کے مطابق ان سوالات کے جوابات مل جائیں تو نوازش ہو گی.
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم و رحمت الله -

اویس قرنی رح کے وجود کے بارے میں اختلاف ہے -

امام بخاری نے "کتاب الضعفاء" میں میں حضرت اویس قرنی کو "فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے] کہد دیا ہے-

لیکن الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
اویس قرنی رحمہ اللہ والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ امام بخاری کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔
(11؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ) [الحدیث:۲۲]
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ج۲،ص۲۷۸)
ان کے بارے میں مسلم میں روایت ہے کہ:

ان خیرالتابعین رجل یقال لہ أویس، ولہ والدۃ ، وکان بہ بیاض، فمروہ فلیستغفرلکم)
''تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں ، اس کی والدہ (زندہ) ہے اور اس کے (جسم میں) سفیدی ہے ۔ اس سے کہو کہ تمہارے لیے دعا کرے ۔'' (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اویس قرنی ، ح۲۵۴۲وترقیم دارالسلام:۶۴۹۱)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

محترم علی جواد بھائی! آپ کی کئی پوسٹس ایسی ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر آپ پر رشک آتا ہے۔ لیکن دوسری طرف کچھ ایسی پوسٹس بھی ہوتی ہیں کہ پڑھ کر انتہائی حیرت ہوتی ہے۔

تعجب اس بات پر ہے کہ آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اویس قرنی رحمہ اللہ کے متعلق احادیث مبارکہ صحیح مسلم ودیگر کتب احادیث میں موجود ہے اور پھر اس بات اعتراض بھی کر رہے ہیں؟؟؟

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو منہج سلف کے حامل علمائے حق کی رفاقت نصیب فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
لیکن کچھ معاملات اسے ہیں جن کی بنا پر بیشتر اہل علم نے ان (اویس قرنی رح) کے وجود سے ہی انکار کیا ہے -جو درجہ ذیل ہیں
١- یہ روایت کہ سیدنا اویس بن عامر القرنی رحمہ اللہ نے اپنے تمام دانت توڑ دئیے تھے ، بے اصل اور من گھڑت روایت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہو گئی ہے ۔ محدثین کی کتابوں میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔
مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ دانت توڑنے والی روایت من گھڑت ہے۔ لیکن اس موضوع حدیث کی وجہ سے سیدنا اویس قرنی سے متعلق دیگر بہت ساری صحیح احادیث مبارکہ من گھڑت کیسے ہوگئیں؟؟؟ یا للعجب!
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق اہل تشیع نے ضعیف وموضوع روایات کا انبار لگا رکھا ہے لیکن ان روایات کی بنا پر ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وجود سے ہی انکار کر دیں گے؟؟!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
٣-نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو امّت کی شفاعت کے لئے ان سے دعا کروانا -سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا ان سے استغفار ( دعا کی درخواست) کرانا مذکور ہے (صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۶۴۹۲ )-
جب کہ کسی صحیح اسلامی تاریخ حوالے سے ثابت نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کبھی کسی دور میں عراق گئے تھے -اگر ایسا تھا تو اس کا ذکر کسی اسلامی تاریخ حوالے میں ضرور ملتا کہ -سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ عراق کا سفر کیا ہو اویس قرنی رح سے ملنے کے واسطے -
تو صحیح مسلم ودیگر کتب کی جن صحیح احادیث کا آپ انکار کر رہے ہیں ان میں بھی یہ بات موجود نہیں کہ سیدنا عمر اور علی رضی اللہ عنہما نے اویس قرنی رحمہ اللہ کیلئے عراق کا سفر کیا تھا؟؟! اگر ان صحیح روایات میں یہ بات ہوتی تو ہمیں اسے تسلیم کیے بغیر چارا نہ ہوتا۔
صحیح مسلم وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کے متعلق نبی کریمﷺ کی پیش گوئی یہ تھی وہ تمہارے پاس يمن سے آئے گا، نہ کہ تم اس کے پاس جاؤ گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تھا اور نبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق ان سے دعا کرائی تھی۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
٤-پھر یہ کہ امّت کی شفاعت کا حق الله نے خود نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو دیا ہے - تو پھرآپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اس حق کو ایک صحابی بھی نہیں بلکہ ایک تابعی کے حوالے کیوں کردیا؟؟
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شفاعت کا حق صرف نبی کریمﷺ کو حاصل ہے؟؟!! اللہ تعالیٰ روز قیامت شفاعت کرنے کا اعزاز انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ فرشتوں اور نیک لوگوں کو بھی دیں گے اور امت محمدیہ میں صحابہ سے بڑھ کر افضل اور نیک مومن کون ہو سکتا ہے؟!

صحیح بخاری میں نبی کریمﷺ کا فرمان عالی شان ہے:
فيشفع النبيون والملائكة والمؤمنون ، فيقول الجبار : بقيت شفاعتي ۔۔۔ صحیح البخاری
کہ پھر انبیاء، فرشتے اور نیک لوگ سفارش کریں گے تو اللہ رب العٰلمین فرمائیں گے کہ میری سفارش باقی رہ گئی ۔۔۔

نہ کوئی شخص اپنی مرضی سے سفارش کر سکتا ہے نہ کوئی مخلوق اپنی مرضی سے کسی کو شفاعت کا حق سونپ سکتی ہے۔ نبی کریمﷺ کو بھی شفاعت کا حق اللہ نے دیا ہے اور اسی طرح نیک لوگوں (صحابہ کرام وتابعین عظام وغیرہم) بشمول سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کو بھی سفارش کا حق اللہ نے ہی دیا ہے، جس کی خبر اللہ کے حکم سے نبی کریمﷺ امت کو دے رہے ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
٥یہ بھی مشہور ہے کہ اویس قرنی رح جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله کے طرف سے لڑے - جب کہ کسی تاریخی حوالے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جنگ صفین میں موجود تھے - اہل سنّت کی اکثریت ان کو ولی الله مانتی ہے اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ الله کا ولی کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا - جب کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی فوج کو فتح حاصل ہوئی اور حضرت علی رضی الله کی فوج نے شکست کھائی تھی - یعنی اویس قرنی رح کی موجودگی بھی ان کو فتح نہ دلوا سکی -
اگر بالفرض آپ کی بات صحیح بھی ہو تو اس سے سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کی صرف جنگ صفین میں شرکت مشکوک ہوگی!
اس بنا پر ان کے وجود کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے، جبکہ وہ دیگر بہت ساری صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے؟!!
 
Top