السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ روایت علامہ ابن قتیبہ دینوری (المتوفی 276ھ ) نے اپنی کتاب "عیون الاخبار " میں بغیر اسناد نقل کی ہے ،لکھتے ہیں :
قال العتبي: بعث إلى عمر بحلل فقسّمها فأصاب كلّ رجل ثوب فصعد المنبر وعليه حلّة، والحلة ثوبان، فقال: أيها الناس ألا تسمعون؟ فقال سليمان: لا نسمع. قال: ولم يا أبا عبد الله؟ قال: لأنك قسّمت علينا ثوبا ثوبا وعليك حلة. قال: لا تعجل يا أبا عبد الله. ثم نادى: يا عبد الله، فلم يجبه أحد، فقال: يا عبد الله بن عمر. قال: لبّيك يا أمير المؤمنين. قال:
نشدتك بالله. الثوب الذي ائتزرت به هو ثوبك؟ قال: اللهم نعم. فقال سليمان رضي الله عنه: أمّا الآن فقل نسمع "
أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276 ھ) عیون الاخبار ص1/55
https://archive.org/stream/waq11629/01_11629#page/n54/mode/2up
اور یہی روایت علامہ ابن الجوزیؒ نے مناقب امیرالمومنین عمر میں اورعلامہ ابن قیم نے اعلام الموقعين لابن القيم 2 / 180 طبعة دار الجيل میں بیان کی ہے ،
_______________
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ کپڑے آئے جنہیں صحابہ کرام میں تقسیم کیا گیا ،ہر آدمی کو ایک ایک کپڑا ملا ،اس کے بعد آپ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے اور آپ نے ان تقسیم کردہ کپڑوں کا جوڑا پہن رکھا تھا ، آپ منبر پر فرمارہے تھے (اپنے امیر اور حاکم کی ) بات سنو ،اور اطاعت شعاربنو ،تو سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم تو نہیں سنیں گے ،تو سیدنا عمر نے پوچھا کہ اے ابو عبداللہ ! سمع و طاعت سے انکار کس لئے ، جناب سلمان کہنے لگے جناب جو کپڑے تقسیم کیئے گئے وہ سب کو ایک ایک کپڑا ملا جبکہ اس وقت آپ نے ان کپڑوں کا جوڑا زیب تن کر رکھا ہے ، سیدنا فاروق نے اپنے صاحبزادے جناب عبداللہ کوکہا کہ بیٹا تجھے قسم دے کر کہتا ہوں بتاؤ کہ یہ جو دوسرا کپڑا اس وقت میں نے پہن رکھا ہے ،یہ وہی ہے جو تیرے حصہ میں آیا تھا (اور میں نے تجھ سے لے لیا ؟)عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تصدیق کی کہ ہاں یہ وہی کپڑا ہے ،یہ سن کر سیدنا سلمان کہنے لگے کہ ہاں اب ٹھیک ہے ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے ۔
__________________
اس روایت کو بیان کرنے والا " عتبی " (محمد بن عبیداللہ ) امام ابن عیینہؒ اور مشہور رافضی ذاکر ابو یحیی محنف بن لوط سے روایات نقل کرنے والا دوسری صدی ہجری کا راوی ہے ، اس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ روایت اس تک کیسے پہنچی ،لہذا یہ معضل ،مقطوع روایت ہے ،یعنی اس کی اسناد ہی موجود نہیں ہے ،لہذا قابل استدلال نہیں ۔
اس عتبی راوی کے متلق امام ذہبی سیر اعلام میں لکھتے ہیں :
العتبي محمد بن عبيد الله بن عمرو بن معاوية
روى عن: ابن عيينة، وأبي مخنف، ووالده.
وعنه: أبو حاتم السجستاني، وإسحاق بن محمد النخعي...
مات: سنة ثمان وعشرين ومائتين.