Adnani Salafi
رکن
- شمولیت
- دسمبر 18، 2015
- پیغامات
- 47
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 32
[H1
حقیقی اسلام اور پرویزی اسلام میں خدا کا تصور:][/H1]
اللہ تعالی کے متعلق عقیدہ:
پرویز صاحب لکھتے ہیں:
"لیکن خدا کے تصور کا ایک مفہوم وہ ہے جسے خدا نے متعین کیا ہے اور جو قرآن کے حروف و نقوش میں جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔اس تصور کی رو سے ان مقامات پر خدا سے مفہوم ہے وہ نظام جو اس کے متعین فرمودہ ابدی قوانین کی بنیادوں پر قائم ہے"۔
(سلیم کے نام خط،ص:226 بحوالہ "ضرب حدیث"،ص:131)
یہاں پرویز صاحب پر لازم تھا کہ خدا نے جن آیات میں مفہوم متعین کیا ہے وہ ان آیات کا ذکر کرتے اور قرآن کے وہ حروف و نقوش بھی بیان کرتے جن میں خدا کا تصور جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
انھوں نے اس عبارت میں خدا کا مفہوم خدا قرار دیا جو ابدی قوانین پر قائم ہوتا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب کے بقول جب یہ نظام قائم ہو جائے تو اس وقت خدا موجود ہوگا اور جب ایسا نظام نہیں ہوگا تو خدا کا وجود بھی نہیں ہوگا۔کیا خدا کے وجود کا یہ معنی کسی رسول نے بیان کیا یا قرآن کی کسی آیت میں مذکور ہے؟؟
ایک جگہ لکھتے ہیں:
"چونکہ خدا عبارت ہے ان صفات عالیہ سے جنھیں انسان اپنے اندر منعکس کرنا چاہتا ہے،اس لیے قوانین خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرت عالیہ کے نوامیس کی اطاعت ہے"۔
(معارف القرآن:2/420)
یہ خدا کا دوسرا عجیب و غریب معنی نکلالا گیا ہے۔
پرویز لکھتے ہیں:
مذہب نے جس خدا کو کائنات سے ماورا عرش پر بیٹھا رکھا ہے وہ واقعی کسی انسان کے رزق کی ضمانت نہیں دے سکتا۔اس کے رازق ہونے کے دعوی کے باوجود اس کی خدائی میں کروڑوں بندے بھوکے سوتے اور لاکھوں انسان فاقوں سے مرتے ہیں۔اس کے اس بلند آہنگ اعلان کے باوجود کہ:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِى الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّـٰهِ رِزْقُـهَا
"زمین پرچلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری خدا پر نہ ہو"۔
(ترجمہ پرویز)
آج آدھی دنیا کو پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہورہی،لہذا انسانوں کے خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا پر ایمان لانے اور اسکے دعاوی پر توکل رکھنے سے وہ یقین کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتا جو انسان کو احتیاج کی فکر سے بے خوف کردے"۔
(سلیم کے نام خط،ص:226 بحوالہ ضرب حدیث ،ص:122)
پرویز صاحب منکر حدیث ہی نہیں بلکہ وہ قرآن کے بھی صریح طور پر منکر ہیں۔
خدا کو کائنات سے ماورا عرش پر بٹھانے کی نسبت مذہب کی طرف کی ہے اور آخر پر کہا:
خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا۔ العیاذ باللہ۔ اتنی خود سری!انھوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
ثُـمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ
پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔(یونس:33)
نیز فرمایا:
اَلرَّحْـمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى
رحمان جو عرش پر مستوی ہے۔(سورہ طٰهٰ:5)
رحمان کے عرش پر مستوی ہونے کے متعلق اللہ تعالی نے خود صریح آیات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ یہ کوئی خود ساختہ تصور نہیں بلکہ قرآن کی آیات بینات پر مبنی ہے۔قرآن کی صریح آیت میں ہے:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِى الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّـٰهِ رِزْقُـهَا
"اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار نہیں مگر اس کی روزی اللہ کے ذمہ ہے۔(سورہ ہود:6)
پرویز نے یہ آیت نقل کر کے اسکا تمسخر اڑایا ہے۔ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی روسی نظام (مساوات)کا تابع ہو کر سب یکساں روزی فراہم کرے لیکن یہ اللہ کا قانون نہیں بلکہ اس نے فرمایا:
اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ
"بے شک تیرا رب جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے"۔(سورہ بنی اسرائیل:30)
اور فرمایا:
وَاللّـٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِى الرِّزْقِ ۚ
" اللہ نے روزی کے معاملے میں بعض کو بعض پر فضیلت دی رکھی ہے"۔(سورہ النحل:71)
یعنی روزی کی تقسیم کے معاملے میں اس کا نظام مساوات پر مبنی نہیں۔اس فرق کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُـمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا
"تاکہ ان میں سے بعض(مال دار)بعض(مزدو)سے خدمت لیں"۔(سورہ الزخرف:32)
زندگی گزارنے اور نظام چلانے کا یہ بدیہی طریقہ ہے۔
پرویز صاحب کے مذکورہ مکتوبات پڑھنے کے بعد کسی عقل مند شخص سے یہ بات مخفی نہیں رہ جاتی کہ وہ قرآن اور اللہ کی قرآنی شان کے منکر ہیں۔جس سے ان کے کفر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
انکار حدیث سے انکار قرآن تک
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُـمْ جَهَنَّـمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوٓا اٰيَاتِىْ وَرُسُلِىْ هُزُوًا
یہ سزا ان کی جہنم ہے اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا۔(سورۃ الکھف:106)
اللہ تعالی کے متعلق عقیدہ:
"لیکن خدا کے تصور کا ایک مفہوم وہ ہے جسے خدا نے متعین کیا ہے اور جو قرآن کے حروف و نقوش میں جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔اس تصور کی رو سے ان مقامات پر خدا سے مفہوم ہے وہ نظام جو اس کے متعین فرمودہ ابدی قوانین کی بنیادوں پر قائم ہے"۔
(سلیم کے نام خط،ص:226 بحوالہ "ضرب حدیث"،ص:131)
یہاں پرویز صاحب پر لازم تھا کہ خدا نے جن آیات میں مفہوم متعین کیا ہے وہ ان آیات کا ذکر کرتے اور قرآن کے وہ حروف و نقوش بھی بیان کرتے جن میں خدا کا تصور جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
انھوں نے اس عبارت میں خدا کا مفہوم خدا قرار دیا جو ابدی قوانین پر قائم ہوتا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب کے بقول جب یہ نظام قائم ہو جائے تو اس وقت خدا موجود ہوگا اور جب ایسا نظام نہیں ہوگا تو خدا کا وجود بھی نہیں ہوگا۔کیا خدا کے وجود کا یہ معنی کسی رسول نے بیان کیا یا قرآن کی کسی آیت میں مذکور ہے؟؟
"چونکہ خدا عبارت ہے ان صفات عالیہ سے جنھیں انسان اپنے اندر منعکس کرنا چاہتا ہے،اس لیے قوانین خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرت عالیہ کے نوامیس کی اطاعت ہے"۔
(معارف القرآن:2/420)
یہ خدا کا دوسرا عجیب و غریب معنی نکلالا گیا ہے۔
مذہب نے جس خدا کو کائنات سے ماورا عرش پر بیٹھا رکھا ہے وہ واقعی کسی انسان کے رزق کی ضمانت نہیں دے سکتا۔اس کے رازق ہونے کے دعوی کے باوجود اس کی خدائی میں کروڑوں بندے بھوکے سوتے اور لاکھوں انسان فاقوں سے مرتے ہیں۔اس کے اس بلند آہنگ اعلان کے باوجود کہ:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِى الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّـٰهِ رِزْقُـهَا
"زمین پرچلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری خدا پر نہ ہو"۔
(ترجمہ پرویز)
آج آدھی دنیا کو پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہورہی،لہذا انسانوں کے خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا پر ایمان لانے اور اسکے دعاوی پر توکل رکھنے سے وہ یقین کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتا جو انسان کو احتیاج کی فکر سے بے خوف کردے"۔
(سلیم کے نام خط،ص:226 بحوالہ ضرب حدیث ،ص:122)
پرویز صاحب منکر حدیث ہی نہیں بلکہ وہ قرآن کے بھی صریح طور پر منکر ہیں۔
خدا کو کائنات سے ماورا عرش پر بٹھانے کی نسبت مذہب کی طرف کی ہے اور آخر پر کہا:
خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا۔ العیاذ باللہ۔ اتنی خود سری!انھوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
ثُـمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ
پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔(یونس:33)
نیز فرمایا:
اَلرَّحْـمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى
رحمان جو عرش پر مستوی ہے۔(سورہ طٰهٰ:5)
رحمان کے عرش پر مستوی ہونے کے متعلق اللہ تعالی نے خود صریح آیات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ یہ کوئی خود ساختہ تصور نہیں بلکہ قرآن کی آیات بینات پر مبنی ہے۔قرآن کی صریح آیت میں ہے:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِى الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّـٰهِ رِزْقُـهَا
"اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار نہیں مگر اس کی روزی اللہ کے ذمہ ہے۔(سورہ ہود:6)
پرویز نے یہ آیت نقل کر کے اسکا تمسخر اڑایا ہے۔ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی روسی نظام (مساوات)کا تابع ہو کر سب یکساں روزی فراہم کرے لیکن یہ اللہ کا قانون نہیں بلکہ اس نے فرمایا:
اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ
"بے شک تیرا رب جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے"۔(سورہ بنی اسرائیل:30)
اور فرمایا:
وَاللّـٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِى الرِّزْقِ ۚ
" اللہ نے روزی کے معاملے میں بعض کو بعض پر فضیلت دی رکھی ہے"۔(سورہ النحل:71)
یعنی روزی کی تقسیم کے معاملے میں اس کا نظام مساوات پر مبنی نہیں۔اس فرق کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُـمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا
"تاکہ ان میں سے بعض(مال دار)بعض(مزدو)سے خدمت لیں"۔(سورہ الزخرف:32)
زندگی گزارنے اور نظام چلانے کا یہ بدیہی طریقہ ہے۔
پرویز صاحب کے مذکورہ مکتوبات پڑھنے کے بعد کسی عقل مند شخص سے یہ بات مخفی نہیں رہ جاتی کہ وہ قرآن اور اللہ کی قرآنی شان کے منکر ہیں۔جس سے ان کے کفر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
انکار حدیث سے انکار قرآن تک
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُـمْ جَهَنَّـمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوٓا اٰيَاتِىْ وَرُسُلِىْ هُزُوًا
یہ سزا ان کی جہنم ہے اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا۔(سورۃ الکھف:106)