محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حکمرانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے...؟
ہمارے ہاں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ حکمرانوں پر تنقید جائز نہیں....اور یہ معاشرے میں انارکی اور فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے.... یہ موقف اختیار کرنے والوں سے غلطی ہوئی کہ نہ جان سکے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں تنقید خالص ایک جمہوری حق ہے جو ہم استمعال کرتے ہیں ...جو اس ملک کا قانون ہمیں دیتا ہے...لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کا فہم اسلام بھی اس تنقید کی روک کرتا تھا؟...ایک روایت ملاحظہ کیجئے
"مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس اک وفد لے کر گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور مرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پر جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امور کر رہا جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"
.............دیکھئے اس روایت میں خلیفہ المسلمین نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ
* .. تنقید کا تم کو حق نہیں
*.. اور خلفائے اربعہ کے دور میں اس کی کوئی مثال نہیں
*...اور یہ کہ حکمران پر تنقید کوئ؛ی گناہ کا کام ہے
اگر ان میں سے کوئی معامله بھی ہوتا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بہت آسان ہو جاتا کہ وہ مسور رضی اللہ عنہ کو کہتے کہ آپ کی تنقید گناہ کا کام ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں.........لیکن انہوں نے ان سے اصرار سے اپنی غلطی پوچھی اور ان کو مطمئن کیا...اور اپنی صفائی پیش کی.....
اسی طرح سلف صالحین میں بہت مثالیں ملتی ہیں جن میں انہوں نے حکمرانوں پر ان کی غیر موجودگی میں تنقید کی.....جیسے حضرت عبدللہ بن عمر ، حجاج پر کیا کرتے...
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تنقید ایک طرح سے سیفٹی والو کا کام کرتی ہے.....تکفیر اور خروج کا راستہ روکتی ہے.......مداہنت اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی نوجوان طبقے میں ردعمل پیدا کرتی ہے...اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان انتہا پسندی کو اختیار کر رہے ہیں
...................ابوبکر قدوسی
Last edited: