• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی طریقہ نماز [انتظامیہ]

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بسم الله الرحمن الرحيم​
نماز

آئیے نماز نماز کے اختلافی مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سیکھیں۔
تكبير تحريمہ
نماز کی ابتداء تكبيرِ تحريمہ اللہ اکبر سے ہوتى ہے جو حالتِ قيام میں کہی جاتى ہے (سنن الترمذی كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ الصَّلَاةِ وَتَحْلِيلِهَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قبلہ کی طرف منہ کرتے ہاتھ اٹھاتے اور کہتے اللہ اکبر(سنن ابن ماجه كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها باب افتتاح الصلاة
ہیئتِ تحريمہ
تكبير تحريمہ میں ہاتھ اٹھائیں کہ وہ کندھوں کے برابر، انگوٹھے كان كى لو کے برابر، انگلیاں كانوں کے برابر ہوجائیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں کھڑے ہوتے تو ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کندھے کے برابر ہو جاتے اور انگوٹھے کانوں کے برابر ہو جاتے(سنن ابی داؤد كتاب الصَّلاة باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاة)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتداء میں ہاتھاٹھاتے اس طرح کہ انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر ہو جاتے (ایضاً
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اونچا اٹھاتے(ابی داؤد كتاب الصلاة باب بَاب مَنْ لَمْ يَذْكُرْ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ
توضیح: رفع الیدین مستحب ہے جیسا کہ مسلم میں ہے (صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِبَاب اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ
قيام
قيام میں تین عمل پائے جاتے ہیں۔ 1: ہاتھ باندهنا ۔ 2: ثنا پڑھنا۔ 3: قراءت كرنا۔
ہاتھ باندهنا
ہاتھ باندھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی پشت پر گٹ کے پاس رکھے، الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ سے پکڑے کچھ انگلیوںکو کلائی پر بچھادے۔
صحيح مسلم میں باب ہے کہ سيدها ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھے (صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى) اور اس کے ذیل میں حدیث لائے ہیں؛
وائل رضی اللہ تعالی عنہ بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کی ابتدا میں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی اور ہاتھوں کو کان کی لو کے برابر اٹھایا پھر ان کو کپڑے میں چھپایا اور سيدها ہاتھ الٹے ہاتھ پر باندھا( ایضاً
توضیح: اس حدیث میں ہاتھ باندھنے کی کیفیت کا ذکر ہے، ہاتھ کہاں باندھے جائیں، اس کا ذکر نہیں۔ محدث کے عنوان سے ثابت ہے کہ ہاتھ سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھے۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھناسنت ہے(ابوداؤد بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ)
ثناء
ابتداء میں رسول الله صلى الله علیہ وسلم نماز شروع کرنے کے بعد نماز میں دعا مانگتے تھے- اس سلسلہ کی بہت سی مناجات احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروى ہیں- مگر جب یہ آيت مبارکہ وسبح بحمد ربك حين تقوم(طور)نازل ہوئی تو آپ صلى الله علیہ وسلم كا معمول ثنا سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا اله غيرك پڑھنے کا ہو گیا۔
رسول الله صلى الله علیہ وسلم جب رات كى نمازكو کھڑے ہوتے تكبير کہتے پھر پڑھتے سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا اله غيرك(سنن ابوداؤد كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ
رسول الله صلى الله علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو تكبير کہتے پھر پڑھتے سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك†۔ ایک دفعہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز میں یہی کلمات بلند آواز سے پڑھے(صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب حُجَّةِ مَنْ قَالَ لَا يُجْهَرُ بِالْبَسْمَلَةِ
توضیح: نو مسلموں کو سکھانے کیلئے بلند آواز سے پڑھی مگر بلند آواز سے پڑھنے کا معمول نہ تھا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
قراءت
نماز میں قيام كى حالت میں سورة فاتحہ کی قراءت اور اس کے ساتھ دیگر کسی سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ نماز میں کسی شخص کی تین حالتیں ممکن ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ وہ منفرد نماز پڑھے نمبر دو یہ کہ وہ امام ہو نمبر تین یہ کہ وہ مقتدی ہو۔
منفرد
احادیث سے ظاہر ہے کہ منفرد پر سورة فاتحہ کے ساتھ كوئى اور سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدینہ میں منادی کردو کہ نماز نہیں مگر قرآن کے ساتھ وہ سورۃ فاتحہ اور زیادہ ہو(سنن أبی داؤد کتاب الصلاۃ باب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)۔

رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا اس كى نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور زياده نہ پڑھا(سنن النسائي کتاب الافتتاح باب إِيجَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاةِ)۔

رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا نماز كى كنجى وضوء ہے اور اس كى تحريم الله اكبر ہے اور حلت سلام پھیرنا ہے اس كى نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور زياده نہ پڑھا فرض اور غير فرض نماز میں(سنن الترمذي کتاب الصلاۃ باب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ الصَّلَاةِ وَتَحْلِيلِهَا)۔

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم كى تعليم فرمائى نماز
ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھنے کے بعد آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص گیا اور اس نے نماز پڑھی اور آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی اس طرح تین دفعہ ہؤا۔ اس کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے سکھلائیے میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہہ پھر پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پھر رکوع کر اطمینان کے ساتھ پھر رکوع سے کھڑا ہو اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ کر اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ سے سر اٹھا اور اطمینان سے بیٹھ جا پھر پوری نماز میں ایسا کر(صحيح بخاری کتاب الآذان باب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا)۔

وضاحت: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے قراءت کے بارے فرمايا، قرآن سے تمہیں جو ياد ہے اس سے قراءت كر۔ یہی فرمانِ باری تعالیٰ بھی ہے "فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآَنِ" پس پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو۔ نماز کی قراءت میں مطلقاً قرآن پڑھنا فرض ہے سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ دوسری کوئی سورت پڑھنا واجب۔
امام
امام پر سورۃ فاتحہ کے ساتھ دیگر كوئى سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے- فجر٬ مغرب، عشاء، جمعہ اور عیدین كى نمازوں میں امام بلند آواز سے قراءت کرے گا بقیہ نمازوں میں آہستہ۔

ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور ہمیں سنتیں سکھلائیں اور نماز کی وضاحت فرمائی۔ فرمایا صفوں کو سیدھا کرو پھر تم میں سے ایک امام بنے جب تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب "وَلا الضَّالِّينَ" کہے تو آمین کہو اللہ آپ سے محبت کرے گا(سنن النسائي کتاب التطبیق باب نَوْعٌ آخَرُ مِنْ التَّشَهُّدِ)۔

مقتدى
مقتدى کو امام كى اقتداء میں قراءت كى ممانعت ہے
فرمان بارى تعالى جل شانہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم كيا جائے(سورة الاعراف)۔

آیت میں یہ حکم مقتدی کو نماز میں کی جانے والی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت میں ہے کہ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ جب قرآن پڑھا جائے۔ یہ الفاظ متقاضی ہیں کسی شخص کے پڑھنے کے اور بلند آواز سے قراءت صرف امام کرتا ہےاور فَاسْتَمِعُوا لَهُ سےقرآنِ پاک کے سننے کا حکم ہؤا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم مقتدی کو ہے اور یہ الفاظ متقاضی ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت اس کی طرف توجہ کرنے کے۔ کان میں صرف آواز کا پڑنا کافی نہیں ہے۔ پھر بغور سماعتِ قرآن کے تقاضے کی تکمیل کے لئے ارشادِ باری تعالیٰ وَأَنْصِتُوا ہؤا تاکہ سماعتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرکے قراءتِ قرآن کو توجہ سے سننے کی تعمیل باحسن و خوبی ہوسکے۔اس بات کی تائید کے لئے تفسير ابن کثیر سے درج بالا آيت کی تفسیر کے اقتباسات ملاحطہ فرمائیں؛

تفسير ابن کثیر
§ اللہ تعالی نے وقتِ تلاوت خاموش رہنے کا حکم دیا قرآن کی عظمت و احترام کے لئے۔
§ ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام اسلئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب قراءت کرے خاموش رہو۔
§ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز پڑھی، لوگوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم لوگ سمجھ سے کام لو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو جب قرآن پڑھا جائے توجہ سے سنو اور خاموش رہو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
§ ایک انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں قراءت کرتا تھا یہ آیت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" اس بارے میں اتری۔
توضیح: انصاری امام کی قراءت کے ساتھ قراءت کرتا تھا جس سے منع کیا گیا۔
§ رسولاللہ صلى الله عليہ وسلم ایک جہری نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی میرے ساتھ قراءت کر رہا تھا؟ ایک شخص نے کہا جی ہاں يا رسول اللہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے کہا میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں چھینا جارہا ہے۔ راوی کہتاہے کہ لوگ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلمکے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت کرنے سے رک گئے۔
§ جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے ان میں امام کے ساتھ نہ پڑھو اس لئے کہ امام کی قراءت تمہیں کافی ہے اگرچہ امام کی آواز سنائی نہ دے ہاں جن نمازوں میں امام آہستہ قراءت کرتا ہے ان میں دل ہی دل میں قراءت کرے۔ کسی کے لئے بھی یہ درست نہیں کہ وہ امام کے ساتھ آہستہ یا بلند آواز سےقراءت کرے جب کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔
توضیح: مقتدی کو سری نمازوں میں قراءت "في أنفسهم" کی اجازت دی گئی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہ ہونے کا کہا تو پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ"(صحیح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يُحْسِنْ الْفَاتِحَةَ)۔

یہ " في أنفسهم" اور " فِي نَفْسِكَ" کیا ہے؟ یہ ہونٹوں کو حرکت دیئے بغیر قراءت کرنے کو یعنی دل ہی دل میں قراءت کرنے کو "في أنفسهم" اور "في نفسك" فرمایا جیسا کہ نزول قرآن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سری قراءت سے منع فرمایا گیا(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)۔
§ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر نماز میں قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سورۃ فاتحہ نہ کوئی دیگر سورۃ۔
§ صرف سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کرے یہ جمہور صحابہ اور تابعین کا قول ہے۔
توضیح: سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی اجازت دلیل ہے قراءتِ امام کے وقت خاموشی کی۔
§ ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سری میں نہ جہری نمازوں میں جیسا کہ حدیث میں آچکا کہ امام کی قراءت مقتدی کو کافی ہے۔
§ علی بن ابی طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ فرض نمازوں سے متعلق حکم ہے۔
(تفسیر ابن کثیر مکمل ہوئی)​

اوپر درج آیت کی تفسیر کی تائید باری تعالیٰ کے اس حکمِ سے بھی ہوتی ہے جس میںہےکہ نزول قرآن کے وقت جبرائیل امین کے ساتھ آقا علیہ السلام پڑھنا شروع کر دیتے جس سے آپ کو منع کر دیا گیا اور خاموش رہ کر سننے کا حکم دیا گیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)۔

اس آ یت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں؛
ابن کثیر (تفسیر سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)میں ہےکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتہ سے وحی وصول کرنے کی تعلیم دی کہ جب فرشتہ وحی لائے تو توجہ سے اس کو سنیں اللہ تعالیٰ کماحقہ آپ کو یاد کروا دیں گے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مقتدى کو قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے
رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا جب امام "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ" کہے تو کہو "آمین" اللہ آپ سے محبت کرے گا(سنن النسائي كِتَاب الِافْتِتَاحِ بَاب جَهْرُ الْإِمَامِ بِآمِينَ)۔
توضیح: امام کی قراءت کے ساتھ مقتدی کو قراءت کا حکم نہیں فرمایا جب کہ مقتدی کے ذمہ جو افعال تھے ان کا ذکر آقا علیہ السلام نے اس میں فرمایا۔

صحيح مسلم میں ہے کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو(صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ) ۔

صحيح مسلم ہی میں ہے کہ زيد رضى الله تعالى عنہ سے امام كى اقتدا میں مقتدی كى قراءت كا پوچھا گیا تو جواب دیا كہ امام كى اقتدا میں مقتدى پر قراءت واجب نہیں(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ)۔

ابو ہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو جب کہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ(سنن النسائی کتاب الافتتاح بَاب تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)۔

ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو اور جب کہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو کہو آمین اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جبکہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو(‡ سنن ابن ماجه کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا باب اذا قرا الامام فانصتوا)۔

توضیح: اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے مقتدی کے تمام افعال بڑی تفصیل سے ارشاد فرمائے۔ اس میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے وقت بھی خاموش رہنے کا حکم فرمایا۔

ابو موسى اشعرى رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو اور قعده كرو تو سب سے پہلے تشہد پڑھو(سنن ابن ماجه كتاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا باب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا)۔

ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ سوا اس کے نہیں کہ مقرر كيا گیا ہے امام تاكہ اس كى اقتدا كى جائے۔ جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب قراءت كرے تو خاموش رہو(مسند أحمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)۔

تفہیم:اوپر درج تمام احادیث اس کی متقاضی ہیں کہ قراءتِ امام کے وقت مقتدی خاموشی کے ساتھ امام کی قراءت سنے اگر اس کو قراءت سنائی دے رہی ہو۔

سورۃ فاتحہ بهى قراءت ہے اور قراءت کے احکام میں شامل ہے اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں۔

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز میں قراءت (الحمد لله رب العلمين) سے شروع کرتے (صحيح مسلم کتاب الصلاۃ بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ)۔

ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب دوسرى ركعت كو کھڑے ہوتے تو قراءت (الحمد لله رب العلمين) سے شروع کرتے(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلاةِ بَاب مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ)۔

انس رضى الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول الله صلى الله عليہ وسلم٬ ابوبكر رضى الله عنہ٬ عمررضى الله عنہ اور عثمان رضى الله عنہ قراءت الحمد لله رب العلمينسے شروع کرتے تھے(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ بَاب مَنْ لَمْ يَرَ الْجَهْرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)۔

امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ہے
ابو درداء رضى الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے پوچھا گیا كيا ہر نماز میں قراءت ہے؟ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ ہاں! ايك انصارى نے كہا کہ واجب ہوئی۔ ايک شخص جو رسول صلى الله عليہ وسلم سے قريب تها متوجہ ہؤا کہا جب تمهارى قوم سے تمهارا كوئى امام ہو تو اس كى قراءت تمہیں كافى ہے(سنن النسائي کتاب الافتتاح باب اكْتِفَاءُ الْمَأْمُومِ بِقِرَاءَةِ الإِمَامِ)۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری مرض کا ذکر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہیں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کر چکے تھے(سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ)۔

تفہیم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی قراءت کافی ہوگئی۔ قراءت سورہ فاتحہ سے شروع کی جاتی ہے جیسا کہ ماقبل احادیث میں گذر چکا۔ ظاہر ہے کہ آقا علیہ السلام کو کم سے کم یہ تو لازم ہؤا کہ سورہ فاتحہ کا کچھ حصہ قراءت کرنے سے رہ گیا اس طرح آقا علیہ السلام نے عملاً بتا دیا کہ مقتدی کو امام کی قراءت کفایت کر جاتی ہے۔

جابر رضى الله تعالى عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ مقتدی کو امام كى قراءت كافى ہے(سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا)۔

عبدالله ابن عمر رضى الله تعالى عنہ سے پوچھا گیا كيا امام كى اقتدا میں مقتدى قراءت كرے؟ انہوں نے كہا تم میں سے جب كوئى امام كى اقتداء میں نماز پڑھے تو اس كو امام كى قراءت كافى ہےجب اكيلا پڑھے تو قراءت كرے(موطأ مالك كِتَاب النِّداءِ لِلصّلاةِ بَاب تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيه)۔

رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا جس نے (امام کے ساتھ) ركعت (یعنی ركوع) پا لیااس نے نماز (كى ركعت) پالی(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةً)۔

ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے فرماتے ہیں رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز كى ركعت پالى(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ)۔
 
Top