قراءت
نماز میں قيام كى حالت میں سورة فاتحہ کی قراءت اور اس کے ساتھ دیگر کسی سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ نماز میں کسی شخص کی تین حالتیں ممکن ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ وہ منفرد نماز پڑھے نمبر دو یہ کہ وہ امام ہو نمبر تین یہ کہ وہ مقتدی ہو۔
منفرد
احادیث سے ظاہر ہے کہ منفرد پر سورة فاتحہ کے ساتھ كوئى اور سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے۔ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدینہ میں منادی کردو کہ نماز نہیں مگر قرآن کے ساتھ وہ سورۃ فاتحہ اور زیادہ ہو(سنن أبی داؤد کتاب الصلاۃ باب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)۔
رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا اس كى نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور زياده نہ پڑھا(سنن النسائي کتاب الافتتاح باب إِيجَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاةِ)۔
رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا نماز كى كنجى وضوء ہے اور اس كى تحريم الله اكبر ہے اور حلت سلام پھیرنا ہے اس كى نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور زياده نہ پڑھا فرض اور غير فرض نماز میں(سنن الترمذي کتاب الصلاۃ باب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ الصَّلَاةِ وَتَحْلِيلِهَا)۔
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم كى تعليم فرمائى نماز
ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھنے کے بعد آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص گیا اور اس نے نماز پڑھی اور آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی اس طرح تین دفعہ ہؤا۔ اس کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے سکھلائیے میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہہ پھر پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پھر رکوع کر اطمینان کے ساتھ پھر رکوع سے کھڑا ہو اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ کر اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ سے سر اٹھا اور اطمینان سے بیٹھ جا پھر پوری نماز میں ایسا کر(صحيح بخاری کتاب الآذان باب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا)۔
وضاحت: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے قراءت کے بارے فرمايا، قرآن سے تمہیں جو ياد ہے اس سے قراءت كر۔ یہی فرمانِ باری تعالیٰ بھی ہے "فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآَنِ" پس پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو۔ نماز کی قراءت میں مطلقاً قرآن پڑھنا فرض ہے سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ دوسری کوئی سورت پڑھنا واجب۔
امام
امام پر سورۃ فاتحہ کے ساتھ دیگر كوئى سورۃ يا تين آيات كى مقدار قراءت واجب ہے- فجر٬ مغرب، عشاء، جمعہ اور عیدین كى نمازوں میں امام بلند آواز سے قراءت کرے گا بقیہ نمازوں میں آہستہ۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور ہمیں سنتیں سکھلائیں اور نماز کی وضاحت فرمائی۔ فرمایا صفوں کو سیدھا کرو پھر تم میں سے ایک امام بنے جب تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب "وَلا الضَّالِّينَ" کہے تو آمین کہو اللہ آپ سے محبت کرے گا(سنن النسائي کتاب التطبیق باب نَوْعٌ آخَرُ مِنْ التَّشَهُّدِ)۔
مقتدى
مقتدى کو امام كى اقتداء میں قراءت كى ممانعت ہے
فرمان بارى تعالى جل شانہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم كيا جائے(سورة الاعراف)۔
آیت میں یہ حکم مقتدی کو نماز میں کی جانے والی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت میں ہے کہ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ جب قرآن پڑھا جائے۔ یہ الفاظ متقاضی ہیں کسی شخص کے پڑھنے کے اور بلند آواز سے قراءت صرف امام کرتا ہےاور فَاسْتَمِعُوا لَهُ سےقرآنِ پاک کے سننے کا حکم ہؤا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم مقتدی کو ہے اور یہ الفاظ متقاضی ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت اس کی طرف توجہ کرنے کے۔ کان میں صرف آواز کا پڑنا کافی نہیں ہے۔ پھر بغور سماعتِ قرآن کے تقاضے کی تکمیل کے لئے ارشادِ باری تعالیٰ وَأَنْصِتُوا ہؤا تاکہ سماعتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرکے قراءتِ قرآن کو توجہ سے سننے کی تعمیل باحسن و خوبی ہوسکے۔اس بات کی تائید کے لئے تفسير ابن کثیر سے درج بالا آيت کی تفسیر کے اقتباسات ملاحطہ فرمائیں؛
تفسير ابن کثیر
§ اللہ تعالی نے وقتِ تلاوت خاموش رہنے کا حکم دیا قرآن کی عظمت و احترام کے لئے۔
§ ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام اسلئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب قراءت کرے خاموش رہو۔
§ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز پڑھی، لوگوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم لوگ سمجھ سے کام لو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو جب قرآن پڑھا جائے توجہ سے سنو اور خاموش رہو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
§ ایک انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں قراءت کرتا تھا یہ آیت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" اس بارے میں اتری۔
توضیح: انصاری امام کی قراءت کے ساتھ قراءت کرتا تھا جس سے منع کیا گیا۔
§ رسولاللہ صلى الله عليہ وسلم ایک جہری نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی میرے ساتھ قراءت کر رہا تھا؟ ایک شخص نے کہا جی ہاں يا رسول اللہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے کہا میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں چھینا جارہا ہے۔ راوی کہتاہے کہ لوگ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلمکے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت کرنے سے رک گئے۔
§ جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے ان میں امام کے ساتھ نہ پڑھو اس لئے کہ امام کی قراءت تمہیں کافی ہے اگرچہ امام کی آواز سنائی نہ دے ہاں جن نمازوں میں امام آہستہ قراءت کرتا ہے ان میں دل ہی دل میں قراءت کرے۔ کسی کے لئے بھی یہ درست نہیں کہ وہ امام کے ساتھ آہستہ یا بلند آواز سےقراءت کرے جب کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔
توضیح: مقتدی کو سری نمازوں میں قراءت "في أنفسهم" کی اجازت دی گئی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہ ہونے کا کہا تو پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ"(صحیح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يُحْسِنْ الْفَاتِحَةَ)۔
یہ " في أنفسهم" اور " فِي نَفْسِكَ" کیا ہے؟ یہ ہونٹوں کو حرکت دیئے بغیر قراءت کرنے کو یعنی دل ہی دل میں قراءت کرنے کو "في أنفسهم" اور "في نفسك" فرمایا جیسا کہ نزول قرآن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سری قراءت سے منع فرمایا گیا(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)۔
§ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر نماز میں قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سورۃ فاتحہ نہ کوئی دیگر سورۃ۔
§ صرف سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کرے یہ جمہور صحابہ اور تابعین کا قول ہے۔
توضیح: سکتوں میں سورۃ فاتحہ کی اجازت دلیل ہے قراءتِ امام کے وقت خاموشی کی۔
§ ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں نہ سری میں نہ جہری نمازوں میں جیسا کہ حدیث میں آچکا کہ امام کی قراءت مقتدی کو کافی ہے۔
§ علی بن ابی طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ فرض نمازوں سے متعلق حکم ہے۔
(تفسیر ابن کثیر مکمل ہوئی)
اوپر درج آیت کی تفسیر کی تائید باری تعالیٰ کے اس حکمِ سے بھی ہوتی ہے جس میںہےکہ نزول قرآن کے وقت جبرائیل امین کے ساتھ آقا علیہ السلام پڑھنا شروع کر دیتے جس سے آپ کو منع کر دیا گیا اور خاموش رہ کر سننے کا حکم دیا گیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)۔
اس آ یت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں؛
ابن کثیر (تفسیر سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)میں ہےکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتہ سے وحی وصول کرنے کی تعلیم دی کہ جب فرشتہ وحی لائے تو توجہ سے اس کو سنیں اللہ تعالیٰ کماحقہ آپ کو یاد کروا دیں گے۔