• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمرانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے...؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حکمرانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے...؟

ہمارے ہاں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ حکمرانوں پر تنقید جائز نہیں....اور یہ معاشرے میں انارکی اور فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے.... یہ موقف اختیار کرنے والوں سے غلطی ہوئی کہ نہ جان سکے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں تنقید خالص ایک جمہوری حق ہے جو ہم استمعال کرتے ہیں ...جو اس ملک کا قانون ہمیں دیتا ہے...لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کا فہم اسلام بھی اس تنقید کی روک کرتا تھا؟...ایک روایت ملاحظہ کیجئے

"مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس اک وفد لے کر گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور مرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پر جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امور کر رہا جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"

.............دیکھئے اس روایت میں خلیفہ المسلمین نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ

* .. تنقید کا تم کو حق نہیں
*.. اور خلفائے اربعہ کے دور میں اس کی کوئی مثال نہیں
*...اور یہ کہ حکمران پر تنقید کوئ؛ی گناہ کا کام ہے


اگر ان میں سے کوئی معامله بھی ہوتا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بہت آسان ہو جاتا کہ وہ مسور رضی اللہ عنہ کو کہتے کہ آپ کی تنقید گناہ کا کام ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں.........لیکن انہوں نے ان سے اصرار سے اپنی غلطی پوچھی اور ان کو مطمئن کیا...اور اپنی صفائی پیش کی.....
اسی طرح سلف صالحین میں بہت مثالیں ملتی ہیں جن میں انہوں نے حکمرانوں پر ان کی غیر موجودگی میں تنقید کی.....جیسے حضرت عبدللہ بن عمر ، حجاج پر کیا کرتے...
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تنقید ایک طرح سے سیفٹی والو کا کام کرتی ہے.....تکفیر اور خروج کا راستہ روکتی ہے.......مداہنت اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی نوجوان طبقے میں ردعمل پیدا کرتی ہے...اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان انتہا پسندی کو اختیار کر رہے ہیں

...................ابوبکر قدوسی
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میں وزیراعظم بنا تو ٹیکس کو 30 فیصد سے 10 فیصد پر لاؤں گا۔ دیکھئے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے والے نواز شریف نے الیکشن سے پہلے کیا کہا تھا۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
استغفراللہ !

جعلی ادویات اور ھسپتالوں کا گندہ نظام آخر اس کا ذمہ دار کون ھے؟

کاش یہی خون نوازشریف صاحب کو لگتا اور یہ تڑپ تڑپ کر مرجاتے تو شاید انکے اھل حانہ کو احساس ھوتا ھمارے حکمران اپنے پیٹ درد کا علاج بھی لندن میں کرواتے ھیں مگر یہاں غریب لوگ جعلی ادویات کی وجہ سے جان کی بازی ھار رھے ھیں-

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حکمرانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے...؟


حکمرآنوں پر تنقید کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ ہر دور میں لوگ وقت کے حاکموں پر تنقید کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گئے۔ تنقید کبھی برملا حکمرآنوں کے سامنے ہوتی رہی اور کبھی نجی محفلوں میں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے ہیں ۔

اگر حاکم وقت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ جیسا عادل خلیفہ راشد ہوتا تو لوگ انکا دامن پکڑ کر سرعام تنقید بھی کرتے اور سوال بھی پوچھتے جنکا تسلی بخش جواب اور وضاحت خندہ پیشانی سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کر دیتے ۔

لیکن اگر حاکم وقت ظالم و جابر ہوتا تو لوگ نجی محفلوں میں تنقید کرکے اپنی بھڑاس نکال لیتے۔ جیسے تنقید کی تاریخ پرآنی ہے ویسے ہی خوشآمد کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے ۔

خوشآمدی حکمرآنوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملاتے ہیں اور قرآن و حدیث سے غلط استدلال کرکے حکمرآنوں کو خوش کرتے ہیں اور انکے غلط احکامات کو جواز فراہم کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جلال الدین اکبر نے ہندوستان میں دین الہی نامی ایک دین نافذ کیا جسکی لاتعداد شقوں میں سے ایک شق یہ بھی تھی کہ کلمہ میں اکبر کا نام بھی لیا جائے اور اکبر اعظم کو جھک کر سلام کیا جائے, گائے کے ذبیحہ پر بھی پابندی لگا دی گئی اور بھی بیشمار شقیں تھیں جو آج کا موضوع نہیں ۔ اب اکبر کی لادینیت کو جواز درکار تھا تو خوشآمدی دانشور اور درباری ملاں میدان میں آئے اور انھوں نے دلیل قرآن سے نکالی کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ( سوره : النساء آیه : 59 ).

( ترجمہ ): اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔

گویا دلیل دی کہ حاکم وقت کی بھی اطاعت کرنا حکم ربی ہے ۔ جبہ و دستار پہنے اور چہروں پر داڑھی سجائے جب لہک لہک کر اکبر کے حق میں آیات قرآنی پڑھتے تو سننے والے انکی علماء جیسی شکلیں دیکھ کر ان پر یقین کرکے گمرآہ ہو جاتے ۔ الله رب العزت گمرآہی میں کسی کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا اتمام حجت ضرور کرتا ہے ۔ ان گمراہ لوگوں کی ہدائیت اور درباری ملاؤں کے خلاف الله تعالی نے حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کو کھڑا کردیا اور آپ نے درباری علماء کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اطیعوا کا لفظ الله اور رسول کے ساتھ آیا ہے جبکہ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ کو الله و رسول پر عطف کیا ہے ۔ آپکی خدمت میں عام فہم الفاظ میں عرض کرتا ہوں مجدد پاک نے فرمایا کہ الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت تو ہر حال میں کرنی ہے مگر حکمرآن کی اطاعت اسوقت لازم ہے جبکہ وہ خود الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہو اور اکبر الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کا باغی ہے لہذا اسکی اطاعت لوگوں پر لازم نہیں ۔ یہ سب عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خوشآمدی ٹولہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر اپنی عاقبت داؤ پر لگا دیتا ہے ۔

خوشآمدی ٹولے کا ایک اور کارنامہ ملاحظہ کریں :

انھوں نے ایک جملہ گڑھا کہ جیسی عوام ویسے ان پر حکمرآن مسلط کر دیے جاتے ہیں- اور اسے حدیث نبوی کہہ کر مشہور کردیا گیا ۔ یہ حدیث دو طرق سے کتب میں موجود ہے ایک القضاعي في مسند الشهاب میں اور دوسرا الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب میں لیکن اس کے دونوں طرق ہی ضعیف ہیں۔ جیسے عوام ویسے حکمرآن کا تذکرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے بلکہ بڑے بڑے دانشوروں نے اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ کردیے اور انھیں توفیق نہیں ہوئی کہ اسکی تحقیق تو کرلیں آیا یہ حدیث ہے بھی یا نہیں ۔ اور اصل عبارت کا بھی شائد انھیں علم نہ ہو ۔ اصل میں ظالم اور جابر حکمرآنوں کی حکومت کا جواز پیدا کرنے کے لئیے غالبا بنو امیہ کے دور میں یہ حدیث گڑھی گئی جب اسوقت لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے تھے تو درباری ملاں گڑھی ہوئی حدیث سناکر کہتے تھے کہ احتجاج نہ کرو جیسے تم لوگ ہو ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کیے گئے ہیں ۔

یہ تو الله کی کڑوڑوں رحمتیں ہوں محدثین پر کہ انھوں نے زندگیاں کھپا کر ایک ایک حدیث کو چھانٹ کر صحیح اور ضعیف احادیث کو جدا جدا کردیا ۔ آج بھی آپ نے غور کیا ہوگا جب حکمرآنوں پر تنقید کریں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ چھڈو جی جیسی عوام ویسے حکمرآن حالانکہ یہ الٹ ہے عوام ہمیشہ حکمرآنوں کا عکس ہوتے ہیں ۔ عوام ہمیشہ حکمرآنوں سے اثر لیتی ہے اور یہ ٹرکل ڈاؤن افیکٹ ہے اوپر سے نیچے آتا ہے اور عربی کا مقولہ ہے کہ الناس علی دین ملوکھم ۔ عوام حکمرانوں کے طریقے پر چلتے ہیں ۔ حاکم جیسا ہوگا عوام ویسی ہوگی ۔ اگر حکمرآن ٹیکس چور ہوگا تو قوم بھی ٹیکس چوری کرے گی ۔ حکمرآن اگر دیانتدار ہوگا تو ساری قوم دیانت کے رستے پر چل نکلتی ہے ۔ چھوٹے ہمیشہ بڑوں سے اثر لیتے ہیں ۔ آج کے بعد جو آپ سے کہے کہ جیسی عوام ویسے حکمرآن ۔ اس سے درخواست کریں کہ جناب یہ حدیث کس کتاب میں ہے اور اسکی اصل عبارت اور سند کیا ہے ۔ الله کے فضل سے کوئی شخص آپکو یہ کسی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نہیں دکھا سکے گا ۔ جب نہ دکھا پائے تو اس بھلے آدمی سے کہیں کہ جناب ہم جیسے بھی ہیں ہم اپنا سربراہ مملکت کسی لٹیرے کو نہیں دیکھنا چاہتے ۔ امریکہ میں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ اور معاشقے عام سی بات ہے مگر جب کلنٹن کا سکینڈل آیا تو عوام نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ اب وہاں پر ہمارے جیسے نیم دانشور ہوتےتو وہ امریکی عوام سے کہتے کہ جیسے تم ویسا تمھارا صدر ۔ تم روز معاشقے کرتے ہو اگر صدر نے کرلیا تو کونسی قیامت آگئی ہے ۔ لیکن وہاں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ امریکی دانشور کہتے ہیں کہ سربراہ مملکت کو اعلی اخلاقی اقدار پر ہونا چاہئیے عوام چاہے جیسی مرضی ہو ۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے ۔


عثمان احسان
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی اس میں ایک ضعیف حدیث کی طرف اشارہ ہے - اس بارے میں معلومات دے دیں -

انھوں نے ایک جملہ گڑھا کہ جیسی عوام ویسے ان پر حکمرآن مسلط کر دیے جاتے ہیں- اور اسے حدیث نبوی کہہ کر مشہور کردیا گیا ۔ یہ حدیث دو طرق سے کتب میں موجود ہے ایک القضاعي في مسند الشهاب میں اور دوسرا الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب میں لیکن اس کے دونوں طرق ہی ضعیف ہیں۔ جیسے عوام ویسے حکمرآن کا تذکرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے بلکہ بڑے بڑے دانشوروں نے اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ کردیے اور انھیں توفیق نہیں ہوئی کہ اسکی تحقیق تو کرلیں آیا یہ حدیث ہے بھی یا نہیں ۔ اور اصل عبارت کا بھی شائد انھیں علم نہ ہو ۔ اصل میں ظالم اور جابر حکمرآنوں کی حکومت کا جواز پیدا کرنے کے لئیے غالبا بنو امیہ کے دور میں یہ حدیث گڑھی گئی جب اسوقت لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے تھے تو درباری ملاں گڑھی ہوئی حدیث سناکر کہتے تھے کہ احتجاج نہ کرو جیسے تم لوگ ہو ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کیے گئے ہیں ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حکمرانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے...؟

ہمارے ہاں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ حکمرانوں پر تنقید جائز نہیں....اور یہ معاشرے میں انارکی اور فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے.... یہ موقف اختیار کرنے والوں سے غلطی ہوئی کہ نہ جان سکے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں تنقید خالص ایک جمہوری حق ہے جو ہم استمعال کرتے ہیں ...جو اس ملک کا قانون ہمیں دیتا ہے...لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کا فہم اسلام بھی اس تنقید کی روک کرتا تھا؟...ایک روایت ملاحظہ کیجئے

"مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس اک وفد لے کر گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور مرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پر جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امور کر رہا جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"

.............دیکھئے اس روایت میں خلیفہ المسلمین نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ

* .. تنقید کا تم کو حق نہیں
*.. اور خلفائے اربعہ کے دور میں اس کی کوئی مثال نہیں
*...اور یہ کہ حکمران پر تنقید کوئ؛ی گناہ کا کام ہے


اگر ان میں سے کوئی معامله بھی ہوتا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بہت آسان ہو جاتا کہ وہ مسور رضی اللہ عنہ کو کہتے کہ آپ کی تنقید گناہ کا کام ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں.........لیکن انہوں نے ان سے اصرار سے اپنی غلطی پوچھی اور ان کو مطمئن کیا...اور اپنی صفائی پیش کی.....
اسی طرح سلف صالحین میں بہت مثالیں ملتی ہیں جن میں انہوں نے حکمرانوں پر ان کی غیر موجودگی میں تنقید کی.....جیسے حضرت عبدللہ بن عمر ، حجاج پر کیا کرتے...
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تنقید ایک طرح سے سیفٹی والو کا کام کرتی ہے.....تکفیر اور خروج کا راستہ روکتی ہے.......مداہنت اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی نوجوان طبقے میں ردعمل پیدا کرتی ہے...اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان انتہا پسندی کو اختیار کر رہے ہیں

...................ابوبکر قدوسی
یہ روایت کہاں نقل ہوئی ہے؟
 
Top