فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
حلال گالیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر آج کل ہر طرف گالیاں زیر بحث ہیں۔ یہ روایت ماضی میں ایک سیاسی جماعت کے ورکرز نے مخالفین کے لیے شروع کی۔ پھر ایک "مولانا" کے حامیوں نے دفاع میں ریکارڈ توڑ دیئے۔ اب ایک "علامہ" صاحب کی گفتگو زبان زد عام ہے۔ ان کے دھرنے میں استعمال ہونے والی زبان کی وہ بھی مخالفت کررہے ہیں جو بات بات پر گالیاں دیتے ہیں۔
کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا اس کی گالیوں سے لگایا جاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کسی زبان کو سیکھنا ہوتو سب سے پہلے اس زبان کی گالیاں سیکھنی چاہیئں۔
گالیوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ کچھ "مہذب" اور باقی مادر پدر آزاد گالیاں ہوتی ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ مہذب گالیاں کون سی ہوتی ہیں۔ وہی جو معاشرے کے "مہذب" افراد ٹوئیڑ پر دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ حلال گالیاں بھی ہوتی ہیں جو بڑے پہنچے ہوئے پیر صاحبان ہی دیتے ہیں۔ جسے مرید سعادت سمجھ کر سنتے ہیں اور ہر گالی کے بعد سبحان اللہ کا ورد بھی کرتے ہیں۔
لڑائی کے بعد جب کچھ نہ بن سکے تو دلی اطمنان کے لیے مخالف کو چند گالیوں سے نواز دیا جاتا ہے۔ چند لوگ سرعام گالیاں دیتے ہیں اور باقی دل میں۔ بعض علاقائی زبانوں میں گالیاں دینے کا لطف ہی الگ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں پنجابی میں گالیاں دینے کے بعد دلی سکون ملتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق زیادہ گالیاں دینے والے زیادہ ایماندار اور صاف دل کے مالک ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ بات دل میں نہیں رکھتے۔ پھر ہم کہ سکتے ہیں ہیں علامہ خادم حسین رضوی صاف دل کے مالک ہیں جنھوں نے بلا رنگ و نسل، مذہبی، سیاسی اور مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر سب کو گالیوں سے نوازا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر آج کل ہر طرف گالیاں زیر بحث ہیں۔ یہ روایت ماضی میں ایک سیاسی جماعت کے ورکرز نے مخالفین کے لیے شروع کی۔ پھر ایک "مولانا" کے حامیوں نے دفاع میں ریکارڈ توڑ دیئے۔ اب ایک "علامہ" صاحب کی گفتگو زبان زد عام ہے۔ ان کے دھرنے میں استعمال ہونے والی زبان کی وہ بھی مخالفت کررہے ہیں جو بات بات پر گالیاں دیتے ہیں۔
کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا اس کی گالیوں سے لگایا جاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کسی زبان کو سیکھنا ہوتو سب سے پہلے اس زبان کی گالیاں سیکھنی چاہیئں۔
گالیوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ کچھ "مہذب" اور باقی مادر پدر آزاد گالیاں ہوتی ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ مہذب گالیاں کون سی ہوتی ہیں۔ وہی جو معاشرے کے "مہذب" افراد ٹوئیڑ پر دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ حلال گالیاں بھی ہوتی ہیں جو بڑے پہنچے ہوئے پیر صاحبان ہی دیتے ہیں۔ جسے مرید سعادت سمجھ کر سنتے ہیں اور ہر گالی کے بعد سبحان اللہ کا ورد بھی کرتے ہیں۔
لڑائی کے بعد جب کچھ نہ بن سکے تو دلی اطمنان کے لیے مخالف کو چند گالیوں سے نواز دیا جاتا ہے۔ چند لوگ سرعام گالیاں دیتے ہیں اور باقی دل میں۔ بعض علاقائی زبانوں میں گالیاں دینے کا لطف ہی الگ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں پنجابی میں گالیاں دینے کے بعد دلی سکون ملتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق زیادہ گالیاں دینے والے زیادہ ایماندار اور صاف دل کے مالک ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ بات دل میں نہیں رکھتے۔ پھر ہم کہ سکتے ہیں ہیں علامہ خادم حسین رضوی صاف دل کے مالک ہیں جنھوں نے بلا رنگ و نسل، مذہبی، سیاسی اور مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر سب کو گالیوں سے نوازا ہے۔