ملک سکندر نسوآنہ
رکن
- شمولیت
- اپریل 05، 2020
- پیغامات
- 107
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 54
حقیقة الفقہ
مجتہدین کا تقدس
”شیعہ اپنے ائمہ کو انبیاء کی طرح معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں ۔ اور ان کا مرتبہ انبیاء کے برابر سمجھتے ہیں ۔ اور صوفیہ بھی اپنا مرتبہ انبیاء کے برابر سمجھتے ہیں ۔ شیعہ اور صوفیہ کے عقائد سے قادیانوں کو اپنے جھوٹے نبی کی نبوت ثابت کرنے میں بہت مدد ملی“ ۔ ائمہ اربعہ کے مقلدین اعتقادی نہ سہی عملی طور پر مجتہد کے قول کو محمدﷺ کی حدیث پر ترجہی دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ”شمع محمدی ، سیف محمدی ، ہدایت محمدی ، محمدؒ جوناگڑھی“ ، ”حقیقةالفقہ محمد یوسف جےپوریؒ“ اور ”علام الموقعین۔ ابن قیم“۔
پروفیسر ابوزہرہ مصری لکھتے ہیں ۔ باب اجتہاد بند کرنے کے نقصانات ۔ تقلید ائمہ سے ظہور کفر و شرک۔۔۔ ائمہ مجتہدین کے اقوال کو تقدیس کا مرتبہ دے دیا گیا ۔ جس کا ثمرہ یہ برآمد ہوا کہ صلحا و علماء کی حینِ حیات اور بعد از موت مقدس سمجھا جانے لگا ۔ ان کی قبروں کی زیارت کی جاتی اور ان کے گرد خانہ کعبہ کی طرح طواف کیا جاتا۔ ”اسلامی مذاہب ۔ اردو ۔ 58 ۔ 356“۔
شیخ فلانیؒ اپنی کتاب “ایقاظ الھمم”۔ ص 99 پر لکھتے ہیں کہ علامہ محقق تقی الدین ابن دقیقؒ نے ان مسائل کو ایک ضخیم جلد کے اندر جمع کر دیا ہے جن میں ائمہ اربعہ کا انفرادی و اجتماعی مذہب صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔ اس کی ابتداء میں آپ فرماتے ہیں کہ “ان مسائل کو ائمہ مجتہدیں کی طرف منسوب کرنا حرام ہے ۔ اور فقہاء مقلدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کے متعلق تحقیق کریں ۔ تاکہ وہ ائمہ اکرام کی طرف ان کی نسبت کر کے ان پر بہتان نہ لگائیں”۔
ابوعبداللہ کرخی متوفی 340ھ جو نہایت متعصب حنفی تھے لکھتے ہیں ۔ ”ہرآیت یا حدیث جو ہمارے اصحاب کے مسلک کے خلاف ہو اس کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسو خ قرار دیا جائے گا“۔ ”تاریخ تفسیر و مفسرین از پروفیسر محمد حسین الذہبیؒ ازہری ۔ ترجمہ پروفیسر حریریؒ۔ 590 “۔
اِختلافات پر ایک نظر {چند مثالیں}
امام ابراھیم نخعی اپنے استاذ شعبی کی طرح اہل رای سے نفرت کرتے تھے ۔ جب ابوحنیفہ کے استاذ حماد بن ابی سلیمان نے مذہب اھلحدیث چھوڑ کر اہل رای ہوگئے ۔ تو تلامذہ نخعی نے وصیت نخعی کے مطابق حماد کا پوری طرح بائکاٹ کردیا حتیٰ کہ اسلام کلام تک بند کردیا ۔ صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ امام ابوحنیفہ کو یحیی بن معین ۔ ابن مبارک ۔ فضل بن عیاض ۔ معمر ۔ ثوری ۔ ابن عیینہ ۔ عبداللہ بن زید بن عبدالرحمان ۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل ۔ حافظ عبدالبر ۔ شیخ جیلانی وغیرہ نے مرجی قرار دیا ہے ۔ ”ضمیر کا بحران مع اللحات از رئیس احمد ندویؒ“۔
ڈاکٹر ادریس زبیر لکھتے ہیں ۔ امام شافعیؒ اور امام محمدؒ کے فقہی مناظرے ، امام شافعیؒ نے حنفیوں سے ستر فیصد 70% مسائل میں اختلاف کیا { ایک مشہور واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو انتہائی متعصب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام شافعی سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں ابن ادریس شافعی کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام شافعی کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کر دیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبد العزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لیے بددعا کرتا رہا کہ الٰہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا } امام شافعیؒ کے بارے میں مالکی فقہاء کی بد دعائیں، کتب فقہیہ میں مناظرانہ رنگ اور علمی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر شدید ردود، اپنے فقہاء کے بارے میں غلو اور دوسروں کی اہانت، شاعرانہ چشمک نے یہ مذہبی عصبیت شروع ہی سے پیدا کردی تھی۔ فقہ اسلامی از ڈاکٹر ادریس زبیر ۔
ڈاکٹر لئیق اللہ لکھتے ہیں ۔ مسلک پرستی میں شدت کے باعث مختلف مسالک کے پروکاروں کے درمیان تعصب ابھرا ۔ مناظرے ہوئے ۔ مسلک پرستوں نے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو کر ایک دوسرے کو غلط ثابت کیا ۔ جان بوجھ کر سازشوں کے تانے بانے تیار ہوئے ۔ فتنے پیدا ہوئے ۔ بعض اوقات خونریز جنگوں تک نوبت آئی ۔ ”یاقوت الحموی معجم البلدان۔ 1\ 273“ میں اصہفان کی عظمت رفتہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ اصفہان میں شوافع اور حناف کے درمیان فتنوں کی بھرمار کے باعث طرح طرح کی تباہی پھیل گئی ۔ فریقین مسلسل برسرِ پیکار تھے ۔ ایک مسلک کے ماننے والوں کا غلبہ ہوتا تو دوسرے مسلک کے پروکاروں کا محلہ لوٹ لیتے ۔ آگ لگا دیتے ۔ تباہ و برباد کردیتے ۔ اس سلسلے میں کسی عہد و پیمان کا لحاظ نہ کرتے ۔
انھوں نے مرو اور الری قصبہ کے واقعات کی بابت۔ 4\56۔355 میں جو کچھ لکھا ہے ۔ وہ اس سے بھی زیادہ گھناؤنا ہے۔ دونوں مسالک کے ماننے والے ایک دوسرے پر اسلحہ سے حملہ آور ہوتے تھے۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں۔ حناف اور شوافع نے اپنے اپنے گھر زیرے زمین تعمیر کرلے ۔ گھروں کو جانے والی راہداریاں ٹیڑھی میڑھی اور تاریک بنائی گئیں۔ اگر یہ دونوں ایسا نہ کرتے تو کوئی بھی زندہ نہ بچتا ۔ مسلکی تعصب کی شدت مساجد پر حملوں تک پہنچ گئی تھی ۔ انسائیکلوپیڈیامذاہب عالم۔ 237 ۔ دارالسلام۔ ریاض۔
سید صباح الدین عبدالرحمان ناظم دارالمصنفین اعظم گڑھ انڈیا لکھتے ہیں ۔ حنابلہ ہمیشہ اشاعرہ کے مخالف رہے ۔ دونوں میں کشت و خون کی نوبت پہنچ جاتی ۔ امام غزالی نے ابوحنیفہ پر نہایت سخت نکتہ چینی کی تو ان کے مخالفین انکو زندیق و ملحد قرار دینے سے باز نہیں آئے۔۔۔۔ان فرقہ بندیوں سے مسلمانوں میں جو انتشار پھیلا وہ ان کے سیاسی انتشار سے کم مہلک ثابت نہیں ہوا ۔ ”مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب۔ 30 ۔ 28 ۔ 29“
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ معجم البلدان۔از یاقوت الحموی ، اسباب اختلاف فقہاء۔ از شیخ ارشادالحق اثری۔
شیخ ربیع مدخلی لکھتے ہیں ۔ ” ائمہ اربعہ کے پروکار یا تو اشعری ہیں یا صوفی“ اب یہ لوگ ائمہ اربعہ کی کتابوں کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔ شوافع نہ تو ” کتاب الام “ کو پڑھتے یا پڑھاتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس کی طباعت ہی کرتے ہیں ۔ بلکہ متاخرین شافعیہ کی کتب جیسے ” باجوری “ ، ” المنہاج “ وغیرہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ اسی طرح مالکیہ نہ تو ” الموطا “ کو پڑھتے ہیں اور نہ ہی ” المدونة “ کو بلکہ متاخرین مالکیہ کی کتابوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ اسی طرح احناف بھی ” ہدایة “ ، ” فتاوی ہندیہ “ ، ” درمختار “ کو استعمال کرتے ہیں ۔ اور ان میں جو خرافات اور غلطیاں ہیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں۔ ” اھل الحدیث ھم الطائفة المنصورة “۔ ص 34 ۔