• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حملے سے پھانسی تک: اجمل قصاب کی تاریخ وار کہانی اور اک سوال

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
نومبر 2008 کو ممبئی میں دس شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں 166 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دس حملہ آوروں میں بس ایک اجمل قصاب ہی زندہ پکڑا جا سکا۔
اجمل قصاب کو 21 نومبر، 2012 کو پونے کے يروڈا جیل میں صبح ساڑھے سات بجے پھانسی دے دی گئی۔حملے سے لے کر قصاب کو پھانسی دیے جانے تک کا مکمل احوال پیشِ خدمت ہے:
26 نومبر، 2008: اجمل قصاب اور نو دہشت گردوں نے ممبئی پر حملہ کیا۔ حملے میں 166 افراد ہلاک ہو گئے۔
27 نومبر، 2008: اجمل قصاب گرفتار۔
30 نومبر، 2008: قصاب نے پولیس حراست میں ارتکابِ جرم کا اعتراف کر لیا۔
27-28 دسمبر، 2008: اجمل قصاب کی شناخت پریڈ ہوئی۔
13 جنوری، 2009: ایم ایل تھلياني کو 26/11 معاملے میں خصوصی جج مقرر کیا گیا۔
16 جنوری، 2009: اجمل کے مقدمے کے لیے آرتھر روڈ جیل کو منتخب کیا گیا۔
22 فروری، 2009: روشن نکم کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔
25 فروری، 2009: میٹروپولیٹن کورٹ میں قصاب کے خلاف فردِ جرم داخل۔
1 اپریل، 2009: خصوصی عدالت نے انجل واگھمارے کو قصاب کا وکیل مقرر کیا گیا۔
20 اپریل، 2009: قصاب کو 312 مقدمات میں ملزم بنایا گیا۔
29 اپریل، 2009: ماہرین کی رائے پر عدالت کا فیصلہ: قصاب نابالغ نہیں ہے۔
6 مئی، 2009: قصاب پر 86 الزامات لگائے گئے، قصاب کا الزامات سے انکار۔
23 جون، 2009: حافظ سعید، ذکی الرحمٰن، رحمٰن لکھوی سمیت 22 افراد کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری۔
16 دسمبر، 2009: استغاثہ نے 26/11 معاملے میں جرح مکمل کی۔
9 مارچ، 2010: آخری بحث شروع ہوئی۔
31 مارچ، 2010: فیصلہ تین مئی کے لیے محفوظ رکھا گیا۔
3 مئی، 2010: عدالت نے قصاب کو مجرم قرار دیا، صبا الدين احمد اور فہیم انصاری الزامات سے بری۔
6 مئی، 2010: قصاب کو خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی۔
18 اکتوبر، 2010: ممبئی ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت شروع۔ قصاب کی ویڈیو كانفرنسنگ کے ذریعے پیشی۔
19 اکتوبر، 2010: قصاب نے ذاتی طور پر عدالتی کارروائی میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔
21 اکتوبر، 2010: قصاب نے ذاتی طور پر عدالت میں حصہ لینے کی بات اپنے وکیل سے دہرائی۔
25 اکتوبر، 2010: ہائی کورٹ کے ججوں نے سی سی ٹی وی فٹیج دیکھی۔
27 اکتوبر، 2010: وکیل روشن نکم نے نچلی عدالت کی طرف سے دی گئی قصاب کی موت کی سزا کو درست قرار دیا۔
29 اکتوبر، 2010: روشن نکم کے مطابق اجمل قصاب نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
19 نومبر، 2010: نکم نے عدالت کو بتایا کہ 26/11 کے حملہ آور ملک میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست چاہتے تھے۔
22 نومبر، 2010: نکم نے قصاب کو جھوٹا قرار دیا۔
23 نومبر، 2010: ہائی کورٹ کے ججوں نے ایک بار پھر سی سی ٹی وی فٹیج دیکھی۔
24 نومبر، 2010: نکم کی ہائی کورٹ میں دلیل۔ نچلی عدالت نے قصاب کے اقبالی بیان کو قبول کرنے میں غلطی کی تھی۔
25 نومبر، 2010: اجمل قصاب کے وکیل اميل سولكر نے جرح شروع کی۔ نچلی عدالت کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے دوبارہ ٹرائل کا مطالبہ کیا۔
30 نومبر 2010: سولكر نے دلیل دی کہ قصاب کے خلاف ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
2 دسمبر 2010: وکیلِ دفاع نے عدالت میں کہا کہ اجمل قصاب پاکستان سے کشتی کے ذریعے نہیں آیا تھا کیونکہ کشتی میں صرف دس افراد ہی سما سکتے ہیں۔
3 دسمبر 2010: وکیل کا کہنا تھا کہ اجمل قصاب کو پھنسانے کے لیے پولیس نے جھوٹی کہانی بنائی۔
5 دسمبر 2010: دفاع کے وکیل سولكر نے دلیل دی کہ ثبوتوں کو دبا دیا گیا ہے۔ صرف کچھ سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میں دکھائی گئی۔
6 دسمبر 2010: سولكر نے فوٹیج میں دکھائی گئی تصویروں کو غلط بتایا۔
7 دسمبر 2010: قصاب نے پولیس افسر ہیمنت کرکرے اور دو دیگر پولیس افسران کے قتل سے انکار کیا۔ اس کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے جسم میں پائی گئی گولیاں قصاب کی رائفل سے میچ نہیں ہوتی۔
8 دسمبر 2010: سولكر کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرگام چوپاٹی میں 26 نومبر 2008 کو جھوٹی جھڑپ کا ڈرامہ کرکے قصاب کو پھنسايا ہے۔ ساتھ ہی موقعے پر قصاب کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے اس کی گرفتاری کو غلط بتایا۔
9 دسمبر 2010: اجمل قصاب کے وکیل نے اس کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں کو کمزور بتاتے ہوئے پولیس افسر کرکرے کو مارے جانے سے انکار کیا۔
10 دسمبر 2010: اجمل قصاب کے وکیل نے نچلی عدالت میں رکھی کشتی کا معائنہ كيا اور اس کشتی کو دس افراد کے آنے کے لیے ناكافي بتایا اور دعویٰ کیا کہ استغاثہ کا دعویٰ غلط ہے۔
13 دسمبر 2010: قصاب نے اپنی ذہنی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے طبی ماہرین کے ایک پینل کی تقرری کرنے کی بات کی۔
14 دسمبر 2010: عدالت نے قصاب کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
21 دسمبر 2010: عدالت نے 26/11 کے معاملے میں فہیم انصاری کو بری کیے جانے کے خلاف ریاست کی اپیل سنی۔
22 دسمبر 2010: سرکاری وکیل نکم نے دلیل دی کہ نچلی عدالت نے فہیم انصاری اور صباالدین احمد کو بری کرنے میں غلطی کی تھی۔
21 فروری 2011: بامبے ہائی کورٹ نے اجمل قصاب پر نچلی عدالت کے فیصلے کو صحیح قرار دیا اور اس کی اپیل مسترد کر دی۔ ممبئی حملوں کے معاملے میں فہیم انصاری اور صباالدين احمد کو بری کر دیا گیا۔
29 جولائی 2011: قصاب نے پھانسی کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔
10 اکتوبر 2011: سپریم کورٹ نے اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا معطل کر دی۔
31 جنوری 2012: سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی۔
25 اپریل 2012: اجمل قصاب کی اپیل پر عدالت نے سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ رکھا۔
28 اگست 2012: اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔ فہیم انصاری اور صباالدین احمد کے بامبے ہائی کورٹ کی رہائی کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا گیا۔ ان دونوں پر بھارت سے ممبئی حملہ آوروں کی مدد کرنے کا الزام تھا۔
16 اکتوبر 2012: صدر کے سامنے رحم کے لیے بھیجی گئی قصاب کی درخواست وزارت داخلہ نے مسترد کر دی اور اپنی سفارش صدر کو بھیجی۔
5 نومبر 2012: صدر نے قصاب کی رحم درخواست مسترد کر دی۔
7 نومبر 2012: مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے فائل پر دستخط کیے۔
8 نومبر 2012: اجمل قصاب کو موت کی سزا دیے جانے کی فائل مہاراشٹر حکومت کو بھیجی گئی۔ اسی دن مہاراشٹر حکومت نے 21 نومبر کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
21 نومبر 2012: قصاب کو صبح 7:30 رازداری سے بجے پھانسی دے دی گئی۔
لنک

بھارت، اجمل قصاب کی رحم کی اپیل مسترد
سوال :- اجمل قصاب اگر جماعۃ الدعوۃ کا بھیجا ہوا "مجاھد"تھا تو پھر بھارتی صدر سے رحم کی اپیل کیوں ؟
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم۔



ثبوت؟
ثبوت ؟
جناب سدید صاحب یا تو آپ اجمل قصاب کو جماعۃ الدعوۃ کا آدمی ماننے سے ہی انکار کردیتے تو بات کچھ اور ہوتی لیکن آپ نے ثبوت مانگا ہے صرف رحم کی درخواست پر ۔ تو اسکا مطلب ہے باقی تمام باتوں سے آپ متفق ہیں۔ اب رہ گیا آپ کا سوال ثبوت کے بارے میں تو آپ ہی مہربانی کردیتے ثبوت کے جواب میں ثبوت پیش کردیجئے کہ جماعۃ الدعوۃ والوں نے اجمل قصاب کی طرف رحم کی اپیل منسوب کرنے کو جھوٹا قرار دیا ہو، یعنی کوئی اخباری بیان یا کسی رسالے میں لکھا ہو۔ زبانی جمع خرچ سے پرہیز کیجئے گا جیسے یہ کہنا کہ میں نے خود سنا ہے کہ فلاں فلاں مفتی نے کہا کہ رحم کی اپیل نہیں کی گئی۔وغیرہ
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے
شکریہ
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
جناب سدید صاحب یا تو آپ اجمل قصاب کو جماعۃ الدعوۃ کا آدمی ماننے سے ہی انکار کردیتے تو بات کچھ اور ہوتی
کیا کچھ اور ہوتی۔زرا اس "کچھ اور" کی بھی وضاحت فرمادیں
لیکن آپ نے ثبوت مانگا ہے صرف رحم کی درخواست پر ۔ تو اسکا مطلب ہے باقی تمام باتوں سے آپ متفق ہیں۔
جناب آپ نے بھی تو اعتراض صرف رحم کی اپیل پر کیا ہے۔اس کا مطلب کہ باقی تمام باتوںپر آپکو کوئی اعتراض نہیں ہے؟
اب رہ گیا آپ کا سوال ثبوت کے بارے میں تو آپ ہی مہربانی کردیتے ثبوت کے جواب میں ثبوت پیش کردیجئے کہ جماعۃ الدعوۃ والوں نے اجمل قصاب کی طرف رحم کی اپیل منسوب کرنے کو جھوٹا قرار دیا ہو، یعنی کوئی اخباری بیان یا کسی رسالے میں لکھا ہو۔
آپ ہی کوئی ایسا بیان پیش کر دو جس میں جماعۃ الدعوہ نے اس کے رحم کی اپیل کی تصدیق کی ہو۔۔جب بات کی تصدیق ہی نا ہو تو تردید کیسی؟

اب میری بات کو زرا غورسے پڑھ:

آپ کو اعتراض کس بات پر ہے۔کہ
کیااجمل قصاب جماعت الدعوہ کا بندہ تھا یا نہیں؟
یا
اجمل قصاب نے رحم کی اپیل کیوں کی؟
۔اگر تو اس بات پر ہے کہ وہ جماعت کا بندہ تھا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔تو اس پر میری آپ سے کوئی گفتگو نہیں ہوگی۔کیوں جھنڈے گاڑنا اوروں کا مشن ہے۔
۲۔اگر اعتراض یہ ہے کہ اس نے رحم کی اپیل کیوں کی؟
تو آپ ہی بتا دو کہ ایک مظلوم ایک ظالم سے رحم کی اپیل کرے تو کیا یہ قرآن و سنت کی روشی میں جائز ہے یا ناجائز؟؟
اس بات کی دلیل اپکے زمہ ہے ۔
کیوں کے آپ نے لکھا تھا کہ اگر وہ جماعت الدعوہ کا بندہ تھا تو اس نے رحم کی اپیل کیوں کی۔
تو اپ نے رحم کی اپیل کرنے کی شرعی حیثت پر تمام فورم والے حضرات کو اگاہ کرنا ہے۔
جزاک اللہ
آپکی پوسٹ"مظلوم کی ظالم کے سامنے رحم کی اپیل کی شرعی حثیت"کا انتظاررہے گا۔
 
Top