• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ اور عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ اور عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ

کتاب کے نام :تابعین کے سبق آموز حالات۔ (مکتبہ ارسلان)
مولف: مولانا شاہ معین الدین احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کتاب میں درج محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے چند چیدہ چیدہ حالات زندگی سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ 468
حضرت حسین رض کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے بنی امیہ کے مقابلے میں خلافت کا دعویٰ کیا اور اس سلسلے میں برسوں دونوں میں جنگ رہی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مطالبہ بیعت کے سلسلے میں ابن زبیر اور محمد بن حنفیہ میں ناخوشگواری پیدا ہوچکی تھی۔ مختار ثقفی نے اسکا فائدہ اٹھایا اور حضرت زین العابدین (علی بن حسین رحمہ اللہ) سے مایوس ہوکر ابن حنفیہ کے پاس پہنچا۔ محمد بن حنفیہ بھی اسکو اچھا آدمی نہیں سمجھتے تھے اور انہیں اس اس پر مطلق اعتماد نہ تھا، لیکن محض ابن زبیر کے مقابلے میں اسکی امداد و اعانت حاصل کرنے کے لئے (حضرت ابن زبیر ، محمد ابن حنفیہ کو اپنی بیعت کے لئے مجبور کررہے تھے)، اسکی سرپرستی کرلی۔

مختار بن ابی عبیدہ ثقفی اور علی بن حسین رحمہ اللہ:
کربلا کے واقعات کے بعدجب اہل بیت حسین رض مدینہ میں قیام پذیر ہوگئے تھے تو اسی زمانےمیں ایک حوصلہ مند ملحد مختار بن ابی عبیدہ ثقفی حصول حکومت کے لئے محبت اہل بیت کے نام پر خون حسین کی دعوت لے کر اٹھا تھا۔ ہزاروں آدمی اسکے ساتھ تھے۔ اس نے مقصد براری کے لئے حضرت زین العابدین کے پاس ایک گرانقدر رقم بھیج کر درخواست کی کہ آپ ہمارے امام ہیں، ہم سے بیعت لے کر ہماری سرپرستی قبول فرمادیں۔

لیکن آپ اسکی حقیقت سے آگاہ تھے، اسلئے اسکی درخواست ٹھکرادی اور مسجد نبوی میں جاکر اسکے فسق و فجور کا پردہ فاش کرکے فرمایا کہ اس نے محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اہل بیت کو آڑ بنایا ہے۔ اسکے فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ ان سے مایوس ہوکر مختار نے بن حنفیہ کی طرف رجوع کیا اور وہ اسکے دام میں آگئے۔ زین العابدین نے انہیں بھی روکا اور ان سے کہا کہ اہل بیت کی محبت میں اسکا ظاہر اسکے باطن سے مختلف ہے، وہ محض محبان اہل بیت کو مائل کرنےکے لئے محبت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔حقیقت میں اسکو اہل بیت کی دوستی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ انکا دشمن ہے۔ اس لئے میری طرح آپکو بھی اسکا پردہ فاش کرنا چاہئے۔ابن حنفیہ نے اسکا تذکرہ ابن عباس رض سے بھی کیا۔ انہوں نے انکو مختار کی حمایت کرنے اور زین العابدین کا کہنا ماننے سے روکا۔

اسکے بعد ہی بنی امیہ اور ابن زبیر کے ساتھ مختار کی بڑی بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ لیکن حضرت زین العابدین بالکل کنارہ کش رہے اور مختار کے قتل ہونے کے بعد بھی زین العابدین اس پر لعنت بھیجتے رہے۔ ابوجعفر کا بیان ہے کہ حضرت علی بن حسین ، باب کعبہ میں کھڑے ہوکر مختار پر لعنت بھیجتے تھے۔

مروان اور عبدالملک دونوں سے آپ کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے۔ اور یہ دونوں آپ کو بہت ماننتے تھے۔ امام زہری کا بیا ن ہے کہ زین العابدین اپنے خاندان میں سب سے زیادہ ملاحت رو اور مطیع تھے۔

ابن حنفیہ اور مختار ثقفی: مختار نے کوفہ جاکر یہ پروپیگنڈا کیا کہ وہ محمد بن حنفیہ کا داعی ہے۔اور ابن زبیر دراصل محمد بن حنفیہ کے کارکن تھے۔ ابتدا میں وہ انکے لئے کوشش کرتے تھے، لیکن پھر خود اس پر غاضبانہ قابض ہوگئے۔ اس لئے ابن حنفیہ نے مجھے داعی بناکر کوفہ بھیجا ہے۔

ابن زبیر نے ابتدا میں ابن حنفیہ پر اپنی بیعت کے لئے ذور ڈالا، مگر جب کوفہ وغیرہ پر مختار کا قبضہ ہوگیا تھا اور اسکی قوت میں اضافہ کے ساتھ عراق میں ابن حنفیہ کے بیعت کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہوگیا تو ابن زبیر کو انکی جانب سے خطرات بڑھ گئے، انہوں نے ابن حنفیہ اور انکے ساتھ ابن عباس پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ لیکن یہ لوگ بیعت کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔

صفحہ 471
آخر میں انہیں اور انکے اہل خانہ کو مکہ کی گھاٹی میں بند کردیا گیا۔ ایک روایت ہے کہ ابن حنیفہ کو چاہ زمزم کی چار دیواری میں قید کرکے لکڑیوں کا انبار لگادیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ بیعت نہ کریں گے تو انہیں پھینک دیا جائے گا۔ یہ نازک صورت حال دیکھ کر ابن عباس سے پوچھا کہ اب کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہرگزہرگز اطاعت نہ کرنا، اپنی بات پر قائم رہنا۔ لیکن مکہ میں رہتے ہوئے انکار پر قائم رہنا مشکل تھا، اس لئے ابن حنیفہ نے مکہ چھوڑ کر کوفہ چلے جانے کا ارادہ کیا۔

مختار کو اس بات کی اطلاع ملی تو اسے بہت گراں گزرا، کہ ابن حنیفہ کے عراق پہنچنے کے بعد اسکی ہستی ختم ہوجائے گی کیونکہ وہ آپکا محض نام استعمال کرنا چاہتا تھا، چنانچہ انکو روکنے کے لئے مختار نے ایک جھوٹی کرامت بیان کرنا شروع کردی۔ "مہدی کی نشانی یہ ہے کہ جب وہ تمہارے یہاں آئے تو ایک شخص بازار میں ان پر وار کرے گا ، لیکن اس سے مہدی کو کوئی صدمہ نہیں پہنچے گا۔ ابن حنفیہ کو اپنے متعلق یہ کرامت کی خبر ہوئی تو انہوں نے کوفہ جانے کا ارادہ ترک کردیا۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
صفحہ 472
جب ابن زبیر کے بھائی معصب نے مختار کا خاتمہ کردیا تو ابن حنیفہ کا کوئی سہارا نہیں رہ گیا اور وہ بے یار و مددگار ہوگئے۔ اس لئے ابن زبیر نے پھر ان سے بیعت کا مطالبہ شروع کیا اور اپنے بھائی عروہ کو انکے پاس بھیجا۔ انہوں نے جاکر ابن حنفیہ کو یہ پیغام دیا " اگر بیعت نہ کروگے تو میں پھر قید کردونگا۔ جس کذاب کی امداد اور اعانت کا تم کو سہارا تھا اسکو خدا نے قتل کردیا ہے اور اب عرب و عراق کا میری خلافت پر اجماع ہوگیا ہے ۔ اب تم بھی میری بیعت کرلو ورنہ جنگ کے لئے تیار رہو"۔

ابن حنفیہ نے اس تہدیدی پیغام کا یہ جواب دیا کہ "تمہارے بھائی (ابن زبیر) قطع رحم اور انحقاف حق میں کتنے تیز اور خدا کی عفوت سے کتنے غافل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے ۔ ابھی تھوڑی دن پیشتر (جب تک مختار انکا حامی تھا) وہ مختار کی روش کے مجھ سے زیادہ مداح و معترف تھے۔ خدا کی قسم نہ مختار کو میں نے اپنا والی بنایا تھا اور نہ مددگار۔ ابھی کچھ ہی دنوں کا ذکر ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ خود انکی طرف مائل تھا اور انکے ساتھ تھا۔ اس لئے اگر وہ کذاب تھا تو انہوں نے مدتوں اس کذاب کو اپنے ساتھ رکھا اور اگر وہ کذاب نہیں تھا تو ابن زبیر مجھ سے زیادہ اس سے واقف ہیں۔ میں انکا (ابن زبیر) مخالف نہیں ہوں۔ اگر مخالف ہوتا تو انکے قریب نہ رہتا اور جو لوگ مجھے بلاتے ہیں انکے یہاں سے چلاجاتا ہوں، لیکن میں نے کسی کی دعوت قبول نہیں کی۔ تمہارے بھائی کا ایک اور حریف عبدالملک ہے جو تمہارے بھائی ہی طرح دنیا کا طالب ہے۔ اس نے اپنی قوتوں سے تمہارے بھائی کی گردن پکڑلی ہے ۔ میرے نزدیک عبدالملک کا جوار تمہارے بھائی کے جوار سے بہتر ہے۔ عبدالملک نے خط لکھ کر اپنے یہاں آنے کی دعوت دی ہے۔

صفحہ 473

عبدالملک ابن زبیر کےمقابلے میں ابن حنفیہ کی حمایت کرنے کی عرض سے ابن حنفیہ کو اپنے یہاں شام میں چلےآنے کی دعوت دے رہا تھا۔ محمد بن حنفیہ کے یہاں عروہ کی واپسی کے بعد پھر ان کے پاس عبدالملک کے بلاوے کا خط پہنچا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ابن زبیر بیعت کے لئے آپکو تنگ کررہا ہے اور پاس عزیزداری کو چھوڑ کر آپکے حقوق پامال کررہا ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا وہ اپنی جان آپ نے جو کچھ کیا وہ اپنی جان اوراپنے مذہب کو ملحوظ رکھ کر کیا ہے۔ شام کا ملک آپ کےک لئے موجود ہے۔ یہاں آپ بس جگہ چاہے قیام کیجئے۔ ہم لوگ آپکی بزرگداشت اور عزیزداری کا پورا لحاظ رکھیں گے اور آپکے حقوق ادا کریں گے۔اس بلاو ے کے بعد محمد بن حنفیہ ملک شام گئے۔ جب وہاں کے لوگ ازرائے عقیدت آپ کے پاس آکر جمع ہونا شروع ہوئے تو عبدالملک نے آپ سے بیعت حاصل کرنے کے لئے دباؤ ڈالا اس نے نہیں خط لکھا

"آپکا ایک خاص مرتبہ اور اعزاز ہے۔ اس لئے میرے ملک میں بغیر میری بیعت آپکا قیام میرے مصالح کے خلاف ہے۔ اگر آپ بیعت کرنے پر آمادہ ہیں تو آپکی خدمت میں سو کشتیاں مع ساز و سامان کے جو ابھی بحر قلزم سے آئی ہیں اور بیس لاکھ درہم نذر کئے جاتے ہیں اور پندرہ لاکھ بعد میں بھجوائے جاتے ہیں۔ اس نذرانےکےعلاوہ آپ جس قدر فرمائیں گے، آپکی اولاد آپکے اعزہ اور آپکے موالی اور آپکے ساتھیوں کا وظیفہ مقرر کردیا جائے گا۔ اور اگر بیعت نہیں کریں گے تو فورا میری حدود حکومت سے نکل جائیں"۔

ابو حنفیہ نے اس تحریر کا جواب دیا۔ "اما بعد! تم کو خلافت کے بارے میں میرے خیالات معلوم ہیں (اسکا اظہار نیچے دیا ہوا ہے)۔ میں اس معاملے میں کسی کو بیوقوف بناکر دھوکا نہیں دینا چاہتا۔ خدا کی قسم اگر ساری امت اسلامیہ میری خلافت پر متفق ہوجائے اور ابن زرقا باقی رہ جائے تو بھی میں ان سے جنگ نہ کرونگا اور نہ ان کو چھوڑ کر الگ ہونگا۔ اگر وہ سب متفق ہوجائیں ۔ مدینہ کے پرآشوب حالات کی وجہ سے مکہ چلا آیا اور ابن زبیر کے جوار میں ٹھہرا تھا۔ لیکن انہوں نے مجھ سے بدسلوکی کی مجھ سے بیعت لینا چاہی، میں نے ان سے انکار کردیا۔ جب تک تمہارے اور انکے اختلافات ہیں، تمام مسلمانوں کا کوئی فیصلہ نہ ہوجائے میں اس وقت تک بیعت نہیں کرونگا اور جو وہ فیصلہ کریں گے میں بھی انکے ساتھ رہونگا"۔

یہ جواب بھیج کر ابن حنفیہ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ تقریر کی "خدا جملہ امور کا والی اور حاکم ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اس ذات کی قسم جسکی مٹھی میں میری جان ہے، ہم لوگوں کی پشت میں وہ جانثار پنہاں ہیں جو آل محمد کی حمایت میں لڑیں گے۔ آل محمد کا حق اہل شرک پر مخفی نہیں رہے گا۔ دیر سے ہی سہی مگر پورا ہوگا۔ اس ذات کی قسم جسکے قبضے میں محمد بن حنفیہ کی جان ہے۔ جسطرح یہ امر (خلافت) شروع میں تم میں تھا، ایک دن لوٹ کر آئے گا۔ اس خدا کا شکر ہے جس نے تمہارے خون کو بچایا اور تمہارے دین کی حفاظت کی۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
صفحہ 475
دمشق سے واپسی کے بعد ابن حنفیہ کے حالات کے متعلق دو روایتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حج کا زمانہ تھا، اس لئے ابن حنفیہ عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر اور قربانی کے جانوروں کو لے کر سیدھے مکہ پہنچے۔ جب حرم میں داخل ہونا چاہا تو ابن زبیر کے ساتھیوں نے روکا۔ ابن حنفیہ نے ابن زبیر کے پاس کہلا بھیجا کہ مکہ سے جاتے وقت بھی میں لڑنے کا ارادہ لے کر نہیں نکلا تھا اور اب واپسی کے بعد کوئی ارادہ نہیں لڑنے کا۔ اس لئے ہمارا راستہ چھوڑ دو کہ ہم بیت اللہ جاکر مناسک حج ادا کرلیں، انہیں پورا کرنے کے بعد یہاں سے چلے جائے گے۔ لیکن ابن زبیر نے بیت اللہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور ابن حنفیہ سواری کے جانوروں کو یوں ہی لئے مدینہ چلے گئے۔

دوسری روایت یہ ہے کہ وہ مکہ پہنچ کر منیٰ کی گھاٹی میں ٹھہرے۔ دو دن کے بعد ابن زبیر نے کہلا بھیجا کہ یہاں سے ہٹ جاؤ، ہمارے قریب نہ ٹھہرو۔ یہ پیام سن کر ابن حنفیہ نے کہا جب تک خدا ہمارے لئے کوئی راہ نہ پیدا کرے اس وقت تک ہم چاروناچار صبر کریں گے۔

عبدالملک کی بیعت (صفحہ 476)
ابن زبیر کے قتل ہونے کے بعد عبدالملک نے حجاج کو لکھا کہ محمد بن حنفیہ میں مخالفت کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ اب وہ تمہارے پاس آکر بیعت کریں گے۔ انکے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔ محمد بن حنفیہ خود بھی یہی کہتے تھے کہ جب تک کسی ایک شخص پر مسلمانوں کا اتفاق ہوجائے گا تو میں بھی اسکو تسلیم کرلونگا۔ چنانچہ عبدالملک پر اتفاق عام کے بعد جب عبداللہ بن عمر نے اسکی بیعت کرلی تو محمد بن حنفیہ سے بھی کہا کہ اب کوئی اختلافی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اس لئے تم بھی بیعت کرلو۔ انکا پہلے سے یہی خیال تھا اس لئے آمادہ ہوگئے اور حجاج کے ہاتھوں بیعت کرکے عبدالملک کو حسب زیل خط لکھا : " اما بعد ! اس وقت جب تک امت میں خلیفہ کے بارے میں اختلاف تھا، میں لوگوں سے کنارہ کش رہا ۔ اب جب کہ خلافت تم کو مل گئی ہے اور مسلمانوں نے تمہاری بیعت کرلی ہے تو میں بھی اس جماعت میں شامل ہوتا ہوں۔ میں نے حجاج کے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کرلی ہے"۔

عبدالملک نے جواب لکھا " آپ میرے نزدیک لائق ستائش ، مجھ کو زیادہ محبوب اور ابن زبیر سے زیادہ میرے عزیز ہیں۔ اس لئے میں خدا اور رسول ﷺ کو حاظر ناظر جان کر وعدہ کرتا ہوں کہ آپ اور آپکے تمام ساتھیوں کو کسی ایسے طرز عمل سے جسے آپ ناپسند کرتے ہیں پریشان نہ کرونگا۔ آپ اپنے شہر واپس چلے جائے اور جہاں دل چاہے اطمینان سے رہئے۔ میں جب تک زندہ ہوں آپکے عزیزوں کا پورا خیال رکھونگا اور آپکی مدد سے کبھی دست کش نہ ہونگا"۔

اس خط کے ساتھ ہی حجاج کے نام علیحدہ انکے ساتھ حسن و جوار اور انکے اعزاز و احترام ملحوظ رکھنے کا حکم بھیجا ۔ اور اس خوش آئند مصالحت کے بعد ابن حنفیہ مدینہ واپس آگئے۔

صفحہ 480
چند برسوں کے بعد ابن حنفیہ نے عبدالملک کو خط لکھ کر اسکے پاس آنے کی اجازت چاہی، اس نے نہایت خوشی سے منظور کرلیا۔ چنانچہ انہوں نے سن 78 ھ میں شام کا سفر کیا۔ عبدالملک نے بڑی خندہ پیشانی سے انکا استقبال کیا اور انکے شایان و شان انکی پذیرائی اور بزرگداشت کی، اپنے محل کے قریب ہی انکو ٹھہرایا۔ انککے جملہ ہمراہیوں کی میزبانی کے لئے شاہی خزانہ کھول دیا۔ ایک مہینے سے کچھ زیادہ ابن حنفیہ دمشق میں ٹھہرے رہے۔ اس دوران شاہی خاندان کے بعد انکا نمبر تھا۔ ایک دن انہوں نے تنہائی میں عبدالملک کے سامنے اپنے قرض کا ذکر کیا۔ عبدالملک نے اسے ادا کرنے کا وعدہ کیا اور ان سے انکی اور ضروریات پوچھیں۔ انہوں نے قرض کی ادائیگی اور بعض اور ضروریات کے علاوہ اپنی اولاد، اپنے خواص اور غلاموں کے وظائف مقرر کئے جانے کی خواہش کی۔ عبدالملک نے غلاموں کے وظائف کے علاوہ انکی جملہ ضرورتیں اور خواہش پوری کردی۔ پھر انکے اقرار پر غلاموں کے وظائف بھی مقرر کردئیے لیکن انکی مقدار کم رکھی۔ لیکن پھر ابن حنفیہ کا اصرار اتنا بڑھا کہ عبدالملک کو انکے وظائف بھی پورے کرنا پڑے۔ ان ضروریات پوری ہونے کے بعد ابن حنفیہ مدینہ واپس ہوئے۔ اور تا دم آخر انکے اور عبدالملک کے تعلقات نہایت خوشگوار رہے۔

صفحہ 478
شیعہ تحریک اور اہل بیت وغیرہ کے مسائل تمام تر پروپیگنڈے پر ہے۔ اس جماعت نے اپنی تحریک اور اپنے مقاصد کو کامیاب بتانے کےلئے بہت سے ایسے عقائد و خیالات بزرگان دین و اہل بیت سے منسوب کرلئے ہیں جنکی وجہ سے و حرص خلافت کا مجسم پیکر معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض خیالات تو ایسے گمراہ ہیں کہ اگر وہ ان بزرگوں کے زمانے میں ظاہر ہوتے یا انکو معلوم ہوتا تو وہ انکو اختراع کرنے والوں کو اپنی اتباع کی حمایت سے خارج کردیتے۔

ایک مرتبہ ابن حنفیہ کو معلوم ہوا کہ مختار کے متعبین کہتے ہیں کہ انکے پاس (ابن حنفیہ) قرآن کے علاوہ علم (سینہ) کا کچھ حصہ ہے۔ یہ روایت سنکر انہوں نے نے مخصوص تقریر کی۔ خدا کی قسم اس کتاب کے علاوہ جو دلوں کے درمیان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت میں ہمیں کوئی علم نہیں ملا۔

صفحہ 479
امیر معاویہ رض نے بھی زندگی بھر اہل بیت کے حقوق و انکے مراتب کا خیال رکھا۔ انکے بعد یزید سے لیکر عبدالملک تک ان بزرگوں کے ساتھ اموی خلفاء کا جو طرز عمل رہا، وہ بالکل عیاں ہے، یعنی سب سے تعلقات خوشگوار رہے جیسا کہ تاریخ کی کتابوں سے ثابت ہے۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
کچھ مزید ریفرنس طبقات ابن سعد سے ملے ہیں، ان کو پیش خدمت کرتا ہوں

طبقات ابن سعد جلد پنجم۔ تابعین تبع تابعین۔ صفحہ 217
مقبری سے مروی ہے کہ مختار نے علی بن حسین رحمہ اللہ کو ایک لاکھ درہم بھیجے، انہوں نے قبول کرنا بھی پسند نہ کیا اور واپس کرنے سے بھی ڈرے۔ انہوں نے انکو لے لیا اور اپنے پاس رکھا۔ جب مروان قتل کردیا گیا تو علی بن حسین نے عبدالملک بن مروان کو لکھا کہ مختار نے مجھے ایک لاکھ درہم بھیجے ہیں، میں نے انکو واپس کرنا بھی ناپسند کیا اور لینا بھی ناپسند کیا، وہ میرے پاس ہیں۔ لہذہ کسی کو بھیجو کہ انہیں لے لے۔ عبدالملک نے لکھا کہ اے بھتیجے، آپ انہیں لے لیجے وہ میں نے آپ کے لئے حلال کردیے ہیں۔ انہوں نے انکو قبول کرلیا

Ali 01.jpg


طبقات ابن سعد حصہ پنجم ، تابعین تبع التابعین ، صفحہ 218
عیسیٰ بن دینار موذن سے مروی ہے کہ میں نے ابوجعفر (والد حضرت جعفر رحمہ اللہ، حضرت باقر رحمہ اللہ، حضرت زین العابدین کے بیٹے) سے مختار کو دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ علی بن الحسین رحمہ اللہ کعبے کے دروازے پر کھڑے ہوئے مختار پر لعنت کررہے تھے، ان سے ایک شخص نے کہا کہ اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، آپ اس پر لعنت کرتے ہیں حالانکہ وہ شخص آپ ہی لوگوں کے بارے میں ذبح کیا گیا۔ انہوں نے کہ کہ وہ بڑا جھوٹا تھا، اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر جھوٹ بولا کرتا تھا۔

Ali 02.jpg


طبقات ابن سعد، جلد پنجم، تابعین تبع تابعین۔ صفحہ 223
عبداللہ بن علی بن حسین سے مروی ہے کہ جب حسین رضی اللہ عنہ قتل کردییئے گئے تو مروان رحمہ اللہ نے میرے والد سے کہا کہ آپ کے والد نے میرے والد سے چار ہزار دینار مانگے تھے، مگر وہ میرے پاس موجود نہ تھے، آج میرے پاس موجود ہیں، آپ چاہیں تو لے لیجئے۔ والد نے وہ لے لئے۔ اور مروان میں سے کسی نے ان کے متعلق کچھ نہ کہا، یہاں تک جب ہشام بن عبدالملک خلفیہ ہوا تو اس نے والد سے کہ ہمارا وہ حق کیا جو آپ لوگوں کی طرف ہے۔ انہوں نے وہ محفوظ و قابل شکرگزاری ہے۔ اس نے کہا وہ آپ کا ہی ہے۔

Ali 03.jpg
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
کچھ اللہ کا خوف کریں اس عبدالمالک بن مروان کو رحمہ لکھ رہے ہیں صیحیح بخاری تاخر الصلاۃ کا باب پڑھو اور اس پر ابن ہجر کی شرح پڑھو انس بن مالک کو بینائی سے محروم کرنے والا یہ شخص ہے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حالات اسد الغابہ تمیز الصحابہ میں پڑھو اللہ عقل دے ان دشمنان صحابہ کی رحمہ اللہ لکھتے ہو۔
 
Top