• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ذکریا علیہ السلام کی موت

شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت ذکریا علیہ السلام کی موت کیسے ہوئی تھی اور کیا اس نے کسی درخت سے مدد یا پناہ مانگی تھی جس سے اللہ رب العالمین ناراض ہوئے تھے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
اس قصہ کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہودیوں کا بہتان ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام معصوم اور گناہوں سے پاک ہیں بلکہ ان کی عصمت کے بارے بعض روایات بھی مروی ہیں۔ شیخ صالح المنجد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وروى الإمام أحمد (2294) عن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (ما من أحد من ولد آدم إلا قد أخطأ ، أو همّ بخطيئة ؛ ليس يحيى بن زكريا) وصححه الشيخ أحمد شاكر في تعليقه على المسند ، والألباني في "الصحيحة" (2984) ، وقال الهيثمي في "مجمع الزوائد" : "رواه البزار ورجاله ثقات" ، وانظر : "التلخيص الحبير" (4/481) .

قال الإمام الشافعي رحمه الله :
"لا نعلم أحداً أعطي طاعة الله حتى لم يخلطها بمعصية إلا يحيى بن زكريا" .انتهى من "مختصر تاريخ دمشق" (8 / 195) .
وينظر : و"سبل السلام" (4 / 180) .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
"ما من بني آدم إلا من أخطأ ، أو هم بخطيئة ، إلا يحيى بن زكريا" انتهى من"مجموع الفتاوى" (14/461) .

امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو یا اس کا ارادہ نہ کیا ہو سوائے حضرت زکریا علیہ السلام کے۔ علامہ البانی اور شیخ احمد شاکر رحمہما اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
امام شافعی اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس بات کو بیان کیا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
درج بالا حدیث اور اقوال سیدنا زکریا﷤ کی بجائے سیدنا یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کے متعلّق ہیں۔
جزاک اللہ ‏
علوی بھائی سے وضاحت پیش کرنے کی گذارش کی جاتی ہے.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
جزاکم اللہ خیرا۔
انس صاحب نے درست بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ حدیث حضرت یحی علیہ السلام کے بارے میں ہی ہے۔ یہود نے اپنے اکثر انبیاء بشمول حضرت موسی علیہ السلام، حضرت یحی، حضرت زکریا اور حضرت عیسی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام پر شرمناک اور گھٹیا الزمات عائد کیے ہیں جن کی تفصیلات ان کی موجودہ بائبل میں بھی موجود ہیں۔ کتاب وسنت میں جا بجا ان انبیاء پر یہود کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے ارشاد باری تعالی ہے:
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ﴿٢﴾ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا ﴿٣﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ﴿٤﴾
یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی کہ اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے، لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا ۔
نوٹ : جس روایت کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے وہ وہب بن منبہ سے مروی ہے جو یہودی سے مسلمان ہوئے تھے اور اسرائيلی روایات بیان کرنے میں معروف ہیں۔ اس روایت کو وہب بن منبہ سے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ البدایہ والنہایہ میں بیان کیا ہے لہذا یہ ایک اسرائیلی روایت ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ ہمارے دین یعنی کتاب وسنت سے کوئی ایسا واقعہ ثابت نہیں ہے۔
وہب بن منبہ ہی سے ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہی واقعہ ایک اور نبی حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے بھی نقل کیا ہے۔ اس سے اس واقعہ کا ضعف اور جھوٹا ہونا مزید متیقن ہو جاتا ہے۔
 
Top