• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر فاروق کے تجدیدی کارنامے(قسط نمبر2)

tanveer ahmad awan

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
7

حضرت عمر فاروق کے تجدیدی کارنامے
مولانا تنویراحمداعوان
قسط نمبر 2
جنگیں اور فتوحات:خلیفہ دوم خضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں خلافت اسلامیہ کا پھیلاؤ (2251030)مربع میل تک پھیل گیا تھا ، آپ کے مقبوضہ علاقوں میں اہم عراق،جزائر، خوزستان ، شام ، عجم ، ارمینیا، آزر بائیجان ، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا کچھ حصہ آجاتا ہے شامل تھا۔آپ کے دور خلافت میں معرکۃ الأراء جنگیں لڑیں گئیں ،آپ کے مشہور سپہ سالاروں میں ابو عبید، ابوعبیدہؓ، مثنیٰ ،قعقاع بن عمرو،معاذبن جبلؓ، سعد بن ابی وقاصؓ ،عمرو بن العاصؓ اورخالد بن ولیدؓ ہیں جنہوں نے عزم و استقلال اور بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں ۔ مشہور جنگوں میں عراق کے مختلف معاذوں پر ایرانیوں کے خلاف لڑے جانے والے معرکوں جنگ جسر،یوم العماس اور جلولاء کے علاوہ قادسیہ کی عظیم فتح ،شام کے عظیم معرکوں میں دمشق،فحل،حمص اور یرموک کا معرکہ جب کہ مصر کے معرکو ں میں فسطاط اور اسکندریہ کی فتح اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ایک اہم سنگ میل جس پر امت مسلمہ اور اہل کتاب ہر دو کوفخر ہے وہ بیت القدس کی فتح ہے، 16 ؁ ہجری بمطابق 637 ؁عیسوی حضرت ابوعبیدہؓ نے بیت القدس کا محاصرہ کیا قلعہ بند ہو کر لڑتے رہے ،عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے یہ شرط اضافہ کی کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓخود آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے۔مشاورت کے بعد حضرت عمرؓ کا جانا طے ہوا ،آپ نے حضرت علیؓ کو اپنا نائب مقرر کرکے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کئے ۔ جابیہ کے مقام پر بیت المقدس کا معاہدہ لکھا گیا،اس کے بعد حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کا ارادہ کیا ، جو گھوڑا آپ کی سواری میں تھا اس کے سم گھس چکے تھے اور رک رک کے چلتا تھا ،آپ یہ دیکھ کر اتر پڑے، لوگوں نے ترکی گھوڑے پیش کئے مگر آپ پیادہ پا ہی رہے یہاں تک کہ بیت القدس قریب آگیا حضرت ابوعبیدہؓاور دیگر کمانڈر آپ کے استقبال کے لیے آئے، آپ نہایت سادہ لباس اورمعمول حیثیت کا سازوسامان ساتھ لیے ہوئے تھے ، کچھ مسلمانوں نے قیمتی لباس اور اعلیٰ نسل کی سواری پیش کی ،آپ نے ردعمل میں فرمایاکہ خدا نے جو عزت ہمیں دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔(الشیخان،)
21 ؁ ہجری حضرت عمرؓ نے نئی فتوحات کو منظم کرنے اور لشکر کشی کے لیے متعدد علم تیار کرکے جداجدا ممالک کے افسراں کے حوالے کئے جن میں خراسان کا علم احنف بن قیس، سابورواردشیر کا مجامع بن مسعود ، اصطخر کا عثمان بن العاص الثقفی، افساء کا ساریہ بن زنیم الھنانی کو ، کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمرو ،مکران کا حکم بن ومیر الغلبی اور آذربیجان کا عتبہ بن فرقد کو سپرد کیا۔
نظم و نسق خلافت فاروقی:
نظم عمومی ،صوبہ جات و عہدداران: خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کا بنیادی اصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھایعنی پارلیمنٹ کا باضابطہ قیام سب سے پہلے آپ کے دور خلافت میں کیا گیا،جب بھی کوئی انتظامی معاملہ پیش آتا تو ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی اور کوئی امر بغیر مشاورت اور کثرت رائے کے طے نہ کیا جاتا تھا۔مجلس شوریٰ کے اہم ارکان میں حضرت عثمانؓ بن عفان،حضرت علیؓ ، حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ ، حضرت معاذبن جبلؓ حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ شامل تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے 20 ؁ ہجری میں ملک کو 8صوبوں میں تقسیم کیا ،آپ کے مقرر کردہ صوبوں میں مکہ، مدینہ ،شام، جزیرہ،بصرہ ، کوفہ ،مصر، فلسطین شامل تھے۔ہر صوبے میں انتظامی افسران جن میں والی صوبہ(حاکم)،کاتب یعنی میرمنشی، کاتب دیوان یعنی دفتر فوج کا میر منشی، صاحب الخراج یعین کلکٹر، افسر پولیس،افسر خزانہ،قاضی یعنی صدرالصدورو منصف مقرر ہوتے تھے۔آپ جس کو بھی عامل مقرر فرماتے ،اس کو ایک فرمان جاری کرتے ، جس میں اس کی تقرری،اختیارات اور فرائض مذکور ہوتے تھے۔عاملوں سے جن باتوں کا عہد لیا جاتا تھا ان میں ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، باریک کپڑا نہ پہننے،چھنا ہوا آٹا نہ کھانے،دروازے پر دربان نہ رکھنے اور اہل حاجت کے لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھنے کا عہد شامل ہوتا تھا۔
ہر سال حج کے زمانے میں تمام عمال عوامی احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے تھے، کھلی کچہری میں عوامی شکایات کو سنا جاتا تھا اور اس کے تدارک کے احکامات جاری کئے جاتے تھے۔عمال پر عائد الزامات کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم تھا۔
خراج کا نظم و نسق:خراج کا طریقہ عرب میں حضرت عمرفاروقؓ نے ایجاد کیا، خراج کا نظم و نسق عرب کی تاریخ و تمدن میں نیا اضافہ تھا،حضرت عمرؓ نے اس وزارت میں سب سے انقلابی اقدام زمینداری اور ملکیت زمین کا جو قدیم قانون اور بالکل جابرانہ تھا مٹا دیا۔
زراعت کی ترقی کے لیے آپ نے کئی اہم اور نہریں تیار کروائیں ، جن میں نہر ابی موسیٰ جس کی لمبائی 9 میل تھی اہل بصرہ کے لیے کھداوئی گئی، جس کے ذریعے اہل بصرہ کو گھر گھر پانی کی سہولت میسر آئی۔نہر معقل یہ دجلہ سے کاٹ کر لائی گئی۔نہر سعد ، نہر امیر المؤمنین ،یہ نہر امیر المؤمنین کے حکم پر کھدوائی گئی، اس نہر کے ذریعے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا ،اس نہر کی لمبائی 29 میل تھی نہر کو چھ ماہ کی ریکارڈ مدت میں تیار کیا گیا ۔
محکمہ قضاء:یہ محکمہ اسلام میں حضرت عمرفاروقؓ کی بدولت وجود میں آیا،آپ کے دور خلافت کے مشہور قاضی زید بن ثابتؓ،عبادہ بن صامتؓ، عبداللہ بن مسعودؓ،قاضی شریح،جمیل بن معمرالحمجی،ابومریم الحنفی،سلمان بن ربیعہ الباہلی،عبدالرحمان بن ربیعہ،ابوقرۃ الکندی اورعمران بن الحصین تھے ،قاضی کا تقرر امتحان و تجربہ کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔
پولیس اور جیل خانہ جات:عرب باضابطہ طور پر جیل خانوں کا کوئی تصورر نہیں تھا ، حضرت عمرؓ نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار میں خرید کر جیل خانہ بنوایا ،پھر اس سلسلہ کو باقی صوبوں اور اضلاع تک پھیلایا گیا،(مقریزی2/187)
آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے درمیانی راستے میں چوکیاں اور سرائے تعمیر کروا کر حاجیوں اور دیگر مسافروں کی آمدو رفت کو سہل اور پرامن بنایا۔
محکمہ مال(بیت المال):محکمہ مال کا شعبہ حضرت عمرؓ کے تجدیدی کاموں میں سے ایک ہے،سب سے پہلے دارالخلافہ مدینہ میں مرکزی بیت المال قائم کیا گیا جس کے امین حضرت عبداللہ بن ارقمؓ کو مقرر کیا گیا ۔دارالخلافہ کے علاوہ صوبہ جات اور اضلاع کے صدر مقامات میں بھی بیت المال قائم کئے گے، اس محکمہ کے لیے علیحدہ عمارتیں بنوائیں گئیں۔صوبہ جات کے دفاترمیں بقدر ضرورت رقم رکھنے کے بعد سال کے اختتام پر بقیہ رقم مرکزی بیت المال مدینہ منورہ بھیج دی جاتی تھی۔
فوجی نظام اور چھاؤنیاں:اس شعبہ کو دور فاروقی میں اس قدر منظم اور پائیدار بنا دیا گیا کہ وہ دوسری اقوام کے لیے قابل تقلید اور باعث تعجب ثابت ہوا۔15 ؁ہجری میں آپ نے محکمہ فوج کو منظم و مرتب فرمایا،انصار و قریش کے کوائف جمع کئے گے، اسلام میں خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے تنخوائیں مقرر کی گئیں اور کارکردگی کی بنیاد پر وقتاً فوقتاًاس میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، ۱۱ بڑے فوجی مراکز اور حصوں میں ملک کو تقسیم کیا گیا جن میں مدینہ ، کوفہ، بصرہ ، موصل ،فسطاط، مصر، دمشق، حمص، اردن اور فلسطین شامل تھے،مرکزی شہروں میں فوجی چھاونیاں اور فوجیوں کے رہنے کے لیے رہائشی کالونیان قائم کی گئیں،ہر جگہ بڑے بڑے اصطبل خانے جن میں تقریباً چار ہزار گھوڑے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔فوجیوں کی جنگی تربیت کے علاوہ ان کے قیام اور رخصت سے متعلق قوانین کا اجرا ء کے بہت سے تجدیدی کام آپ کے دور خلافت میں شروع کئے گے ۔
شعبہ تعلیم و تربیت: امیر المؤمنین نے تمام بلاد میں مکاتب قائم کئے جن میں کبار صحابہ کرام معاذبن جبلؓ، عبادہ بن صامتؓ، ابودرداءؓ، عبداللہ بن مسعودؓ اور اہل علم کو فریضہ تعلیم کے لیے مامو کیا گیاتھا، مدرسین و معلمین کی تنخوائیں مقرر کی گئیں،ان کی رہائشوں کے انتظامات کئے گے تھے۔قرآن پاک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علم حدیث ،علم فقہ، ادب اور لغۃ عربیۃ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا، ان مکاتب میں نومسلموں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی التزام کیا جاتا تھا۔
مساجد کی تعمیراور نظم:مرکز اسلامی حرم مکی اورمسجد نبوی کی توسیع کرنے کے ساتھ ساتھ خلافت کے طول وعرض میں چار ہزار مساجد تعمیر کروائیں، ہر شہر وقصبہ میں امام و مؤذن مقرر کئے جن کی مقرر کردہ تنخوائیں بیت المال سے ادا جاتی تھیں۔
مردم شماری،آمدورفت کے لیے مرکزی شاہراؤں اور مہمان خانوں کے قیام ،سکہ کا اجراء، محکمہ ڈاک اور ہر شعبہ حکومت کے لیے تحریر اور رجسٹر کا اہتمام آپ کے وہ درخشندہ کارنامے ہیں جو بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔
ْٓقابل غور امر یہ ہے کہ چودہ سو سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود عمر لاز مغرب کے لیے سامان سکون اور نظم حکومت کے لیے مسودہ کی حیثیت رکھتا ہے مگر حضرت عمر فاروقؓ کی محبت کا دم بھرنے والے،ان کو اپنا مقتداء اور پیشواء کہنے والے ان کے طرز خلافت و انداز حکمرانی سے عملاً دوراور بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں ، امت مسلمہ اپنے عروج اور کھوئے ہوئے مقام کو اس وقت تک نہیں حاصل کر سکتی جب تک ہم اپنے اسلاف کی متعین کردہ راہوں اور اصولوں کو اہمیت نہیں دیں گے۔ ؎
 
Top