• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) کا گھر , موقف,اور تبرک

شمولیت
جنوری 23، 2018
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
52
حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) کا گھر , موقف,اور تبرک

وضاحتیں اور چند گزارشات


?:عبد السلام بن صلاح الدین

حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) رسول گرامی ﷺ کی مرضعات میں سے ہیں ‘انہوں نے آپ کو دودھ پلایا ہے ‘ان کے اسلام کے بارے میں علمائے اسلام کا شدید اختلاف ہے ‘بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیاتھا,اور ان کا شمار صحابیات میں ہوتا ہے ‘چنانچہ حافظ ابن حجر نے (الاصابۃ:۷؍۵۸۴)ابن عبد البر نے الاستیعاب (۲؍۸۵)میں انتہائی شد و مد کے ساتھ ان کے اسلام کو ثابت کیا ہے ‘اور صحابیات میں بھی شمار فرمایا ہے, ابن الجوزی نے صفۃ الصفوۃ (۱؍۶۲)میں یہاں تک فرمایا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اسلام قبول فرمایا ‘بلکہ ان کے شوہر نامدار بھی مشرف بہ اسلام ہوئے ‘اور آپﷺ پر بیعت کی ‘اور آپ ﷺ سے حدیثیں بھی روایت کی ‘گوکہ علامہ البانی نے حدیث روایت کرنے کو مستبعد قرار دیا ہے, امام زرکلی نے بھی حضرت حلیمہ اور ان کے شوہر کے اسلام لانے کی بات لکھی ہے (دیکھئے :الاعلام :۲؍۲۷۱)امام سیوطی اور امام مغلطای نے بھی ان کے اسلام کو راجح قرار دیا ہے ( دیکھئے :السیرہ النبویہ ص؍۱۰۲)جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول فرما لیا تھا ,حتی کہ ان کی بہن حضرت شیماء۔رضی اللہ عنہا۔ نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔

حضرت حلیمہ ۔رضی اللہ عنہا۔ بعد میں مدینہ منتقل ہوگئیں تھیں اور وہیں ان کا انتقال ۸ ھ کے بعد ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئیں,رضی اللہ عنہا و أرضاھا

نام و نسب : حلیمہ بنت أبي ذويب ، وأبو ذويب۔ عبد الله بن الحارث- بن شجنة بن جابر بن رزام بن ناصرة بن فصية بن نصر بن سعد بن بكر بن هوازن بن منصور بن عكرمة بن خصفة بن قيسا بن عيلان

آپ کی پیدائش بنی سعد(کا ایک نام اب السحن بھی ہے‘جو ضلع میسان کی ایک تحصیل ہے)کے ایک گاؤں (شوحطہ ) میں ہوئی ‘جو طائف سے جنوب میں تقریبا ۱۰۰ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے,جیساکہ عام طور پر مشہور ہے۔

نبی ٔاکرمﷺ کے حضرت حلیمہ کے مکہ سے لینےاور خوب خوب برکت حاصل ہونے کا واقعہ بھی سیرت کی کتابوں میں بہت ہی مشہور ہے ‘بنی سعد میں آپ ﷺ کے بچپن کا کچھ حصہ اور خاص کر رضاعت کا زمانہ گزرا ہے ‘ نیزیہاں آپ ﷺ کا شق صدر بھی ہوا ,جو سیرت کی کتابوں میں بڑا مشہور ہے ,وہاں ملاحظہ فرمائیں یہاں مجالِ تفصیل نہیں ۔

چونکہ ہر مسلمان آپ ﷺ سے محبت کرتا ہے ,اس لئے عمرہ,حج اور زیارت پر آنے والے لوگ ضرور اس بنی سعد کی زیارت کرتے ہیں ‘اور قافلہ والے اس موقعہ سے خوب خوب کماتے بھی ہیں‘اور محبانِ رسولﷺ حبِّ رسول میں ڈوب کر خوب خرچ کرتے ہیں ۔

اتفاق سے ۱۴۳۸ھ کے حج کے زمانے میں یہ وبا کچھ زیادہ ہی پھیلی ‘ اس سے پہلے یہ مرض عام نہیں تھا بکثرت حجاج کی آمد ہوئی ,بسوں کی بسیں زیارت کے لئے امڈ پڑتی تھی ‘نتیجہ یہ ہوا کہ ناچیز کی ایک ہفتے کی ڈیوٹی بھی اس جگہ پر لگادی گئی ‘ تاکہ حجاج‘زائرین اور معتمرین کی صحیح رہنمائی کی جا سکے,اس درمیان ناچیز نے عجیب و غریب مناظر دیکھے ‘بدعات و خرافات کا امڈتا سیلاب مشاہدہ کیا,جن سے بڑا تعجب ہوا ‘اور دکھ بھی کہ بھولے بھالے مسلمان کس طرح عقیدت کے نام پر ,محبت کے نام مر مٹتے ہیں ‘ پیسے خرچ کرتے ہیں اور اپنے اعمال کو برباد بھی کرتے ہیں ‘جو کچھ انجانے میں ‘اور کچھ جان کر کرتے ہیں ,اور اسے اپنا دین دھرم سمجھتے ہیں

اہل بدعت وہاں جھنڈ در جھنڈ آتے ہیں ‘جوق در جوق پہنچتے ہیں ‘پتھر سے بنے گھر (جو بعد میں بنائے گئے ہیں‘وہاں کے باشندگان نے خود اس کی وضاحت کی ہے)میں نماز ادا کرتے ہیں ‘دعائیں مانگتے ہیں ‘جائے نماز وہاں چھوڑ جاتے ہیں ‘تبرک حاصل کرتے ہیں ‘چومتے ہیں ‘چاٹتے ہیں ‘وہاں پر موجود درخت سے لپٹ کر روتے گڑگڑاتے ہیں ‘اور اپنی حاجات کی برآری کے لئے دعائیں کرتے ہیں ‘اولاد مانگتے ہیں ‘حد تو یہ ہے کہ منع کرنے پر رکنے کی بجائے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وہاں زور زور سے نعرے لگاتے ہیں ‘لبیک یا رسول اللہ پکار پکار کر شور مچاتے ہیں‘اور نہ جانے ان گنت اور بے شمار بدعات ,خرافات اور لایعنی امور نجام دیتے ہیں کہ اسلام پسند انسان کی پیشانی سے سردی کے دنوں میں پسینہ آجائے,اور ؎

سنت کا اندھیرا ہے اور بدعت کی کھائی ہے

کا سماں پیش کیا جاتا ہے ‘اور واقعی لگتا ہے کہ بدعت کی کھائی ہے‘اور اس روشن دور میں بھی لوگ کس قدر جہالت زدہ اعمال انجام دیتے ہیں ۔

کچھ لوگ تو یہ کہہ کر بھی جان چھڑاتے تھے کہ ہمیں کرنے دو ‘ہمیں محبت ہے اس لئے کرتے ہیں ‘تم کو نہیں ہے ,اس لئے نہیں کرتے ہو (نعوذ باللہ)

ناچیز نے یہ بدعتیں اپنے سر کی نگاہوں سے دیکھا ‘جھڑپیں بھی ہوئیں ,مناظرے بھی ہوئے ‘ اورتلخ نوائی بھی ۔

انہی دنوں میں جب ہم لوگ وہاں پر ڈیوٹی میں لگائے گئے تھے ‘سعودی عرب میں موجود و متحرک تنظیم (هيئة الأمر بالمعروف و النہی عن المنکر)کے مکہ مکرمہ کے مدیر عام بھی تشریف لائے ‘وہاں بنی سعد میں ایک پارٹی میں شرکت فرمائی‘ہماری حوصلہ افزائی کی ‘اور جم کر بلا خوف لومۃ لائم کام کرنے کی ترغیب دی‘اور یقین دلایا ‘کہ ۔ان شاء اللہ ۔ ایک جاندار ‘شاندار‘اور پر شکوہ لیٹر امیر ِ مکہ (امیر و مستشار خادم الحرمین الشریفین‘پرنس خالد الفیصل,حفظہ اللہ ) کو لکھا جائے گا ,تاکہ اس طرح کے شرکیات ,خرافات اور بدعات کا قلع قمع کیا جا سکے‘اور اس پر بند باندھا جا سکے ۔

ابھی حال ہی چند دنوں سے سوشل میڈیا کے ذریعہ وائرل ایک ویڈیو بھی لوگوں کے سامنے آیا ‘اسلام پسند اور سنت طبع لوگوں نے ملاحظہ فرمایا ‘ کہ مختلف ملکوں سے آئے ہوئے لوگ ایک درخت سے لپٹے چمٹے رو رہے ہیں ‘دعائیں مانگ رہے ہیں ‘تبرک حاصل کیا جا رہا ہے ,وغیرہ وغیرہ,پھر کیا تھا ‘امیر مکہ ,پرنس خالد الفیصل۔حفظہ اللہ۔ نے ان تمام درختوں ‘وہاں موجود پتھر کے ڈھیروں , اور بنے ہوئے ریتوں کو ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا ‘اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۷؍۵؍۱۴۳۹ھ مطابق ۱۳؍۲؍۲۰۱۸ء کی وہ صبح ,صبح توحید بن کر عالم اسلام کی نگاہوں سے ٹکرائی ‘اور بدعت اور اہل بدعت کے شامیانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی‘اور وہاں موجود ببول کے درختوں کو شیول سے کٹوادیا گیا ‘ اور وہاں موجود تمام ٹیلوں اور پتھروں کو بالکلیہ صاف کروادیا گیا ۔‘اور وہاں جانے سے بالکل منع کردیا گیا ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی جگہ ایک زمانہ میں عظیم مسجد بنائے جانے کی بات ہوئی ‘غالبا دبئی کے اس وقت کے حاکم نے اپنے خرچ پر مسجد کی تعمیر کروانے کی پیش کش فرمائی ‘اور کام شروع ہوگیا,سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز۔رحمہ اللہ۔ (مفتیٔ اعظم مملکت سعودی عرب)تک شدہ شدہ یہ بات پہنچی ,آں ۔رحمہ اللہ۔نے بادشاہِ وقت کو خط لکھا کہ:اگر یہ مسجد تعمیر ہوگئی تو اسلام کی یہ چوتھی مسجد قرار پائے گی‘اور لوگ یہاں سفر کرکے آئیں گے ‘اور پھر نئی ایجاد شروع ہوجائے گی ‘, اور پھر الحمد للہ مسجد کی تعمیر کا کام رک گیا۔

اس اعتراف میں کسی کو کوئی باک ‘جھجک اور خوف نہیں ہونا چاہئے کہ مملکت سعودی عرب مملکت توحید و سنت ہے,یہاں توحید و سنت کے ہمیشہ سے گلشن کھلا کئے ہیں ‘اور صبح ِ قیامت تک یہ بدستور قائم رہے گا ,ان شاء اللہ

یہ مملکت توحید۔سعودیہ عربیہ۔ کی زرین تاریخ رہی ہے ‘جس سے انچ بھر کبھی نہیں ہٹ سکتا ‘دشمن لاکھ برا چاہیں ‘اور ہزار حربے استعمال کر لیں ‘یہ گلشن توحید اسی طرح مہکتا رہے گا ‘اور حاسدین حسد و جلن میں جل مر کر راکھ ہوتے رہیں گے۔ان شاء اللہ

حضرت حلیمہ ۔رضی اللہ عنہا۔کے گھر ‘گاؤں اور واقعہ سےمتعلق چند گزارشات پیش خدمت ہیں

(۱)عجیب بات یہ ہے کہ لوگ لاکھوں خرچ کر کے آتے ہیں اور شرک و بدعات اور خرافات کا ارتکاب کر کے لمحوں میں ضائع کردیتے ہیں‘کیوں کہ شرک کرنے سےاعمال ضائع ہوجاتے ہیں

(۲)اس سلسلہ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ ﷺ نے رضاعت کا زمانہ گزارا ہے‘یا وہ بنی سعد وہ ہے جو السیل الکبیر سے قریب ہے ‘کیوں کہ سیل کبیر کے پاس بھی ایک گاؤں ہے جس کا نام بنی سعد ہے ‘حلیمہ سعدیہ کے نام سے ایک ابتدائی درجات کا مدرسہ بھی وہاں واقع ہے ۔

(۳)اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ جگہ وہی ہے تو کیا نبی ٔ اکرم ﷺ نے وہاں جانے کی ترغیب دی؟صحابہ ٔ کرام وہاں گئے ؟کیا آپ ﷺ بذات خود وہاں تشریف لے گئے؟(نہیں اور قطعا نہیں)

(۴)جن گھروں(پتھر کے ٹیلوں) کو حضرت حلیمہ اور شیماء ۔رضی اللہ عنہما۔ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ‘وہ گھر (بڑے بڑے پتھر سے بنے ٹیلے کہنا زیادہ مناسب ہے)تو بعد میں لوگوں نے بنائے ‘جو گھاس پوس رکھنے کی غرض سے بعد میں بنائے گئے تھے ‘جیسا کہ وہاں لوگوں نے بذات خود بتایا ‘پھر ان گھروں کو حلیمہ سعدیہ ۔رضی اللہ عنہا۔ کا گھر کیوں کر تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ انہی کا گھر ہے تو کیا وہاں نماز پڑھنا ‘دعائیں کرنا ‘چومنا چاٹنا درست اور جائز مانا جا سکتا ہے ؟ہرگز نہیں ‘کیوں کہ یہ آپﷺ سے ثابت نہیں ‘نہ آپ ﷺ کے صحابہ ٔ کرام سے‘کیوں کہ یہ عمل خیر نہیں ,اگر عمل خیر ہوتا تو آپ ﷺ ضرور ہماری رہنمائی فرماتے ۔

(۵)جن ببول کےدرختوں کو پکڑ پکڑ کر آج کل رویا گڑگڑایا جا رہا ہے ,دعائیں مانگی جارہی ہیں ,وہاں آباد لوگوں کی تصدیق کے مطابق ان درختوں کی عمر زیادہ سے ۱۵۔۲۰ ہے ‘اور انہوں نے ہی یہ درخت لگائے ہیں ‘پھر یہ کیسی حماقت ہے؟ ‘(اور اندازہ فرمائیں کہ شیطان ابن آدم کے ساتھ کیسا کھیلواڑ کر رہا ہے ؟)

اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ آپﷺ کے زمانے کے ہی ہیں تو ان کا کاٹنا ‘جڑ سے اکھیڑ پھینکنا بھی ضروری تھا تاکہ وہاں شرک و بدعات نہ کئے جا سکیں جیساکہ حضرت عمر ۔رضی اللہ عنہ۔نے جس درخت کے نیچے بیعتِ رضوان ہوا تھا اسے اس لئے کٹوادیاتھا‘ کہ وہاں شرکیہ اعمال ہونے لگے تھے‘وہاں نمازیں پڑھی جانے لگی تھیں‘وغیرہ (دیکھئے:مصنف ابن ابی شیبہ رقم:۷۵۴۵,البدع و النہی عنہا نمبر:۱۰۷,اقتضاء الصراط الستقیم :۱؍۳۰۶)اور یہی عملِ عظیم اب مکہ مکرمہ کے پرنس اور خادم حرمین شریفین کے مشیر خاص خالد الفیصل ۔حفظہ اللہ۔نے انجام دیا ‘اور حضرت عمر۔رضی اللہ عنہ ۔کی تاریخ دہرادی ‘اور وہاں ہونے والی بدعات و خرافات اور شرکیات کا یکسر خاتمہ فرما دیا ,(اللہ جزائے خیر سے نوازے مملکت کے تمام ذمہ داران کواور حق پر قائم رہنے کی مدام توفیق عطا فرمائے‘آمین)جس سے پھر ثابت ہوگیا کہ مملکتِ سعودی عرب اول دن سے مملکت ِ توحید تھا ‘اور صبح ِ قیامت تک رہے گا ,ان شاء اللہ‘اور اس موقف سے شمہ برابر بھی ہٹنے کو تیار نہیں ,اللہ مملکت کی حفاظت فرمائے ‘اور اہل شر و فتن کو حسد و جلن سے محفوظ و دور رکھے ۔آمین
 

اٹیچمنٹس

Top