• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت زبیرؓ بن العوام۔ حواریٔ رسولؐ

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
تاریخ و سیر جناب طالب ہاشمی
حضرت زبیرؓ بن العوام۔ حواریٔ رسولؐ​
بعثت کے ابتدائی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک دن مکہ میں ایک وحشت اثر خبر پھیل گئی۔ اس منحوس خبر نے پرستانِ حق کو سخت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ ہر ایک کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ابھی ابو طالب زندہ ہیں اور بنو ہاشم کی تلواریں کند نہیں ہو گئیں۔ یہ خبر صحیح تھی یا محض افواہ تھی، اس کے بارے میں کوئی بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ محمد ﷺ کو مشرکین نے گرفتار کر لیا ہے اور کچھ کا کہنا تھا کہ حضور ﷺ شہید کر دیئے گئے ہیں۔ بنو ہاشم سخت غیظ و غضب کے عالم میں تھے، وہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے کے بارے میں ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ بنو اسد کے ایک نو عمر لڑکے کے کانوں میں بھی اس خبر کی بھنک پڑ گئی۔ سولہ سال کی عمر کے اس کشیدہ قامت اور قوی الجنۃ نوجوان کو رحمتِ عالم ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ وہ تھوڑی ہی دیر پہلے قیلولہ کرنے اپنے گھر آیا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی تڑپ کر اُٹھ بیٹھا، کھونٹی سے تلوار اتار کر اس کا نیام زمین پر ٹپک دیا اور شمشیر بکف مکہ کی گلیوں میں کود گیا۔ اس کا رخ مکہ کے بالائی حصے میں واقع سرورِ عالم ﷺ کے کاشانۂ اقدس کی جانب تھا۔ اس وقت جوشِ غضب سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ نہایت تیزی سے گلیاں طے کر رہا تھا۔ جلد ہی وہ حضور ﷺ کے کاشانۂ مبارک پر پہنچ گیا اور یہ دیکھ کر اس کی مسرت کی انتہا نہ رہی کہ مہبطِ وحی و رسالت خیر و عافیت کے ساتھ وہاں رونق افروز ہیں۔ حضور ﷺ شمشیر بکف نوجوان کو دیکھ کر متبسم ہو گئے اور فرمایا ’’کیوں بھائی خیر تو ہے اس وقت تم شمشیر برہنہ سونت کر کیسے آرہے ہو؟‘‘
نوجوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں نے سنا تھا کہ آپ کو دشمنوں نے گرفتار کر لیا ہے یا شاید آپ شہید کر دیئے گئے ہیں۔
ارشاد ہوا: اچھا تو یہ بات ہے اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا تو تم کیا کرتے؟
نوجوان نے بے ساختہ عرض کیا: ’’یا رسول اللہ خدا کی قسم میں اہلِ مکہ سے لڑ مرتا۔‘‘ اِس کا جواب سن کر رحمتِ عالم کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی۔ آپ ﷺ نے اس جوان کے جذبۂ فدویت کی تحسین فرمائی اور اس کے حق میں دعائے خیر کی بلکہ اس کی تلوار کو بھی دعا دی کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہِ حق اور رسولِ برحق کی حمایت میں بلند ہوئی۔ رسول اللہ کے عاشق صادق یہ نوجوان بنو اسد کے گل سر سبد سیدنا حضرت زبیرؓ بن العوام تھے۔
(۲)
سیدنا حضرت ابو عبد اللہ بن زبیر بن العوام (بن خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصّی) تاریخ اسلام کی ایک مہتم بالشان شخصیت ہیں۔ ان کو بارگاہِ نبوت سے ’’حواری رسول‘‘ کا لقب عطا ہوا۔ اور سرورِ کائنات نے اپنی زبان مبارک سے انہیں جنت کی بشارت دی۔ اس طرح وہ اصحاب عشرہ مبشرہ میں شمار وہئے۔ ان کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ انہیں ارکانِ دین میں سے ایک رکن قرار دیا کرتے تھے (اصابہ۔ ابنِ حجرؒ) حضرت زبیرؓ کو ذاتِ رسالت مآب سے کئی نسبتیں حاصل تھیں۔
1. وہ حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب کے فرزند تھے اس طرح حضور ﷺ ان کے ماموں زاد بھائی تھے۔
2. ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ حضرت زبیرؓ کی پھوپھی تھیں۔ اس لحاظ سے سرورِ عالمؓ حضرت زبیرؓ کے پھوپھا تھے۔
3. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ حضرت زبیرؓ سے بیاہی گئی تھی۔ اس نسبت سے وہ سرورِ کائنات کے ہم زلف تھے۔
4. حضرت زبیرؓ کا سلسلۂ نسب قصی بن کلاب پر رسول اکرم ﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے اس طرح وہ حضور کے ہم جد تھے۔
حضرت زبیرؓ، ہجرتِ نبوی سے تقریباً اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ چچا نوفل بن خویلد نے اپنی سرپرستی میں ان کی پرورش کی۔ حضرت زبیرؓ کی والدہ حضرت صفیہؓ بڑی شجاع اور شیر دل خاتون تھیں۔ وہ اپنے فرزند کو بھی ایک سخت کوش بہادر اور نڈر سپاہی بنانے کی آرزو مند تھیں۔ چنانچہ وہ حضرت زبیرؓ سے سخت محنت و مشقت کا کام لیتیں اور وقتاً فوقتاً زجر و توبیخ اور زود و کوب سے بھی گریز نہ کرتیں۔ نوفل بن خویلد ایک دن بھتیجے کو ماں کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور حضرت صفیہ کو سختی سے روکا کہ اس طرح تم بچے کو مار ڈالو گی۔ انہوں نے بنو ہاشم سے بھی کہا کہ وہ صفیہ کو بچے پر سختی کرنے سے روکیںَ جب اس بات کا چرچا عام ہوا تو حضرت صفیہؓ نے لوگوں کے سامنے یہ رجز پڑھا۔
من قال ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکے یلب
جس نے یہ کہا کہ میں اس (زبیر) سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا، میں اس کو اس لئے پیٹتی ہوں کہ عقل مند ہو۔
ویھزم الجیش ویاتی السلب.... الخ
اور فوج کو شکست دے اور مال غنیمت حاصل کرے۔
حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت زبیرؓ کو لڑکپن میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آگیا۔ انہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے حضرت صفیہ سے شکایت کی تو انہوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا بہادر یا بزدل؟
غرض ماں کی تربیت کا یہ اثر ہوا کہ حضرت زبیر بڑے ہو کر ایک دلاورِ صف شکن اور ضیغمِ شجاعت بنے۔
(۳)
حضرت زبیرؓ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس پر آفتابِ اسلام کی شعاعیں دعوتِ حق کی ابتداء ہی میں پڑنے لگی تھیں۔ ان کی پھوپھی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اسلام کی خاتونِ اول تھیں۔ والدہ حضرت صفیہؓ بھی آغازِ عہد نبوت میں مشرف بہ ایمان ہو گئی تھیں ناممکن تھا کہ نورِ اسلام ان کے نہان خانۂ دل کو منور نہ کرتا چنانچہ انہوں نے باختلافِ روایت آٹھ بارہ یا سولہ برس کی عمر میں ہی دعوتِ حق پر لبیک کہا۔ بعض مورخین نے اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چوتھا یا پانچواں لکھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ البتہ سابقون اولون میں وہ ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ جب تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ اپنے چچا کی شفقتوں کا مرجع تھے لیکن جونہی انہوں نے دعوتِ حق قبول کی چچا کا رویہ بدل گیا اور اس نے ان پر سخت مظالم ڈھانے شروع کر دیئے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں ابو الاسود سے روایت کی ہے کہ حضرت زبیرؓ کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ دیتے، آگ سلگا کر اس کی دھونی دیتے اور کہتے کہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آ۔ لیکن زبیر ہر بار یہی کہتے۔ ’’ہرگز نہیں ہرگز نہیں اب میں کبھی کافر نہ ہوں گا۔‘‘ جب چچا کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تو حضرت زبیرؓ نے سرور عالمؐ کے ایماء پر حبش کی ہجرت اختیار کی۔ کچھ عرصہ وہاں گزار کر مکہ واپس آگئے اور تجارت کا شغل اختیار کیا۔ کچھ مدت بعد خود رحمت عالم ﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی اس وقت حضرت زبیرؓ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے۔ جب وہ شام سے مکہ کی طرف واپس آرہے تھے تو رسولِ اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ حسنِ اتفاق سے راستہ میں حضرت زبیرؓ کو ان سے شرفِ نیاز حاصل ہو گیا۔ اس موقع پر انہوں نے حضور ﷺ اور صدیق اکبرؓ کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے ہدیۃً پیش کئے اور پھر مکہ تشریف لے گئے۔
تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی والدہ حضرت صفیہؓ اور بیوی حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کو ہجرت کی اور کچھ مدت قباء میں قیام پذیر رہے۔ وہیں ۱ ؁ھ میں (اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۲ ہجری میں) حضرت اسماءؓ کے بطن سے حضرت عبد اللہؓ ابن زبیر پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت سے پہلے کئی ماہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔ اس لئے یہودِ مدینہ نے مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے اور ان کا سلسلہ نسبل منقطع کر دیا ہے۔ حضرت عبد اللہؓ پیدا ہوئے تو مسلمانوں کو بے حد مسرت ہوئی اور انہوں نے فرطِ انبساط میں اس زور سے نعہر ہائے تکبیر بلند کئے کہ دشت و جبل گونج اُٹھے۔ مسلمانوں کو زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ ولادت باسعات نے یہودیوں کے دجل و تلبیس کا پردہ چاک کر دیا تھا۔
سرورِ عالمؐ نے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے مابین عقد مواخاۃ قائم فرمایا تو حضرت زبیرؓ کے اسلامی بھائی حضرت سلمہؓ بن سلامہ بن وقش قرار پائے۔ وہ اوس کے خاندان بنو عبد الاشہل کے ایک معزز رکن تھے اور بیعت عقبۂ کبیرہ کے شرکاء میں سے تھے۔ قیام مدینہ کے ابتدائی چند سالوں میں حضرت زبیرؓ کی معاش کا انحصار زراعت پر رہا۔ رسول اکرمؐ نے انہیں بنو نضیر میں ایک نخلستان اور ایک دوسری جگہ کچھ زمین عطا فرمائی تھی۔ ان کی آمدنی واجبی سی تھی اس لئے بڑی تنگدستی سے گزر ہوتی تھی۔ بعد میں انہوں نے زراعت کے ساتھ تجارت بھی شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت دی اور وہ نہایت آسودہ حال ہو گئے۔
(۴)
ہجرت کے بعد غزوات و مشاہد کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت زبیرؓ نے ہر معرکے میں کمال درجے کی استقامت اور بے جگری سے دادِ شجاعت دی۔ کئی موقعوں پر خود ذات رسالت مآبؐ نے ان کی شجاعت اور جذبۂ فدویت کی برملا تعریف و تحسین فرمائی۔ شیرِ خدا حضرت علی مرتضیٰؓ انہیں اشجع العرب کہا کرتے تھے۔ حق و باطل کا معرکۂ اول بدر کے میدان میں برپا ہوا تو حضرت زبیرؓ کی شمشیر خار اشگاف دشمن کی صفوں پر برقِ بے اماں بن کر گری اور انہیں درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ جدھر جھک پڑتے تھے دشمن کا دل بادل کائی کی طرح پھٹ جاتا۔ اس دن ان کے سر پر زرد عمامہ تھا۔ حضور ﷺ کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا۔ ’’آج مسلمانوں کی مدد کے لئے ملائکہ بھی زرد عمامے باندھ کر آسمان سے اترے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ عین ہنگامۂ کار زار میں ایک جنگجو مشرک ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر للکارا۔ ’’کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے۔‘‘ حضور ﷺ نے ایک صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ کیا تو اس کے مقابلہ کے لئے جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں۔‘‘
اسی اثناء میں سرورِ عالمﷺ کی نظر حضرت زبیرؓ پر پڑی جو قریب ہی بیٹھے تھے اور جوش غضب سے کسمسا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اے ابن صفیہ کھڑے ہو جاؤ اور اس مشرک کے مقابلے پر جاؤ۔ حضرت زبیرؓ تیر کی طرح اس پر جھپٹے اور اس سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دونوں بڑے شہ زور تھے اور ایک دوسرے کو ٹیلے سے نیچے گرانے کی کوشش کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’ان دونوں میں سے جو پہلے گرے گا وہ مارا جائے گا۔ پھر آپ نے حضرت زبیرؓ کے حق میں دعا فرمائی۔ چند ہی لمحے بعد دونوں لڑھکتے ہوئے نیچے اس طرح گرے کہ مشرک نیچے تھا اور حضرت زبیر اس کے اوپر اور پھرپلک جھپکنے کی دیر میں حضرت زبیرؓ نے اپنی تلوار سے مشرک کی گردن اڑا دی۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ کا مقابلہ قریش کے نامی بہادر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق خود ضرت زبیرؓ نے اس مقابلہ کا حال ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’بدر کے دن میرا سامنا عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا۔ وہ سراپا لوہے میں غرق تھا۔ صرف اس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اس کی کنیت ابو ذات الکرش تھی۔ اس نے للکار کر کہا، میں ہوں ابو ذات الکرش۔ میں نے اپنی برچھی سے اس پر حملہ کیا اور تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی ماری۔ وہ مر گیا۔‘‘
جب حضرت زبیرؓ ابو ذات الکرش کو ہلاک کر چکے تو اپنی برچھی کو اس کی لاش پر پاؤں اَڑا کر بڑی مشکل سے اس طرح نکالا کہ برچھی کا پھل مڑ گیا۔ سرورِ کائنات نے یہ برچھی حضرت زبیرؓ سے مانگ لی اور تاوفات اپنے پاس رکھی۔ حضور ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت زبیرؓ نے اس برچھی کو واپس لے لیا لیکن ان سے صدیق اکبرؓ نے مانگ لی۔ پھر یہ برچھی فاروق اعظمؓ کے قبضہ میں آئی۔ فاروق اعظمؓ کے بعد حضرت زبیرؓ نے یہ برچھی پھر واپس لے لی تھی۔ لیکن امیر المؤمنین عثمانؓ ذو النورین نے ان سے طلب کر لی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ برچھی آل علی کے پاس پہنچی۔ پھر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ان سے لے لی اور تا زندگی اپنے پاس رکھی۔
حضرت زبیرؓ کی جو تلوار بدر کے میدان میں چمکی وہ بھی اس برچھی کی طرح یادگار بن گئی۔ بدر کے دن حضرت زبیرؓ نے از خود رفتگی کے عالم میں یہ تلوار اس طرح چلائی کہ اس میں دندانے پڑ گئے۔ اس تلوار میں چاندی کا کام تھا۔ حضرت زبیرؓ کی شہادت کے بعد یہ تلوار ان کے جلیل القدر فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے قبضہ میں آئی۔ صحیح بخاری میں حضرت عروہؓ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن زبیرؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ عبد الملک بن مروان اموی نے مجھے بلا کر پوچھا۔ ’’اے عروہ کیا تم زبیرؓ کی تلوار کو پہچانتے ہو۔‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ عبد الملک نے پوچھا، اس کی نشانی کیا ہے؟ میں نے کہا۔ بدر کے دن اس میں دندانے پڑ گئے تھے۔
عبد الملک نے کہا: ہاں سچ کہتے ہو اس میں لشکروں کی مڈ بھیڑ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔
پھر اس نے یہ تلوار مجھے دے دی۔
عروہؓ کے فرزند ہشام کا بیان ہے کہ عروہ کے بعد اس مقدس تلوار کے متعلق آلِ زبیرؓ میں مناقشت پیدا ہوئی۔ ہم نے باہم اس کی قیمت تین ہزار درہم لگائی اور ہم میں سے ایک نے اس کو لے لیا۔ کاش میں نے اس تلوار کو لے لیا ہوتا۔
غزوۂ بدر میں حضرت زبیرؓ کو تلوار کے (باختلاف روایت) ایک یا دو زخم کاندھے پر آئے۔ ایک زخم اتنا شدید تھا کہ اس کے مندمل ہونے پر وہاں گڑھا سا بن گیا۔ حضرت عروہؓ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ میں بچپن میں اس گڑھے میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
غزوہ اُحد میں حضرت زبیرؓ ان چودہ ثابت قدم صحابہ کرام میں سے ایک تھے جو شروع سے اخیر تک سرورِ عالم ﷺ کی سپر بنے رہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ حافظ ابن کثیرؒ نے یونس بن اسحاق سے روایت کی ہے کہ احد کے دن طلحہ بن ابی طلحہ مشرکین کا علمبردار تھا۔ اس نے میدانِ جنگ میں آکر مسلمانوں کو دعوت مبارزت دی۔ حضرت زبیرؓ دوڑتے ہوئے اس کی طرف گئے اور جست لگا کر اس کے اونٹ پر سوار ہو گئے پھر اس کو زمین کی طرف دھکیل کر اونٹ سے گرا دیا اور اپنی تلوار سے اس کو ذبح کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیرؓ کی تعریف فرمائی اور فرمایا۔ ’’ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ اگر زبیر اس کے مقابلے کے لئے نہ نکلتا تو میں خود اس کے مقابلے پر جاتا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ)
بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت زبیرؓ نے طلحہ کو نہیں بلکہ اس کے بیٹے کلاب بن طلحہ کو قتل کیا تھا اور طلحہ بن ابی طلحہ کے قاتل حضرت علیؓ مرتضیٰ تھے۔۔ بہرحال میدانِ اُحد میں حضرت زبیرؓ کے ہاتھ سے مشرکین کا ایک نامی جنگجو ضرور قتل ہوا۔
اثنائے جنگ میں ایک موقع پر سرورِ عالم ﷺ نے اپنی شمشیر مقدس نیام سے کھینچی اور فرمایا: ’’کون ہے جو آج اس کا حق ادا کرے؟‘‘
حضرت زبیرؓ اور حضرت ابو دجانہ انصاریؓ نے تین مرتبہ اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ بالآخر حضور ﷺ نے یہ تلوار حضرت ابو دجانہؓ کو عطا فرمائی۔ تاہم حضرت زبیرؓ کا جذبۂ فدویت تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ گیا۔
صحیح بخاری میں حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اُحد میں زخم لگے اور مشرکین واپس چلے گئے تو آپ ﷺ نے اس خیال سے کہ کہیں وہ پلٹ نہ پڑیں۔ فرمایا۔ کون ان کے تعاقب میں جاتا ہے؟ صحابہ میں سے ستر آدمی اس کام کے لئے آمادہ ہوئے۔ ان میں حضرت زبیرؓ بھی تھے۔
صحیح بخاری میں حضرت عروہؓ کی زبانی حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یہ قول منقول ہے کہ آیت اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ ان صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضور ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں غزوہ احد کے بعد مشرکین کا تعاقب کیا۔ ان میں حضرت زبیرؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی تھے۔
(۶)
۵ ہجری میں فرزندانِ توحید کو خندق کی پُر صعوبت جنگ پیش آئی۔ اس موقع پر مشرکین کا ایک سیلابِ عظیم مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا۔ سرور کائنات ﷺ نے مدینہ کے گرد خندق کھود کر اس لشکر کا مقابلہ کیا۔ مشرکین کا محاصرہ تقریباً تین ہفتے جاری رہا۔ اس دوران میں اگرچہ کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی لیکن فریقین میں وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہیں۔ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ میں ابن اسحاق کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ غزوۂ احزاب کے دوران میں ایک دن نوفل بن عبد اللہ بن مغیرہ مخرومی نے اپنی لشکر گاہ سے باہر نکل کر مسلمانوں کو مقابلے کے لئے للکارا۔ حضرت زبیرؓ جھپٹ کر اس کے مقابلے ہوئے اور اپنی تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ اس موقعہ پر ان کی تلوار میں ایک دندانہ پڑ گیا۔ نوفل کو جہنم واصل کرنے کے بعد حضرت زبیرؓ یہ رجز پڑھتے ہوئے واپس آئے۔
انی امرء احمی واحتمی عن النبی المصطفٰی الامّی
(میں وہ شخص ہوں جو اپنی بھی حفاظت کرتا ہوں اور نبی مصطفیٰ اُمیؐ کی بھی حفاظت کرتا ہوں)
یہود بنی قریظہ اور مسلمانوں میں باہم خیر سگالی کا معاہدہ تھا لیکن جنگ خندق کے موقع پر یہودیوں کی نیت بدل گئی اور وہ مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنے کے منصوبے بنانے لگے۔ اہلِ حق کے لئے یہ بڑا نازک وقت تھا۔ حضور ﷺ کو ان غداروں کے فاسد عزائم کا علم ہوا تو آپ نے مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا۔ کون بنی قریظہ کی خبر لاتا ہے؟
حضرت زبیرؓ نے بڑھ کر عرض کی۔ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں۔‘‘
سرورِ عالم ﷺ نے تین مرتبہ اپنے الفاظ دہرائے اور تینوں مرتبہ حضرت زبیرؓ نے اپنے آپ کو اس پُرخطر کام کے لئے پیش کیا۔ حضور ﷺ ان کے جذبۂ فدویت سے بہت خوش ہوئے۔ صحیح بخاری میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے اس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
’’ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔‘‘
بخاری ہی میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت منقول ہے کہ غزوۂ احزاب میں عمر ابن ابی سلمہ اور میں عورتوں کے ساتھ کر دیئے گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ زبیر گھوڑے پر سوار دو یا تین مرتبہ بنی قریظہ کی طرف گئے اور واپس آئے۔ جب (شام کو) میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا، ابا جان میں نے آپ کو (بنی قریظہ کی طرف) جاتے دیکھا تھا۔ حضرت زبیرؓ نے فرمایا۔ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا۔ ہاں۔ حضرت زبیرؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کون بنو قریظہ کی خبر لاتا ہے۔ میں گیا جب واپس آیا تو حضور ﷺ نے میرے لئے اپنے ماں باپ جمع کیے اور فرمایا فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ (میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں)
اکثر اہل سیر کا بیان ہے کہ ’’فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّی‘‘ کے الفاظ لسانِ رسالتؐ سے حضرت زبیرؓ بن العوام اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے سوا کسی اور کے لئے نہیں نکلے۔ جنگِ خندق کا یہ انجام ہوا کہ بائیس دن کے محاصرے کے بعد کفار آسمانی آفات اور مسلمانوں کی غیر معمولی استقامت کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
(۷)
غزوہ احزاب کے فوراً بعد حضرت زبیرؓ غزوہ بنی قریظہ میں شریک ہوئے اور پھر ذیقعدہ ۶ ہجری میں بیعتِ رضوان کا عظیم شرف حاصل کیا۔ اواخر ۶ ہجری یا شروع ۷ ہجری میں خیبر کی جنگ پیش آئی تو اس میں بھی حضرت زبیرؓ نے کمال درجے کی جانبازی اور سرفروشی کا مظاہرہ کیا۔ مورخ ابن ہشام کا بیان ہے کہ جب رئیسِ خیبر مرحب حضرت علیؓ مرتضیٰ کے ہاتھ سے مارا گیا تو اس کا قوی ہیکل اور جنگجو بھائی یاسر غضب ناک ہو کر میدان میں آیا۔ حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے کے لئے بڑھے۔ ان کا قد و قامت یاسر کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ آج یاسر کے ہاتھ سے نہیں بچیں گے۔ ان کی والدہ حضرت صفیہؓ بھی حضور ﷺ کے ساتھ مدینے آئی تھیں۔ انہوں نے بے قرار ہو کر حضور ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ آج میرا جگر گوشہ شہید ہو گا۔‘‘
سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں انشاء اللہ وہ دشمن پر غالب آئے گا۔‘‘ چنانچہ تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد حضرت زبیرؓ نے یاسر کو قتل کر دیا۔
(۸)
۸ ہجری میں جب دس ہزار ’’قدوسیوں‘‘ کا لشکر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوا تو اس موقع پر حضرت زبیرؓ کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ وہ مہاجرین کے علمبردار مقرر ہوئے اور خاص علم نبوی انہیں تفویض کیا صحیح بخاری میں حضرت عروہ بن زبیرؓ سے فتح مکہ کے بارے میں روایت ہے کہ ’’ایک فوج آئی جس کی تعداد دوسرے تمام دستوں سے کم تھی۔ اس میں رسول اللہ اور اصحاب تھے اور علم نبوی زبیربن العوام کے پاس تھا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت زبیرؓ اسلامی لشکر کے میسرہ کے سردار تھے۔ لیکن اکثر اہلِ سیر نے بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ حضرت زبیرؓ سب سے آخری اور سب سے چھوٹے دستے میں تھے۔ رحمتِ عالم ﷺ بھی اسی دستے میں رونق افروز تھے۔ مورخ ابنِ سعد کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ہر طرف امن و سکون ہو گیا تو حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ بن الاسود کندی اپنے گھوڑوں پر سوار بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ اس موقع پر عظیم سعادت نصیب ہوئی کہ سرور عالم ﷺ نے کھڑے ہو کر ان کے چہروں سے گرد صاف کی۔ ؎
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
فتح مکہ کے بعد حنین کا خونی معرکہ پیش آیا۔ حضرت زبیرؓ نے اس معرکہ میں بھی اپنی شجاعت و بسالت کے خوب جوہر دکھائے۔ ایک موقع پر بہت سے مشرکین ایک گھاٹی سے نکل کر دفعۃً حضرت زبیرؓ پر ٹوٹ پڑئے۔ حضرت زبیرؓ تن تنہا اس جرأت اور استقامت کے ساتھ لڑے کہ کفار کا منہ پھر گیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ حنین کے بعد حضرت زبیرؓ نے طائف اور تبوک کے غزوات میں شرکت کی پھر حجۃ الوداع میں انہیں سرورِ عالم ﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔
(۹)
۱۱ ہجری میں سرورِ کائنات ﷺ نے رحلت فرمائی تو حضرت زبیرؓ پر کوہِ الم ٹوٹ پڑا اور انہوں نے شکستہ دل ہو کر عزلت گرینی اختیار کر لی۔ شروع شروع میں خلافت کے معاملے میں انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت کی (حالانکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ان کے خسر تھے) لیکن پھر ان کا خیال بدل گیا اور کچھ دنوں کے بعد انہوں نے جمہور مسلمین کی طرح حضرت صدیق اکبرؓ کی بیعت کر لی۔ دو تین سال انہوں نے نہایت خاموشی سے گزارے۔ لیکن فاروقِ اعظمؓ کے عہد خلافت میں ان کے خون نے جوش مارا اور وہ اپنے کم سن فرزند عبد اللہ کو ساتھ لے کر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے شام پہنچ گئے۔ اس وقت شام کی فیصلہ کن جنگ یرموک کے میدان میں لڑی جا رہی تھی۔ حضرت زبیرؓ نے اس جنگ میں حیرت انگیز جرأت و بسالت کا مظاہرہ کیا۔ صحیح بخاری میں ان کے فرزند عروہؒ سے روایت ہے کہ اصحابِ رسول نے جنگ یرموک میں زبیرؓ سے کہا، آپ شدت کیوں نہیں کرتے تاکہ ہم بھی شدت کریں۔ انہوں نے کہا، اگر میں شدت کروں گا تو تم جھوٹے ثابت ہو گے (یعنی میرا ساتھ نہ دے سکو گے) لوگوں نے کہا، ایسا نہیں ہو سکتا۔ حضرت زبیرؓ نے کفار پر (ایک شدید) حملہ کیا اور ان کی صفوں کو درہم برہم کرتے ہوئے آگے نکل گئے لیکن ان کا ساتھ کوئی مسلمان نہ دے سکا۔ جب واپس آنے لگے تو کفار نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ان کے کندھے پر دو زخم لگائے۔ ان کے درمیان ایک اور ضرب تھی جو بدر میں لگی تھی۔ ’’میں بچپن میں ان ضربوں (کے گڑھوں) میں اپنی انگلیاں داخل کر کے کھیلا کرتا تھا۔‘‘ یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ واقدی طبری اور کئی دوسرے مورخین نے جنگِ یرموک میں حضرت زبیرؓ کی جانبازی اور شجاعت کے کئی اور واقعات بھی بیان کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خونیں جنگ کے ابطالِ خاص میں تھے۔
فتحِ شام کے بعد مجاہدین اسلام نے حضرت عمروؓ بن العاص کی قیادت میں مصر پر چڑھائی کی اور وہاں کے مشہور شہر فسطاط کا محاصرہ کر لیا۔ چونکہ فسطاط کا قلعہ بہت مضبوط تھا اور مجاہدین کی تعداد بہت قلیل تھی اس لئے حضرت عمرو بن العاص نے امیر المؤمنین سے مدد مانگ بھیجی۔ فاروقِ اعظم نے چار ہزار فوج حضرت زبیرؓ بن العوام، حضرت عبادہؓ بن صامت، حضرت مقدادؓ بن اسود کندی اور حضرت مسلمہؓ بن مخلد کی سرکردگی میں روانہ کی اور حضرت عمرؓ کو لکھا کہ ان میں سے ہر افسر ایک ہزار سوار کے برابر ہے اس لئے اس فوج کو آٹھ ہزار سمجھنا۔‘‘ مصریوں کا دفاع اس قدر مضبوط تھا کہ اس فوج کے پہنچنے کے باوجود قلعہ سات ماہ تک فتح ہونے میں نہ آیا۔ ایک دن حضرت زبیرؓ کو سخت جوش آیا اور وہ سیڑھی لگا کر شمشیر بدست قلعہ کی دیوار پر چڑھ گئے۔ چند اور مجاہدین نے بھی ان کا ساتھ دیا اور فصیل پر پہنچ کر ایک فلک شگاف نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ نیچے کی فوج نے بھی نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ عیسائی سراسیمہ ہو گئے۔ اسی اثناء میں حضرت زبیرؓ نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اس کے ساتھ ہی تمام اسلامی لشکر اندر گھس آیا۔ عیسائیوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور امان طلب کی۔ حضرت عمرؓ نے ان کی درخواست قبول کر لی اور فسطاط پر اسلامی عَلَم لہرا دیا۔
فسطاط کی فتح کے بعد حضرت زبیرؓ نے سکندریہ کی تسخیر میں نمایاں حصہ لیا۔ سکندریہ کا قلعہ اپنے زبردست انتظامات کی وجہ سے ناقابلِ تسخیر متصور ہوتا تھا۔ اسلامی فوجیں مدت سے اس کا محاصرہ کیے پڑی تھیں۔ آخر ایک دن حضرت زبیرؓ اور مسلمہؓ بن مخلد نے فوج کے چند مضبوط دستے اپنے ہمراہ لیے اور اس زور شور سے حملہ کیا کہ دشمن کے لئے اطاعت قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
(۱۰)
۲۳ ہجری میں سیدنا فاروق اعظمؓ نے جامِ شہادت پیا۔ آپ نے اپنی شہادت سے پہلے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے نام مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے وصیت کی کہ رسول اللہ ﷺ ان چھ بزرگوں سے آخر وقت تک راضی رہے تھے اس لئے بہتر ہو گا کہ ان چھ میں سے ایک کو میرے بعد منصبِ خلافت پر فائز کیا جائے۔ ان سب نے حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کو اپنا حکم بنایا۔ انہوں نے ہر شخص سے انفرادی رائے لینے کے بعد حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ دیا۔ حضرت زبیرؓ نے اس انتخاب کو فوراً تسلیم کر لیا۔ اور حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس موقع پر حضرت زبیرؓ نے ایثار سے کام لے کر حضرت علیؓ کے حق میں رائے دی تھی لیکن کثرتِ آرا حضرت عثمانؓ کے حق میں تھی۔ چنانچہ انہوں نے مجلسِ شوریٰ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دیا۔
امیر المومنین حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت زبیرؓ نے پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی اور ہر قسم کے ہنگاموں سے کنارہ کش ہو گئے لیکن عامۃ المسلمین میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ ایک بار حضرت عثمانؓ شدت نکسیر کی وجہ سے حج سے معذور ہو گئے (بلکہ زندگی سے مایوس ہو گئے) تو لوگوں کے مطالبہ پر انہوں نے حضرت زبیرؓ کو امیر حج اور اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اس موقع پر انہوں نے قسم کھا کر لوگوں سے یہ بھی کہا کہ بے شک زبیر تم لوگوں میں بہتر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو تم سے زیادہ محبوب تھے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب)
۳۵ ہجری میں مفسدین نے مدینہ منورہ پر اپنی حکومت قائم کر لی اور بارگاہِ خلافت کا محاصرہ کر لیا۔ اس نازک موقع پر حضرت زبیرؓ نے اپنے بڑے فرزند عبد اللہؓ کو بارگاہِ خلافت کی حفاظت پر مامور فرمایا۔ لیکن ایک دن باغی دوسری طرف سے دیوار پھلانگ کر کاشانۂ خلافت میں داخل ہو گئے اور امیر المؤمنین حضرت عثمانؓ ذوالنورین کو نہایت بے دردی سے شہید کر ڈالا۔ حضرت زبیرؓ کو امیر المومنین کی مظلومانہ شہادت سے سخت صدمہ پہنچا۔ ادھر مفسدین کی شقاوت قلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ امیر المؤمنین کی تجہیز و تکفین کے بھی روادار نہ تھے۔ آخر حضرت زبیرؓ اور چند دوسرے مسلمانوں نے جان پر کھیل کر حضرت عثمان شہید کی تجہیز و تکفین کی۔ پھر رات کے وقت پوشیدہ طور پر حضرت زبیرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مضافاتِ مدینہ میں حش کوکب کے مقام پر انہیں سپردِ خاک کر دیا۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد سیدنا علی مرتضیٰؓ سر یر آرائے خلافت ہوئے۔ ان کے عہدِ خلافت کے اوائل ہی میں حالات و واقعات نے کچھ ایسی صورت اختیار کی کہ قصاص عثمانؓ کے سلسلے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضرت کرم اللہ وجہہ کے مقابلے میں اصلاح کا عَلَم بلند کر دیا۔ حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور کئی دوسرے صحابہ ام المؤمنینؓ کے پرجوش حامیوں میں تھے۔ دوسری طرف حضرت علی مرتضیٰؓ کے ساتھ بھی جلیل القدر صحابہ کی ایک کثیر تعداد تھی۔ ۱۰ جمادی الثانی ۳۶ ہجری کو اپنے وقت کے بہترین انسانوں کے مابین جمل کی انتہائی افسوسناک لڑائی پیش آئی۔ مستدرک حاکم کی روایت کے مطابق لڑائی کے آغاز سے پہلے سیدنا علی مرتضیٰؓ تنہا گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں تشریف لائے اور حضرت زبیرؓ کو پکار کر کہا۔ ’’ابو عبد اللہ۔ کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رسول اللہ کے سامنے سے گزرے تھے۔ حضور ﷺ نے تم سے سوال کیا تھا، کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو؟ جب تم نے اثبات میں جواب دیا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا، ایک دن تم ناحق علی سے لڑو گے۔‘‘
حضرت زبیرؓ نے جواب دیا: ہاں مجھے یاد آگیا۔
حضرت علیؓ تو یہ بات یاد دلا کر اپنے لشکر میں واپس چلے گئے لیکن حضرت زبیرؓ کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اسی وقت میدانِ جنگ سے کنارہ کش ہو کر بصرہ روانہ وہ گئے۔ ایک شخص عمرو ابن جرموز نے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کا تعاقب کیا۔ حضرت زبیرؓ نے بصرہ پہنچ کر اپنے غلاموں کو سامان و اسباب کے ساتھ روانہ ہونے کی ہدایت کی اور خود بصرہ کی آبادی سے دور نکل آئے۔ اس وقت ابنِ جرموز گھوڑا دوڑا کر ان کے قریب پہنچا اور پوچھا: ابو عبد اللہ آپ نے قوم کو کس حال میں چھوڑا؟
حضرت زبیرؓ: لوگ ایک دوسرے کا خون بہانے پر تلے ہوئے تھے۔
ابن جرموز: آپ کہاں جا رہے ہیں؟
حضرت زبیرؓ: مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اب میں اس ہنگامے سے کنارہ کش ہو کر کسی طرف نکل جانا چاہتا ہوں۔
ابن جرموز نے کہا تو چلیے میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کچھ دور جانے کے بعد ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت زبیرؓ نماز پڑھنے کے لئے ٹھہر گئے۔ ابن جرموز نے کہا میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھوں گا۔
حضرت زبیرؓ نے فرمایا: میں تمہیں امان دیتا ہوں کیا تم بھی میرے حق میں ایسا ہی کرو گے؟
ابن جرموز نے کہا: یقیناً۔
اس عہد و پیمان کے بعد دونوں گھوڑوں سے اتر کر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ حضرت زبیرؓ جونہی سجدے میں گئے۔ عمرو بن جرموز نے غداری کر کے ان کی گردن پر وار کیا اور حواریٔ رسول کا سر اقدس تن سے جدا کر دیا۔ اس کے بعد وہ حضرت زبیرؓ کی زرہ، تلوار اور سر لے کر امیر المؤمنین علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اسے توقع تھی کہ امیر المؤمنینؓ اس کے کام کو سراہیں گے لیکن شیرِ خدا نے حضرت زبیرؓ کی تلوار پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا:
’’اس تلوار نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے بادل ہٹائے۔ اے ابن صفیہؓ کے قاتل تجھے جہنم کی بشارت ہو۔‘‘
ہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ابن جرموز نے مایوسی کے عالم میں یہ شعر کہے ؎
اَتَیْتُ عَلَیًّا بِرَاسِ الزُّبَیْر .... اَرْجُوْ لَدَیْہِ بِہِ الزُّلْفَہ
فَبَشَّرَ بِالنَّارِ اِذْ جِئْتُہٗ فَبِئْسَ الْبَشَارَۃُ وَالتُّحْفَہ
ترجمہ: میں علیؓ کے پاس زبیرؓ کا سر لے کر حاضر ہوا، مجھے اس کام سے ان کے تقرب کی امید تھی۔ جب میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے جہنم کی بشارت دی۔ سو کیسی بری بشارت اور کیسا برا تحفہ ہے۔
شہادت کے وقت حضرت زبیرؓ کی عمر چونسٹھ برس کی تھی۔ اپنی جائے شہادت وادی السباع ہی میں دفن کئے گئے۔ اس المیہ سے چند سال پہلے حضرت زبیرؓ اور حضرت اسماءؓ کے درمیان بعض اسباب کی بنا پر علیحدگی ہو چکی تھی لیکن جب ان کی شہادت کی خبر حضرت اسماءؓ نے سنی تو فرطِ الم سے نڈھال ہو گئیں اور بے اختیار ان کی زبان پر یہ مرثیہ جاری ہو گیا۔
غدر ابن جرموز بفارس بھمۃ یوم الھیاج وکان غیر معدد
یا عمرو لو نبّھتہٗ لوجدتہ لا طأشأ رعش الجنان ولا الید
ثکلتک امک ان قتلت لمسلما حلت علیک عقوبۃ المتعمد (در منثور)
یعنی ابن جرموز نے لڑائی کے دن ایک عالی ہمت شہسوار سے غداری کی اور غدّاری بھی ایسی حالت میں کہ وہ نہتا اور بے سروسامان تھا۔
اے عمرو اگر تو اس کو پہلے سے خبردار کر دیتا تو اس کو ایسا شخص پاتا کہ نہ اس کے دل میں خوف ہوتا اور نہ ہاتھ میں لرزہ۔
تیری ماں تجھ پر روئے تو نے ایک مسلمان کو (ناحق) قتل کیا۔ تجھ پر ضرور اللہ کا عذاب نازل ہو گا۔
(۱۲)
حضرت زبیرؓ نے اپنی زندگی میں مختلف اوقات میں سات شادیاں کیں۔ ازواج کے نام یہ ہیں۔
1. حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ
2. حضرت ام خالدؓ بنت خالد بن سعید بن عاص
3. رباب بنت انیف
4. زینب بنت مرثد
5. حضرت ام کلثوم بنت عقبہ
6. حلال بنت قیس
7. عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل
صحیح بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زبیرؓ نے اپنے پیچھے چار بیویاں، نو لڑکے اور نو لڑکیاں چھوڑیں۔ لڑکوں میں حضرت عبد اللہؓ، عروہؒ، منذرؒ (جو حضرت اسماءؓ کے بطن سے تے) اور حضرت مصعبؒ (جو رباب بنت انیف کے بطن سے تھے) اپنی اسلامی اور علمی خدمات کی بناء پر ہمہ گیر شہرت کے مالک ہوئے۔
حضرت زبیرؓ کا قد اتنا طویل تھا کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاؤں زمین سے چھو جاتے، رنگ گندمی، بدن چھریرا، سر پر گھنے بال، ڈاڑھی ہلکی (یعنی اس میں بال کم تھے)
سرور عالمؓ نے حضرت زبیرؓ کو نواح مدینہ میں کچھ زمین عطا فرمائی تھی جسے وہ خود آباد کرتے تھے۔ فتح خیبر کے بعد حضور ﷺ نے انہیں بنو نضیر کا ایک نخلستان عطا فرمایا۔ صدیق اکبرؓ مسندِ خلافت پر بیٹھے تو انہوں نے حضرت زبیرؓ کو مقامِ جرف میں ایک جاگیر عطا کی۔ ان کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں عقیق میں ایک شاداب اور سرسبز قطعۂ زمین دیا۔ بدری صحابی ہونے کی بنا پر انہیں حکومت کی جانب سے معقول وظیفہ ملتا تھا۔ وقتاً فوقتاً مالِ غنیمت سے بھی کافی حصہ مل جاتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی تجارت میں بے حد برکت عطا کی تھی۔ اس طرح وہ اغنیا کی صف میں شامل ہو گئے تھے۔ زمین کے علاوہ مختلف مقامات پر ان کے پندرہ مکانات بھی تھے (گیارہ مدینہ میں، دو بصرہ میں، ایک کوفہ میں اور ایک مصر میں) شہادت کے وقت ان کی غیر منقولہ جائیداد کی قیمت کا تخمینہ پانچ کروڑ دو لاکھ درہم کیا گیا۔ لیکن اپنی بے مثال فیاضی او سخاوت کی بدولت وہ بائیس لاکھ درہم کے مقروض تھے۔ شہادت کے بعد یہ قرض ان کی جائیداد سے ادا کیا گیا۔
(۱۳)
سیدنا حضرت زبیرؓ فضائل و مناقب کے آسمان کے مہر درخشندہ ہیں، ہر وہ شرف اور اعزاز جو دورِ رسالت کے کسی مسلمان کا طرّۂ افتخار ہو سکتا تھا انہیں حاصل ہوا۔ ان کے تقدم فی الدین کی یہ شان تھی کہ بارہ یا سولہ برس کی عمر میں اس وقت لوائے حق کو تھا ماجب ایسا کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف تھا، اسی پُر آشوب دور میں سب سے پہلے سید الانامؐ کی حمایت میں تلوار بلند کی، راہِ حق میں ہر قسم کے مصائب سہے، دو ہجرتوں کی سعادت حاصل کی۔ بدر سے تبوک تک ہر غزوے میں حیرت انگیز پامردی اور سرفروشی کا ثبوت دیا۔ راہِ حق میں اتنے زخم کھائے کہ جسم کا کوئی ظاہری اور پوشیدہ حصہ ایسا نہ تھا جو زخموں کے نشان سے خالی ہو، حواریٔ رسول کا عظیم الشان لقب حاصل کیا، بیعت رضوان سے سعادت اندوز ہوئے۔ لسانِ رسالتؐ سے جنت کی نوید پائی۔ جہاد شام و مصر میں عدیم المثال شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کیا، جام شہادت پیا تو وہ بھی اس شان سے کہ سر سجدے میں تھا اور زبان پر تکبیر۔
حضرت زبیرؓ کا چمن اخلاق بھی رنگا رنگ کے پھولوں سے آراستہ تھا۔ اتفاق فی سبیل اللہ، زہد و تقویٰ، خشیتِ الٰہی، عبرت پذیری، ایثار اور امانت داری اس چمن کے سب سے خوش رنگ پھول تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت زبیرؓ نے اپنے تمام (پندرہ کے پندرہ) مکانات راہِ حق میں صدقہ (وقف) کر دیئے تھے۔ اسی طرح بیہقیؒ نے مغیث بن سمیؓ سے اور ابو نعیمؒ نے سعید بن عزیزؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت زبیرؓ کے ایک ہزار غلام تھے جو ان کو یومیہ خراج ادا کرتے تھے (یعنی وہ جو کام کرتے تھے اس کی اجرت کا مقررہ حصہ حضرت زبیرؓ کو دیتے تھے) حضرت زبیرؓ اس تمام رقم کو فوراً خیرات کر دیتے تھے اور اپنے گھر میں اس طرح داخل ہوتے تھے کہ ان کے پاس ایک درہم بھی نہ ہوتا تھا۔
حضرت زبیرؓ کی دیانت اور امانت کا اس قدر شہرہ تھا کہ لوگ نہ صرف اپنا مال و متاع ان کے پاس امانت رکھتے تھے بلکہ اپنی وفات کے وقت انہیں اپنی اولاد اور مال کا محافظ بنانے کی آرزو کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان ذو النورینؓ، حضرت عبد اللہؓ بن مسعود اور حضرت عبد الرحمانؓ بن عوف جیسے جلیل القدر صحابہؓ نے انہیں اپنا وصی بنایا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ حضرت زبیرؓ پر قرض اس لئے ہو گیا تھا کہ لوگ ان کے پاس مال لے کر آتے تھے اور امانۃً رکھا دیتے تھے۔ زبیرؓ کہتے تے کہ یہ امانت نہیں بلکہ سلف ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع (خرچ) ہو جانے کا خوف ہے۔
زہد و تقویٰ اور خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ ہر بات میں سنتِ نبوی کا اتباع کرنے کی کوشش کرتے تھے اور معمولی سے معمولی واقعہ پر خوفِ خدا سے کانپ اُٹھتے تھے۔ قرآن حکیم کی کوئی ایسی آیت سنتے جس میں قیامت کا ذکر ہوتا تو لرزہ براندام ہو جاتے تھے۔ حضرت زبیرؓ اگرچہ حواری رسول تھے اور سالہا سال تک فیضانِ رسالت سے خوشہ چینی کی تھی لیکن کمال اتّقا کے باعث وہ بہت کم حدیثیں بیان کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ان کی قلتِ روایت کا سبب اس طرح بیان کیا ہے۔
’’میں نے زبیرؓ سے کیا، میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنتا۔ جس طرح فلاں اور فلاں حدیث بیان کرتے ہیں۔ فرمایا میں نے حضور ﷺ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا لیکن آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے جو مجھ پر جھوٹ بولے (مجھ سے کوئی غلط بات منسوب کرے) اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘
حضرت زبیرؓ سے کل اڑتیس حدیثیں مروی ہیں ان میں سے بھی اکثر کا تعلق اخلاق سے ہے۔
فاروق اعظمؓ نے اپنی شہادت سے پہلے جن چھ بزرگوں کو خلافت کے لئے نامزد فرمایا ان میں حضرت زبیرؓ بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے سرتاپا ایثار ہونے کا ثبوت یوں دیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں دست بردار ہو گئے اور جب مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان ذو النورینؓ کے حق میں فیصلہ دیا تو انہوں نے بلا چون و چرا حضرت عثمانؓ کی بیعت کر لی۔
حضرت زبیرؓ صحیح معنوں میں مرد مومن تھے اور کسی شخص کو اچانک یا دھوکے سے قتل کرنا کسی حالت میں جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسند احمد حنبل میں ہے کہ جب انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ دعوتِ اصلاح کا علم بلند یا تو کسی شخص نے ان سے کہا کہ آپ کا ایما ہو تو علیؓ کو قتل کر ڈالوں، بولے تم یہ کام کیسے کرو گے۔ علیؓ کے پاس تو زبردست فوج ہے۔ اس نے کہا کہ میں علیؓ کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہو جاؤں گا اور کسی وقت موقع پر کر ان کی گردن اڑا دوں گا۔ فرمایا ہرگز نہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ایمان قتلِ ناگہانی کی زنجیر ہے اس لئے کوئی مومن کسی کو اچانک قتل نہ کرے۔‘‘
حضرت زبیرؓ کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس قصیدہ سے بھی کیا جا سکتا ہے جو ایک موقع پر شاعرِ رسول ﷺ حضرت حسانؓ بن ثابت نے ان کی شان میں موزوں کیا اور اس میں حضرت زبیرؓ کے فضائل نہایت بلیغ پیرائے میں بیان کیے۔ اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
اَقَامَ عَلٰی عَھْدِ النَّبِی وَھَدْیِہٖ
حَوَارِیُّہٗ وَالْقَوْلُ بِالْفِعْلِ یُعْدَل
وہ نبی ﷺ کے عہد اور سنت پر قائم رہے۔ وہ حضور ﷺ کے حواری ہیں اور قول عمل ہی سے سچ سمجھا جاتا ہے۔
ھُوَ الْفَارِسُ الْمَشْھُوْرُ وَالْبَطْلُ الَّذِیْ
یَصُوْلُ اِذَا مَا کَانَ یَوْمٌ مُحَجّل
وہ ایسے مشہور شہسوار اور بہادر ہیں کہ جو اس دن حملہ کرتے تھے جب لوگ (جنگ کے) خوف سے چھپتے پھرتے تھے۔
لَہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ قُرْبٰی قَرِیْبَۃً
وَمِنْ نُصْرَۃِ الْاِسْلَامِ مَجْدٌ مُّؤَثَّلٗ
ان کو رسول اللہ ﷺ سے قرابتِ قریبہ حاصل تھی اور یہ وہی ہیں جن سے اسلام کو نصرت حاصل ہوئی۔
فَکَمْ کُرْبَۃٍ ذَبَّ الزُّبَیْرُ بِسَیْفِہٖ
عَنِ الْمُصْطَفٰے وَاللّٰہُ یعْطِی ویُجْزِل
چنانچہ بہت سے مصائب زبیرؓ نے اپنی تلوار سے (محمد) مصطفےٰ (ﷺ) سے دور کیے اور اللہ بہت عطا اور بخشش کرنے والا ہے۔
اِذَا کَشَفَتْ عَنْ سَاقِھَا الْحَرْبُ حَثَّھَا
بِاَبْیَضَ سَبَّاقٍ اِلَی الْمَوْتِ یُرْقِل
جب لڑائی اپنی آگ روشن کرتی تھی تو شمشیر بدست موت کی طرف دوڑتے تھے۔
رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
 
Top