• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیات مسیح علیہ السلام + چار وعدے۔ تفسیر السراج۔ پارہ:3

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَہِرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵
جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تجھے کھینچ لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے۱؎ تابعداروں کو قیامت کے دن تک کافروں کے اوپر رکھوں گا (یعنی وہ غالب رہیں گے) پھر میری طرف تمھیں لوٹنا ہوگا۔ پھر جس میں تم اختلاف رکھتے ہو، اس میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا۔۲؎ (۵۵)
حیات مسیح علیہ السلام
۱؎ ایک طرف یہودیوں نے مسیح علیہ السلام کے خلاف وسیع پیمانے پر سازش کی اور حکومت وقت کو مجبور کردیا کہ وہ انھیں باغی سمجھے اور سزادے۔ اسی کا نام قرآن حکیم کی زبان میں ''مکر'' ہے ۔ یعنی تدبیر محکم اورخفیہ ارادہ۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ارادے کام کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو دشمنوں کی زد سے صاف بچالینا چاہتے تھے اور یہودیوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ آسمانوں پر ایک زبردست اور علیم وحکیم خدا بھی موجود ہے جو تمہاری سازش کو جانتا ہے اور اس کی قدرت واختیار میں ہے کہ تمھیں تمہارے ارادوں میں ناکام رکھے۔ واللہ خیر الماکرین۔ جب مقابلہ ہو انسانی تدابیر و حیل کا اور مادی و ارضی منصوبوں کا احکم الحاکمین، رب عرش عظیم کی قدرت و منشا سے تو ظاہر ہے الٰہی ارادے کامیاب رہیں گے اور شیطان خائب وخاسر۔ اگرمان لیا جائے کہ مسیح علیہ السلام یہود کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور صلیب پر لٹک گئے تو بتاؤ فتح کس کی ہے۔ خدا کی یا شیطان کی؟ خدا نے واشگاف طورپرفرمادیا ہے کہ ہم نے یہودیوں کو ناکام رکھنے کے لیے مضبوط ومستحکم ارادہ کر لیا اور یہ بھی فرمادیا کہ ہمارے ارادے زیادہ بہتر اور کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس بے چارگی وبے بسی کے کیا معنی کہ مسیح علیہ السلام کو دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ مسیح علیہ السلام اگرصلیب پر لٹک کر بچ بھی جائیں تو اس میں یہودیوں کے دعوے (اناقتلنا المسیح الخ ) پرکیا اثر پڑتا ہے۔وہ اس سے زیادہ اور کیا کرسکتے تھے کہ مسیح علیہ السلام کو موت کے دروازے پر لا کھڑا کریں۔ ایک دشمن جو کچھ کرسکتا ہے ، وہ بقول بعض کیا جاچکا پھر خدا کی تدبیریں کیا ہوئیں؟ خدا کے ارادے کہاں گئے؟ مسیح علیہ السلام اگر مرہم لگا کر جانبرہوگئے تو یہ ان کی خوش بختی کی دلیل ہے ۔ خدا کی فتح مندی ونصرت کی دلیل نہیں؟ حالانکہ کہا گیا ہے کہ خدا ان کے تمام منصوبوں کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہے ۔ بتاؤ اس صورت میں زیادہ کامیاب کون رہتا ہے؟کیا وہ جس کے اختیار میں ہے کہ مسیح علیہ السلام کو،ا پنے برگزیدہ کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے۔ یا وہ جو مسیح علیہ السلام کو موت کے قریب لاسکتے تھے، وہ جنھوں نے مسیح علیہ السلام کو دار تک لاکھڑا کیا اور وہ تمام سزائیں دیں جو ان کے اختیار میں تھیں مگر خدا نے اپنے وسیع اختیارات سے کوئی کام نہ لیا۔ بتاؤ اس میں یعنی اس صورت مقابلہ میں کس کا پلہ زیادہ بھاری رہتا ہے ؟
چار وعدے
۲؎ ان حالات میں جب کہ یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کے مشن کو تباہ کردینا چاہتے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمن ہو رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام سے چار وعدے کیے اور انھیں بشارت دی کہ تم مطلقاً کوئی فکر نہ کرو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
پہلا وعدہ: یہ تھا کہ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ یعنی تیری موت طبعی ہوگی۔ تو دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ رہے گا اور وہ تجھے کوئی نقصان یا گزند نہ پہنچا سکیں گے ۔
دوسرا وعدہ: یہ تھا کہ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ یعنی میں تمھیں اٹھالوں گا۔ رَفَعَ کے معنی عزت ورفعت دینے کے بھی ہوتے ہیں مگر بصلہ الیٰ نہیں۔ اگر یہاں مقصود عزت ورفعت ہوتی تو عبارت یوں ہوتی۔ وَرَافِعُکَ لَدَیَّ۔
تیسرا وعدہ: یہ تھا کہ وَمُطَھِّرُکَ یعنی کفر ونفاق کی تمام تہمتوں سے تمھیں پاک رکھوں گا۔ اس میں حضور ﷺ کی بعثت کی طرف نہایت باریک اشارہ ہے ۔
چوتھا وعدہ: یہ تھا کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یعنی تیرے ماننے والے تیرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے۔ کفر واتباع دونوں کو قرآن حکیم نے مطلق رکھا ہے اس لیے دونوں کا عموم بحال رہے گا۔ یعنی مسیح علیہ السلام کا ہر ماننے والا اس کے ہر منکر پر غالب رہے گا۔ اس صورت میں اس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
حل لغات
{تَوَفَّنِیْ} پورا پورا دے گا۔ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ کے معنی پورا پورا لے لینا بھی ہے ۔ یعنی میں تمھیں بحفاظت تمام لے لوں گا۔ {ورافعک} کے معنی ہوں گے تعیین نوع کے یعنی تَوَفّٰی بصورت رفع واقع ہوگی۔
 
Top