• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاموش آواز : اسلام وہ جو من چاہے من بھائے

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
فورم کی طرح بلاگ بھی سوشل نیٹ ورکنگ کا ایک مفید ذریعہ ہے۔ اور جس طرح اردو رسم الخط میں فورمز کی شروعات ہو چکی ہے بلکہ اردو فورمز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی طرح اردو قلمکاروں (قلمکار کو آجکل کچھ لوگ "لکھاری" بھی کہنے لگے ہیں) نے بھی اپنے اپنے ذاتی بلاگز قائم کر لیے ہیں اور اردو بلاگنگ ماشاءاللہ مستقلاً آگے بڑھ رہی ہے۔ کافی سارے بلاگرز منفرد و متنوع موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
فورم پر لکھنے میں اور بلاگ پر تحریر کرنے میں کچھ فرق تو ضرور ہے۔ ان میں اہم اور بنیادی فرق تو یہی ہے کہ ایک بلاگر کو اپنے بلاگ پر مکمل کنٹرول حاصل ہوتا ہے ، وہ اپنی مرضی کی تحریر شائع کر سکتا ہے اور مبصرین کے تبصروں کو شائع کرنے یا رد کرنے کا حق بھی اسے دستیاب ہوتا ہے۔

قطع نظر اس کے کہ فورم یا بلاگ پر لکھنے میں کسے ترجیح دی جانی چاہیے ۔۔۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ جہاں بھی لکھیں اور کچھ بھی لکھیں ۔۔۔ مگر ایک تحریر لکھنے سے قبل کم از کم پانچ مختلف افراد کی تحریر کو پڑھیں ضرور۔ اس سے لکھنے والے کی سوچ کو ایک نیا زاویہ ملے گا اور اگر قلمکار تنگ نظر نہ ہو تو وہ کسی موضوع پر مختلف الخیال اشخاص کے افکار و نظریات سے مستفید ہو کر درست طرز فکر کے زیادہ قریب پہنچنے کا اہل ہو سکے گا۔
یہاں میری کوشش ہوگی کہ اردو بلاگرز کی مفید تحریروں کے منفرد اقتباسات کے ذریعے آپ احباب کو زیادہ سے زیادہ مطالعے کی ترغیب دلائی جائے۔

"انکل ٹام" کے منفرد نام سے ایک اردو بلاگر بہت خوبصورت باتیں لکھتے ہیں ۔۔۔ آج انہی کے بلاگ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
لکھتے ہیں ۔۔۔۔
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں ، ان کو بچپن میں گھر والوں کی طرف سے کوئی دینی تعلیم دینے کا اہتمام نہیں کیا گیا ، صرف ناظرہ قرآن اور وہ بھی مسجد کے مولوی صاحب سے اسکے بعد انڈیا پڑھنے چلے گئے اور بعد میں کینیڈا میں وارد ہو گئے ۔ جب تک بنگلہ دیش میں تھے اسلامیات کے امتحان بھی بقول انکے نقل مار مار کر پاس کرتے رہے ۔ اس سے آپ انکی سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی اسلام موافق ہو گی؟
بات چلی تھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے؟ کے حوالے سے ، صاحب کہنے لگے کہ :
"ایسا نہیں ہو گا اسلام میں ایسی سزا نہیں ہو گی کیونکہ انکی عقل نہیں مانتی"۔
میں نے کہا "صاحب آپکی عقل اسلام میں حجت کب سے؟ ادھر تو دلائل و براہین پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے "۔
نیز بتلانا مقصود یہ ہے کہ لوگ اپنی عقلوں کو بنیاد بنا لیتے ہیں ۔
مزید دلچسپ انداز میں آگے لکھتے ہیں :
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عقل و فہم انسان کے علم اور فن میں مہارت پر مبنی ہوتا ہے ، اس سے یہ مراد نہیں کہ آپ اپنی عقل کو استعمال نہیں کر سکتے ، بالکل کر سکتے ہیں ۔
لیکن آپ اپنی عقل کو اسلامی اور شرعی مسائل کو جج (judge) کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے اسکی وجہ صرف اتنی ہی ہے کہ آپ کے پاس نہ تو اس فن کا علم ہے نہ ہی آپ اس فن میں کسی قسم کی مہارت رکھتے ہیں ۔
بالکل ایسے ہی جیسے ۔۔۔۔
ایک موچی کسی ٹاپ سرجن کو مشورہ نہیں دے سکتا کہ آپ ٹانکے صحیح نہیں لگاتے میں جوتوں کو دس سال سے سی رہا ہوں مجھے زیادہ تجربہ ہے لہذا مریض کو ٹانکے لگانے کے معاملے میں آپ سے بہتر میں جانوں گا ۔
تو اس موچی کو سکیورٹی والے لاتیں مار کر باہر نکال دیں گے کہ صاحب آپ موچی ہیں یہ بات آپ کسی موچی سے جا کر کر سکتے ہیں سرجن پر اعتراض سرجن ہی کرے گا ۔ بالکل اسی طرح چاہے آپ نے لینکس یا ونڈوز کے اردو ترجمے کر دیے یا پھر کیمیسٹری یا بیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ، آپ کی مہارت اسی فن میں ہے لہذا آپ اپنی چولیاں اسی فن میں ماریں ، اس فن کے ماہر موجود ہیں لہذا اگر اس فن میں کوی غلطی پر ہے تو اسکو ٹوکنے کا حق بھی اسی فن کے ماہر کو ہے ۔
بشکریہ : انکل ٹام بلاگ - خاموش آواز : "اسلام وہ جو من چاہے من بھائے" (24/جون 2011ء)

پڑھا آپ نے؟
کتنی اہم بات کو کتنے عام فہم اور دلچسپ انداز میں ہمارے فاضل بلاگر دوست نے سمجھایا ہے؟
"حدیث کی صحت" کے معاملے میں کچھ ایسی ہی ملتی جلتی بات شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے نہایت علمی انداز میں بیان فرمائی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔
کسی فن میں فن والے کی ہی بات مانی جا سکتی ہے ۔ جس طرح انجن کے بارے میں انجینئر ، طب کے بارے میں طبیب ، جوہر کے بارے میں جوہری کی بات تسلیم کی جاتی ہے اسی طرح حدیث کے بارے میں محدثین کی بات ہی حجت ہے ۔ جس روایت کو محدثین صحیح یا غیر صحیح کہہ دیں ، اس کے خلاف کتنے ہی غیرمحدثین لکھیں یا کہیں ، لیکن صرف محدثین کی بات ہی تسلیم کی جائے گی ۔
حافظ الشام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ‫:
جب محدثین کا کسی حدیث کی تصحیح پر اجماع ہو تو وہ یقینا سچ ہی ہوتی ہے۔
( بحوالہ : مجموع فتاویٰ ، ج:1 ، ص:9,10 )
امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں ‫:
اور محدثین کا کسی چیز پر اتفاق کر لینا حجت ہوتا ہے ۔
( بحوالہ : کتاب المراسیل ، ص:192 ، فقرہ:703 )

دنیا کے سب سے پہلے محدثین ۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں جنہیں مخاطب کر کے خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا
اس (میت) کی تم نے تعریف کی تو اس پر جنت واجب ہو گئی اور دوسرے کی تم نے برائی کی تو اس پر آگ واجب ہو گئی ، تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ۔
صحيح بخاري ، كتاب الجنائز ، باب : ثناء الناس على الميت ، حدیث : 1382
لہذا صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا کسی بات پر اجماع ہو جائے تو وہ بات دین میں یقیناً حجت ہے ۔
 
Top