• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاوند کی گمشدگی کی صورت میں عورت کیا کرے؟

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
السلام علیکم
ایک سوال کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلوب ھے
ایک عورت کی شادی ہوتی ھے شادی کے ایک سال بعد خاوند کہیں لا پتہ ہو جاتا ہے ، کہاں جاتا ہے کسی کو کوئی پتا نہیں ہوتا۔
کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی ۔
شادی کو گیارہ سال گزر جاتے ہیں لیکن خاوند کا کوئی پتا نہیں ہوتا کہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
خاندان کے کچھ بڑے مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ عورت کی دوسری شادی کر دی جائے۔اور شادی کر دی جاتی ہے۔
اب اس دوسری شادی کو پندرہ سال گزر جاتے ہیں اور دوسرے خاوند سے عورت کے پانچ بچے بھی ہیں۔
اب گیارہ اور پندرہ یعنی چھبیس سال کے بعد پہلا خاوند واپس آ جاتا ہے اور وجہ یہ بتاتا ہے کہ میں اغوا ہو گیا تھا اور بیوی کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اب عورت کس خاوند کے پاس رہے گی پہلے کے یا دوسرے کے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں علماء جواب دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محدث فتوی
فتویٰ نمبر : 11729
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس عورت کا حکم جس کا خاوند گم ہو جائے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :
ایک عورت جس کا خاوند گم ہوجائے وہ کتنی دیر تک اس کا انتظار کرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیں۔(سائل :عبد الجبار چک نمبر 493 گ ۔ب۔تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر واقعی شوہر کی گمشدگی کے بعد اس کے زندہ ہونے یا فوت ہونے کا پتہ نہ چل سکے۔نہ اس کے ددھیال کے کسی مرد اور عورت کو اس کی زندگی میں یاموت کا علم ہو اور اس کے سسرال دوستوں اور جاننے والوں میں سے کسی کو اس کے متعلق کچھ علم نہ ہو تو اس کی بیوی حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشہورقول کے مطابق چار برس اور چار ماہ دس دن تک اس کا انتظار کرے ۔چار برس اس کے انتظار کے لئے ہیں۔اس مدت کے گزر جانے پر اس کو فوت شدہ قرار دیا جائےگا۔ اور پھر چار ماہ دس دن بیوگی کی عدت منظو ر ہوگی ازاں بعد وہ بی بی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا مختار اور آذاد ہوگی جیسا کہ سبل السلام میں ہے:

''حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس عورت کا شوہر گم ہوجائے دو چار برس تک انتظار کرے۔جب چار برس پورے ہوجائیں( تو گویا وہ فوت ہوچکا ہے اور اسکی بیوی بیوہ قرار پائی) لہذا اب وہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن پوری کرے اس کے بعد وہ جہاں چاہے اپنے شرعی ولی سے مشورہ کرکے نکاح کرسکتی ہے۔''(سبل السلام ج2)

''جناب سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جونہی عورت کاشوہر گم ہوجائے اور اسکےبارے میں علم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرچکا ہے۔کہ جس روز سے اس کی خبر بندہوئی چار برس عورت اس کا انتظار کرے۔اور چار برس پورنے ہونے کے بعد چار ماہ دس دن اپنی بیوگی کی عدت گزاار کرچاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔''(موطا امام مالک)

صحیح بخاری میں جناب سعید بن مسیب تابعی کا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ وہ عورت گمشدگی کے ایک برس بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔اور حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی مدت کے قائل ہیں۔

'' کہ ابن مسیب تابعی نے فرمایا کہ جب کوئی سپاہی میدان دغا میں گم ہوجائے تو اس کی بیوی اس کا ایک برس تک انتطار کرے۔''(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 23)

'' کہ حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک ہوگیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ایک برس انتظا رکیا۔(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 22)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔اور موجودہ ظروف احوال کے مطابق یہ موقف قرین قیاس بھی ہے۔اب چونکہ زرائع مواصلات اور میڈیا اتنا وسیع اور مستحکم ہوچکا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایک برس کاانتطار بظاہر کافی معلوم ہوتا ہے۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافتویٰ اس دور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔جس میں آج کی طرح معلومات عامہ اور شعبہ مواصلات یعنی اخبار ریڈیو ٹیلی ویژن وغیرہ موجودہ دور کی فراہم کردہ اطلاعی سہولتیں ہرگز میسر نہ تھیں۔لہذا اب اس دور میں ایک سال کاانتظار کافی معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ پرانا فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علمائے اسلام اور مفتیان کرام کے نزدیک بہرحال دائر اور رائج چلا آرہا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث (علامہ مفتی عبدالستار الحماد ،میاں چنوں )
ج1ص398

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
دوسرا فتویٰ
جو استاذ العلماء شیخ عبدالمنان نور پوری کا ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــ
میاں بیوی پر سکون زندگی گزار رہے تھے کہ خاوند گھر سے چلا گیا ،اور چار سال کوئی خبر نہ آئی کہ زندہ یا مردہ ،
چار سال کے بعد عورت نے نئی شادی کرلی ،اور اب پانچ سال بعد پہلا خاوند واپس آگیا ہے ،اب بیوی کس کے پاس رہے گی ؟ نیز مفقود الخبر کی بیوی کتنا انتظار کرے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میاں بیوی پر سکون زندگی گزار رہے تھے کہ خاوند گھر سے چلا گیا اور چار سال تک کوئی خبر نہ آئی کہ زندہ ہے یا مردہ؟ چار سال کے بعد عورت نے نئی شادی کرلی۔ اور اب 5 سال بعد پہلا خاوند واپس آگیا ہے۔ اب بیوی کس خاوند کے پاس رہے؟ نیز مفقود الخبرکی بیوی کتنا انتظار کرے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری رحمہ اللہ نے مفقود الخبر والے باب میں لقطہ والی حدیث پیش فرمائی ہے۔

[ اور ابن المسیب نے کہا جب جنگ کے وقت صف سے اگر کوئی شخص گم ہوا تو اس کی بیوی کو ایک سال اس کا انتظار کرنا چاہیے۔ (اور پھر اس کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہیے۔) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کسی سے خریدی، (اصل مالک قیمت لیے بغیر کہیں چلا گیا اور گم ہوگیا) تو آپ نے اس کے پہلے مالک کو ایک سال تک تلاش کیا، پھر جب وہ نہیں ملا تو (غریبوں کو اس لونڈی کی قیمت میں سے ) ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور آپ نے دعا کی کہ: اے اللہ1 یہ فلاں کی طرف سے ہے (جو اس کا پہلا مالک تھا اور قیمت لیے بغیر گم ہوگیا تھا۔) پھر اگر وہ (آنے کے بعد) اس صدقہ سے انکار کرے گا(اور قیمت کا مطالبہ کرے گا تو اس کا ثواب) مجھے ملے گا اور لونڈی کی قیمت کی ادائیگی مجھ پر واجب ہوگی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی طرح تم راستے میں پڑی ہوئی چیز کے ساتھ کیا کرو۔

زہری نے ایسے قیدی کے بارے میں جس کی جائے قیام معلوم ہو، کہا کہ اس کی بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے۔ پھر اس کی خبر ملنی بند ہوجائے تو اس کا معاملہ مفقود الخبر کی طرح ہوجاتا ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کھوئی ہوئی بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: ’’ اسے پکڑ لو ، کیونکہ یا وہ تمہاری ہوگی (اگر ایک سال تک اعلان کے بعد اس کا مالک نہ ملا) یا تمہارے کسی بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیے کی ہوگی ۔‘‘ اور نبیؐ سے اونٹ کا سوال ہوا تو آپ غصہ ہوگئے اور آپ کے دونوں رخسار سرخ ہوگئے۔ اور فرمایا: ’’ تمہیں اس سے کیا غرض اس کے پاس کھر ہیں، اس کے پاس مشکیزہ ہے، جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا۔‘‘ اور راستے میں پڑی چیز کا سوال ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ: ’’اس کی رسی اور اس کے ظرف کی پہچان کرو اور اس کا ایک سال تک اعلان کرو ، پھر اگر کوئی شخص آجائے ، جو اسے پہچانتا ہو ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔‘‘ (صحیح بخاری ، کتاب الطلاق ،باب حکم المفقود فی اھلہ ومالہ )
حضرات صحابہ جناب عمر ، عثمان ، ابن عمر ، ابن عباس، ابن مسعود اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے باسانید صحیحہ مروی ہے، ان کو سعید بن منصور اور عبدالرزاق نے نکالا کہ مفقود کی عورت چار برس تک انتظار کرے۔ اگر اس عرصہ تک اس کی خبر نہ معلوم ہو تو اس کی عورت دوسرا نکاح کرلے۔ اگر عورت دوسرا نکاح کرلے ، اس کے بعد پہلے خاوند کا حال معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے تو پہلے ہی خاوند کی عورت ہوگی۔ اور شعبی نے کہا: دوسرے خاوند سے قاضی اس کو جدا کردے گا۔ وہ عدت پوری کرکے پھر پہلے خاوند کے پاس رہے۔ ] 3،11،1425ھ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 488
https://archive.org/stream/Quran-w-Hadees-Ki-Roshni-Me-Ahkaam-o-Msail-2#page/n490
 
Top