• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ احادیث کی روشنی میں

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 3764
حدثنا الحسن بن بشر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا المعافى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عثمان بن الأسود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أوتر معاوية بعد العشاء بركعة وعنده مولى لابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأتى ابن عباس فقال دعه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏

کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی، وہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (کریب) بھی موجود تھے، جب وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا) اس پر انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔


حدیث نمبر: 3765
حدثنا ابن أبي مريم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا نافع بن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثني ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قيل لابن عباس هل لك في أمير المؤمنين معاوية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه ما أوتر إلا بواحدة‏.‏ قال إنه فقيه‏.

ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔


حدیث نمبر: 3766
حدثني عمرو بن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا محمد بن جعفر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي التياح،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت حمران بن أبان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معاوية ـ رضى الله عنه ـ قال إنكم لتصلون صلاة لقد صحبنا النبي صلى الله عليه وسلم فما رأيناه يصليها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولقد نهى عنهما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يعني الركعتين بعد العصر‏.‏

مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، انہوں نے حمران بن ابان سے سنا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تم لوگ ایک خاص نماز پڑھتے ہو،۔ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا، بلکہ آپ نے تو اس سے منع فرمایا تھا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مراد عصر کے بعد دو رکعت نماز سے تھی۔ (جسے اس زمانے میں بعض لوگ پڑھتے تھے)


کتاب فضائل اصحاب النبی صحیح بخاری
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
اسلام علیکم
بھائی جان آخر والی حدیث سے حضرت معاویہ کی کوئی فضیلت تو ثابت نہیں ہوتی کیونکہ بخاری و مسلم کی احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے کیونکہ ایک دفعہ آپ ظہر کی نماز کے بعد دو رکعت ادا نہیں فرما سکے تھے اور آپ نے ان دو رکعتوں کو عصر کی نماز کے بعد ادا فرمایا تھا اور آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ جس کام کو شروع فرماتے اس کو ترک نہیں کرتے تھے۔ایک بات علما کرام کے نزدیک متفق علیہ ہے کی حضرت معاویہ کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک بات علما کرام کے نزدیک متفق علیہ ہے کی حضرت معاویہ کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
آپ اس بات کاحوالہ پیش فرمائیں گے۔؟
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
میرے بھائی میں یہاں پر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی ایک عبارت نقل کر رہا ہو آپ اسے پڑھیں آپ پر بات واضح ہو جائے گی انشا اللہ
أشار ابن حجر إلى قصّة النسائي وقصّة الحاكم، وذكر أنّ ابن الجوزي أورد في كتاب «الموضوعات» جملةً ممّا وُضع لمعاوية، ثمّ قال: «وأخرج ابن الجوزي ـ أيضاً ـ من طريق عبداللّه بن أحمد بن حنبل: سألت أبي: ما تقول في عليّ ومعاوية؟ فأطرق ثمّ قال: اعلم أنّ عليّاً كان كثير الأعداء، ففتّش أعداؤه له عيباً فلم يجدوا، فعمدوا إلى رجل قد حاربه فأطروه كيداً منهم لعليّ».

قال ابن حجر: «فأشار بهذا إلى ما اختلقوه لمعاوية من الفضائل ممّا لا أصل له، وقد ورد في فضائل معاوية أحاديث كثيرة لكنْ ليس فيها ما يصحّ من طريق الإسناد، وبذلك جزم إسحاق بن راهويه والنسائي وغيرهما».
وقال النسائي مستنكراً ما روي من فضائل معاوية: «أمَا يكفي معاوية أن يذهب رأساً برأس حتّى يروى له فضائل؟!»
وقال ابن تيميّة: «طائفة وضعوا لمعاوية فضائل، ورووا أحاديث عن النبيّ صلّى اللّه عليه وسلّم في ذلك كلّها كذب»
وقال العجلوني: «باب فضائل معاوية ليس فيه حديث صحيح»
وقال العيني: ليس فيها حديث يصحّ من طريق الإسناد»
وقال إسحاق بن إبراهيم الحنظلي: «لا يصحّ في فضل معاوية حديث»

بصورة عامّة ... هل صحّ في فضل معاوية شيء عن رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وسلّم من طريق القوم؟
لقد نصَّ غير واحد من كبار حفّاظهم المتقدّين على أنّه لم يصحّ عن رسول اللّه في فضله شيءٌ..
قال البخاري: «باب فضائل أصحاب النبيّ صلّى اللّه عليه وآله»
فذكرهم، حتّى إذا وصل إلى معاوية قال: «باب ذِكر معاوية»
فقال الحافظ بشرحه: «تنبيه: عبّر البخاري في هذه الترجمة بقوله: (ذِكر)، ولم يقل: (فضيلة) ولا (منقبة)»; لأنّ شيخه إسحاق بن راهويه قد نصَّ على أنّه لم يصحّ في فضائل معاوية شيء
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میرے بھائی میں یہاں پر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی ایک عبارت نقل کر رہا ہو آپ اسے پڑھیں آپ پر بات واضح ہو جائے گی انشا اللہ
آپ حضرت امیر معاویہ ﷜ کو صحابی رسولﷺ مانتے ہیں یانہیں ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ایک بات علما کرام کے نزدیک متفق علیہ ہے کی حضرت معاویہ کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
بھائی! اس کیلئے تھریڈ (خال المؤمنین: مؤمنوں کے ماموں) کا مطالعہ کریں!

سیدنا معاویہ بن ابی سفیان﷜ کے فضائل
1۔اہل السنۃ والجماعۃ کا اس بات پر اجماع ہے کہ معاوِیہؓ صحابی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
’’ خَیْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ‘‘ قال عمران: فلا أدري أذکر بعد قرنہٖ قرنین أو ثلاثًا (صحیح البخاري: ۳۶۵۰، صحیح مسلم: ۲۵۳۵)
’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں،پھر ان کے بعد آنے والے اور پھر ان کے بعد آنے والے۔‘‘ راوی (عمران بن حصین ) فرماتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ نبی کریم1 نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا؟‘‘
2۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَةَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۷۰۲، والطبرانی فی الکبیر، وصحّحہ الألبانی)
’’اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا۔‘‘
3۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ازدی نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْهُ هَادِیًا مَهدِیًّا وَاهدِ بِهِ ‘‘ (أحمد والترمذي:۳۸۴۲، وقال: حسن غریب)
’’اے اللہ! اس کو راہنمائی کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا دے اور اس کے ذریعے ہدایت کو عام کر۔‘‘
یہ نبی کریمﷺ کی سیدنا اَمیر معاوِیہ کے حق میں دُعا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی دُعا قبول کی۔ اس سے اہل حق کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، جبکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نبی کریمﷺ کے اصحاب کے بارے میں کھوٹ ہے ان کو اس فضیلت سے غم اور تکلیف پہنچتی ہے، نعوذ باﷲمن الخِذلان، لاریب کہ اس حدیث مبارکہ میں سیدنا اَمیر معاوِیہ کی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے۔
4۔سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں:
’’میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے تو میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ کہتے ہیں: آپﷺ تشریف لائے اور میری کمر پر ہاتھ مار کر فرمایا:
’’ اِذْهَبْ اُدْعُ لِي مُعَاوِیَةَ‘‘ کہ ’’جاؤ معاویہ کو بلا لائو۔‘‘
ابن عباسؓ کہتے ہیں: میں آیا اور آپﷺکو بتایا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے پھر بھیجا، میں نے واپس آکر یہی جواب دیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ لَا أَشْبَعَ اﷲُ بَطْنَهُ ‘‘ ’’اللہ کبھی اُس کا پیٹ نہ بھرے‘‘ (صحیح مسلم: ۲۶۰۴)
اور سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ اَللّٰہُمَّ فَأَیُّمَا مُؤمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذٰلِکَ لَهُ قُرْبَةً إِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ‘‘ (صحیح البخاري: ۶۳۶۱، صحیح مسلم: ۲۶۰۱)
’’یا اِلٰہی! میں جس مومن کو بھی گالی دوں تو قیامت کے دن اُسکو اپنی قربت کاسبب بنا دے۔‘‘
اہل سنت کے دل نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام کے متعلق کس قدر شفاف ہیں کہ امام مسلمؒ نے ایک ہی باب میں دو حدیثیں ذکر کی ہیں، گویا انہوں نے پہلی حدیث کو دوسری کے ساتھ ملا کر سیدنا معاوِیہ کے لئے عظیم فضیلت کو ثابت کیا ہے۔

5۔اُمِ حرام سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا:
’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوجَبُوا‘‘ قالتْ: قلتُ یَا رسولَ اﷲ! أَنَا فیہِم؟ قَالَﷺ: ’’ أَنْتِ فِیہِمْ ‘‘ ثمّ قالﷺ: ’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ مَدِینَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَہُمْ ‘‘، فَقلتُ: أَنا فیہِمْ یا رسولَ اﷲ!؟! قال: ’’ لا ‘‘ (صحیح البخاري: ۲۹۲۴)
’’میری اُمت میں سے سب سے پہلے جس نے بحری جنگ لڑی، اُس پر جنت واجب کر دی گئی ہے۔‘‘ اُم حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’ہاں! تو ان میں ہوگی۔‘‘ پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کا وہ گروہ جو سب سے پہلے شہر قیصر میں لڑے گا اس کو بخش دیا گیا ہے۔‘‘ میں پوچھا کہ کیا میں اس گروہ میں بھی شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ فضیلت سیدنا اَمیر معاوِیہ کو بھی نصیب ہوئی۔ انہوں نے سیدنا عثمان بن عفان کی خلافت میں یہ جنگیں لڑیں۔ قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے۔
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
آپ کی بیان کردہ دوسری حدیث کے ضعیف ہونے کے دلائل

- برهان عدم صحة حديث : اللهم علمه الكتاب وقه العذاب : وأما حديث : ( اللهم علم معاوية الكتاب ، وقه العذاب ) فلا يمكن أن يصح للعلل والأسباب التالية :


1 - هذا الدعاء : اللهم علمه الكتاب هو دعاء النبي (ص) لإبن عباس كما في البخاري في مواضع منها ( 1 / 169 فتح ) فقلبه النواصب وحرفوه لمعاوية ، ومعاوية لا تؤثر عنه أنه كان عالماً بالكتاب البتة ، لأنما العالم بالكتاب هو سيدنا إبن عباس (ر) ، كما إمتلأت كتب التفسير من أقواله في تفسير الكتاب العزيز ، فالواقع أثبت بطلان هذا الحديث بلا مثنوية.

2 - هذا الحديث رواه الإمام أحمد في مسنده ( 4 / 127 ) ، والطبراني ( 18 / 252 ) ، وإبن عدي في الضعفاء ( 6 / 2402 ) وغيرهم ، قلت : وفي سنده : الحارث بن زياد وهو شامي لا تقبل روايته لمثل هذا الحديث الضعيف بل الموضوع الذي يؤيد مشربه ، ولم يرو عنه إلاّ يونس بن سيف الكلاعي فهو مجهول ، قال الحافظ إبن حجر في ترجمته في ( تهذيب التهذيب ) ( 2 / 123 ) ، قال الذهبي في الميزان - 1 / 433 - : مجهول ، وشرطه أن لا يطلق هذه اللفظة إلاّ إذا كان أبو حاتم الرازي قالها ، ثم قال الحافظ : نعم.

- قال أبو عمر بن عبد البر فيه : مجهول ، وحديثه منكر ، قلت : وفي سنده يونس بن سيف : حمصي ، ومعاوية بن صالح : حمصي ، قال عنه الحافظ في ( التقريب ) : صدوق له أوهام ،
وقال في ( التهذيب ) ( 10 / 189 ) ما ملخصه في أقوال من جرحه : كان يحيى بن سعيد القطان لا يرضاه ، وفي رواية عن إبن معين : ليس بمرضي ، وقال أبو إسحاق الفزاري : ما كان بأهل أن يروى عنه ، وقال إبن أبي خيثمة : يغرب بحديث أهل الشام جدا ، قلت : وهذا منها بلا شك لمخالفته للواقع.

- وحكم الحافظ الذهبي على هذا المتن من بعض طرقه في ( الميزان ) ( 1 / 388 ) بأنه : ( منكر بمرة ) ، وفي الطريق مجهول ورجل لا يعرف.

- وفي طريق أخرى ذكرها الذهبي في ( الميزان ) ( 3 / 47 ) : من طريق إسحاق بن كعب ، حدثنا : عثمان بن عبد الرحمن ، عن عطاء ، عن إبن عباس وعثمان بن عبد الرحمن هو الوقاصي كما قال الذهبي في ( الميزان ) ( 3 / 47 ) في ترجمة الجمحي ، وهو متروك كما قال البخاري وكذبه إبن معين كما في ( الميزان ) ( 3 / 43 ).

- وقد ضعف هذا الحديث الألباني في تعليقه على ( صحيح إبن خزيمة ) ( 3 / 214 ) فأنى تقوم لهذا الحديث قائمة بعد هذا البيان الواضح العلمي ، ولذلك أورده الحافظ إبن الجوزي الحنبلي في كتابه ( العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ) ( 1 / 272 ).

آپ کی بیان کردہ تیسری حدیث کے ضعیف ہونے کے دلائل


‏قَوْلُهُ : ( حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ) ‏
‏هُوَ الذُّهَلِيُّ ‏
‏( حَدَّثَنَا أَبُو مِسْهَرٍ ) ‏
‏اِسْمُهُ عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ مِسْهَرٍ ‏
‏( عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ) ‏
‏التَّنُوخِيِّ الدِّمَشْقِيِّ ثِقَةٌ إِمَامٌ سَوَّاهُ أَحْمَدُ بِالْأَوْزَاعِيِّ وَقَدَّمَهُ أَبُو مِسْهَرٍ لَكِنَّهُ اِخْتَلَطَ فِي آخِرِ عُمُرِهِ مِنْ السَّابِعَةِ ‏
‏( عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ) ‏
‏الدِّمَشْقِيِّ ‏
‏( عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ ) ‏
‏بِفَتْحِ الْعَيْنِ الْمُهْمَلَةِ وَكَسْرَةِ الْمِيمِ الْمُزَنِيِّ . وَيُقَالُ الْأَزْدِيُّ مُخْتَلَفٌ فِي صُحْبَتِهِ , سَكَنَ حِمْصَ كَذَا فِي التَّقْرِيبِ , وَقِيلَ فِي تَهْذِيبِ التَّهْذِيبِ : لَهُ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ حَدِيثٌ وَاحِدٌ فِي ذِكْرِ مُعَاوِيَةَ . قَالَ الْحَافِظُ قَالَ اِبْنُ عَبْدِ الْبَرِّ : لَا تَصِحُّ صُحْبَتُهُ وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُ حَدِيثِهِ اِنْتَهَى . ‏
‏قَوْلُهُ : ( لِمُعَاوِيَةَ ) ‏
‏أَيْ اِبْنِ أَبِي سُفْيَانَ ‏
‏" اللَّهُمَّ اِجْعَلْهُ هَادِيًا" ‏
‏أَيْ لِلنَّاسِ أَوْ دَالًّا عَلَى الْخَيْرِ ‏
‏" مَهْدِيًّا" ‏
‏بِفَتْحِ الْمِيمِ وَتَشْدِيدِ الْيَاءِ أَيْ مُهْتَدِيًا فِي نَفْسِهِ ‏
‏" وَاهْدِ بِهِ" ‏
‏أَيْ بِمُعَاوِيَةَ . ‏
‏قَوْلُهُ : ( هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ) ‏
‏. قَالَ الْحَافِظُ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِصَحِيحٍ كَمَا عَرَفْت آنِفًا فِي تَرْجَمَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ

آپ کی بیان کردہ چوتھی حدیث کے بارے میں امام ذہبی کا موقف

وقد استجاب الله تعالى دعوة النبي عليه السلام فام يشبع معاويه بعد ذلك وشهد الذهبي بأن معاويه كان من الأكله ولذلك عظم بطنه فتشوة ولم يستطع أن يخطب إلا قاعدا وهو أول من خطب قاعد في الاسلام
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
محترم نوید عثمان صاحب
پوسٹ نمبر4 میں آپ کی طرف سےکئی گئی ایک بات کاحوالہ پیش طلب کیا تھا اور پھر پوسٹ نمبر6 میں آپ سےصرف اتنا پوچھا ہے کہ آپ حضرت امیر معاویہ﷜ کو صحابی رسولﷺ مانتے ہیں یانہیں ؟ آپ سے گزارش ہے کہ اس بات کاجواب دیں۔
باقی باتیں بعد کی ہیں۔
 
Top