HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ اور عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ
کتاب کے نام :تابعین کے سبق آموز حالات۔ (مکتبہ ارسلان)
مولف: مولانا شاہ معین الدین احمد
اس کتاب میں درج محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے چند چیدہ چیدہ حالات زندگی سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ 468
حضرت حسین رض کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے بنی امیہ کے مقابلے میں خلافت کا دعویٰ کیا اور اس سلسلے میں برسوں دونوں میں جنگ رہی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مطالبہ بیعت کے سلسلے میں ابن زبیر اور محمد بن حنفیہ میں ناخوشگواری پیدا ہوچکی تھی۔ مختار ثقفی نے اسکا فائدہ اٹھایا اور حضرت زین العابدین (علی بن حسین رحمہ اللہ) سے مایوس ہوکر ابن حنفیہ کے پاس پہنچا۔ محمد بن حنفیہ بھی اسکو اچھا آدمی نہیں سمجھتے تھے اور انہیں اس اس پر مطلق اعتماد نہ تھا، لیکن محض ابن زبیر کے مقابلے میں اسکی امداد و اعانت حاصل کرنے کے لئے (حضرت ابن زبیر ، محمد ابن حنفیہ کو اپنی بیعت کے لئے مجبور کررہے تھے)، اسکی سرپرستی کرلی۔
مختار بن ابی عبیدہ ثقفی اور علی بن حسین رحمہ اللہ:
کربلا کے واقعات کے بعدجب اہل بیت حسین رض مدینہ میں قیام پذیر ہوگئے تھے تو اسی زمانےمیں ایک حوصلہ مند ملحد مختار بن ابی عبیدہ ثقفی حصول حکومت کے لئے محبت اہل بیت کے نام پر خون حسین کی دعوت لے کر اٹھا تھا۔ ہزاروں آدمی اسکے ساتھ تھے۔ اس نے مقصد براری کے لئے حضرت زین العابدین کے پاس ایک گرانقدر رقم بھیج کر درخواست کی کہ آپ ہمارے امام ہیں، ہم سے بیعت لے کر ہماری سرپرستی قبول فرمادیں۔
لیکن آپ اسکی حقیقت سے آگاہ تھے، اسلئے اسکی درخواست ٹھکرادی اور مسجد نبوی میں جاکر اسکے فسق و فجور کا پردہ فاش کرکے فرمایا کہ اس نے محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اہل بیت کو آڑ بنایا ہے۔ اسکے فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ ان سے مایوس ہوکر مختار نے بن حنفیہ کی طرف رجوع کیا اور وہ اسکے دام میں آگئے۔ زین العابدین نے انہیں بھی روکا اور ان سے کہا کہ اہل بیت کی محبت میں اسکا ظاہر اسکے باطن سے مختلف ہے، وہ محض محبان اہل بیت کو مائل کرنےکے لئے محبت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔حقیقت میں اسکو اہل بیت کی دوستی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ انکا دشمن ہے۔ اس لئے میری طرح آپکو بھی اسکا پردہ فاش کرنا چاہئے۔ابن حنفیہ نے اسکا تذکرہ ابن عباس رض سے بھی کیا۔ انہوں نے انکو مختار کی حمایت کرنے اور زین العابدین کا کہنا ماننے سے روکا۔
اسکے بعد ہی بنی امیہ اور ابن زبیر کے ساتھ مختار کی بڑی بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ لیکن حضرت زین العابدین بالکل کنارہ کش رہے اور مختار کے قتل ہونے کے بعد بھی زین العابدین اس پر لعنت بھیجتے رہے۔ ابوجعفر کا بیان ہے کہ حضرت علی بن حسین ، باب کعبہ میں کھڑے ہوکر مختار پر لعنت بھیجتے تھے۔
مروان اور عبدالملک دونوں سے آپ کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے۔ اور یہ دونوں آپ کو بہت ماننتے تھے۔ امام زہری کا بیا ن ہے کہ زین العابدین اپنے خاندان میں سب سے زیادہ ملاحت رو اور مطیع تھے۔
ابن حنفیہ اور مختار ثقفی: مختار نے کوفہ جاکر یہ پروپیگنڈا کیا کہ وہ محمد بن حنفیہ کا داعی ہے۔اور ابن زبیر دراصل محمد بن حنفیہ کے کارکن تھے۔ ابتدا میں وہ انکے لئے کوشش کرتے تھے، لیکن پھر خود اس پر غاضبانہ قابض ہوگئے۔ اس لئے ابن حنفیہ نے مجھے داعی بناکر کوفہ بھیجا ہے۔
ابن زبیر نے ابتدا میں ابن حنفیہ پر اپنی بیعت کے لئے ذور ڈالا، مگر جب کوفہ وغیرہ پر مختار کا قبضہ ہوگیا تھا اور اسکی قوت میں اضافہ کے ساتھ عراق میں ابن حنفیہ کے بیعت کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہوگیا تو ابن زبیر کو انکی جانب سے خطرات بڑھ گئے، انہوں نے ابن حنفیہ اور انکے ساتھ ابن عباس پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ لیکن یہ لوگ بیعت کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔
صفحہ 471
آخر میں انہیں اور انکے اہل خانہ کو مکہ کی گھاٹی میں بند کردیا گیا۔ ایک روایت ہے کہ ابن حنیفہ کو چاہ زمزم کی چار دیواری میں قید کرکے لکڑیوں کا انبار لگادیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ بیعت نہ کریں گے تو انہیں پھینک دیا جائے گا۔ یہ نازک صورت حال دیکھ کر ابن عباس سے پوچھا کہ اب کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہرگزہرگز اطاعت نہ کرنا، اپنی بات پر قائم رہنا۔ لیکن مکہ میں رہتے ہوئے انکار پر قائم رہنا مشکل تھا، اس لئے ابن حنیفہ نے مکہ چھوڑ کر کوفہ چلے جانے کا ارادہ کیا۔
مختار کو اس بات کی اطلاع ملی تو اسے بہت گراں گزرا، کہ ابن حنیفہ کے عراق پہنچنے کے بعد اسکی ہستی ختم ہوجائے گی کیونکہ وہ آپکا محض نام استعمال کرنا چاہتا تھا، چنانچہ انکو روکنے کے لئے مختار نے ایک جھوٹی کرامت بیان کرنا شروع کردی۔ "مہدی کی نشانی یہ ہے کہ جب وہ تمہارے یہاں آئے تو ایک شخص بازار میں ان پر وار کرے گا ، لیکن اس سے مہدی کو کوئی صدمہ نہیں پہنچے گا۔ ابن حنفیہ کو اپنے متعلق یہ کرامت کی خبر ہوئی تو انہوں نے کوفہ جانے کا ارادہ ترک کردیا۔