• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حدثنا مالك بن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا إسرائيل،‏‏‏‏ عن المغيرة،‏‏‏‏ عن إبراهيم،‏‏‏‏ عن علقمة،‏‏‏‏ قال قدمت الشأم ‏ {‏ فقلت من ها هنا‏}‏ قالوا أبو الدرداء قال أفيكم الذي أجاره الله من الشيطان على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم حدثنا سليمان بن حرب حدثنا شعبة عن مغيرة وقال الذي أجاره الله على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم يعني عمارا‏.‏

صحیح بخاری ۔، کتاب بدء الخلق ،حدیث نمبر : 3287

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں شام پہنچا تو لوگوں نے کہا، ابودرداء آئے انہوں نے کہا، کیا تم لوگوں میں وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان پر (یعنی آپ کے زمانے سے) شیطان سے بچا رکھا ہے۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے یہی حدیث، اس میں یہ ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا، آپ کی مراد حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے تھی۔

حدثنا سليمان بن حرب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مغيرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال ذهب علقمة إلى الشأم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما دخل المسجد قال اللهم يسر لي جليسا صالحا‏.‏ فجلس إلى أبي الدرداء فقال أبو الدرداء ممن أنت قال من أهل الكوفة‏.‏ قال أليس فيكم ـ أو منكم ـ صاحب السر الذي لا يعلمه غيره يعني حذيفة‏.‏ قال قلت بلى‏.‏ قال أليس فيكم ـ أو منكم ـ الذي أجاره الله على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم يعني من الشيطان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يعني عمارا‏.‏ قلت بلى‏.‏ قال أليس فيكم ـ أو منكم ـ صاحب السواك أو السرار قال بلى‏.‏ قال كيف كان عبد الله يقرأ ‏ {‏ والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى‏}‏ قلت ‏ {‏ والذكر والأنثى‏}‏‏.‏ قال ما زال بي هؤلاء حتى كادوا يستنزلوني عن شىء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏

صحیح بخاری ،کتاب فضائل اصحاب النبی ،حدیث نمبر : 3743

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ رضی اللہ عنہ شام میں تشریف لے گئے، اور مسجد میں جا کر یہ دعا کی، اے اللہ! مجھے ایک نیک ساتھی عطا فرما، چنانچہ آپ کو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی صحبت نصیب ہوئی۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا، تمہاراتعلق کہاں سے ہے؟ عرض کیا کہ کوفہ سے، اس پر انہوں نے کہا: کیا تمہارے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دار نہیں ہیں کہ ان رازوں کو ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا؟ (ان کی مراد حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ سے تھی) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں موجود ہیں، پھر انہوں نے کہا کیا تم میں وہ شخص نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ دی تھی۔ ان کی مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی، میں نے عرض کیا کہ جی ہاں وہ بھی موجود ہیں، اس کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما آیت واللیل اذا یغشیٰ والنھار اذا تجلی کی قرآت کس طرح کرتے تھے؟ میں نے کہا کہ وہ (وما خلق کے حذف کے ساتھ) ”والذکر والانثی“ پڑھاکرتے تھے۔ اس پر انہوں نے کہا یہ شام والے ہمیشہ اس کو شش میں رہے کہ اس آیت کی تلاوت کو جس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اس سے مجھے ہٹا دیں۔
حدثنا مالك بن إسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا إسرائيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن المغيرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن علقمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قدمت الشأم فصليت ركعتين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قلت اللهم يسر لي جليسا صالحا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأتيت قوما فجلست إليهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا شيخ قد جاء حتى جلس إلى جنبي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قلت من هذا قالوا أبو الدرداء‏.‏ فقلت إني دعوت الله أن ييسر لي جليسا صالحا فيسرك لي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال ممن أنت قلت من أهل الكوفة‏.‏ قال أوليس عندكم ابن أم عبد صاحب النعلين والوساد والمطهرة وفيكم الذي أجاره الله من الشيطان على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم أوليس فيكم صاحب سر النبي صلى الله عليه وسلم الذي لا يعلم أحد غيره ثم قال كيف يقرأ عبد الله ‏ {‏ والليل إذا يغشى‏}‏،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقرأت عليه ‏ {‏ والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى‏}‏‏.‏ قال والله لقد أقرأنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم من فيه إلى في‏.

صحیح بخاری ،کتاب فضائل اصحاب النبی ،حدیث نمبر : 3742
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں جب شام آیا تو میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کی، کہ اے اللہ! مجھے کوئی نیک ساتھی عطا فرما۔ پھر میں ایک قوم کے پاس آیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ گیا، تھوڑی ہی دیر بعد ایک بزرگ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے، میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ ہیں، اس پر میں نے عرض کیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ کوئی نیک ساتھی مجھے عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجھے عنایت فرمایا۔ انہوں نے دریافت کیا، تمہارا وطن کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کوفہ ہے۔ انہوں نے کہا کیا تمہارے یہاں ابن ام عبد، صاحب النعلین، صاحب وسادہ، و مطہرہ (یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما) نہیں ہیں؟ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دے چکا ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتا۔ (مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی) کیا تم میں وہ نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے بہت سے بھیدوں کے حامل ہیں جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ (یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ) اس کے بعد انہوں نے دریافت فرمایا عبداللہ رضی اللہ عنہ آیت ((واللیل اذا یغشیٰ)) کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں؟ میں نے انہیں پڑھ کر سنائی کہ ((واللیل اذا یغشیٰ والنھار اذا تجلیٰ والذکر والانثی)) اس پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے مجھے بھی اسی طرح یاد کرایا تھا۔
وعن خالدِ بنِ الوليدِ، قال : كان بيني وبينَ عمارِ بنِ ياسرٍ كلامٌ، فأغلظتُ لهُ في القولِ، فانطلق عمارٌ يشكوني إلى رسولِ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ -، فجاء خالدٌ وهو يشكوهُ إلى النبيِّ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ -، قال : فجعل يغلظُ لهُ ولا يزيدهُ إلا غلظةً، والنبيُّ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - ساكتٌ لا يتكلمُ، فبكى عمارٌ وقال : يا رسولَ اللهِ ! ألا تراهُ ؟ ! فرفع النبيُّ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - رأسهِ، وقال : منْ عادى عمارًا عاداهُ اللهُ، ومن أبغضَ عمارًا أبغضهُ اللهُ، قال : خالدٌ : فخرجتُ ؛ فما كان شيءٌ أحبَّ إليَّ منْ رضى عمارٍ، فلقيتُهُ بما رضيَ فرضيَ .

الراوي: خالد بن الوليد المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 6208

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


من عادى عمارا عاداه الله ، و من أبغض عمارا أبغضه الله

الراوي: خالد بن الوليد المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6386

خلاصة حكم المحدث: صحيح


ومَن يُحقِّرْ عمَّارًا يُحقِّرْهُ اللَّهُ ومن يسبَّ عمَّارًا يسبَّهُ اللَّهُ ومن ينتقِصْ عمَّارًا ينتقِصْهُ اللَّهُ

الراوي: خالد بن الوليد المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 293

خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
2699 - أخبرنا إسحاق بن محمد بن خالد الهاشمي ، بالكوفة ، ثنا محمد بن علي بن عفان العامري ، ثنا مالك بن إسماعيل النهدي ، أنبأ إسرائيل بن يونس ، عن مسلم الأعور ، عن خالد العرني قال : دخلت أنا وأبو سعيد الخدري على حذيفة فقلنا : يا أبا عبد الله حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الفتنة قال حذيفة : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : " دوروا مع كتاب الله حيث ما دار " فقلنا : فإذا اختلف الناس فمع من نكون ؟ فقال : [ ص: 493 ] " انظروا الفئة التي فيها ابن سمية فالزموها ، فإنه يدور مع كتاب الله " قال : قلت : ومن ابن سمية ؟ قال : أو ما تعرفه ؟ قلت : بينه لي قال : " عمار بن ياسر " ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول لعمار : " يا أبا اليقظان ، لن تموت حتى تقتلك الفئة الباغية عن الطريق "
" هذا حديث له طرق بأسانيد صحيحة ، أخرجا بعضها ولم يخرجاه بهذا اللفظ .

الكتب » المستدرك على الصحيحين » كتاب قتال أهل البغي وهو آخر الجهاد
خالد العرنى نے کہا میں اور ابوسعيد خدرى ، حذيفه کے پاس آئے اور ہم نے کہا ابوعبد اللہ [حذیفہ] وہ حدیث جس کو تم نے فتنہ کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے ہمارے لئے بیان کیجئے حذیفہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : قرآن کے پیچھے چلتے رہو وہ جہاں بھی جائے ۔ہم نے کہا جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس کے ساتھ ہونا چاہئے ؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا اس جماعت کو دیکھو جس میں سمیہ کا بیٹا ہے اور اسی جماعت کے ساتھ چپکے رہو حذیفہ کہتے ہیں میں نےعرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابن سمیہ کون ہے ؟آپ نےفرمایا کیا تم اسے نہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا آپ اسے معین کر دیجئے آپ نے فرمایا: "عمار بن یاسر " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ آپ نے عمار سے کہااے ابو یقظان تم اس وقت تک نہیں مروگے جب تک تمہیں ایک باغی جماعت قتل نہ کردے۔
اس روایت کی متعدد طرق صحیح السند ہیں بخاری اور مسلم نے اس روایت کا بعض حصہ نقل کیا ہے لیکن انھوں نے ان الفاظ میں نقل نہیں کیا ہے

لنک : http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?bk_no=74&ID=1115&idfrom=2527&idto=2555&bookid=74&startno=8

امام ذھبی نے ابو الغادیہ سے نقل کیا ہے کہ عمار کا قاتل جہنمی ہے

عن أبي الغادية: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قاتل عمار في النار.
ميزان الاعتدال الذهبي الصفحة : 173
لنک
ابوغاديہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ عمار کا قاتل جہنمی ہے

اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ذھبی بڑی حیرت سے کہتے ہیں کہ
وهذا شيء عجيب، فإن عمارا قتله أبو الغادية
اور یہ چیز بہت تعجب خیز ہے اس لئے کہ عمار کو خود ابو الغادیہ نے قتل کیا تھا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ الفاظ کس موقع پر ارشاد فرمائے؟؟؟۔۔۔
٦ ماہ پہلے میں نے بھی اس حدیث کے بارے میں سوال " یہاں " کر رکھا ہے جیسے ہی مجھے جواب ملا میں آپ کو اطلاع دونگا لیکن بہتر ہے آپ خود ہی اپنا سوال یہاں پیش فرمادیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
٦ ماہ پہلے میں نے بھی اس حدیث کے بارے میں سوال " یہاں " کر رکھا ہے جیسے ہی مجھے جواب ملا میں آپ کو اطلاع دونگا لیکن بہتر ہے آپ خود ہی اپنا سوال یہاں پیش فرمادیں
تو پھر اس تھریڈ کو حذف کردیں۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیا یہ تھریڈ ہضم نہیں ہورہا ؟؟؟
اگر یہ بات ہوتی جس کا گمان آپ کررہے ہیں تو سوال پوچھنے کی بجائے میں اعتراض پیش کرتا۔۔۔
لیکن آپ کی طرف سے جواب نہ آنے کی صورت میں مجھے جان بوجھ کر یہ لکھنا پڑا تاکہ آپ تلملائیں۔۔۔
تو اس تلملاہٹ کی وجہ وہ مجھے جاننے کی ضرورت نہیں۔۔۔ جو میں جاننا چاہ رہا ہوں بس وہ اگربیان کردیں۔۔۔
تو مناقب صحابی رضی اللہ عنہ پر اپنی معلومات شیئر کروں۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اگر یہ بات ہوتی جس کا گمان آپ کررہے ہیں تو سوال پوچھنے کی بجائے میں اعتراض پیش کرتا۔۔۔
لیکن آپ کی طرف سے جواب نہ آنے کی صورت میں مجھے جان بوجھ کر یہ لکھنا پڑا تاکہ آپ تلملائیں۔۔۔
تو اس تلملاہٹ کی وجہ وہ مجھے جاننے کی ضرورت نہیں۔۔۔ جو میں جاننا چاہ رہا ہوں بس وہ اگربیان کردیں۔۔۔
تو مناقب صحابی رضی اللہ عنہ پر اپنی معلومات شیئر کروں۔۔۔
شکریہ۔۔۔
٦ ماہ پہلے میں نے بھی اس حدیث کے بارے میں سوال " یہاں " کر رکھا ہے جیسے ہی مجھے جواب ملا میں آپ کو اطلاع دونگا لیکن بہتر ہے آپ خود ہی اپنا سوال یہاں پیش فرمادیں
اگر آپ میرے دیئے ہوئے لنک پر تشریف لےجانے کی زحمت گوارہ کرلیتے تو آپ کو سوال کا جواب بھی مل جاتا
لیجئے ایک بار پھر میں لنک آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں
لنک
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
2699 - أخبرنا إسحاق بن محمد بن خالد الهاشمي ، بالكوفة ، ثنا محمد بن علي بن عفان العامري ، ثنا مالك بن إسماعيل النهدي ، أنبأ إسرائيل بن يونس ، عن مسلم الأعور ، عن خالد العرني قال : دخلت أنا وأبو سعيد الخدري على حذيفة فقلنا : يا أبا عبد الله حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الفتنة قال حذيفة : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : " دوروا مع كتاب الله حيث ما دار " فقلنا : فإذا اختلف الناس فمع من نكون ؟ فقال : [ ص: 493 ] " انظروا الفئة التي فيها ابن سمية فالزموها ، فإنه يدور مع كتاب الله " قال : قلت : ومن ابن سمية ؟ قال : أو ما تعرفه ؟ قلت : بينه لي قال : " عمار بن ياسر " ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول لعمار : " يا أبا اليقظان ، لن تموت حتى تقتلك الفئة الباغية عن الطريق "
" هذا حديث له طرق بأسانيد صحيحة ، أخرجا بعضها ولم يخرجاه بهذا اللفظ .

الكتب » المستدرك على الصحيحين » كتاب قتال أهل البغي وهو آخر الجهاد
خالد العرنى نے کہا میں اور ابوسعيد خدرى ، حذيفه کے پاس آئے اور ہم نے کہا ابوعبد اللہ [حذیفہ] وہ حدیث جس کو تم نے فتنہ کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے ہمارے لئے بیان کیجئے حذیفہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : قرآن کے پیچھے چلتے رہو وہ جہاں بھی جائے ۔ہم نے کہا جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس کے ساتھ ہونا چاہئے ؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا اس جماعت کو دیکھو جس میں سمیہ کا بیٹا ہے اور اسی جماعت کے ساتھ چپکے رہو حذیفہ کہتے ہیں میں نےعرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابن سمیہ کون ہے ؟آپ نےفرمایا کیا تم اسے نہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا آپ اسے معین کر دیجئے آپ نے فرمایا: "عمار بن یاسر " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ آپ نے عمار سے کہااے ابو یقظان تم اس وقت تک نہیں مروگے جب تک تمہیں ایک باغی جماعت قتل نہ کردے۔اس روایت کی متعدد طرق صحیح السند ہیں بخاری اور مسلم نے اس روایت کا بعض حصہ نقل کیا ہے لیکن انھوں نے ان الفاظ میں نقل نہیں کیا ہے

لنک : http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?bk_no=74&ID=1115&idfrom=2527&idto=2555&bookid=74&startno=8

امام ذھبی نے ابو الغادیہ سے نقل کیا ہے کہ عمار کا قاتل جہنمی ہے

عن أبي الغادية: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قاتل عمار في النار.
ميزان الاعتدال الذهبي الصفحة : 173
لنک
ابوغاديہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ عمار کا قاتل جہنمی ہے

اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ذھبی بڑی حیرت سے کہتے ہیں کہ
وهذا شيء عجيب، فإن عمارا قتله أبو الغادية
اور یہ چیز بہت تعجب خیز ہے اس لئے کہ عمار کو خود ابو الغادیہ نے قتل کیا تھا۔
یہ حدیث صحیح ہے لیکن -

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروہ نے شہید نہیں کیا تھا - جیسا کہ بعد میں رافضیوں نے یہ بات مشہور کر دی -کہ ان کو باغی گروہ نے قتل کیا
اور وہ گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو حضرت عثمان رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں مصر کے حالات معلوم کرنے بھیجا تھا -اور وہ پھر وہ واپس نہیں آے -ان کو مصر میں عبد الله بن سبا (یہودی منافق ) کے معتقدین نے شہید کر دیا تھا -

تفصیل کے لئے کتاب پڑھیں :" تحقیق خلافت و ملوکیت" ( مصنف: محمود احمد عباسی ) یہ کتاب مولانا مودودی کی کتاب "خلافت و ملوکیت " کے جواب میں لکھی گئی -
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top