• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمرؓ رضی اللہ عنہ کا توراۃ پڑھنا؟؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
سیدنا جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے سیدنا عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ سیدنا عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتےاور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ البانی نے ارواء الغلیل (ج6 ص34 ) میں اسکی مفصل تخریج کی ہے ۔لکھتے ہیں :

وهذا سند فيه ضعف , من أجل مجالد وهو ابن سعيد الهمدانى قال الحافظ فى " التقريب ": " ليس بالقوى , وقد تغير فى آخر عمره ".
وقال الحافظ فى " الفتح " (13/284) : " رواه أحمد وابن أبى شيبة والبزار , ورجاله موثقون , إلا أن فى مجالد ضعفا ".
قلت: لكن الحديث قوى , فإن له شواهد كثيرة۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی یہ سند تو مجالد نامی راوی کی وجہ سے ضعیف ہے ،مجالد بن سعید ھمدانی کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ تقریب میں فرماتے ہیں کہ وہ قوی نہیں " اور اس روایت کو امام احمد نے مسند میں اور ابن ابی شیبہ نے مصنف میں امام بزار نے نے مسند میں نقل فرمایا ہے۔۔۔
مزید فرماتے ہیں کہ اس کے کئی شواہد ہیں اسلئے یہ قوی ہے ،
اور انہوں نے مشکاۃ کی تحقیق میں بھی اسے حسن قرار دیا ہے ,
ھدیۃ الرواۃ میں علامہ البانی لکھتے ہیں :
فيه مجالد بن سعيد وفيه ضعف ، لكن الحديث حسن عندي لان له طرق كثيرة عند اللالكائي
-----------------
اور علامہ حسین سلیم اسد سنن الدارمی کی تحقیق میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
اسناده ضعيف لضعف مجالد ، ولكن الحديث حسن" یعنی اسکی اسناد تو ضعیف ہے لیکن یہ حدیث حسن ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورمسند احمد میں ہے :
حدثنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا سفيان، عن جابر، عن الشعبي، عن عبد الله بن ثابت، قال: جاء عمر بن الخطاب إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إني مررت بأخ لي من قريظة، فكتب لي جوامع من التوراة ألا أعرضها عليك؟ قال: فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله: فقلت له: ألا ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عمر: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا، قال: فسري عن النبي صلى الله عليه وسلم (2) ، ثم قال: " والذي نفسي بيده، لو أصبح فيكم موسى ثم اتبعتموه، وتركتموني لضللتم، إنكم حظي من الأمم، وأنا حظكم من النبيين "
مسند احمد:جلد 25:حدیث نمبر 15864،
سیدنا عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
اس کی تخریج میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :

إسناده ضعيف، لضعف جابر- وهو ابن يزيد الجعفي- وفيه اضطراب، فقد اختلف فيه على الشعبي، فرواه جابر من حديث جابر، عنه من حديث عبد الله بن ثابت، قال البخاري في "التاريخ الكبير" 5/39: ولم يصح، ورواه مجالد عنه عن جابر، أن عمر جاء بكتاب إلى النبي صلى الله عليه وسلم. وقد نقل الحافظ في "الإصابة" في ترجمة عبد الله بن ثابت أن البخاري قال في هذا الإسناد أيضا: ولا يصح، غير أننا لم نجد قوله هذا في كتابه "التاريخ الكبير"، وذكر ابن الأثير في "أسد الغابة" أنه رواه خالد وحريث بن أبي مطر وزكريا بن أبي زائدة، عن الشعبي، عن ثابت بن يزيد. جعلوه من مسند ثابت بن يزيد، ولذا قال ابن عبد البر في حديث عبد الله بن ثابت هذا: حديثه مضطرب فيه. وباقي رجال الإسناد ثقات رجال الشيخين، غير أن صحابيه ليست له رواية في الكتب الستة. عبد الرزاق: هو ابن همام الصنعاني، وسفيان: هو الثوري، والشعبي: هو عامر بن شراحيل.
وهو عند عبد الرزاق في "المصنف" (10164) و (19213) ، بهذا الإسناد.
وأخرجه البيهقي في "الشعب" (5201) من طريق أبي حذيفة، عن سفيان، به، لكن وقع اسم صحابيه فيه: عبد الله بن الحارث، وهو خطأ، فقد أورد الحافظ هذا الحديث في ترجمة عبد الله بن ثابت.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 1/173، وقال: رواه أحمد والطبراني، ورجاله رجال الصحيح، إلا أن فيه جابرا الجعفي، وهو ضعيف.
وسيكرر بإسناده ومتنه 4/265-266.
وقد سلف بنحوه من حديث جابر برقم (15156) ، وصنيع البخاري في "التاريخ الكبير" يشير إلى أنه الراجح.


--------------------------
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں منقول ہے :
أخرجه مسدد في "مسنده" (إتحاف الخيرة 566) وأبو عبيد في "الغريب" (3/ 28) وابن أبي شيبة (9/ 47) واللفظ الأول له وأحمد (3/ 388 و 387) والدارمي (441) واللفظ الثاني له وابن أبي عاصم في "السنة" (50) والبزار (كشف 124) وأبو يعلى (2135) وأبو القاسم البغوي في "الصحابة" (1614) والبيهقي (2/ 10 - 11) وفي "الشعب" (175 و 176) وابن عبد البر في "الجامع" (1497) والهروي في "ذم الكلام" (ق 59/ ب) وأبو محمد البغوي في "شرح السنة" (126) وفي "الشمائل" (1235) والذهبي في "تذكرة الحفاظ" (2/ 622) من طرق عن مجالد به.
وإسناده ضعيف لضعف مجالد.
قال البوصيري: رواه مسدد وأبو يعلى وأحمد بسند ضعيف لضعف مجالد" مختصر الإتحاف 1/ 174
(انیس الساری )

---------------------------
قال الحافظ: أخرجه أحمد وابن أبي شيبة والبزار، ورجاله موثقون إلا أنّ في مجالد ضعفا، وأخرج البزار أيضاً من طريق عبد الله بن ثابت الأنصاري أنّ عمر نسخ صحيفة من التوراة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء" وفي سنده جابر الجعفي وهو ضعيف"
((كتاب الاعتصام - باب قول النبي - صلى الله عليه وسلم -: لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء)
 
Last edited:
Top