تاریخ و سیر جناب طالب ہاشمی
نوجوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں نے سنا تھا کہ آپ کو دشمنوں نے گرفتار کر لیا ہے یا شاید آپ شہید کر دیئے گئے ہیں۔
ارشاد ہوا: اچھا تو یہ بات ہے اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا تو تم کیا کرتے؟
نوجوان نے بے ساختہ عرض کیا: ’’یا رسول اللہ خدا کی قسم میں اہلِ مکہ سے لڑ مرتا۔‘‘ اِس کا جواب سن کر رحمتِ عالم کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی۔ آپ ﷺ نے اس جوان کے جذبۂ فدویت کی تحسین فرمائی اور اس کے حق میں دعائے خیر کی بلکہ اس کی تلوار کو بھی دعا دی کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہِ حق اور رسولِ برحق کی حمایت میں بلند ہوئی۔ رسول اللہ کے عاشق صادق یہ نوجوان بنو اسد کے گل سر سبد سیدنا حضرت زبیرؓ بن العوام تھے۔
(۲)
سیدنا حضرت ابو عبد اللہ بن زبیر بن العوام (بن خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصّی) تاریخ اسلام کی ایک مہتم بالشان شخصیت ہیں۔ ان کو بارگاہِ نبوت سے ’’حواری رسول‘‘ کا لقب عطا ہوا۔ اور سرورِ کائنات نے اپنی زبان مبارک سے انہیں جنت کی بشارت دی۔ اس طرح وہ اصحاب عشرہ مبشرہ میں شمار وہئے۔ ان کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ انہیں ارکانِ دین میں سے ایک رکن قرار دیا کرتے تھے (اصابہ۔ ابنِ حجرؒ) حضرت زبیرؓ کو ذاتِ رسالت مآب سے کئی نسبتیں حاصل تھیں۔
1. وہ حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب کے فرزند تھے اس طرح حضور ﷺ ان کے ماموں زاد بھائی تھے۔
2. ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ حضرت زبیرؓ کی پھوپھی تھیں۔ اس لحاظ سے سرورِ عالمؓ حضرت زبیرؓ کے پھوپھا تھے۔
3. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ حضرت زبیرؓ سے بیاہی گئی تھی۔ اس نسبت سے وہ سرورِ کائنات کے ہم زلف تھے۔
4. حضرت زبیرؓ کا سلسلۂ نسب قصی بن کلاب پر رسول اکرم ﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے اس طرح وہ حضور کے ہم جد تھے۔
حضرت زبیرؓ، ہجرتِ نبوی سے تقریباً اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ چچا نوفل بن خویلد نے اپنی سرپرستی میں ان کی پرورش کی۔ حضرت زبیرؓ کی والدہ حضرت صفیہؓ بڑی شجاع اور شیر دل خاتون تھیں۔ وہ اپنے فرزند کو بھی ایک سخت کوش بہادر اور نڈر سپاہی بنانے کی آرزو مند تھیں۔ چنانچہ وہ حضرت زبیرؓ سے سخت محنت و مشقت کا کام لیتیں اور وقتاً فوقتاً زجر و توبیخ اور زود و کوب سے بھی گریز نہ کرتیں۔ نوفل بن خویلد ایک دن بھتیجے کو ماں کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور حضرت صفیہ کو سختی سے روکا کہ اس طرح تم بچے کو مار ڈالو گی۔ انہوں نے بنو ہاشم سے بھی کہا کہ وہ صفیہ کو بچے پر سختی کرنے سے روکیںَ جب اس بات کا چرچا عام ہوا تو حضرت صفیہؓ نے لوگوں کے سامنے یہ رجز پڑھا۔
من قال ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکے یلب
جس نے یہ کہا کہ میں اس (زبیر) سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا، میں اس کو اس لئے پیٹتی ہوں کہ عقل مند ہو۔
ویھزم الجیش ویاتی السلب.... الخ
اور فوج کو شکست دے اور مال غنیمت حاصل کرے۔
حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت زبیرؓ کو لڑکپن میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آگیا۔ انہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے حضرت صفیہ سے شکایت کی تو انہوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا بہادر یا بزدل؟
غرض ماں کی تربیت کا یہ اثر ہوا کہ حضرت زبیر بڑے ہو کر ایک دلاورِ صف شکن اور ضیغمِ شجاعت بنے۔
(۳)
حضرت زبیرؓ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس پر آفتابِ اسلام کی شعاعیں دعوتِ حق کی ابتداء ہی میں پڑنے لگی تھیں۔ ان کی پھوپھی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اسلام کی خاتونِ اول تھیں۔ والدہ حضرت صفیہؓ بھی آغازِ عہد نبوت میں مشرف بہ ایمان ہو گئی تھیں ناممکن تھا کہ نورِ اسلام ان کے نہان خانۂ دل کو منور نہ کرتا چنانچہ انہوں نے باختلافِ روایت آٹھ بارہ یا سولہ برس کی عمر میں ہی دعوتِ حق پر لبیک کہا۔ بعض مورخین نے اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چوتھا یا پانچواں لکھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ البتہ سابقون اولون میں وہ ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ جب تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ اپنے چچا کی شفقتوں کا مرجع تھے لیکن جونہی انہوں نے دعوتِ حق قبول کی چچا کا رویہ بدل گیا اور اس نے ان پر سخت مظالم ڈھانے شروع کر دیئے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں ابو الاسود سے روایت کی ہے کہ حضرت زبیرؓ کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ دیتے، آگ سلگا کر اس کی دھونی دیتے اور کہتے کہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آ۔ لیکن زبیر ہر بار یہی کہتے۔ ’’ہرگز نہیں ہرگز نہیں اب میں کبھی کافر نہ ہوں گا۔‘‘ جب چچا کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تو حضرت زبیرؓ نے سرور عالمؐ کے ایماء پر حبش کی ہجرت اختیار کی۔ کچھ عرصہ وہاں گزار کر مکہ واپس آگئے اور تجارت کا شغل اختیار کیا۔ کچھ مدت بعد خود رحمت عالم ﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی اس وقت حضرت زبیرؓ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے۔ جب وہ شام سے مکہ کی طرف واپس آرہے تھے تو رسولِ اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ حسنِ اتفاق سے راستہ میں حضرت زبیرؓ کو ان سے شرفِ نیاز حاصل ہو گیا۔ اس موقع پر انہوں نے حضور ﷺ اور صدیق اکبرؓ کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے ہدیۃً پیش کئے اور پھر مکہ تشریف لے گئے۔
تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی والدہ حضرت صفیہؓ اور بیوی حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کو ہجرت کی اور کچھ مدت قباء میں قیام پذیر رہے۔ وہیں ۱ ھ میں (اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۲ ہجری میں) حضرت اسماءؓ کے بطن سے حضرت عبد اللہؓ ابن زبیر پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت سے پہلے کئی ماہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔ اس لئے یہودِ مدینہ نے مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے اور ان کا سلسلہ نسبل منقطع کر دیا ہے۔ حضرت عبد اللہؓ پیدا ہوئے تو مسلمانوں کو بے حد مسرت ہوئی اور انہوں نے فرطِ انبساط میں اس زور سے نعہر ہائے تکبیر بلند کئے کہ دشت و جبل گونج اُٹھے۔ مسلمانوں کو زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ ولادت باسعات نے یہودیوں کے دجل و تلبیس کا پردہ چاک کر دیا تھا۔
سرورِ عالمؐ نے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے مابین عقد مواخاۃ قائم فرمایا تو حضرت زبیرؓ کے اسلامی بھائی حضرت سلمہؓ بن سلامہ بن وقش قرار پائے۔ وہ اوس کے خاندان بنو عبد الاشہل کے ایک معزز رکن تھے اور بیعت عقبۂ کبیرہ کے شرکاء میں سے تھے۔ قیام مدینہ کے ابتدائی چند سالوں میں حضرت زبیرؓ کی معاش کا انحصار زراعت پر رہا۔ رسول اکرمؐ نے انہیں بنو نضیر میں ایک نخلستان اور ایک دوسری جگہ کچھ زمین عطا فرمائی تھی۔ ان کی آمدنی واجبی سی تھی اس لئے بڑی تنگدستی سے گزر ہوتی تھی۔ بعد میں انہوں نے زراعت کے ساتھ تجارت بھی شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت دی اور وہ نہایت آسودہ حال ہو گئے۔
(۴)
ہجرت کے بعد غزوات و مشاہد کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت زبیرؓ نے ہر معرکے میں کمال درجے کی استقامت اور بے جگری سے دادِ شجاعت دی۔ کئی موقعوں پر خود ذات رسالت مآبؐ نے ان کی شجاعت اور جذبۂ فدویت کی برملا تعریف و تحسین فرمائی۔ شیرِ خدا حضرت علی مرتضیٰؓ انہیں اشجع العرب کہا کرتے تھے۔ حق و باطل کا معرکۂ اول بدر کے میدان میں برپا ہوا تو حضرت زبیرؓ کی شمشیر خار اشگاف دشمن کی صفوں پر برقِ بے اماں بن کر گری اور انہیں درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ جدھر جھک پڑتے تھے دشمن کا دل بادل کائی کی طرح پھٹ جاتا۔ اس دن ان کے سر پر زرد عمامہ تھا۔ حضور ﷺ کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا۔ ’’آج مسلمانوں کی مدد کے لئے ملائکہ بھی زرد عمامے باندھ کر آسمان سے اترے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ عین ہنگامۂ کار زار میں ایک جنگجو مشرک ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر للکارا۔ ’’کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے۔‘‘ حضور ﷺ نے ایک صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ کیا تو اس کے مقابلہ کے لئے جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں۔‘‘
اسی اثناء میں سرورِ عالمﷺ کی نظر حضرت زبیرؓ پر پڑی جو قریب ہی بیٹھے تھے اور جوش غضب سے کسمسا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اے ابن صفیہ کھڑے ہو جاؤ اور اس مشرک کے مقابلے پر جاؤ۔ حضرت زبیرؓ تیر کی طرح اس پر جھپٹے اور اس سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دونوں بڑے شہ زور تھے اور ایک دوسرے کو ٹیلے سے نیچے گرانے کی کوشش کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’ان دونوں میں سے جو پہلے گرے گا وہ مارا جائے گا۔ پھر آپ نے حضرت زبیرؓ کے حق میں دعا فرمائی۔ چند ہی لمحے بعد دونوں لڑھکتے ہوئے نیچے اس طرح گرے کہ مشرک نیچے تھا اور حضرت زبیر اس کے اوپر اور پھرپلک جھپکنے کی دیر میں حضرت زبیرؓ نے اپنی تلوار سے مشرک کی گردن اڑا دی۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ کا مقابلہ قریش کے نامی بہادر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق خود ضرت زبیرؓ نے اس مقابلہ کا حال ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’بدر کے دن میرا سامنا عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا۔ وہ سراپا لوہے میں غرق تھا۔ صرف اس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اس کی کنیت ابو ذات الکرش تھی۔ اس نے للکار کر کہا، میں ہوں ابو ذات الکرش۔ میں نے اپنی برچھی سے اس پر حملہ کیا اور تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی ماری۔ وہ مر گیا۔‘‘
جب حضرت زبیرؓ ابو ذات الکرش کو ہلاک کر چکے تو اپنی برچھی کو اس کی لاش پر پاؤں اَڑا کر بڑی مشکل سے اس طرح نکالا کہ برچھی کا پھل مڑ گیا۔ سرورِ کائنات نے یہ برچھی حضرت زبیرؓ سے مانگ لی اور تاوفات اپنے پاس رکھی۔ حضور ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت زبیرؓ نے اس برچھی کو واپس لے لیا لیکن ان سے صدیق اکبرؓ نے مانگ لی۔ پھر یہ برچھی فاروق اعظمؓ کے قبضہ میں آئی۔ فاروق اعظمؓ کے بعد حضرت زبیرؓ نے یہ برچھی پھر واپس لے لی تھی۔ لیکن امیر المؤمنین عثمانؓ ذو النورین نے ان سے طلب کر لی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ برچھی آل علی کے پاس پہنچی۔ پھر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ان سے لے لی اور تا زندگی اپنے پاس رکھی۔
حضرت زبیرؓ کی جو تلوار بدر کے میدان میں چمکی وہ بھی اس برچھی کی طرح یادگار بن گئی۔ بدر کے دن حضرت زبیرؓ نے از خود رفتگی کے عالم میں یہ تلوار اس طرح چلائی کہ اس میں دندانے پڑ گئے۔ اس تلوار میں چاندی کا کام تھا۔ حضرت زبیرؓ کی شہادت کے بعد یہ تلوار ان کے جلیل القدر فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے قبضہ میں آئی۔ صحیح بخاری میں حضرت عروہؓ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن زبیرؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ عبد الملک بن مروان اموی نے مجھے بلا کر پوچھا۔ ’’اے عروہ کیا تم زبیرؓ کی تلوار کو پہچانتے ہو۔‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ عبد الملک نے پوچھا، اس کی نشانی کیا ہے؟ میں نے کہا۔ بدر کے دن اس میں دندانے پڑ گئے تھے۔
عبد الملک نے کہا: ہاں سچ کہتے ہو اس میں لشکروں کی مڈ بھیڑ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔
پھر اس نے یہ تلوار مجھے دے دی۔
عروہؓ کے فرزند ہشام کا بیان ہے کہ عروہ کے بعد اس مقدس تلوار کے متعلق آلِ زبیرؓ میں مناقشت پیدا ہوئی۔ ہم نے باہم اس کی قیمت تین ہزار درہم لگائی اور ہم میں سے ایک نے اس کو لے لیا۔ کاش میں نے اس تلوار کو لے لیا ہوتا۔
غزوۂ بدر میں حضرت زبیرؓ کو تلوار کے (باختلاف روایت) ایک یا دو زخم کاندھے پر آئے۔ ایک زخم اتنا شدید تھا کہ اس کے مندمل ہونے پر وہاں گڑھا سا بن گیا۔ حضرت عروہؓ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ میں بچپن میں اس گڑھے میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔
حضرت زبیرؓ بن العوام۔ حواریٔ رسولؐ
بعثت کے ابتدائی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک دن مکہ میں ایک وحشت اثر خبر پھیل گئی۔ اس منحوس خبر نے پرستانِ حق کو سخت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ ہر ایک کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ابھی ابو طالب زندہ ہیں اور بنو ہاشم کی تلواریں کند نہیں ہو گئیں۔ یہ خبر صحیح تھی یا محض افواہ تھی، اس کے بارے میں کوئی بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ محمد ﷺ کو مشرکین نے گرفتار کر لیا ہے اور کچھ کا کہنا تھا کہ حضور ﷺ شہید کر دیئے گئے ہیں۔ بنو ہاشم سخت غیظ و غضب کے عالم میں تھے، وہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے کے بارے میں ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ بنو اسد کے ایک نو عمر لڑکے کے کانوں میں بھی اس خبر کی بھنک پڑ گئی۔ سولہ سال کی عمر کے اس کشیدہ قامت اور قوی الجنۃ نوجوان کو رحمتِ عالم ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ وہ تھوڑی ہی دیر پہلے قیلولہ کرنے اپنے گھر آیا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی تڑپ کر اُٹھ بیٹھا، کھونٹی سے تلوار اتار کر اس کا نیام زمین پر ٹپک دیا اور شمشیر بکف مکہ کی گلیوں میں کود گیا۔ اس کا رخ مکہ کے بالائی حصے میں واقع سرورِ عالم ﷺ کے کاشانۂ اقدس کی جانب تھا۔ اس وقت جوشِ غضب سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ نہایت تیزی سے گلیاں طے کر رہا تھا۔ جلد ہی وہ حضور ﷺ کے کاشانۂ مبارک پر پہنچ گیا اور یہ دیکھ کر اس کی مسرت کی انتہا نہ رہی کہ مہبطِ وحی و رسالت خیر و عافیت کے ساتھ وہاں رونق افروز ہیں۔ حضور ﷺ شمشیر بکف نوجوان کو دیکھ کر متبسم ہو گئے اور فرمایا ’’کیوں بھائی خیر تو ہے اس وقت تم شمشیر برہنہ سونت کر کیسے آرہے ہو؟‘‘نوجوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں نے سنا تھا کہ آپ کو دشمنوں نے گرفتار کر لیا ہے یا شاید آپ شہید کر دیئے گئے ہیں۔
ارشاد ہوا: اچھا تو یہ بات ہے اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا تو تم کیا کرتے؟
نوجوان نے بے ساختہ عرض کیا: ’’یا رسول اللہ خدا کی قسم میں اہلِ مکہ سے لڑ مرتا۔‘‘ اِس کا جواب سن کر رحمتِ عالم کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی۔ آپ ﷺ نے اس جوان کے جذبۂ فدویت کی تحسین فرمائی اور اس کے حق میں دعائے خیر کی بلکہ اس کی تلوار کو بھی دعا دی کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہِ حق اور رسولِ برحق کی حمایت میں بلند ہوئی۔ رسول اللہ کے عاشق صادق یہ نوجوان بنو اسد کے گل سر سبد سیدنا حضرت زبیرؓ بن العوام تھے۔
(۲)
سیدنا حضرت ابو عبد اللہ بن زبیر بن العوام (بن خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصّی) تاریخ اسلام کی ایک مہتم بالشان شخصیت ہیں۔ ان کو بارگاہِ نبوت سے ’’حواری رسول‘‘ کا لقب عطا ہوا۔ اور سرورِ کائنات نے اپنی زبان مبارک سے انہیں جنت کی بشارت دی۔ اس طرح وہ اصحاب عشرہ مبشرہ میں شمار وہئے۔ ان کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ انہیں ارکانِ دین میں سے ایک رکن قرار دیا کرتے تھے (اصابہ۔ ابنِ حجرؒ) حضرت زبیرؓ کو ذاتِ رسالت مآب سے کئی نسبتیں حاصل تھیں۔
1. وہ حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب کے فرزند تھے اس طرح حضور ﷺ ان کے ماموں زاد بھائی تھے۔
2. ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ حضرت زبیرؓ کی پھوپھی تھیں۔ اس لحاظ سے سرورِ عالمؓ حضرت زبیرؓ کے پھوپھا تھے۔
3. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ حضرت زبیرؓ سے بیاہی گئی تھی۔ اس نسبت سے وہ سرورِ کائنات کے ہم زلف تھے۔
4. حضرت زبیرؓ کا سلسلۂ نسب قصی بن کلاب پر رسول اکرم ﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے اس طرح وہ حضور کے ہم جد تھے۔
حضرت زبیرؓ، ہجرتِ نبوی سے تقریباً اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ چچا نوفل بن خویلد نے اپنی سرپرستی میں ان کی پرورش کی۔ حضرت زبیرؓ کی والدہ حضرت صفیہؓ بڑی شجاع اور شیر دل خاتون تھیں۔ وہ اپنے فرزند کو بھی ایک سخت کوش بہادر اور نڈر سپاہی بنانے کی آرزو مند تھیں۔ چنانچہ وہ حضرت زبیرؓ سے سخت محنت و مشقت کا کام لیتیں اور وقتاً فوقتاً زجر و توبیخ اور زود و کوب سے بھی گریز نہ کرتیں۔ نوفل بن خویلد ایک دن بھتیجے کو ماں کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور حضرت صفیہ کو سختی سے روکا کہ اس طرح تم بچے کو مار ڈالو گی۔ انہوں نے بنو ہاشم سے بھی کہا کہ وہ صفیہ کو بچے پر سختی کرنے سے روکیںَ جب اس بات کا چرچا عام ہوا تو حضرت صفیہؓ نے لوگوں کے سامنے یہ رجز پڑھا۔
من قال ابغضہ فقد کذب انما اضربہ لکے یلب
جس نے یہ کہا کہ میں اس (زبیر) سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا، میں اس کو اس لئے پیٹتی ہوں کہ عقل مند ہو۔
ویھزم الجیش ویاتی السلب.... الخ
اور فوج کو شکست دے اور مال غنیمت حاصل کرے۔
حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت زبیرؓ کو لڑکپن میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آگیا۔ انہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے حضرت صفیہ سے شکایت کی تو انہوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا بہادر یا بزدل؟
غرض ماں کی تربیت کا یہ اثر ہوا کہ حضرت زبیر بڑے ہو کر ایک دلاورِ صف شکن اور ضیغمِ شجاعت بنے۔
(۳)
حضرت زبیرؓ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس پر آفتابِ اسلام کی شعاعیں دعوتِ حق کی ابتداء ہی میں پڑنے لگی تھیں۔ ان کی پھوپھی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اسلام کی خاتونِ اول تھیں۔ والدہ حضرت صفیہؓ بھی آغازِ عہد نبوت میں مشرف بہ ایمان ہو گئی تھیں ناممکن تھا کہ نورِ اسلام ان کے نہان خانۂ دل کو منور نہ کرتا چنانچہ انہوں نے باختلافِ روایت آٹھ بارہ یا سولہ برس کی عمر میں ہی دعوتِ حق پر لبیک کہا۔ بعض مورخین نے اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چوتھا یا پانچواں لکھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ البتہ سابقون اولون میں وہ ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ جب تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ اپنے چچا کی شفقتوں کا مرجع تھے لیکن جونہی انہوں نے دعوتِ حق قبول کی چچا کا رویہ بدل گیا اور اس نے ان پر سخت مظالم ڈھانے شروع کر دیئے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں ابو الاسود سے روایت کی ہے کہ حضرت زبیرؓ کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ دیتے، آگ سلگا کر اس کی دھونی دیتے اور کہتے کہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آ۔ لیکن زبیر ہر بار یہی کہتے۔ ’’ہرگز نہیں ہرگز نہیں اب میں کبھی کافر نہ ہوں گا۔‘‘ جب چچا کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تو حضرت زبیرؓ نے سرور عالمؐ کے ایماء پر حبش کی ہجرت اختیار کی۔ کچھ عرصہ وہاں گزار کر مکہ واپس آگئے اور تجارت کا شغل اختیار کیا۔ کچھ مدت بعد خود رحمت عالم ﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی اس وقت حضرت زبیرؓ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے۔ جب وہ شام سے مکہ کی طرف واپس آرہے تھے تو رسولِ اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ حسنِ اتفاق سے راستہ میں حضرت زبیرؓ کو ان سے شرفِ نیاز حاصل ہو گیا۔ اس موقع پر انہوں نے حضور ﷺ اور صدیق اکبرؓ کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے ہدیۃً پیش کئے اور پھر مکہ تشریف لے گئے۔
تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی والدہ حضرت صفیہؓ اور بیوی حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کو ہجرت کی اور کچھ مدت قباء میں قیام پذیر رہے۔ وہیں ۱ ھ میں (اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۲ ہجری میں) حضرت اسماءؓ کے بطن سے حضرت عبد اللہؓ ابن زبیر پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت سے پہلے کئی ماہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔ اس لئے یہودِ مدینہ نے مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے اور ان کا سلسلہ نسبل منقطع کر دیا ہے۔ حضرت عبد اللہؓ پیدا ہوئے تو مسلمانوں کو بے حد مسرت ہوئی اور انہوں نے فرطِ انبساط میں اس زور سے نعہر ہائے تکبیر بلند کئے کہ دشت و جبل گونج اُٹھے۔ مسلمانوں کو زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ ولادت باسعات نے یہودیوں کے دجل و تلبیس کا پردہ چاک کر دیا تھا۔
سرورِ عالمؐ نے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے مابین عقد مواخاۃ قائم فرمایا تو حضرت زبیرؓ کے اسلامی بھائی حضرت سلمہؓ بن سلامہ بن وقش قرار پائے۔ وہ اوس کے خاندان بنو عبد الاشہل کے ایک معزز رکن تھے اور بیعت عقبۂ کبیرہ کے شرکاء میں سے تھے۔ قیام مدینہ کے ابتدائی چند سالوں میں حضرت زبیرؓ کی معاش کا انحصار زراعت پر رہا۔ رسول اکرمؐ نے انہیں بنو نضیر میں ایک نخلستان اور ایک دوسری جگہ کچھ زمین عطا فرمائی تھی۔ ان کی آمدنی واجبی سی تھی اس لئے بڑی تنگدستی سے گزر ہوتی تھی۔ بعد میں انہوں نے زراعت کے ساتھ تجارت بھی شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت دی اور وہ نہایت آسودہ حال ہو گئے۔
(۴)
ہجرت کے بعد غزوات و مشاہد کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت زبیرؓ نے ہر معرکے میں کمال درجے کی استقامت اور بے جگری سے دادِ شجاعت دی۔ کئی موقعوں پر خود ذات رسالت مآبؐ نے ان کی شجاعت اور جذبۂ فدویت کی برملا تعریف و تحسین فرمائی۔ شیرِ خدا حضرت علی مرتضیٰؓ انہیں اشجع العرب کہا کرتے تھے۔ حق و باطل کا معرکۂ اول بدر کے میدان میں برپا ہوا تو حضرت زبیرؓ کی شمشیر خار اشگاف دشمن کی صفوں پر برقِ بے اماں بن کر گری اور انہیں درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ جدھر جھک پڑتے تھے دشمن کا دل بادل کائی کی طرح پھٹ جاتا۔ اس دن ان کے سر پر زرد عمامہ تھا۔ حضور ﷺ کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا۔ ’’آج مسلمانوں کی مدد کے لئے ملائکہ بھی زرد عمامے باندھ کر آسمان سے اترے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ عین ہنگامۂ کار زار میں ایک جنگجو مشرک ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر للکارا۔ ’’کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے۔‘‘ حضور ﷺ نے ایک صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ کیا تو اس کے مقابلہ کے لئے جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں۔‘‘
اسی اثناء میں سرورِ عالمﷺ کی نظر حضرت زبیرؓ پر پڑی جو قریب ہی بیٹھے تھے اور جوش غضب سے کسمسا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اے ابن صفیہ کھڑے ہو جاؤ اور اس مشرک کے مقابلے پر جاؤ۔ حضرت زبیرؓ تیر کی طرح اس پر جھپٹے اور اس سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دونوں بڑے شہ زور تھے اور ایک دوسرے کو ٹیلے سے نیچے گرانے کی کوشش کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’ان دونوں میں سے جو پہلے گرے گا وہ مارا جائے گا۔ پھر آپ نے حضرت زبیرؓ کے حق میں دعا فرمائی۔ چند ہی لمحے بعد دونوں لڑھکتے ہوئے نیچے اس طرح گرے کہ مشرک نیچے تھا اور حضرت زبیر اس کے اوپر اور پھرپلک جھپکنے کی دیر میں حضرت زبیرؓ نے اپنی تلوار سے مشرک کی گردن اڑا دی۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ کا مقابلہ قریش کے نامی بہادر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق خود ضرت زبیرؓ نے اس مقابلہ کا حال ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’بدر کے دن میرا سامنا عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا۔ وہ سراپا لوہے میں غرق تھا۔ صرف اس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اس کی کنیت ابو ذات الکرش تھی۔ اس نے للکار کر کہا، میں ہوں ابو ذات الکرش۔ میں نے اپنی برچھی سے اس پر حملہ کیا اور تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی ماری۔ وہ مر گیا۔‘‘
جب حضرت زبیرؓ ابو ذات الکرش کو ہلاک کر چکے تو اپنی برچھی کو اس کی لاش پر پاؤں اَڑا کر بڑی مشکل سے اس طرح نکالا کہ برچھی کا پھل مڑ گیا۔ سرورِ کائنات نے یہ برچھی حضرت زبیرؓ سے مانگ لی اور تاوفات اپنے پاس رکھی۔ حضور ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت زبیرؓ نے اس برچھی کو واپس لے لیا لیکن ان سے صدیق اکبرؓ نے مانگ لی۔ پھر یہ برچھی فاروق اعظمؓ کے قبضہ میں آئی۔ فاروق اعظمؓ کے بعد حضرت زبیرؓ نے یہ برچھی پھر واپس لے لی تھی۔ لیکن امیر المؤمنین عثمانؓ ذو النورین نے ان سے طلب کر لی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ برچھی آل علی کے پاس پہنچی۔ پھر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ان سے لے لی اور تا زندگی اپنے پاس رکھی۔
حضرت زبیرؓ کی جو تلوار بدر کے میدان میں چمکی وہ بھی اس برچھی کی طرح یادگار بن گئی۔ بدر کے دن حضرت زبیرؓ نے از خود رفتگی کے عالم میں یہ تلوار اس طرح چلائی کہ اس میں دندانے پڑ گئے۔ اس تلوار میں چاندی کا کام تھا۔ حضرت زبیرؓ کی شہادت کے بعد یہ تلوار ان کے جلیل القدر فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے قبضہ میں آئی۔ صحیح بخاری میں حضرت عروہؓ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن زبیرؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ عبد الملک بن مروان اموی نے مجھے بلا کر پوچھا۔ ’’اے عروہ کیا تم زبیرؓ کی تلوار کو پہچانتے ہو۔‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ عبد الملک نے پوچھا، اس کی نشانی کیا ہے؟ میں نے کہا۔ بدر کے دن اس میں دندانے پڑ گئے تھے۔
عبد الملک نے کہا: ہاں سچ کہتے ہو اس میں لشکروں کی مڈ بھیڑ سے دندانے پڑے ہوئے ہیں۔
پھر اس نے یہ تلوار مجھے دے دی۔
عروہؓ کے فرزند ہشام کا بیان ہے کہ عروہ کے بعد اس مقدس تلوار کے متعلق آلِ زبیرؓ میں مناقشت پیدا ہوئی۔ ہم نے باہم اس کی قیمت تین ہزار درہم لگائی اور ہم میں سے ایک نے اس کو لے لیا۔ کاش میں نے اس تلوار کو لے لیا ہوتا۔
غزوۂ بدر میں حضرت زبیرؓ کو تلوار کے (باختلاف روایت) ایک یا دو زخم کاندھے پر آئے۔ ایک زخم اتنا شدید تھا کہ اس کے مندمل ہونے پر وہاں گڑھا سا بن گیا۔ حضرت عروہؓ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ میں بچپن میں اس گڑھے میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔